۲۱ فروری۲۰۱۵ انسانوں نے آپسی رابطے اورخیالات و معلومات کی ترسیل و تبادلہ کے لیے زبان ( Language) کے نظام کو فروغ دیا۔زبان کا انسانی ارتقاسے بہت گہرا تعلق ہے ۔اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ زبان علم کے پھیلاو کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ہماری مادری زبان دنیا میں موجودہزاروں زبانوں میں سے ایک زبان ہے۔ مادری زبان کسی بھی انسان کی شخصیت کی تعمیر، تعلیم اور ہمہ جہت ترقی میں بنیادی کردارادا کرتی ہے۔ ہر زبان کی اپنی ایک تہذیب اور ثقافت ہوتی ہے جو انسان کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مادری زبان ایک امانت ہے جونسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔ جب ایک نسل اپنے وارثوں میںاس امانت کو منتقل نہیں کرپاتی تو اسی وقت سے اس زبان کے صفحۂ ہستی سے معدوم ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔
انسانی زندگی میںمادری زبان کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر ہر سال ۲۱ فروری کا دن اقوام متحد ہ کے ادارہ یونیسکوکے زیر اہتمام بین الاقوامی مادری زبان دن کے طور پرمنایا جاتا ہے ۔ اس دن دنیا بھر میں مادری زبان کی حوصلہ افزائی کے لیے مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔آئیے امسال۲۱ فروری ۲۰۱۵ ءکو منعقد کیے جانے والے بین الاقوامی مادری زبان دن کو اردو زبان کے حق میں یادگار بنادیں۔ اس سال آنے والے بین اقوامی مادری زبان دن پر سماج میں کچھ اس طرح کی سرگرمیاں انجام دی جائیں جس سے اردو زبان کی اہمیت و افادیت کے وہ تمام پہلو اجاگر ہوجائیں جنہیں ہمارا سماج ایک عرصے سے نظرانداز کرتا آرہا ہے اور جو موجودہ وقت کی ضرورت ہیں۔ اس سلسلے میں ہم چند تجاویز پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ۲۱ فروری کو مجوزہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ آپ کے ذہنوں میں موجودایسی ہی اور بھی کئی مفید سرگرمیاں انجام دی جاسکتی ہیں۔اس طرح کی سرگرمیوں کو بعد کے دنوں میں بھی جاری رکھیں تو بہترین نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔
۱) عملِ تعلیم میں مادری زبان کی اہمیت و افادیت سے متعلق عام بیداری : اردو زبان والوں میں یہ غلط فہمیاں کہ، اردو زبان کا روزی روٹی سے کوئی تعلق نہیں، اردو زبان کا کوئی مستقبل نہیں ہے ،اردو والوں کو نوکریاں نہیں ملتیں وغیرہ وغیرہ بہت تیزی سے عام کی جارہی ہے ۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ ہماراتعلیم یافتہ طبقہ اس پروپیگنڈہ کا سب سے بڑا شکار ہے جب کہ یہ طبقہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ ماہرینِ تعلیم بچے کی ابتدائی تعلیم کواس کی مادری زبان میں ہی دینے کے حق میں ہیں۔ ہمیں اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ”مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کے حصول کے فوائد“ سے متعلق عام بیداری پیدا کرنے اوراس کے لیے ماحول سازی کے نقطۂنظر سے۱ ۲فروری کو مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جانا چاہیے۔اس دن ہم سرپرستوں کو مادری زبان کے اسکولوں کی بجائے کسی اور میڈیم کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کریں۔ عوام کی ذہن سازی کی کوششیں کی جائے تاکہ وہ انگریزی اور دوسری زبانوں کے اسکولوں کے پُر فریب پروپیگنڈوں سے بچیں اوراپنے بچوں کو مادری زبان کے اسکولوں میں ہی داخل کریں۔
