Thursday 27 August 2015

مخفف کا جنون

انسانی طبیعت عموما اختصار اور آسانی کی متلاشی ہے۔ اور انسان فطری طور پر جلد باز ہوتا ہے۔ اسی لئے رب نے اسے 'عجول' کہا ہے۔ اور یہ عجلت شاید ہی کسی صورت میں ممدوح  قرار پائے۔ لیکن ہماری اس ٹیکنیکل جنریشن کے اندر یہ عجلت تو کچھ زیادہ ہی مقدار میں ہے۔ ہر کام میں 'شارٹ کٹ' تو اس نسل کے نوعمروں کا شوق بن چکا ہے۔ اور نوبت تو یہاں تک آن پہنچی ہے کہ نفع و نقصان کی پرواہ کئے بغیر شارٹ کٹ کی طرف ہی لپکتے ہیں۔ پھر اہل بازار کہاں پیچھے رہنے والے؟ خریداروں کی آرزو کی تکمیل کا ہر سامان دکان میں سجائے ہوئے ہیں۔ کہیں گرتے بالوں کا شارٹ کٹ علاج بک رہا ہے، تو کہیں موٹاپے سے نجات کا۔ اسی طرح نوابوں کی سی طاقت، مردانگی، خوبصورتی، وغیرہ کے لئے بھی شارٹ کٹ بہت ہی اعلی داموں میں موجود ہیں۔ یہ تو علاج کے 'شارٹ کٹس' تھے۔ کروڑ پتی بننے کا شارٹ کٹ، تعلیمی ڈگریوں کا شارٹ کٹ وغیر وغیرہ بس مارکیٹ تو جائیں۔ پھر اپنے من کا شارٹ کٹ خریدلیں۔
اس قسم کے شارٹ کٹ کا ذکر ہو اور  پیر، فقیر، بابا اور عاملوں کا ذکر نہ ہو تو مضمون ہی ادھورا ہے۔ جی ہاں، ان باباؤں کے پاس تو ہر قسم کا شارٹ کٹ  مل جائے گا۔  کسی حسینہ سے محبت کرنی ہو، کسی کا رشتہ توڑنا ہو، مالدار ہونا ہو، اولاد کی ضرورت ہو، کسی لاعلاج مرض کا علاج کروانا ہو، نوکری، چھوکری، شادی، کسی کی بربادی، غرض یہ کہ آپ جو چاہیں یہ بابا کبھی آپ کو واپس نہیں کریں گے۔ بلکہ گرج دار آواز میں فرمائیں گے: 
”بچہ، تم صحیح جگہ پہ آیا ہے!“ 
اب ان کے شارٹ کٹس پر عمل کرتے رہیں، اور دین و دنیا دونوں لٹاتے رہیں۔
مختصرا ً یہ کہ آپ جتنے بھی شارٹ کٹ دیکھ لیں، فطری طریقہ اور ‘لانگ روٹ‘ کے مقابلے میں یہ رِسکی اور پر خطر ہوتا ہے۔ اور اس میں کچھ کمی یا نقص ہونا یقینی ہے۔ اسے کلیہ مان کر آپ لوگوں کی توجہ ایک اور شارٹ کٹ کی طرف لے جانا چاہتا ہوں۔ اسے میں تو بدعتی شارٹ کٹ کہتا ہوں۔ آپ چاہیں تو کچھ اور نام سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
فیس بک پر گشت کرتے ہوئے کسی دوست کے ایک نشریے  پر نظر پڑی۔  ایک محترم کا تبصرہ دیکھا، جو محض M A لکھ کر مخفف یا مختصر ہوگئے تھے۔ کسی بھی زاویے سے نشریہ اور تبصرے میں کوئی ربط نہیں تھا۔ پھر جب دیگر تبصروں کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ ڈگری والا  ایم اے نہیں بلکہ ماشاء اللہ کا شارٹ کٹ ہے۔ میرا دل کراہ اٹھا کہ آج مسلم نوجوانوں میں اس قدر غفلت اور سستی چھاگئی ہے  کہ اللہ کے نام  کا بھی شارٹ کٹ اور مخفف استعمال کرنے لگے!
