Thursday, 20 August 2015

کارپوریٹ اداروں میں ٹیم ورک کا تصور اور اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

BismiLLahirrahmaanirraheem
       
ċօʀքօʀatɛ aɖaʀօռ ʍɛ tɛaʍ աօʀҡ
ҡa taՏaաաʊʀ aʊʀ aՏաaɦ ռaɮvi
        
کاروباری انتظام کاری آج کے گرم ترین موضوعات میں سے ہے۔ آج کی تحقیقات کا محور کاروباری زندگی کی بہتری ہے۔ ان تحقیقات کے نتیجے میں نت نئی معلومات کاروباری زندگی کی رہنمائی کر رہی ہیں۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے جدید طریقوں کا استعمال کرنے میں مضائقہ نہیں اگر وہ شریعت کے کسی حکم کے خلاف نہ ہوں، لیکن ایک مسلمان کا ایمان اور عشق رسول صلی اللہ علیہ و سلم اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ ہر عمل میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے کو دیکھے۔ اسوہ حسنہ میں ہر شعبہ زندگی کے بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں۔ یہی وہ راستے ہیں جن کی قبولیت کی گارنٹی ہے اور یہ طریقے ہر جگہ اور وقت کے لیے قابل عمل ہیں۔

�� جدید تقاضوں کے مطابق ان کی عملی صورت پر تو تحقیق ہو سکتی ہے، لیکن ان سے بہتر کی تلاش عبث ہے۔ ہر دوسرے طریقے کے برعکس اسوہ نبوی حتمی اور آخری ہے۔ آئیے! ہم دیکھتے ہیں تنظیم سازی کے حوالے سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ کیا تھا؟ جدید دور میں کس طرح ہم اس پر عمل کر سکتے ہیں؟ کس طرح مروجہ طریقوں سے ممتاز ہے؟

�� پہلی بات تو یہ کہ جدید مینجمنٹ ارتقائی مراحل (Evolutinary stages) سے گزر کر موجودہ مرحلے تک پہنچی ہے۔ جب بڑے پیمانے پر کاروباری نظم چلانا شروع کیا گیا تو کاروبار میں کاموں کی تقسیم اور دوسروں کے حوالے کرنے لیے مختلف بنیادیں اور طریقے استعما ل کیے جاتے رہے۔ جن میں کاموں اور علاقائی یا دیگر حوالوں سے شعبہ بندی شامل ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہر طریقے کے فوائد و نقصانات سامنے آئے اور ان میں تبدیلیاں آتی گئیں، لیکن بالآخر ٹیم ورک طریقہ تنظیم کو آج ایک قابل عمل اور مفید طریقہ تسلیم کر لیا گیا ہے۔ البتہ اس میں بھی مزید تبدیلیوں کی گنجائش ہے اور تبدیلیاں ہوں گی، لیکن وہ طریقہ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اختیار فرمایا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جس طریقے پر عمل کرتے ہوئے دنیا کے غالب حصے پر اسلام کا پرچم لہرایا۔ اس میں بہتری کی مزید گنجائش نہیں وہ طریقے قابل عمل بھی ہیں اور بہترین بھی۔

�� تنظیم سازی (Organising) کا مطلب کاموں کو افراد کے درمیان تقسیم کرنا اور وسائل حوالے کرنا تاکہ کام بروقت اور بہتر طریقے سے انجام پا سکیں۔ ٹیم ورک میں بجائے الگ الگ شعبہ جات بنانے کے کام چند افراد کی مشترکہ ذمہ داری میں دے دیا جاتا ہے۔ وہ جماعت اس کام کی مشترکہ طور پر ذمہ دار ہوتی ہے اور اپنی بہترین صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے کاموںکو بروقت انجام دیتی ہے۔

�� جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کاموں کی تقسیم صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر فرما دیتے۔ ان کاموں کو ان کی ذمہ داری میں دے دیتے، ان کاموں کے بارے میں ان سے پوچھ گچھ ہوتی، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ طرز عمل آج کے ٹیم ورک کے قریب قریب ہے، لیکن مختلف حوالوں سے اس طریقے کے ٹیم ورک سے امتیازات ہیں اور قرآن و حدیث میں مختلف تعلیمات اس حوالے سے ہمیں ملتی ہیں۔ آئیے! دیکھتے ہیں۔