۲) اردو زبان کا اگلا قاری تیار کیجیے : اردو زبان کے ارتقا اور بقا کے لیے لازمی ہے کہ ہم اردو کا اگلا قاری تیار کریں۔اس دن اس بات کا موثر پروپیگنڈاکیا جائے کہ ہمیں لازمی طور پر اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم کے اردو اسکولوں میں ہی داخل کرنا ہے۔ بچوں کو مطالعہ کا عادی بنانے کے لیے اردو کتابیں رسالے اخبارات خریدنے سے متعلق تلقین کریں۔مطالعہ کرنے کا صحیح طریقہ، مطالعہ کے فوائد اور اسی طرح کے دیگر عنوانات پر بچوں سے بات چیت کی جائے۔
۳) انگریزی اور دیگر زبانوں پر عبور دلانے کی سرگرمیوں کو بڑھاوا دینا : انسان اپنی مادری زبان پر عبور حاصل کرلے تو اس کے لیے کسی اور زبان یا علم کو حاصل کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ ہم کثیرلسانی سماج میں رہتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے علاقے کی زبانوں اور انگریزی پر بھی عبور حاصل کریں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے اسکولوں کا معیار تعلیم بلند کرنے اور دیگر زبانوں کو سیکھنے میں مددگار ماحول تیار کرنے کی بجائے پرفریب پروپیگنڈہ پر بھروسہ کیا اوراپنے بچوں کو انگریزی اور دیگر زبانوں کے تعلیمی اداروں میں داخل کردیا۔ حقیقی عمل تو یہی ہونا چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو مادری زبان کے توسط سے تمام زبانیں اور علوم سکھائیں ۔اپنی اولاد کے لیے ایک بہتر مستقبل کی تلاش میں ان کے حال کو قربان کرنا عقلمندی تو نہیں ہے۔
۴) ادب ِاطفال کا فروغ : ہم انگریزی دیگر زبانوں میں ادب ِاطفال پر ہونے والی محنت اور معیار کے بارے میں جانتے ہیں۔ اس تناظر میں ہمیں اردو زبان میں ادبِ اطفال پر مزید محنت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔آج زمانے کی ضروریات سے ہم آہنگ ادب ِاطفال تخلیق کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ہمیں ادبِ اطفال میں جنات، پریوں اور چڑیلوں سے متعلق کہانیوں پر بہت زیادہ اعتراض نہیں ہے مگر ادب ِاطفال کے صرف ان ہی عنوانات کے گرد طواف کرتے رہنے پر اعتراض ہے۔ ہم کوشش کریں توہمیں روزمرہ زندگی سے بے شمارموضوعات مل سکتے ہیں اور اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ عام زندگی کے موضوعات پر مبنی تخلیقات زندگی سے زیادہ قریب اور مقبول ہوتی ہیں۔موجودہ وقت سائنس کا ہے ۔ ہم سائنس فکشن اور سائنسی موضوعات پر بہترین کتابیں تحریر کرسکتے ہیں۔ بچوں کے لیے کتابیں تحریر کرتے وقت رموزواوقاف، ذخیرہ ٔ الفاظ،املا اور ہجا کے مسائل پر بھی مستقل طور پردھیان دیا جائے تو بچے معیاری زبان ، معیاری تلفظ و لب و لہجہ سے روشناس ہوسکتے ہیں۔
۵) اسکولوں میں اردو زبان کے فروغ سے متعلق پروگراموں کا انعقاد : ۲۱ فروری کے دن اسکولوں میں اردو زبان کی مختصر تاریخ ، اردو کی شیرینی واثرپذیری اور ایسے ہی دیگر عنوانات پر تقاریر، بحث و مباحثہ اور دیگر سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے۔ زبان کے کھیل، زباندانی کے مقابلے اورنصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں کے ذریعے زبان پر عبور دلانے کا منصوبہ بنایا جائے۔یہ پروگرام ایسے ماحول میں منعقدکئے جائیں کہ اردو سے انسیت و محبت کا ماحول پیدا ہو۔