اسی طرح ایک روز ایک ”مختصر“ صاحب نے فیس بک میں گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے صرف Ass  لکھا۔ میں حیران رہ گیا کہ آخر یہ کون سی بے ہودگی ہے۔  انگریزی میں اس لفظ کے اچھے معانی نہیں ہیں۔ بہر حال محترم کی مراد تو سمجھ چکا تھا کہ عجلت پسند جنریشن کے اس ترقی یافتہ ”گائے“ (Guy)  کے پاس "السلام علیکم" لکھنے کی فرصت نہیں ہے۔  اس لئے گدھاگیری کرتے ہوئے Ass لکھ دیا۔      
میرے خیال سے دعائیہ کلمات کا اختصار ایک بڑی محرومی ہے۔ گوکہ میں مفتی نہیں ہوں لیکن اس قسم کے حرکات کو بدعت ہی گردانتا ہوں۔ دراصل یہ مغرب کی نقالی کا جنون ہے۔ ورنہ سنجیدگی سے سوچنے پر خود احساس ہوجاتا ہے کہ دعائیہ کلمات کا شارٹ کٹ کس قدر سنگین اور خطرناک غفلت ہے۔
فرمان نبوی 
صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ”السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته“ کہنے پر 30 نیکیاں ہیں۔ آپ ہی فیصلہ کریں کہ اس جگہ A/S ، A/W  یا  S/W کہنے یا لکھنے پر نیکی  ملے گی یا بدعت  کا گناہ؟
ایسے تمام احباب و افراد سے معذرت کے ساتھ گذارش ہے کہ یقیناً آپ بڑے عدیم الفرصت انسان ہوں گے، لیکن آپ سلام علیکم، الحمد للہ، ماشاء اللہ، سبحان اللہ اور ان جیسے دیگر دعائیہ کلمات کا شارٹ کٹ بناکر ان کلمات کا مذاق نہ بنائیں۔ یہ صرف آپ کے ذہن کا وسوسہ ہے ورنہ صرف اس ایک کلمہ کے لکھنے سے آپ کی کوئی ٹرین نہیں چھوٹنے والی۔ ارے بھئی آپ خواہ مخواہ گناہ اپنے سر کیوں لینا چاہ رہے ہیں؟
اللہ ہمیں عقل سلیم عطا کرے، اور ایسے تمام طریقوں اور عادات سے محفوظ رکھے  جو اسے ناپسند ہوں۔ آمین
تحریر: ظؔفر ابن ندوی
.....
میسج لکھتے Ask جو کہ السلام علیکم کا مخفف ہے
کیا اس طرح لکھنا جائز اور اس سے سلام مراد لیا جاسکتا ہے
....
(۱) ہمارے نبی کے نام کے ساتھ ”علیہ السلام“ لگاسکتے ہیں یا نہیں؟
(۲) اور نبی کے نام ساتھ صرف آخر میں "ص" لکھنا کیسا ہے؟

Published on: Dec 21, 2010 
جواب # 28302
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی (د): 26=45-1/1432
(۱) لگاسکتے ہیں، زیادہ بہتر 'علیہ الصلاة والسلام' کہنا یا لکھنا ہے۔ 
قال الحموي وجمع بینہما خروجا من خلاف من کرہ إفراد أحدہا عن الآخر وإن کان عندنا لا یکرہ․ (شامي: ۱/۱۰)
(۲) خلاف ادب ہے، اگر زبان سے صلی اللہ علیہ وسلم کہہ لیا ہو تو بوقت ضرورت گنجائش ہے، لیکن حرف ”ص“ کا لکھنا صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام نہیں ہے بلکہ یہ علامت ہوسکتی ہے، تاکہ پڑھنے والا پورا درود صلی اللہ علیہ وسلم پڑھ لے۔ کیوں کہ ایک مجلس کی گفتگو یا ایک مجلس کی تحریر میں ایک مرتبہ پورا درود کہنا یا لکھنا واجب ہے، ایک سے زائد مرتبہ نام مبارک کہنے یا لکھنے کی صورت میں زائد مرتبہ لکھنا یا کہنا مستحب ہے اور ثواب وفضیلت بھی بے انتہا ہے، مگر حرج کی صورت میں ترک کرنے کی گنجائش ہے جب کہ ایک مرتبہ کہہ لیا یا لکھ دیا ہو۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
.......
