Saturday, 29 August 2015

نصاری کیسے ہوئے مغلوب؟

دو ارب عیسائی کیسے ڈیڑھ کروڑیہود کے چنگل میں پھنسے ؟

یہودی قوم اپنے صحیفوں میں درج من گھڑت خدائی پیشین گوئیوں کی بنیاد پر دنیائے عیسائیت کو ہمیشہ مرعوب کیے رکھتی ہے۔ اس کے صحیفوں میں درج ہے کہ خدا تعالیٰ قوم ِبنی اسرائیل سے بہت خوش ہے اوروہ اسے اپنی چہیتی قوم قرار دیتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ کنعان فلسطین کا ملک اس نے انھیں ان کے چہیتے ہونے کی بنیاد ہی پر تحفے میں عطا کیا۔ اسی باعث یہودی مذہبی شخصیات عیسائیوں پر ہمیشہ زور دیتی ہیں کہ ان کے حقوق تسلیم کیے بغیر عیسائی ہرگزترقی نہیں کرسکتے۔

حیرت کی با ت یہ کہ اِن دعووںکو عیسائی پیشوا بھی من و عنَ درست تسلیم کرنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے، یہودیوں کے انسانیت دشمن ہر اقدام پر وہ اب ان کے ساتھ کامل تعاون کرتے ہیں۔ ایک سو سال پہلے تک جو قوم ( عیسائی )یہودیوں کی جانی دشمن تھی،وہ اب ان کے من گھڑت خدائی دعوے آسانی سے تسلیم کرنے لگی ہے کیونکہ ان کی مقدس الہامی کتب اور تورات (عہد نامۂ قدیم )کو یہودیوں کے مانند عیسائیوں کے ہاں بھی مستند خدائی کتب تسلیم کیا جاتا ہے۔حتیٰ کہ اپنی انجیل (گوسپل)کے مطالعے کا آغاز عیسائی انہی مذکورہ کتب سے کرتے ہیں۔

چناںچہ قدرتی بات ہے کہ یہودیوں کے عقائد کا نفوذ لازمی طور پر ان کے دل و دماغ میں ہو جائے ۔ اسی لیے یہودی ٗ عیسائیوںکو جب خدا کا یہ فرمان سناتے ہیں ’’بنی اسرائیل کو تنگ کرناخود خدا کی ناراضی مول لینا ہے ‘‘ تو عیسائی پیشوا اِن کی مخالفت کرنے سے از خودکتراتے ہیں۔ یہودیوں کا کمال ہے کہ اپنے صحیفوں کی بنیاد پر دو ارب کی بڑی قوت رکھنے والی عیسائی قوم کو انھوں نے اپنے شکنجے میں کس لیا۔

جنگوں کی آگ بھرک اُٹھی

بنی اسرائیل کے اس قدیم دعویٰ نے کہ’’نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ فلسطین یہ سارا وسیع وعریض خطہ خدا نے انھیں اس کی چہیتی قوم ہونے کے سبب ازراہِ عنایت عطیہ(ہبہ) کیا‘‘ مشرق ِوسطیٰ میں تمام جنگوں کی آگ بھڑکائی۔ وہ کہتے ہیں‘ اس کا اعلان اللہ تعالیٰ نے خود اپنی کتاب تورات میں بار بار کیا ہے۔ مثلاً انجیلی کتاب،پیدائش‘(Genesis) باب۱۵ آیات۱۸۔۱۶ میںدو ٹوک طریقے سے اعلان کیا گیا ہے :

’’میں نے یہ ملک تیری نسل کو دریائے مصر سے لے کر اس بڑے دریائے (فرأت) تک ’قینیوں، قزیوں قدمونیوں، حتیوں، فرزیوں، فرائیمیوں، اموریوں، کنعانیوں، جرجاسیوں اور جبوسیوں (تمام قوموں ) سمیت دے دیا۔‘‘ اِن آیات کی تشریح کرتے ہوئے ایک امریکی مصنف‘ جان ایف ولوڈورڈ (Valwoodword) لکھتا ہے :

’’اس خدائی وعدے سے مراد آج کے دور کا اسرائیل‘ دریائے اردن کا مغربی کنارہ اور عراق ‘ سعودی عرب اور شام کے ممالک کے بڑے بڑے شہر مراد ہیں۔‘‘ (کتاب ،آرمیگا ڈون، آئل ،اینڈ دی مڈل ایسٹ کرائسس۔ ص۲۹۔۲۸) ۔

