Tuesday, 4 August 2015

بانی تحریک ریشمی رومال شیخ الہند مولانا محمودحسن عثمانی نوراللہ مرقدہ

حضرت شیخ الہند دارالعلوم دیوبندکے سب سے پہلے شاگر دہیں۔ ان ہی کی نسبت کہا گیا ہے کہ جس نے سب سے پہلے استاد کے سامنے کھولی وہ محمودتھا۔ حضرت شیخ الہندؒ کی پیدائش 1851 ء، 1268ھ میں بریلی میں ہوئی جہاں ان کے والد مولانا ذوالفقار علی سرکاری محکمہ تعلیم سے وابستہ تھے،ابتدائی تعلیم اپنے مشہور عالم چچا مولانا مہتاب علی مرحوم سے حاصل کی، قدروی اور شرح تہذیب پڑھ رہے تھے کہ دارالعلوم کا قیام عمل میں آیا، آپ اس میں داخل ہو گئے۔ 1286ھ میں نصاب دارالعلوم کی تکمیل کے بعد حضرت ناناتویؒ کی خدمت میں رہ کر علم حدیث کی تحصیل فرمائی، بعد ازاں فنون کی بعض اعلیٰ کتابیں والد ماجد سے پڑھیں۔ 1290ھ 1873ء میں حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی ؒ کے دست مبارک سے دستار فضیلت حاصل کی۔ زمانہ تعلیم ہی میں آپکا شمار حضرت نانوتویؒ کے ممتاز تلامذہ میں ہوتا تھا،اور حضرت نانوتویؒ خاص طور پر شفقت فرماتے تھے،چنانچہ ان کی اعلیٰ اور ذہنی صلاحیتوں کے پیش نظر دارالعلوم کی مدرسی کے لئے اکابر کی نظر انتخاب ان کے اوپر پڑی اور 1874ء ،1291ھ میں مدرس چہارم کے حیثیت سے آپ کا تقرر عمل میں آیا، جس سے بتدریج ترقی پاکر1308ھ ، 1890ءمیں صدارت کے منصب پر فائز ہوئے۔
ظاہری علم و فضل کی طرح باطن بھی آراستہ تھا،1294ھ ، 1877ءمیں اپنے استاد حضرت نانوتویؒ کی معیت میں حج سے مشرف ہوئے ، مکہ مکرمہ میں حضرت حاجی امداد اﷲ قدس سرہ سے شرف بیعت حاصل کیا، اس سفر حج میں علماءکا ایک بڑا قافلہ بن گیاتھا جس میں حضرت نانوتویؒ کے علاوہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ،حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ حضرت مولانا محمد مظہر نانوتویؒ، مولانا محمد منیر نانوتویؒ، حکیم ضیاءالدین رام پوریؒ، مولانا احمد حسن کان پوری جیسے علمائے مشاہیر شامل تھے۔ قافلے کے جملہ حضرات کی تعداد سو کے قریب تھی، حضرت شیخ الہندؒ کو حضرت حاجی امداداﷲ مہاجرمکیؒ سے خلافت بھی حاصل تھی دارالعلوم میں صدارت تدریس کا مشاہرہ اس وقت 75 روپے تھا مگر آپ نے 50 روپے سے زیادہ کبھی قبول نہیں فرمائے،بقیہ 25 روپے دارالعلوم کے چندے میں شامل فرمادیتے تھے،آپ کی زبردست علمی شخصیت کے باعث طلباءکی تعداد 200 سے بڑھ کر 600 تک پہنچ گئی تھی آپ کے زمانے میں860 طلباءنے حدیث نبوی سے فراغت حاصل کی، حضرت شیخ الہندؒ کے فیض تعلیم نے حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ، حضرت مولانا عبیداﷲ سندھیؒ، حضرت مولانا منصور انصاریؒ، حضرت مولانا حسین احمدمدنیؒ، حضرت مولانا مفتی کفایت اﷲ دہلویؒ، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، حضرت مولانا سید اصغر حسین دیوبندیؒ، مولانا سید فخر الدین احمدؒ، حضرت مولانا محمد اعزاز علی امروہیؒ، حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاویؒ، حضرت مولانا سید مناظر احسن گیلانیؒ جیسے مشاہیر اور نامور علماءکی جماعت تیار کی۔
حضرت شیخ الہندؒ کے حلقہ درس کی خصوصیات کی نسبت مولانا میاں اصغر حسینؒ نے لکھا ہے:
”حلقہ درس کو دیکھ کر سلف صالحین و اکابر محدثین کے حلقہ حدیث کا نقشہ نظروں میں پھر جاتا تھا، قرآن و حدیث حضرت کی زبان پر ھتا اور ائمہ اربعہ کے مذاہب ازبر صحابہ و تابعین، فقہاءو مجتہدین کے اقوال محفوظ، تقریر میں نہ گردن کی رگیں پھولتی تھیں اور نہ منہ میں کف آتا تھا، نہ مغلق الفاظ سے تقریر کو جامع الغموض اوربھدی بناتے تھے،نہایت سبک اور سہل الفاظ بامحاورہ اردو میں اس روانی اور جوش سے تقریر فرماتے کہ معلوم ہوتا کہ دریا امنڈ رہا ہے، یہ کچھ مبالغہ نہیں ہے، ہزاروں دیکھنے والے موجود ہیں کہ وہی منحنی اور منکسر المزاج ایک مشتِ استخوان، ضعیف الجثہ، مردِخدا جو نماز کی صفوں میں ایک معمولی مسکین طالب علم معلوم ہوتا تھا مسند درس پر تقریر کے وقت یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایک شیر خدا ہے، جو قوت و شوکت کے ساتھ حق کا اعلان کر رہا ہے۔ آوازمیں کرختگی آمیز بلندی نہ تھی، لیکن مدرسہ کے دروازے تک بے تکلف قابل فہم آواز آتی تھی لہجے میں تضع اور بناوٹ کا نام نہ تھا، لیکن خدا تعالیٰ نے تقریر میں اثر دیا تھا۔ بات دل نشین ہو جاتی تھی۔ اور سننے والا بھی یہ سمجھ کر اٹھتا تھا کہ جو فرما رہے ہیں حق ہے۔
بہت سے ذی استعداد اور ذہین وفطین طالب علم جو مختلف اساتذہ کی خدمتوں میں استفادہ کرنے کے بعد حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتے اپنے شکوک و شبہات کے کافی جواب پانے کے بعد حضرت کی زبان سے آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہﷺکے معانیٰ اور مضامین عالیہ سن کر سرنیاز خم کر کے معترف ہوتے کہ یہ علم کسی کو نہیں ہے اور ایسا محقق عالم دنیا میں نہیںہے۔
مسائل مختلف فیہا میں ائمہ ثلاثہ رحمہم اﷲ بلکہ دیگر مجتہدین کے مذاہب بھی بیان فرماتے اورمختصر طور سے دلائل بھی نقل کرتے لیکن جب امام ابو حنیفہؒ کا نمبر آتا تو مولانا کے قلب میں انشراح، چہرے پر بشاشت، تقریر میں روانی، لہجے میں جوش پیدا ہوجاتا تھا دلیل پر دلیل، شاہد پر شاہد، قرینے پر قرینہ بیان کرتے چلے جاتے تقریر رکتی ہی نہ تھی اور اس خوبی سے مذہب امام اعظمؒ کو ترجیح دیتے تھے کہ سلیم الطبع اور منصف المزاج لوٹ جاتے تھے دور کی مختلف المضامین احادیث جن کی طرف کبھی خیال بھی نہ جاتا تھا پیش کر کے اس طرح مدعا ثابت فرماتے کہ بات دل میں اترتی چلی جاتی اور سامعین کا دل گواہی دیتا اور آنکھوں سے نظر آجاتا تھاکہ یہ ہی جانب حق ہے۔
باین ہمہ ائمہ اسلام کا ادب و احترام اور ان کے کمالات کا اعتراف حضرت کی تعلیم کا ایک جز لاینفک ہو گیا تھا خود بھی ایسی ہی تقریر فرماتے اور صراحت سے ذہن نشین کراتے کہ مذاہب مجتہدین حق ہیں اور وہ سب مستدل بالکتاب والسنہ، ان کی تنقیص، موجب بدبختی اور سوءادب باعثِ خسران ہے۔
محدثین میںامام بخاریؒ اور ائمہ مجتہدین میں امام اعظمؒ کے ساتھ خاص تعلق تھا۔
مولانا عبیداﷲ سندھیؒ لکھتے ہیں:” میںنے حضرت شیخ الہندؒ سے حضرت مولانا محمد قاسمؒ کی حجة الاسلام پڑھی، کتاب پڑھتے ہوئے کبھی کبھی یوں محسوس کرتا کہ جیسے علم اور ایمان میرے دل میں اوپر سے نازل ہو رہا ہے۔“