انبیائے علیہم السلام کے ناموں کے ساتھ ”ص“ یا ”صلعم“ وغیرہ لکھنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جب انبیائے کرام علیہم السلام کے نام لکھے جاتے ہیں، تو بطور دعا ”صلی الله علیہ وسلم“ کو مختصر کرکے”ص“ لکھنا، علیہ السلام کو مختصر کرکے ”ص“ لکھنا یا ”صلعم“ لکھنا، اسی طرح صحابہ رضی الله عنہم کے لئے مختصرا ”رض“ لکھنا اور بزرگان دین کے لئے مختصراً ”رح“ لکھنا کیسا ہے؟ کیا ان سے درود کا مقصد ادا ہو جائے گا یا نہیں؟ اور کوئی کراہیت ہے یا نہیں؟ اور یہ کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ بعض اشخاص کے ساتھ ”علیہم السلام“ لکھا جاتا ہے، جیسے حضرت مریم کا نام ذکر کیا جاتا ہے تو ساتھ ”علیھا السلام“ لکھتے ہیں، تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب… انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کے نام نامی اسم گرامی کے بعد ”علیہ الصلوٰة والسلام“ یا "صلی الله علیہ وسلم" لکھنے کی بجائے ”ع“ یا ”ص“ یا ”صلعم“ لکھنا، اور حضرات صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اسمائے گرامی کے ساتھ ”رضی الله عنہ“ کی بجائے”رض“ اور بزرگانِ دین کے اسماء کے ساتھ ”رحمہ الله“ کی بجائے ”رح“ لکھنا اسی طرح ” تعالیٰ“ اور ”جل جلالہ“ کی بجائے ” تعہ“ اور ”ج“ لکھنا درست نہیں، اور خلافِ ادب ہونے کے ساتھ ساتھ قلتِ محبت پر دال ہے، اور مقصود جو کہ صلوٰة وسلام کہنا ہے ان حروف سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ ”علیہ الصلوٰة وسلام“ اور صلی الله علیہ وسلم“ وغیرہ پورا کرکے لکھنا چاہئے۔
اور اگر دیکھا جائے تو تمام کتب حدیث میں محدثین رحمہم الله تعالیٰ نے جہاں بھی نام مبارکہ ذکر کیا ہے وہاں پر پورا پورا درود وسلام لکھا ہے، تو گویا کہ اس کو ایک طرح کی اجماعی حیثیت حاصل ہے، لہٰذا پورا پورا علیہ الصلوٰة والسلام لکھنا چاہئے، اور یہ بھی ملاحظہ ہو کہ بعض ائمہ کرام رحمہم الله تعالیٰ اس کے قائل ہیں کہ جب اسم گرامی مکرر ذکر ہو تو ہر ہر مرتبہ تکرار کے ساتھ درود پڑھنا واجب ہے، اگرچہ ایک مجلس میں ہو، تو یہ بھی صلوٰة وسلام کی اہمیت کی دلیل ہے، لہٰذا صلوة و سلام پورا لکھنا چاہئے، تاکہ مقصود اچھے طریقے سے حاصل ہو ۔
صلوة وسلام انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کے ساتھ خاص ہے، لہٰذا دیگر بزرگ اشخاص کے ساتھ منفرداً صلوة وسلام پڑھنا یا لکھنا مکروہ ہے، لیکن اگر تبعاً ان پر درود لکھا یا پڑھا جائے تو جائز ہے، اس طرح کہ ان اشخاص کا نام انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کے ساتھ مذکور ہو اور صلوة وسلام میں ان کو بھی شامل کیا جائے۔ جیسے ”اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد وصحبہ وسلم․“
http://www.farooqia.com/ur/lib/1436/06/p27.php
..................