یہ خدائی وعدہ کسی بھی قسم کی شرط سے وابستہ نہیں۔ یعنی اس کا بنی اسرائیل کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری سے کوئی تعلق نہیں۔خدا نے یہ خطے انھیں بس یونہی دے دیے، خواہ وہ کچھ بھی کرتے رہیں! اسی طرح ایک اور جگہ خداوند فرماتا ہے:

’’اے اسرائیل گھبرانہ جا، کیونکہ دیکھ میں تجھے اور تیری اولاد کو غلامی کی سر زمین سے چھڑائوں گا۔ یعقوب(بنی اسرائیل) واپس آئیں گے اور راحت وآرام سے رہیں گے اور کوئی انھیں نہ ڈراسکے گا کیونکہ میں تیرے ساتھ ہوں۔‘‘ (یرمیاہ۳۰، آیات۱۱۔۸)

برطانیہ کی سرپرستی

صیہونیوں نے قیام اسرائیل کے لیے جب عالمی ہمہ گیر مہم شروع کی‘ تو برطانیہ انہی مذکورہ دعووں اور کچھ دیگر سیاسی حالات کی بنا پر ان کے بہت زیادہ دبائو میں آگیا۔اتفاق سے تب برطانیہ سپرپاور تھا۔ بہت کچھ تو اس سیاسی دبائو کی وجہ سے اور کچھ جنگ عظیم اوّل (۱۹۱۷ئ) میں یہودی قوم کی ہمدردی پانے کے لیے برطانوی وزیر خارجہ لارڈ بالفور نے قیام اسرائیل کے لیے۱۹۱۷ء کو اعلان بالفور کا اجرا کر دیا۔ تاہم عرب دنیا نے اس اعلان کو یکسر مسترد کر ڈالا۔

لہٰذا عربوںکی جانب سے بڑھتے ہنگاموں اور سیاسی دبائو کے باعث برطانیہ ،قیام اسرائیل کی اس دستاویز پر طویل عرصے تک عمل درآمد کرنے سے قاصر رہا۔ مصلحت یہ تھی کہ اتنی بڑی عرب برادری سے وہ اپنے تعلقات برقرار رکھے۔چناںچہ اعلان بالفور کے باوجود برطانیہ نے یہودیوںکے فلسطین میں مزید داخلے پر پابندی عائد کردی۔اس کے باوجود ۱۹۳۹ء تک چار لاکھ یہودی حیرت انگیز طور پر کسی نہ کسی طور فلسطین میں داخل ہو گئے۔ یہی وہ سال تھا جب دوسری عظیم جنگ کا بھی آغاز ہوا ۔’’ انجمن اقوام‘‘ کی جانب سے برطانیہ اس وقت فلسطین کا نگران اعلیٰ تھا۔

جنگ عظیم دوم کے اختتام پر اقوام متحدہ نے طے کیا کہ امریکا اور روس ،دونوں ممالک کی آشیرباد سے فلسطین کو دو حصوں…’’ یہودی فلسطین‘‘ اور’’ عربی فلسطین‘‘ میں تقسیم کردیا جائے۔ تاہم یہودیوں کو اپنی آزاد ریاست کے جلد از جلدقیام سے حد درجہ دلچسپی تھی۔ اسی لیے فلسطین سے برطانویوں کونکال باہر کرنے کی خاطر صیہونی دہشت گردوں نے یروشلم کے کنگ ڈیوڈ ہوٹل کو دھماکوں سے اڑادیا جہاں نگراں برطانوی افواج قیام پذیر تھیں۔ بعدازاں ۱۴؍مئی۱۹۴۸ء کو صیہونیوں نے از خود قیام اسرائیل کا اعلان کردیا۔ حیرت انگیز امر یہ کہ یہودی بڑوں کے غیر قانونی اقدام کی مذمت کسی ایک مہذب گوری قوم نے نہ کی اور اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔

بائیبل کی پیش گوئیاں

کتاب’’یرمیاہ‘‘ باب۲۳ یوں پیشین گوئی کرتی ہے ’’ پر میں انھیں ان تمام ممالک سے جہاں جہاں میں نے انھیں ہانک دیا تھا ،جمع کرلوں گا اور انھیں ان کے گلّے خانوں میں لائوں گا اور وہ چلیں گے اور بڑھیں گے… خداوند فرماتا ہے دیکھ وہاں دن آئے ہیں کہ میں دائود کے لیے ایک سچی نسل پیدا کروں گا اور اس کی بادشاہی، ملک میں اقبال مندی اور عدالت وصداقت کے ساتھ ہوگی۔ یہوواہ(یروشلم) اس کے عہد میں نجات پاجائے گا اور اسرائیل(یہودی) سلامتی سے سکونت کرسکے گا۔‘‘ (آیات:۶۔۴)