۶) ادبی و تعلیمی پروگراموں کا انعقاد : اپنے علاقوں میں ادبی نشستوں اور مشاعروں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ مذاکرہ اور سیمینار وغیرہ بھی منعقد کیجیے جن میں اردو زبان کا موجودہ منظرنامہ ، اردو زبان کا مستقبل ، اردو زبان کی تدریس کے مسائل ،اردو زبان کی ترقی و بقا کے لیے اقدامات اور مادری زبان(اردو) کے اسکولوں میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے فوائد جیسے عنوانات پرعام بات چیت اور بحث و مباحثہ ہو۔
۷) اخبارات میں مضامین اور مراسلوں کی اشاعت : اخبارات کے مدیران اور صحافی حضرات سے گذارش ہے کہ ۲۱ فروری کو بین الاقوامی مادری زبان دن سے متعلق مضامین اور مراسلات کی اشاعت کو اولیت دیں۔اسی طرح ہمارے درمیان ایسے بہت سارے اسکالرس موجود ہیں جو اردو کی بقا کے لیے سرگرم ہیں۔ ایسے تمام ہی اسکالرس، اساتذہ اور دیگر ماہرین ِ فن سے درخواست ہے کہ وہ ” بین الاقوامی مادری زبان دن “ کے مدنظرایسے عنوانات پر مقالے اور مضامین لکھیں اور شائع کروائیں جن سے اردو زبان سے متعلق تمام غلط فہمیاں دور ہوسکیں اور عوام کی ذہن سازی ہو۔ اسی طرح مراسلہ نگاران اردو زبان سے متعلق موضوعات پر مراسلے تحریر کرتے ہوئے اخباروں میں شائع کروائیں۔
۸) سوشل میڈیا پر اردو زبان کا استعمال : موجودہ زمانے میں سوشل میڈیا کی اہمیت اور ان کے بڑھتے ہوئے استعمال سے انکار ممکن نہیں۔ عام طور پر لوگ سوشل میڈیا پربات چیت کرنے کے لیے انگریزی رسم الخط کا استعمال کرتے ہیں اور رومن تحریر کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ آپ نے لوگوں کو مراٹھی اور ہندی زبانوں میں بھی تحریر کرتے دیکھا ہوگا۔ ایسے ماحول میں اگر ہم سوشل میڈیا پر اردو رسم الخط استعمال کرنے کا مشورہ دیں تو کوئی معیوب بات نہیں ہوگی ۔فیس بک، واٹس اپ،ٹوئٹر، ہائک اورسوشل میڈیا کے دوسرے ذرائع کا استعمال کرنے والے احباب جانتے ہیں کہ ان کے کمپیوٹر یا موبائل پر اردو پڑھنے اور لکھنے کی سہولت موجود ہے۔ہماری گذارش ہے کہ ۲۱ فروری ۲۰۱۵ءکے دن ہم سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ اردو زبان میں تحریر کریں ۔ اس طریقے سے ہم اردو سے اپنی وابستگی کا اظہار کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اسی کے ساتھ ساتھ موبائل کمپنیوں تک بھی اردو کی اہمیت کا احساس پہنچ جائے گا اور ہمیں مستقبل میں اس کے بے شمار فوائد مل سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پرہم سے منسلک ہمارے بہت سارے احباب اردو سے نابلد ہیں یا ان کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ ہم ان سے اسی زبان میں رابطہ کریں جو ہمارا معمول ہے مگر ہماری کوشش ہوکہ ہم اس دن اردو زبان اور اردو رسم الخط کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔
۹) خطوط نویسی کو فروغ : موجودہ وقت میں خطوط نویسی اور عریضہ نویسی کی عادت کا خاتمہ ہوتا جارہا ہے۔ ۲۱ فروری کے دن بچوں سے کہا جائے کہ وہ اپنے کسی عزیز یا رشتہ دار کو خط لکھیں اور پوسٹ کارڈ پر اردو زبان میں پتہ لکھ کر اسے پوسٹ کردیں۔