( جلد کا نمبر 2، صفحہ 396)
نبی كریم صلى الله عليه وسلم پر مكمل الفاظ كے ساتھ درود پڑھنے كی مشروعیت، اور لكھتے وقت درود کی جگہ ایک یا زیادہ حروف سے اشارہ کرنے کی کراہیت کا بیان
الحمد لله، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وآله وصحبه، أما بعد:
اللہ تعالی نے اپنے رسول حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کو تمام جنات وانسان کے لئے خوشخبری اور ڈر سنانے والا، اللہ تعالی کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور روشن سورج بنا کر بھیجا، اور جو آپ پر ایمان لائے، آپ سے محبت کرے اور آپ کے راستے کی اتباع کرے اس کے لئے آپ صلى الله عليه وسلم کو ہدایت، رحمت، دین حق اور دنیا وآخرت کی سعادت بنا کر مبعوث فرمایا، اور آپ صلى الله عليه وسلم نے امانت کے حق کو ادا فرمایا، امت کو نصیحت فرمائی، اور اللہ تعالی کی راہ میں کامل جہاد فرمایا، تو اللہ تعالی نے آپ کو اس کا بہترین بدلہ اور احسن واکمل جزاء عطا فرمایا۔
آپ کی اطاعت، آپ کے حکم کی فرمانبرداری اور آپ کے منع کردہ کاموں سے اجتناب کرنا اسلام کا اہم فریضہ ہے اور آپ کے پیغام کا یہی مقصد ہے، اور آپ کی رسالت کی گواہی دینا اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ آپ سے محبت کی جائے، آپ کی اتباع کی جائے اور ہر مناسبت اور آپ کے ذکر کے وقت آپ پر درود پڑھا جائے؛ اس لئے کہ اس میں آپ صلى الله عليه وسلم کے بعض حق کو ادا کرنا اور اللہ تعالی کا اس کی نعمت پر شکر ادا کرنا ہے کہ اس نے آپ صلى الله عليه وسلم کو مبعوث فرمایا۔
اور آپ صلى الله عليه وسلم پر درود پڑھنے کے بہت سارے فوائد ہیں ان میں سے یہ بھی ہے: اس میں الله سبحانه وتعالى کے حکم پر عمل کرنا ہے، اور آپ صلى الله عليه وسلم پر درود بھیجنے پر اس کی موافقت، اور اس کے فرشتوں کی موافقت بھی ہے، الله تعالى نے فرمايا:     اللہ تعالی ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺍﺱ ﻧﺒﯽ ﭘﺮ ﺭﺣﻤﺖ ﺑﮭﯿﺠﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﮮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮ ! ﺗﻢ ( ﺑﮭﯽ) ﺍﻥ ﭘﺮ ﺩﺭﻭﺩ ﺑﮭﯿﺠﻮ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺏ ﺳﻼﻡ ( ﺑﮭﯽ ) ﺑﮭﯿﺠﺘﮯ ﺭﮨﺎ ﻛﺮﻭ۔
( جلد کا نمبر 2، صفحہ 397)
اور اس میں آپ پر درود پڑھنے والے کے اجر وثواب کے دوگنا ہونے، دعاء کی قبولیت کی امید اور برکت کے حصول اور آپ صلى الله عليه وسلم کی محبت میں دوام، اس میں افزودگی، اس کا دوگنا اور زیادہ ہونا بندے کی ہدایت اور اس کے دل کی حیات ہے، تو جب جب وہ آپ پر درود کی کثرت کرے اور آپ کا ذکر کرے تو اس کے دل میں آپ کی محبت پائیدار ہوگی، یہاں تک کہ اس كے دل میں کوئی چیز بھی ایسی نہ رہے گی جو آپ کے حکم کی مخالفت کرے یا جسے آپ لے کر تشریف لائے ہیں اس میں کوئی شک کرے۔
