ایک اہم سوال جو آج کل ہر مسلمان جاننا چاہتا ہے کہ سائنس نے اتنی ترقی کی ہے خلا تک پہنچ گئے وہاں اکثر مسلمان بھی جاتے ہیں اور نماز تو کسی جگہ معاف نہیں اب اگر نماز پڑھنا چاہیں تو کس طرف ؟ قبلے کا تعین نماز کی شرائط میں سے ہے ۔
اس سوال کا جواب یہ ہے :
(1) خلائی اسٹیشن میں موجود خلانورد زمین سے دور ہونے کی وجہ سے سمت قبلہ کا تعین کرنے سے قاصر و معذور ہیں
اور عاجز اور معذور کےلئے خدا تعالیٰ کا یہ حکم ہے :
اینما تولوا فثم وجہ اللہ
ترجمہ : تم جس طرف بھی منہ پھیرو ادھر اللہ تعالیٰ کی ذات کی رضا ہے ۔
(2) یہ تفصیل بھی قابل عمل ہے کہ جس وقت اسے چاند پر ( یا خلائی اسٹیشن کی کھڑکی سے ) زمین نظر نہ آئے یا عین سمت الراس (Zenith) یا سمت القدم (Nadir) پر ہو پھر تو اسی مذکورہ حکم پر عمل کرے (یعنی کسی بھی طرف رخ کرکے نماز پڑھے) اور اگر زمین چاند کے افق پر ( یا خلائی اسٹیشن کی کھڑکی میں ) نظر آرہی ہوتو پوری زمین اس کی سمت قبلہ ہے ۔ کرہ ارض کی طرف رخ کرنا کافی ہے۔ [سمت قبلہ نہ سہی کعبہ والے کرے کی سمت سہی ]
(3) شریعت کی روشنی میں کعبہ مبارکہ کی صرف چار دیواری ہی قبلہ نہیں بلکہ اس سیدھ پر خلا و فضا میں ، فرش سے عرش تک لا متناہی پٹی بھی کعبہ کا حکم رکھتی ہے ۔ یہ سارا خلائی عمود قبلہ ہی سمجھا جاتا ہے ۔قمری (یا خلائی ) باشندے کیلئے کرہ ارض گویا اس عمود کا پیندا یا مبدا ہے ۔
(4) زمین پر عین کعبہ کی طرف رخ کرنا شرعاً ضروری نہیں کیوں کہ طویل و بعید فاصلے والوں کے لئے بعینہ سمت کعبہ کی نشان دہی ناممکن یا مشکل ہے ۔ مثلا اہل پاکستان کےلئے شمال و جنوب کے مابین مغربی افق کا وسیع عریض کنارہ شرعی سمت قبلہ ہے ۔
جب زمین پر اس مسئلے میں اتنی وسعت و سہولت ہے تو قمری ( یا خلائی ) باشندے کو بھی یہی وسعت وسہولت حاصل ہوگی اور وہ اس سے مستفید ہوسکتا ہے ۔ بہرحال پورا کرہ ارض خلانورد کےلئے حقیقت میں بعینہ سمت قبلہ نہ سہی شرعی سمت قبلہ ضرور ہے ۔
لہذا چاند (اور خلا ) میں سمت قبلہ کے معاملے میں کوی دقت اور اشکال نہیں ۔
(بحوالہ ’’فلکیات جدیدہ ‘‘ صفحہ : 207 ، مصنف : محدث اعظم، مفسر کبیر، ماہر فلکیات جدیدہ و قدیمہ مولانا موسٰی روحانی بازی رحمہ اللہ)
No comments:
Post a Comment