ہندوستان کی آزادی کے لیے تحریک ریشمی رومال کاآغازکیامگرمخبریوں کی وجہ سے وہ منصوبہ کامیاب نہ ہوسکااوراسی پاداش میں جزیرہ مالٹامیں قید کردیئے گئے وہیں آپ نے قرآن کریم کاترجمہ کیاجوآج تک مقبول ترین تراجم میں شمارہے مالٹامیں سواتین سال قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کرنے کے آپ کورہاکردیاگیااور20 رمضان المبارک 1338ھ مطابق 1920ءساحل بمبئی پرقدم رنجہ فرمایاجگہ جگہ شانداراستقبال کیاگیادیوبندپہنچ کرسب سے پہلے دارالعلوم میں تشریف لائے بعدازاں اپنے مکان تشریف لے گئے۔
ہندوستان تشریف لانے کے بعد حضرت شیخ الہندؒ تحریک خلافت میں شریک ہو گئے آپ نے برطانوی حکومت کے خلاف ترکِ موالات کا فتویٰ دیا جس سے ملک میں زبردست ہیجان پیدا ہو گیا، حتیٰ کہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ تک کو لوگ بند کرنے پر آمادہ ہو گئے، اس زمانے میں شیخ الہندؒ سخت علیل تھے، لیکن اسی حالت میں آپ علی گڑھ تشریف لے گئے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ (جو بعد کو دہلی منتقل ہو گئی) کا افتتاح 29 اکتوبر 1920ء(16صفر 1339ھ) کو علی گڑھ کی جامع مسجد میں کیا، اس موقع پر آپ نے جو اہم سیاسی خطبہ دیا تھا وہ ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ یاد گار رہے گا۔
حضرت شیخ الہندؒکا ایک نمایاں کارنامہ یہ ہے کہ ان کی مساعی سے علی گڑھ اور دیوبند ایک پلیٹ فارم پر نظر آنے لگے، اور علی گڑھ اور دیوبند کے مابین جو بعد تھا وہ بڑی حد تک کم ہوگیا، غرض کہ آپ علم وفضل اور زہد و تقویٰ کے علاوہ سیاست و تدبر میں بھی کامل دستگاہ رکھتے تھے، اگر چہ مالتا سے واپسی کے بعد صحت بگڑ چکی تھی اور قویٰ پیرانی سالی کے باعث نہایت ضعیف ہو گئے تھے مگر بایں ہمہ آپ نے نہایت شدو مد کے ساتھ سیاسی کاموںمیں حصہ لیا، طبیعت اس بار گراں کی متحمل نہ ہو سکی،اسی دوران میںعلی گڑھ کا سفر پیش آیا واپسی کے بعد جب حالت زیادہ تشویشناک ہو گئی تو بغرض علاج ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے یہاںدہلی لیجایا گیا،حکیم اجمل خان بھی شریک علاج تھے، مگروقت موعود آچکاتھا 18 ربیع الاول 1339ھ( 30 نومبر 1920ء) کی صبح کو عازم ملکِ بقا ہوگئے۔
جنازہ دیو بند لایا گیا اور اگلے روز حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی قدس سرہ کی قبر مبارک کے قریب یہ گجنینہ فضل و کمالات دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ہو گیا۔
شاگردوںمیں بے شمار علماءو فضلاءکے علاوہ قرآن مجید کا اردوترجمہ ،ادلہ کاملہ، ایضاح الادلہ، احسن القریٰ، جہد المقل، الابواب والتراجم ،عظمت وحی اورحدیث ”لاایمان لمن لاامانة لہ “کی شرح اور مختلف فتاویٰ اور سیاسی خطبات تصنیفی یادگارہیں۔حضرت مولانامحمدیوسف لدھیانوی شہیدنے ان تصانیف کے مکمل تعارف پرایک جامع مقالہ تحریرکیاہے جوحضرت مولانااحمدالرحمن سابق مہتمم جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاون کے مقالات بنام ”مقالات رحمانی “میں مندرج ہے جس کامطالعہ طلبہ حدیث کے لیے بہت مفیدہے۔

تحریر:مولانامدثرجمال تونسوی 

No comments:

Post a Comment