اسی طرح آپ صلوات الله وسلامه عليه نے اپنے اوپر درود بھیجنے کی ان حدیثوں میں ترغیب ارشاد فرمائی ہے جو آپ سے ثابت ہیں، ان میں سے وہ ہے جسے امام مسلم اپني صحيح ميں حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه سے روایت کیا ہے کہ بيشک رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جس نے مجھ پر ایک بار درود پڑھا تو اللہ تعالی اس پر دس بار رحمت نازل فرماتا ہے اور آپ رضي الله عنه سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ اور میری قبر کو عید نہ بنانا، اور مجھ پر درود بھیجو بیشک تم جہاں بھی ہو تمہارا درود مجھ تک پہنچتا ہے اور نبي كريم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:  اس شخص كا برا ہو جس کے پاس میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے 
( جلد کا نمبر 2، صفحہ 398)
اور نبی کریم صلى الله عليه وسلم پر نمازوں کے تشہد میں درود پڑھنا مشروع ہے، خطبوں، دعاؤں اور استغفار میں، اذان کے بعد، مسجد میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت اور جب آپ کا ذکر ہو اور دوسرے مواقع پر درود پڑھنا مشروع ہے، اور آپ کا اسم مبارک کتاب، مؤلف، خط یا مقالے یا کسی اور جگہ لکھتے وقت اس کے ساتھ درود لکھنے کی تاکید ہے ان دلیلوں کے سبب جن کا بیان گذر چکا ہے، اور مشروع یہ ہے کہ اسے الله تعالى کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے کامل الفاظ میں لکھے، آپ کے نام مبارک کو پڑھتے وقت قاری کو یاد دلانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کی مختصر کتابت جیسے (ص) یا (صلعم) اور اسی کے مشابہ دوسرے اشارات جن کا استعمال بعض کاتب اور مؤلفين کرتے ہیں مناسب نہیں ہے، کیونکہ اس میں الله سبحانه وتعالى کے اس حکم کی مخالفت ہے جس کا اس نے اپنی مبارک کتاب میں اپنے اس فرمان سے حکم دیا ہے:     ﺗﻢ ( ﺑﮭﯽ ) ﺍﻥ ﭘﺮ ﺩﺭﻭﺩ ﺑﮭﯿﺠﻮ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺏ ﺳﻼﻡ ( ﺑﮭﯽ ) ﺑﮭﯿﺠﺘﮯ ﺭﮨﺎ ﻛﺮﻭ اور مختصر کتابت سے مقصد حاصل نہیں ہوتا ہے اور کامل طور پر (صلى الله عليه وسلم) لکھنے کی افضلیت فوت ہوجاتی ہے، اور کبھی قاری اس پر متنبہ نہیں ہو پاتا اور اس کی مراد کو نہیں سمجھ پاتا ہے، واضح رہے کہ ان اشارات کو اہل علم نے مکروہ کہا ہے اور اس پر تنبیہ کی ہے۔
چنانچہ ابن الصلاح نے اپنی کتاب علوم الحدیث [جو مقدمہ ابن الصلاح کے نام سے مشہور ہے] کی پچیسویں قسم: ( الحديث وكيفية ضبط الكتاب وتقييده ) میں کہا جس کی عبارت یہ ہے:
نواں: رسول الله صلى الله عليه وسلم کے ذکر کے وقت آپ پر درود وسلام کے لکھنے کی پابندی کی جائے، آپ کے ذکر کے وقت اس کے بار بار لکھنے سے اکتانا نہیں چاہئے، کیونکہ اس میں بڑے فوائد ہیں، جن میں طلباء حدیث اور اس کے لکھنے والے سرعت سے کام لیتے ہیں، اور جو اس سے غافل ہوا وہ بہت بڑے ثواب سے محروم رہا، اور ہم نے ایسا کرنے والوں کے حق ميں اچهے اور نيک خواب ديكهے ہیں، تو یہ جو لکھا جاتا ہے یہ دعاء ہے جو ثابت رہے گی، یہ کوئی کلام نہیں جسے روایت کیا جائے، تو اسی لئے اسے روایت سے مقید نہ کیا جائے، اور نہ اس میں اختصار کیا جائے جو اصل کے اندر ہے۔
اور اسی طرح کا حکم الله سبحانه وتعالی کی حمد و ثناء کرنے میں اس کے اسم کے ذکر کے وقت ہے جیسے عز وجل اور تبارك وتعالى، اور جو اس کے مشابہ ہو..... انہوں نے يہاں تک فرمایا: (دو نقصانات کے سبب چاہئے کہ ایسا کرنے سے پرہیز کیا جائے: پہلا: کہ اسے مختصر شکل میں دو حرفوں یا اس سے زیادہ سے لکھا جائے، اور دوسرا: کہ اس کے لکھنے میں کمی کر دی جائے اس طور پر کہ ( وسلم) نہ لکھے، اور حمزہ كناني