ہم سب کی تھوڑی سی کوشش اور محنت ہماری محبوب زبان کو ایک نئی امنگ اور نئی طاقت عطا کرسکتی ہے۔ ہم نے ان صفحات میںاپنے ذہن میں موجود تجاویز کو پیش کیا ہے۔ہمیں یقین کامل ہے کہ اس میدان میں متحرک افراد اپنے تجربات کی روشنی میں ان سے بہتر تجویز پیش کرسکتے ہیں اور ان پر عمل بھی کرسکتے ہیں۔آئیے اپنی محبوب زبان کے حضور اپنی محبت کا نذرانہ پیش کریں۔
اشفاق عمر، مالیگاؤں
صدر، محمد عمر ایجوکیشنل ریسرچ سینٹر، مالیگاؤں، ضلع ناسک(مہاراشٹر) 09970669266/07385383867
ashfaqueumar@gmail.com
انسانی زندگی میںمادری زبان کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر ہر سال ۲۱ فروری کا دن اقوام متحد ہ کے ادارہ یونیسکوکے زیر اہتمام بین الاقوامی مادری زبان دن کے طور پرمنایا جاتا ہے ۔ اس دن دنیا بھر میں مادری زبان کی حوصلہ افزائی کے لیے مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔آئیے امسال۲۱ فروری ۲۰۱۵ ءکو منعقد کیے جانے والے بین الاقوامی مادری زبان دن کو اردو زبان کے حق میں یادگار بنادیں۔ اس سال آنے والے بین اقوامی مادری زبان دن پر سماج میں کچھ اس طرح کی سرگرمیاں انجام دی جائیں جس سے اردو زبان کی اہمیت و افادیت کے وہ تمام پہلو اجاگر ہوجائیں جنہیں ہمارا سماج ایک عرصے سے نظرانداز کرتا آرہا ہے اور جو موجودہ وقت کی ضرورت ہیں۔ اس سلسلے میں ہم چند تجاویز پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ۲۱ فروری کو مجوزہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ آپ کے ذہنوں میں موجودایسی ہی اور بھی کئی مفید سرگرمیاں انجام دی جاسکتی ہیں۔اس طرح کی سرگرمیوں کو بعد کے دنوں میں بھی جاری رکھیں تو بہترین نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔
۱) عملِ تعلیم میں مادری زبان کی اہمیت و افادیت سے متعلق عام بیداری : اردو زبان والوں میں یہ غلط فہمیاں کہ، اردو زبان کا روزی روٹی سے کوئی تعلق نہیں، اردو زبان کا کوئی مستقبل نہیں ہے ،اردو والوں کو نوکریاں نہیں ملتیں وغیرہ وغیرہ بہت تیزی سے عام کی جارہی ہے ۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ ہماراتعلیم یافتہ طبقہ اس پروپیگنڈہ کا سب سے بڑا شکار ہے جب کہ یہ طبقہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ ماہرینِ تعلیم بچے کی ابتدائی تعلیم کواس کی مادری زبان میں ہی دینے کے حق میں ہیں۔ ہمیں اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ”مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کے حصول کے فوائد“ سے متعلق عام بیداری پیدا کرنے اوراس کے لیے ماحول سازی کے نقطۂنظر سے۱ ۲فروری کو مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جانا چاہیے۔اس دن ہم سرپرستوں کو مادری زبان کے اسکولوں کی بجائے کسی اور میڈیم کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کریں۔ عوام کی ذہن سازی کی کوششیں کی جائے تاکہ وہ انگریزی اور دوسری زبانوں کے اسکولوں کے پُر فریب پروپیگنڈوں سے بچیں اوراپنے بچوں کو مادری زبان کے اسکولوں میں ہی داخل کریں۔
۲) اردو زبان کا اگلا قاری تیار کیجیے : اردو زبان کے ارتقا اور بقا کے لیے لازمی ہے کہ ہم اردو کا اگلا قاری تیار کریں۔اس دن اس بات کا موثر پروپیگنڈاکیا جائے کہ ہمیں لازمی طور پر اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم کے اردو اسکولوں میں ہی داخل کرنا ہے۔ بچوں کو مطالعہ کا عادی بنانے کے لیے اردو کتابیں رسالے اخبارات خریدنے سے متعلق تلقین کریں۔مطالعہ کرنے کا صحیح طریقہ، مطالعہ کے فوائد اور اسی طرح کے دیگر عنوانات پر بچوں سے بات چیت کی جائے۔