کتاب ایزاخیل بیان کرتی ہے کہ: ’’ تب وہ جانیں گے کہ میں خداوند ان کا خدا ہوں۔ میں نے ہی انھیں غلامی میں قوموں کے اندر روانہ کیا تھا اور میں نے ہی انھیں ان کے اپنے ملک میں جمع کیاتھا اور ان میںسے کسی ایک کو بھی پیچھے نہ چھوڑا تھا۔‘‘ (باب۳۹،آیت۲۸)

قارئین سے گزارش ہے کہ بائبل کی یہ پیشین گوئیاں پڑھ کر دل چھوٹا نہ کریں کیونکہ اس میں شامل تمام کتابیں جعلی اور تحریف شدہ ہیں ۔ان کے ربیوں نے کتب سے اصل نکال کر من پسند آیات درج کردیں۔ خدا نے اگر اس قوم سے کوئی وعدہ کیا بھی تھا، جیسا کہ قرآن مجید بھی ود تصدیق کرتا ہے‘ تو یہ وعدہ ان کی وفاداری اور تقویٰ کے ساتھ مشروط تھا۔ یعنی اگر وہ اللہ کے ساتھ وفاداری کا رویہ اختیار کریںگے‘ تو وہ بھی ان کے ساتھ عمدہ سلوک کا مظاہرہ کرے گا۔ افسوس یہودیوں نے اپنی سازشی ذہنیت کے باعث ان تمام وعدوں سے خدائی شرائط کو نکال باہر کیا اور محض اس بات کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ خدانے یہ سارا خطہ انھیں از خود ہبہ کر دیا۔ اب اس چہیتی قوم کی جو بھی مخالفت کرے گا،دنیا میں وہ لازماً برباد ی کے انجام سے دوچار ہوگا۔

یہود پہ حضرت عیسیٰ کی پھٹکار

اُدھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان سرکش یہودیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’اے یروشلم، اے یروشلم(بنی اسرائیل)، تو جو نیکوں کو قتل کرتا اور رسولوں کو سنگسار کرتا ہے۔ کتنی بار میں نے چاہا ہے کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو جمع کرلیتی ہے، میں بھی تیرے لڑکوں(قوم) کو جمع کرلوں مگر تو نے ایسا نہ چاہا۔ دیکھو تمہارا گھر تمہارے لیے ویران کیا جاتا ہے کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب مجھے ہر گز نہ دیکھو گے جب تک کہ نہ کہہ لو کہ’’ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آیا ہے۔‘‘ (متی۲۳،آیات۳۹۔۳۷)

ان آیات میں ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے علاوہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہود کو یہ بھی ہدایت کرتے ہیں کہ آنے والے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا وہ خوش دلی کے ساتھ استقبال کریں۔ دوسری طرف یہودی مکّاروں کو طنز کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں:
’’اے سانپو،اے افعی کے بچو، تم جہنم کی سزا سے کیوں کر بچو گے؟‘‘(متی۲۳، آیت:۳۳) اور’’ اے احمقواور اندھو۔‘‘ (متی۲۳آیت:۱۷)
قابل غور بات یہ کہ پھلنے پھولنے کی ایسی ہی پیشین گوئی اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں بھی فرمائی ہے۔ وہ کہتا ہے :
’’اسماعیل کے حق میں بھی میں نے تیری دعا سنی، دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے پھلدار کروں گا اور بہت بڑھائوں گا… اور میں اسے ایک بڑی قوم بنائوں گا۔‘‘(پیدائش۱۷،آیت:۲۰)

حضرت اسماعیل ؑکے حق میں انجیلی کتابوں میں درج مذکورہ پیشین گوئیا ں کئی مقامات پر مزید ملتی ہیں جو تمام پوری بھی ہوئیں ۔ دوسری طرف بنی اسرائیل سے متعلق خدائی خوشخبریاں تکمیل کی تا حال منتظر ہیں۔چار ہزار سال بعد بھی بنی اسرائیل موعودہ وسیع وعریض خدائی خطے سے محروم ہیں۔ جو کچھ بھی زور زبردستی نہ کہ بطور خدائی انعام اسے حاصل ہوا یعنی (اسرائیل) وہ بھی بس چھوٹا سااراضی گوشہ ہے۔