( جلد کا نمبر 2، صفحہ 399)
- رحمه الله تعالى - سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: میں حدیث لکھتا تھا، اور میں نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے ذکر کے وقت (وسلم) نہیں لکھتا تھا تو میں نے نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا خواب میں دیدار کیا، تو آپ نے مجھ سے فرمایا: تمہیں کیا ہوا کہ تم مجھ پر مکمل درود نہیں بھیجتے ہو؟ كہا: تو اس کے بعد میں نے صلى الله عليه کے ساتھ ( وسلم) ضرور لکھا .... يہا ں تک ابن الصلاح نے فرمایا: میں کہتا ہوں کہ کسی قائل کا یہ قول: (عليه السلام) بھی مکروہ ہے والله اعلم. آپ- رحمه الله تعالى - کے کلام کا مقصود ختم ہوا - اسے ملخص کیا گیا ہے۔
اور علامہ سخاوی - رحمه الله تعالى - نے اپنی کتاب (فتح المغيث شرح ألفية الحديث للعراقی) میں کہا جس کی عبارت یہ ہے: اے کاتب تو اپنی کتابت میں پرہیز کر (اس کے اشارات سے) یعنی رسول الله صلى الله عليه وسلم پر درود وسلام کے لکھنے میں، اس طور پر کہ تو اسے دو حرف سے مختصر لکھے یا اسی طرح کے دوسرے طریقے سے، تو اس میں صورۃً نقص آجائے گا، جیساکہ (کتانی)، اکثر عجمی جاہل لوگ اور عام طلباء کرتے ہیں، تو یہ لوگ صلى الله عليه وسلم لکھنے کی جگہ (ص) یا (صم) یا (صلعم) لکھتے ہیں، اور اس طرح کم لکھنے سے ثواب کی کمی ہے جو خلاف اولی ہے۔
اور امام سیوطی - رحمه الله تعالى - نے اپنی کتاب (تدريب الراوي في شرح تقريب نواوی) میں کہا: (یہاں درود وسلام پر اختصار کرنا مکروہ ہے اور ہر اس جگہ جہاں درود مشروع ہے اسی طرح امام مسلم وغيره کی شرح میں ہے، جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:    ﺗﻢ ( ﺑﮭﯽ ) ﺍﻥ ﭘﺮ ﺩﺭﻭﺩ ﺑﮭﯿﺠﻮ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺏ ﺳﻼﻡ ( ﺑﮭﯽ ) ﺑﮭﯿﺠﺘﮯ ﺭﮨﺎ ﻛﺮﻭ ...يہاں تک كہا: کتابت میں ایک یا دو حرف سے درود وسلام کی طرف اشارہ کرنا مکروہ ہے جیسے (صلعم) لکھا جائے، آخر مکمل کیوں نہیں لکھا جاتا، [آپ - رحمه الله تعالى - کے کلام کا مقصود ختم ہو گیا - اس كى تلخیص کی گئى]۔

یہ میری ہر مسلمان، قاری اور کاتب حضرات کو وصیت ہے کہ وہ بہتر چیز کو تلاش کریں، اور جس میں ثواب واجر زیادہ ہو اس کی کوشش کریں، اور ان چیزوں سے دور ہوجائیں جو اسے باطل کردیتی ہیں یا اس میں نقص پیدا کرتی ہیں۔ ہم الله سبحانه وتعالى سے دعاء کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنی رضا کے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، بیشک وہ بڑا فیاض اور کرم فرمانے والا ہے۔ وصلى الله وسلم على نبينا محمد، وعلى آله وصحبه۔
http://alifta.com/Fatawa/FatawaSubjects.aspx?
languagename=ur&View=Page&HajjEntryID=0&HajjEntryName=&RamadanEntryID=0&RamadanEntryName=&NodeID=7976&PageID=139&SectionID=4&SubjectPageTitlesID=38265&MarkIndex=0&0

No comments:

Post a Comment