�� امیر کی ضرورت
مروجہ ٹیم ورک میں ٹیم لیڈر متعین ہونا ضروری نہیں۔ اگر ٹیم کے ممبر کسی کو اپنا ٹیم لیڈر بنا لیں تو ٹھیک، ورنہ مشترکہ طور پر ہی کام سر انجام پاتے رہیں گے۔ فیصلہ کثرت رائے کی بنیا د پر ہوتے رہیں گے، لیکن اسلامی تعلیمات اس بارے میں بالکل واضح ہیں کہ جب جماعت بنائی گئی ہے تو اس کا ایک امیر ضرور ہو۔ اس کی بنیادی تعلیم ہر مسلمان کو نماز باجماعت سے ہی ملتی ہے کہ اگر دو افراد بھی ہیں تو ان کا تنہا نماز پڑھنے سے جماعت کی صورت میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔ جس میں ایک امیر ہو گا اور ایک مقتدی ہو گا۔ کیوں؟ یہ تربیت ہے کہ عام زندگی کے معاملات میں بھی ہمیشہ کسی کو اپنا امیر بنا کر رکھو۔ پھر کاروباری زندگی میں تو اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ جہاں صبح شام مختلف نوعیت کے فیصلے کرنے ہیں۔ ملازمین کو کاموں میں لگائے رکھنا ہے۔ اب یہ ایک متعین امیر کے بغیر کیسے ہو سکتا ہے؟ لہذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ''اگر تم دو ہو تب بھی ایک کو امیر بنا لو۔'' البتہ اس بات کا خیال رہے کہ وہ اس ذمہ داری کو سنبھالنے کا اہل بھی ہو۔ عام حالات میں وہ خود امیر بننے کا خواہش مند نہ ہو۔ امیر دیگر افراد کے ساتھ مشاورت ضرور کرے گا لیکن آخری فیصلہ کا اختیار اسی کا ہو۔

�� امیر کی اطاعت
مروجہ ٹیم ورک طرز تنظیم سازی میں، لیڈر کا تصور ضرور ہے، لیکن اس کی اطاعت و فرمانبرداری کے لیے وہ حوصلہ افزائی موجود نہیں، جو ایک قابل عمل نظام کے لیے بنیادی جزو ہے۔ اسلام امیر کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں امیر کی اطاعت کا حکم اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کے حکم کے ساتھ آیا ہے۔ مزید احادیث مبارکہ اس بات پر شاہد ہیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر تم پر کالا حبشی غلام امیر بنا دیا جائے تو اس کی اطاعت کرنا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک عملی مسلمان اپنے امیر کے حکم کی ذرہ برابر خلاف ورزی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس کے نتیجے میں ٹیم ورک میں کام زیادہ بہتر انداز میں انجام پائیں گے۔

�� امیرکی عظمت
اسلامی تعلیمات میں امیر جماعت کے اس فرد کو بنانا چاہیے جو کاموں کو سنبھالنے میں اور ساتھ ساتھ اللہ کے ڈر و خوف اور اعمال صالحہ میں اپنے ساتھیوں میں ممتاز ہو۔ جب افراد میں سے بہتر شخص کو امیر بنایا جائے۔ دیگر افراد کے دل میں اپنے امیر کی عظمت ہونا ضروری ہے، یعنی جب ضابطہ میں وہ بڑا ہے تو دل سے بھی اسے بڑا سمجھیں۔ اس کی عزت و اکرام کریں۔ حدیث میں آتا ہے: ''جو ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔'' جب دیگر ساتھیوں کے دل میں اپنے امیر کی عزت ہو گی تو یقینا وہ دل و جان سے اس کی بات بھی مانیں گے اور سپرد کیے جانے والے کاموں کو بہتر انداز میں انجام بھی دیں گے۔

�� ساتھیوں کا خیال
اسلامی تعلیمات کسی انسان کی بنائی ہوئی نہیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالی کی جانب سے ہیں۔ لہذا معاشرے کے ہر فرد کے لیے ہدایات ہیں جس سے معاشرے کے ہر فرد کا اور پورے معاشرے کے مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ چنانچہ ایک طرف امیر کے علاوہ دیگر ساتھیوں کے لیے ہدایات ہیں کہ وہ اپنے امیر کی دل و جان سے اطاعت کریں تو دوسری جانب امیر کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کا خیال رکھے۔ ایک حدیث میں اس بات کو بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے کہ امیر سفر میں خادم ہوتا ہے۔ یعنی خود امیر اپنے آپ کو خادم سمجھے اپنے ساتھیوں کی راحت کا خیال رکھے۔ کسی کو ایسا کام نہ دے جو اس کے بس میں نہ ہو۔ بلا وجہ ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے۔ امیر کے بہتر رویے سے ہی دیگر ساتھیوں میں امیر سے محبت پیدا ہو گی اور ٹیم ورک ایک بہتر انداز میں انجام تک پہنچے گا۔

�� ساتھیوں سے مشاورت
ٹیم ورک کو ٹیم ورک بنانے والا عمل مشاورت ہے۔ امیر اپنے ساتھیوں کی رائے لے۔ انہیں ایسا ماحول فراہم کرے کہ وہ آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔ البتہ فیصلہ سازی کے لیے کثرت رائے کی طرف رجحان ضروری نہیں، بلکہ امیر اللہ سے دعا کرے اور جس طرف دل کا رجحان ہو اس کے مطابق فیصلہ کرے اور پھر نتیجے کو اللہ کے سپرد کر دے۔ یہی عمل جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا تھا کہ آپ صاحب وحی ہونے کے باوجود اپنے صحابہ سے مشورہ فرماتے اور پھر فیصلہ فرما کر توکل فرماتے۔ ہم بھی جب کاموں کے لیے جماعت بنائیں تو انہیں اس بات کی تلقین کریں کہ امیر اپنے ساتھیوںسے مشورہ کرے اور فیصلہ کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرے اور پھر فیصلہ پر ثابت قدم رہے۔