یہودیوںکو کنعان (فلسطین) بھی اب تک مکمل طور پرحاصل نہیں ہوسکا ۔ اسی طرح عالمی طور پر سبھی منتشر شدہ یہودی بھی قیام اسرائیل کے باوجود موعودہ وطن واپس نہیں لوٹ سکے۔ حالانکہ بائبل میں بیان کیا گیا تھا :’’میں ان میں سے کسی ایک شخص کو بھی پیچھے نہ چھوڑوں گا۔‘‘

تمام تر کشش اور مراعات کے باوجود یورپ، امریکا اور دیگر ممالک کے بے شمار یہودی آج بھی اسرائیل آنے کو تیار نہیں، بے شک ربیوں کے نزدیک یہ ان یہودیوں کا گناہ کبیرہ ہی ٹھہرے!حیرت انگیز طور پرقرآن پاک بھی یہی بات بیان کرتا ہے’’ قیامت سے پہلے ہم یہودیوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے لے آئیں گے۔‘‘ (بنی اسرائیل:۱۰۴) اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے بارے میںایک پیشین گوئی فرمائی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ قیامت سے پہلے مدینہ اجاڑ اور یروشلم آباد ہو رہا ہو گا۔
(ابو دائود وبخاری )

خدا کا ہاتھ

بعض عیسائی اور تمام صیہونی مصنفین اس بات کا علانیہ اظہار کرتے ہیں کہ عرب دنیا اور تمام مسلم ممالک کی بدترین مخالفت، عربوں کی لگاتار ومسلسل عسکری مزاحمت ، صدر ناصر کی اسرائیل پر تھوپی گئی جنگ رمضان ۱۹۶۷ء کے باوجود اسرائیل کی موجودگی کا واضح مطلب یہی ہے کہ (۱) اسرائیل پر خدا کا ہاتھ ہے۔ (۲) بنی اسرائیل خدا کی چہیتی اور محبوب امت ہے اور (۳) یہ وسیع وعریض خطہ یہودیوں کے ساتھ ایک سچا خدائی وعدہ ہے۔

یہ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ گزشتہ چار ہزار برس میںجن اقوام نے بھی اسرائیلیوں(خدا کی چہیتی قوم) پر ذلت، غلامی، تشدد اور جنگ مسلط کی تھی، قربِ قیامت پر ان سب کو آخر کار ایک خدائی قہر وغضب کا سامنا کرناپڑے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا صحیفہ’’جرمیاہ‘‘دو ٹوک طریقے پر اعلان کرتا ہے ’’ وہ سب جو تجھے نگلتے ہیں، خود نگلے جائیں گے اورتیرے سب دشمن قیدی بنالیے جائیں گے اور جو تجھے غارت کرتے ہیں خود غارت ہوجائیں گے اور ان سب کو جو تجھے لوٹتے ہیں میں خود لٹا دوں گا۔(باب۳۰آیت:۱۶)

ان کا دعویٰ ہے، رومی سلطنت جس نے یہودیوں کو سدا عذاب میں مبتلا رکھا تھا، آخرکا رتباہی سے دو چار ہوگئی۔( یہ حقیقت بہرحال وہ دنیا پر آشکار نہیں کرتے کہ مذکورہ رومی سلطنت کو یہودیوں کے محسن مسلمانوں نے تباہ کیا تھا۔یہ فاتح محمد عثمانی تھے جن کے حملوں سے رومی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہوئی)۔ مذکورہ دانشوران مزید دلیل دیتے ہیںکہ روسی شاہی زار خاندان جو ساری زندگی یہودیوں کا درپے آزار رہا، کمیونسٹ انقلاب کے نتیجے میں بہیمیت اور درندگی کا نشانہ بنا اور ہٹلربھی جو یہودیوں کا نسلی اور خونی دشمن تھا، بالآخر خود کشی کے انجام سے دو چار ہوا۔

عذاب نازل ہوا

یہ سارے حقائق درست ہوسکتے ہیں‘ لیکن بڑی عیاری کے ساتھ وہ اس موقع پر اپنے سابق بد ترین دشمن، یورپی اقوام کا ذکر گول کر جاتے ہیں۔یہ وہ قومیںہیں جنھوں نے یہودیوں کوتقریباً دو ہزار سال تک پورے یورپ میں بری طرح رگیدا، قتل کیا، جلایا اور زمین وجائداد سے محروم کیا۔ ان کی پیشین گوئیوں کی بنیاد پر تویورپ کی ان عیسائی اقوام کو بھی اصولاًخدا کی ’’چہیتی قوم‘‘ کو عذابوں میں مبتلا کرنے کی وجہ سے فنا وبرباد ہوجانا چاہیے تھا۔ لیکن ان پر اللہ کا غضب نازل ہونا تو کجا یہ یورپی اقوام پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور مستحکم ہو چکی ہیں۔