۳) انگریزی اور دیگر زبانوں پر عبور دلانے کی سرگرمیوں کو بڑھاوا دینا : انسان اپنی مادری زبان پر عبور حاصل کرلے تو اس کے لیے کسی اور زبان یا علم کو حاصل کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ ہم کثیرلسانی سماج میں رہتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے علاقے کی زبانوں اور انگریزی پر بھی عبور حاصل کریں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے اسکولوں کا معیار تعلیم بلند کرنے اور دیگر زبانوں کو سیکھنے میں مددگار ماحول تیار کرنے کی بجائے پرفریب پروپیگنڈہ پر بھروسہ کیا اوراپنے بچوں کو انگریزی اور دیگر زبانوں کے تعلیمی اداروں میں داخل کردیا۔ حقیقی عمل تو یہی ہونا چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو مادری زبان کے توسط سے تمام زبانیں اور علوم سکھائیں ۔اپنی اولاد کے لیے ایک بہتر مستقبل کی تلاش میں ان کے حال کو قربان کرنا عقلمندی تو نہیں ہے۔
۴) ادب ِاطفال کا فروغ : ہم انگریزی دیگر زبانوں میں ادب ِاطفال پر ہونے والی محنت اور معیار کے بارے میں جانتے ہیں۔ اس تناظر میں ہمیں اردو زبان میں ادبِ اطفال پر مزید محنت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔آج زمانے کی ضروریات سے ہم آہنگ ادب ِاطفال تخلیق کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ہمیں ادبِ اطفال میں جنات، پریوں اور چڑیلوں سے متعلق کہانیوں پر بہت زیادہ اعتراض نہیں ہے مگر ادب ِاطفال کے صرف ان ہی عنوانات کے گرد طواف کرتے رہنے پر اعتراض ہے۔ ہم کوشش کریں توہمیں روزمرہ زندگی سے بے شمارموضوعات مل سکتے ہیں اور اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ عام زندگی کے موضوعات پر مبنی تخلیقات زندگی سے زیادہ قریب اور مقبول ہوتی ہیں۔موجودہ وقت سائنس کا ہے ۔ ہم سائنس فکشن اور سائنسی موضوعات پر بہترین کتابیں تحریر کرسکتے ہیں۔ بچوں کے لیے کتابیں تحریر کرتے وقت رموزواوقاف، ذخیرہ ٔ الفاظ،املا اور ہجا کے مسائل پر بھی مستقل طور پردھیان دیا جائے تو بچے معیاری زبان ، معیاری تلفظ و لب و لہجہ سے روشناس ہوسکتے ہیں۔
۵) اسکولوں میں اردو زبان کے فروغ سے متعلق پروگراموں کا انعقاد : ۲۱ فروری کے دن اسکولوں میں اردو زبان کی مختصر تاریخ ، اردو کی شیرینی واثرپذیری اور ایسے ہی دیگر عنوانات پر تقاریر، بحث و مباحثہ اور دیگر سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے۔ زبان کے کھیل، زباندانی کے مقابلے اورنصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں کے ذریعے زبان پر عبور دلانے کا منصوبہ بنایا جائے۔یہ پروگرام ایسے ماحول میں منعقدکئے جائیں کہ اردو سے انسیت و محبت کا ماحول پیدا ہو۔
۶) ادبی و تعلیمی پروگراموں کا انعقاد : اپنے علاقوں میں ادبی نشستوں اور مشاعروں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ مذاکرہ اور سیمینار وغیرہ بھی منعقد کیجیے جن میں اردو زبان کا موجودہ منظرنامہ ، اردو زبان کا مستقبل ، اردو زبان کی تدریس کے مسائل ،اردو زبان کی ترقی و بقا کے لیے اقدامات اور مادری زبان(اردو) کے اسکولوں میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے فوائد جیسے عنوانات پرعام بات چیت اور بحث و مباحثہ ہو۔
