آپ نے یہ تصویر تو کافی دفعہ دیکھی ہوگی لیکن کیا آپ اس تصویر سے وابستہ عجیب و غریب داستان سے واقف ہیں؟
اگر نہیں تو آئیے آج اِس کا بھی تذکرہ ہو جائے۔۔۔!
یہ تصویر مارچ 1993ء میں ساؤتھ افریقہ کے ایک مشہور فوٹو گرافر کیون کارٹر نے لی تھی، اِس تصویر نے انعام بھی جیتا تھا۔ یہ تصویر سوڈان میں لی گئی تھی، جب وہاں خوراک کا قحط تھا، اور اقوام متحدہ کے تحت وہاں خوراک کے مراکز قائم کیے گئے تھے۔ فوٹو گرافر کیون کارٹر کے مطابق وہ اُن خوراک کے مراکز کی فوٹو گرافی کرنے جا رہا تھا جب راستے میں اِس لڑکے کو دیکھا، جو کہ انہی مراکز کی جانب جانے کی کوشش میں تھا، لیکن بھوک، کمزوری اور فاقوں کی وجہ سے اس کا یہ حال تھا کہ اس کیلئے ایک قدم اٹھانا بھی دوبھر تھا۔ آخر یہ لڑکا تھک ہار کر گِر گیا اور زمین سے سر لگا دیا۔
دوستو! تصویر پر غور کیجئے، پیچھے ایک گدھ موجود ہے جو کہ اس انتظار میں ہے کہ کب یہ لڑکا مرے اور کب وہ اُسے کھائے۔ بس اِسی منظر نے اس تصویر کی تاریخ اور حقیقت کو آنسوؤں سے بھر دیا۔ کیون کارٹر نے یہ تصویر نیو یارک ٹائمز کو بیچی اور نیویارک ٹائمز کے مطابق جب انھوں نے یہ تصویر شائع کی تو ایک ہی دن میں ان سے ہزاروں لوگوں نے رابطہ کیا اور اس لڑکے کا انجام جاننا چاہا کہ کیا وہ بچ گیا تھا؟۔ لیکن نیو یارک ٹائمز والے خود اس کے انجام سے بے خبر تھے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی، فوٹوگرافر کیون کارٹر جس نے یہ سارا منظر کیمرے میں قید کیا تھا وہ اِس تصویر کے بعد اکثر اُداس رہنے لگا اور ڈپریشن کا مریض بن گیا آخر اس تصویر میں موجود منظر نے اُس فوٹو گرافر کو ڈپریشن کی اُس منزل پر پہنچا دیا کہ وہ اپنی ہی جان لینے پر مجبور ہوگیا۔
کیون نے 33 سال کی عمر میں خود کشی کر لی۔ اُس کی خود کشی کا طریقہ بھی بہت عجیب تھا۔ وہ اپنے گھر کے پاس والے اس میدان میں گیا جہاں وہ بچپن میں کھیلا کرتا تھا، وہاں اُس نے اپنی کار کے سائیلنسر میں ایک ٹیوب فکس کی اور اُس ٹیوب کو ڈرائیورنگ سیٹ والی کھڑکی سے کار کے اندر لے آیا۔ تمام کھڑکیاں تمام دروازے لاک کر دیے اور گاڑی اسٹارٹ کر دی۔۔۔!!!
گاڑی میں سائیلنسر سے نکلتا ہوا دھواں بھرنا شروع ہوگیا۔ دھویں میں کاربن مونو آکسائیڈ تھی جو کہ جان لیوا ہوتی ہے اسی کاربن مونو آکسائیڈ نے کیون کی جان لے لی۔ اس نے جو اپنی آخری تحریر چھوڑی اُس کا ایک حصہ کسی بھی دل رکھنے والے شخص کو سوچنے اور رونے پر مجبور کر دے گا۔
اُس نے لکھا۔۔۔!!!
"یہ کار کا دھواں دراصل درد، بھوک، اور فاقوں سے مرتے بچوں کی لاشوں کا مجھ پر سایہ ہے."
اس کی موت کی وجہ اس کے ضمیر کی خلش تھی جو اسے دن رات سونے نہیں دیتی تھی۔ جب اسے تصویر کھینچنے کے بعد انعام دیا گیا تو بہت سی تنظیموں نے اس پہ شدید تنقید کی۔ لوگ اس سے پوچھتے تھے کہ اس نے تصویر تو بنا لی مگر اس نے اس بے بس بچے کو بچانے کیلئے کوئی اقدام کیوں نہیں اٹھایا؟؟
وہ چاہتا تو اسے بچا بھی سکتا تھا مگر اس نے ایسا کیوں نہ کیا؟ اُس کے پاس اِس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، اگر اس نے کچھ کیا ہوتا تو یقیناً آج وہ خودکشی نہ کرتا۔ اُسے اُس بچے سے زیادہ اپنے فوٹو گرافی کے پیشے سے پیار تھا!
No comments:
Post a Comment