اسپین، بیلجیم، جرمنی، فرانس‘ ڈنمارک ،اٹلی اور برطانیہ وغیرہ کئی لحاظ سے عالمی قیادت کے منصب پر بھی فائز ہیں۔ لہٰذا اس موقع پر یہودی اگر ان عیسائیوں کا ذکر کرتے‘ توخدا کی پیشین گوئی دنیا کو یقینا غلط نظر آنے لگتی۔ اسی لیے انھوں نے سلسلۂ حقائق میں ان اقوام کا ذکر ہی گول کردیا۔ بات یہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کی تمام رائج الوقت کتبِ مقدسہ، جعلی، من گھڑت اور انسانی کلام ہیں۔ اصل عبرانی انجیلیں تو یروشلم اور ہیکل کی بار بار تباہیوں اور آتشزدگیوں کے باعث آج سے کئی ہزار سال پہلے ہی دنیا سے مٹ چکیں۔اس لیے ان کی پیشین گوئیوں پر انسان کیسے اعتبار کرسکتا ہے؟

مسلمان بہ لحاظ تعداد ایک صدی کی نسبت آج بہت زیادہ تعداد میں موجود ہیں جبکہ خدا کی چہیتی قوم، بنی اسرائیل محض ڈیڑھ کروڑ کی آبادی ہی پر اٹک گئی۔ ایک طرف ان کی دشمن قوتیں مسلسل پھیل رہی ہیں اور دوسری طرف یہودی سکڑ تے چلے جارہے ہیں! یہ کیسی الہامی پیشین گوئی ہے؟

۱۹۶۷ء کی مصر اسرائیل جنگ کے بعد یہود نے یروشلم اور دریائے اردن کا مغربی کنارہ چھین لیا۔ ان کے نزدیک یہ قبضہ سو فیصد درست تھا کیونکہ یہ بھی موعودہ خدائی خطے کا ایک حصہ ہی ہے۔ سابق وزیر اعظم موشے دایان نے بھی دوٹوک طور پر کہا تھا :’’تمام مقدس شہروں کے مقدس شہر(Holy of the Holies) میں یہودی اب کبھی واپس نہ جانے کے لیے لوٹے ہیں۔‘‘ جبکہ دوسری طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں:’’یروشلم غیر قوموں سے اس وقت تک پامال ہوتا رہے گا جب تک کہ غیر قوموں کی معیادِ اقتدار پوری نہ ہو جائے۔‘‘ (انجیل لوقا: ۲۱، آیت:۲۴)۔ دوسرے الفاظ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیش گوئی کررہے ہیں کہ یروشلم کو تو ایک دن بالٓاخر اجاڑ ہونا ہی ہے۔

صحیفوں کی بنیاد پر یہودی دعوے تو ضرور بڑے بڑے کرتے ہیں‘ لیکن جان بوجھ کر یہ حقیقت نہیں بتاتے کہ ان کا یہ تمام سیاسی کروفر اور ان کے ملک کا تمام استحکام محض امریکی و مغربی حمایت کے بل بوتے پر ہے۔ سات ارب کی عالمی آبادی میں ان کی حیثیت آٹے میں نمک برابر ہے۔ جس دن بھی امریکی عوام پر اصل صورت حال واضح ہوئی کہ کس طرح ان کا پیسا یہودیوں کے استحکام میں استعمال ہو رہا ہے اور کس طرح ان کی حکومتیں اسرائیل کے ہاتھوں میںکھلونا بن کر ناچ رہی ہیں، اسی دن سے یہودی پھر بد ترین بربریت اور تشدد کا نشانہ بننے لگیں گے ۔

ایک بار پھر انھیں اسی ذلت و رسوائی سے گزرنا پڑے گا۔ اسرائیل تو ان کا محض عارضی ٹھکانا ہے! دنیا بھر کو وہ اپنے جھوٹے خدائی وعدوں کی بنیا د پر بے شک مسلسل بے وقوف بناتے ر ہیں ٗلیکن ان کی یہ تمام زیرکی اور چالاکی ایک دن خود خدائی وعدوں کی بنیاد ہی پرانھیں لے ڈوبے گی!

No comments:

Post a Comment