۷) اخبارات میں مضامین اور مراسلوں کی اشاعت : اخبارات کے مدیران اور صحافی حضرات سے گذارش ہے کہ ۲۱ فروری کو بین الاقوامی مادری زبان دن سے متعلق مضامین اور مراسلات کی اشاعت کو اولیت دیں۔اسی طرح ہمارے درمیان ایسے بہت سارے اسکالرس موجود ہیں جو اردو کی بقا کے لیے سرگرم ہیں۔ ایسے تمام ہی اسکالرس، اساتذہ اور دیگر ماہرین ِ فن سے درخواست ہے کہ وہ ” بین الاقوامی مادری زبان دن “ کے مدنظرایسے عنوانات پر مقالے اور مضامین لکھیں اور شائع کروائیں جن سے اردو زبان سے متعلق تمام غلط فہمیاں دور ہوسکیں اور عوام کی ذہن سازی ہو۔ اسی طرح مراسلہ نگاران اردو زبان سے متعلق موضوعات پر مراسلے تحریر کرتے ہوئے اخباروں میں شائع کروائیں۔
۸) سوشل میڈیا پر اردو زبان کا استعمال : موجودہ زمانے میں سوشل میڈیا کی اہمیت اور ان کے بڑھتے ہوئے استعمال سے انکار ممکن نہیں۔ عام طور پر لوگ سوشل میڈیا پربات چیت کرنے کے لیے انگریزی رسم الخط کا استعمال کرتے ہیں اور رومن تحریر کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ آپ نے لوگوں کو مراٹھی اور ہندی زبانوں میں بھی تحریر کرتے دیکھا ہوگا۔ ایسے ماحول میں اگر ہم سوشل میڈیا پر اردو رسم الخط استعمال کرنے کا مشورہ دیں تو کوئی معیوب بات نہیں ہوگی ۔فیس بک، واٹس اپ،ٹوئٹر، ہائک اورسوشل میڈیا کے دوسرے ذرائع کا استعمال کرنے والے احباب جانتے ہیں کہ ان کے کمپیوٹر یا موبائل پر اردو پڑھنے اور لکھنے کی سہولت موجود ہے۔ہماری گذارش ہے کہ ۲۱ فروری ۲۰۱۵ءکے دن ہم سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ اردو زبان میں تحریر کریں ۔ اس طریقے سے ہم اردو سے اپنی وابستگی کا اظہار کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اسی کے ساتھ ساتھ موبائل کمپنیوں تک بھی اردو کی اہمیت کا احساس پہنچ جائے گا اور ہمیں مستقبل میں اس کے بے شمار فوائد مل سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پرہم سے منسلک ہمارے بہت سارے احباب اردو سے نابلد ہیں یا ان کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ ہم ان سے اسی زبان میں رابطہ کریں جو ہمارا معمول ہے مگر ہماری کوشش ہوکہ ہم اس دن اردو زبان اور اردو رسم الخط کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔
۹) خطوط نویسی کو فروغ : موجودہ وقت میں خطوط نویسی اور عریضہ نویسی کی عادت کا خاتمہ ہوتا جارہا ہے۔ ۲۱ فروری کے دن بچوں سے کہا جائے کہ وہ اپنے کسی عزیز یا رشتہ دار کو خط لکھیں اور پوسٹ کارڈ پر اردو زبان میں پتہ لکھ کر اسے پوسٹ کردیں۔
ہم سب کی تھوڑی سی کوشش اور محنت ہماری محبوب زبان کو ایک نئی امنگ اور نئی طاقت عطا کرسکتی ہے۔ ہم نے ان صفحات میںاپنے ذہن میں موجود تجاویز کو پیش کیا ہے۔ہمیں یقین کامل ہے کہ اس میدان میں متحرک افراد اپنے تجربات کی روشنی میں ان سے بہتر تجویز پیش کرسکتے ہیں اور ان پر عمل بھی کرسکتے ہیں۔آئیے اپنی محبوب زبان کے حضور اپنی محبت کا نذرانہ پیش کریں۔
اشفاق عمر، مالیگاؤں
صدر، محمد عمر ایجوکیشنل ریسرچ سینٹر، مالیگاؤں، ضلع ناسک(مہاراشٹر) 09970669266/07385383867
ashfaqueumar@gmail.com
No comments:
Post a Comment