حضرت عمر بن عبد العزیزرحمة اللہ علیہ ایک جنازے کے سا تھ قبرستان تشریف لے گئے، وہاں ایک قبرکے پاس بیٹھ کر غور وفکر میں ڈوب گئے، کسی نے عرض کیا کہ’یا امیرالمومنین! آپ یہاں تنہا کیسے تشریف فرما ہیں ؟
فرمایا’ابھی ابھی ایک قبر نے مجھے پکار کربلایا اور بولی’اے عمر بن عبد العزیز مجھ سے کیوں نہیں پوچھتے کہ میں اپنے اندر آنے والوں کے ساتھ کیا برتاوکرتی ہوں ؟
میں نے اس قبر سے کہاکہ مجھے ضرور بتا۔
وہ کہنے لگی: جب کوئی میرے اندر آتا ہے تومیں اس کا کفن پھاڑ کرجسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتی اوراس کاگوشت کھاجاتی ہوں۔کیا آپ مجھ سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ میں اس کے جوڑوں کے ساتھ کیا کرتی ہوں ؟
میں نے کہا: یہ بھی بتا، تو کہنے لگی: ’ہتھیلیوں کو کلائیوں سے ، گھٹنوں کوپنڈلیوں سے اور پنڈلیوں کو قدموں سے جداکردیتی ہوں۔ ‘
اتنا کہنے کے بعد حضرتِ عمر بن عبد العزیزرحمة اللہ علیہ ہچکیاں لے کر رونے لگے،جب کچھ اِفاقہ ہوا تو کہنے لگے:
اس دنیا میں ہمیں بہت تھوڑ اعرصہ رہنا ہے ،جو اس دنیا میں صاحب اِقتدارہے وہ( آخر ت میں ) انتہائی ذلیل و خوا ر ہو گا،جو اس جہاں میں مالدار ہے وہ (آخرت میں ) فقیر ہوگا۔اِس کا جوان بوڑھا ہوجائے گا اور جو زندہ ہے وہ مرجائے گا۔ دنیا کا تمہاری طرف آنا تمھیں دھوکہ میں نہ ڈال دے،کیونکہ تم جانتے ہو کہ یہ بہت جلد رخصت ہوجاتی ہے۔کہاں گئے تلاوتِ قراٰن کرنے والے ؟کہاں گئے بیت ± اللہ کا حج کرنے والے ؟کہاں گئے ماہِ رَمَضان کے روزے رکھنے والے ؟خاک نے ان کے جسموں کا کیا حال کردیا ؟قبر کے کیڑوں نے ان کے گوشت کا کیا انجام کیا ؟ان کی ہڈیوں اور جوڑوں کے ساتھ کیا برتاو ہوا؟ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم!(جو بے عمل ) دنیا میں آرام دِہ نرم نرم بستر پر ہوتے تھے لیکن اب اپنے گھر والوں اور وطن کو چھوڑ کر راحت کے بعد تنگی میں ہیں ،ان کی اَولاد گلیوں میں دربدر ہے کیونکہ ان کی بیواوں نے دوسرے نکاح کرکے پھر سے گھر بسالئے ،ان کے رشتے داروں نے ان کے مکانات پر قبضہ کر لیا اور میرا ث آپس میں بانٹ لی۔وَاللہ! ان میں بعض تو خوش نصیب ہیں جو کہ قبروں میں مزے لوٹ رہے ہیں جبکہ بعض ایسے ہیں جو عذابِ قبر میں گرفتار ہیں۔
افسوس صد ہزار افسوس، اے نادان! جو آج مرتے وَقت کبھی اپنے باپ کی ، کبھی اپنے بیٹے کی توکبھی سگے بھائی کی آنکھیں بند کر رہا ہے، ان میں سے کسی کو نہلا رہا ہے ، کسی کو کفن پہنا رہا ہے ، کسی کے جنازے کو کندھے پر اٹھارہا ہے تو کسی کو قبر کے تنگ وتاریک گڑھے میں دفنا رہا ہے۔ (یاد رکھ! کل یہ سبھی کچھ تیرے ساتھ بھی ہونے والا ہے)کاش !مجھے علم ہوتاکہ کون سا گال( قبر میں ) پہلے سڑے گا۔‘
پھر حضرت سیِّد ±نا عمر بن عبدالعزیز رونے لگے اور روتے روتے بے ہوش ہوگئے اور ایک ہفتہ کے بعد اس دنیا سے تشریف لے گئے۔
(الرَّوض الفائق ص107ملَخصا)
No comments:
Post a Comment