�� ساتھیوں کی دینی تربیت
جب امیر کو ایک درجے میں دیگر ساتھیوں پر فضیلت حاصل ہے تو اس پر ذمہ داری بھی دیگر ساتھیوں سے زیادہ ہے۔ حدیث میں آتا ہے: ''ہم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی نگرانی کے بارے میں سوال ہو گا۔'' چونکہ امیر کو اپنے دیگر ساتھیوں پر اختیارات حاصل ہیں لہذا ان کی دینی تربیت کی فکر کرنا بھی اس کے ذمہ ہو گی۔ جس میں سب سے اہم تو فرائض و واجبات کی فکر پیدا کرنا اور پھر اخلاقیات کی درستگی ہے۔

�� ٹیم میں باہمی محبت کے اصول
اسلام ہمیں مزید ایسی ہدایات دیتا ہے جس سے ایک ٹیم ایک جسم کی مانند کام کرتی ہے۔ ان میں چند اصول یہ ہیں:

1⃣ ٹیم میں شامل ساتھیوںکو اچھے ناموں سے پکاریں۔ قرآن مجید میں برے ناموں سے پکارنے کی ممانعت آئی ہے۔ ایسے نام سے پکاریں، جس میں وہ اپنی عزت محسوس کرے۔ بالخصوص امیر بھی اپنے ساتھیوں کو عزت والے ناموں سے پکارے۔ بھائی بولے، جناب بولے یا کوئی اور لفظ۔ اس سے ٹیم کے افراد میں محبت پیدا ہو گی اور وہ واقعتا ایک ٹیم کی طرح کام کرے گی۔

2⃣ دوسرا اصول اپنی ٹیم میں لازمی کر لیں کہ ایک دوسرے کو سلام کرنے میں پہل کریں۔ اس سے محبت پیدا ہوتی ہے۔ بالخصوص امیر اپنے ساتھیوں کو سلام کرنے میں پہل کرے گا تو اس کے دل میں تکبر کا مرض پیدا نہیں ہو گا۔

3⃣ زبان اور دل کے گناہوں سے بچیں۔ زبان کے گناہ جیسے غیبت، بہتان، طعنہ زنی، چغل خوری (اگرچہ اصلاح کے لیے اپنے امیر کو اپنے ساتھی کی کوئی بات بتائی جا سکتی ہے، لیکن فساد کے لیے باتیں پہنچانا، اسے ذلیل کرنے کی نیت سے پہنچانا یا اپنی عزت افزائی کے لیے دوسرے کی عیب پہنچانا سخت گناہ ہے۔ اسی طرح دل کے گناہوںسے بھی بچے، جیسے: بدگمانی، بغض، حسد ان میں سے ہر ایک گناہ مسلمان کی تمام نیکیوں کو غارت کرنے کے لیے کافی ہے، لیکن ان کے نتیجے میں ٹیم میں ایک محبت و ہم آہنگی والا ماحول نہیں بن سکتا۔ لہذا ایک اچھے ٹیم ورک کے لیے ان سے خصوصی طور پر بچنا ضروی ہے۔

4⃣ عزت نفس کا خیال رکھیں۔ امیر کو بعض اوقات اپنے ساتھیوں کو ڈانٹنے کی نوبت بھی آ جاتی ہے۔ اس موقع پر اس کی عزت نفس کا خیال رکھے۔ دوسروں کے سامنے نہ ڈانٹے، گالیاں نہ دے، طعنہ زنی نہ کرے۔ یہ سب باتیں باہمی محبت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔

��٭ دعائیں کرنا
آخری لیکن سب سے اہم امتیاز جو جدید مینجمنٹ کو اسلامی طرز مینجمنٹ سے ممتاز کرتا ہے۔ وہ یہ کہ ہماری تمام تگ و دو صرف اسباب کے درجے میں ہے۔ باقی ان اسباب کو نتیجے تک پہنچانا اللہ کے حکم سے ہو گا۔ لہذا اپنے کاموں کے لیے، ٹیم کے لیے، ٹیم کے سینئرز اور جونیئرز سبھی افراد میں باہمی محبت کے لیے خوب دعائیں کریں۔

�� نبوی طرز عمل ٹیم ورک کے قریب قریب ضرور ہے، لیکن بیان کردہ امتیازات اسے مروجہ ٹیم ورک طرز تنظیم سازی سے ممتاز کرتا ہے۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے جدید تحقیقات کا استعمال کاروباری زندگی میں جائز ضرور ہے، لیکن ہمارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ہر عمل میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کو مد نظر رکھیں۔ ہم اپنے اداروں میں ٹیم ورک طرز تنظیم سازی استعمال کر کے ناصرف جدید مینجمنٹ کی بہترین طرز عمل اختیار کر سکتے ہیں اور ساتھ ساتھ اس میں طرز نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا خیال رکھ کر سنت پر عمل کا ثواب بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ تو آئیے! عہد کریں کہ ہم اپنے اداروں میں طرز نبوت صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق طرز مینجمنٹ اپنائیں گے.

No comments:

Post a Comment