حضرت ابنِ عقیل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارا ایک گھر تھا جب بھی لوگ اس میں قیام کرتے تو صبح کو مردہ پائے جاتے۔ ایک مرتبہ ایک مغربی شخص آیا اور اس نے اس مکان کو پسند پر خرید لیا اور اس گھر میں رات بسر کی اور صبح کو صیح سالم تھا یہ دیکھ کر پڑوسی حیران ہوئے۔ وہ شخص اس گھر میں زمانہ دراز تک رہا پھر کہیں اور چلا گیا۔ اس سے اس گھر میں صیح سلامت رہنے کی وجہ دریافت کی تو اس نے جواب دیا جب میں اس گھر میں رات بسر کرتا تو عشاء کی نماز پڑھتا اور قرآن مجید کی تلاوت بھی کرتا۔ اچانک میں نے ایک جوان کو دیکھا جو کنوئیں سے باہر نکل رہا تھا تو اس نے مجھے سلام کیا تو میں ڈر گیا اس نے کہا ڈرو نہیں مجھے بھی قرآن مجید سکھاؤ چنانچہ میں اسے قرآن مجید سکھانے لگا پھر میں نے اس گھر کے بارے میں قصہ معلوم کیا اس نے کہا ہم مسلمان جنات ہیں ہم قرآن مجید کی تلاوت بھی کرتے ہیں اور نماز بھی ادا کرتے ہیں اس گھر میں اکثر و بیشتر لوگ بدکار رہتے تھے اور ساتھ شراب نوشی بھی کرتے تھے اس لئے ہم ان کا گلا گھونٹ کر مار ڈالتے۔ میں نے اس سے کہا میں رات کے وقت تم سے ڈرتا ہوں لہٰزا تم دن کو آیا کرو۔ اس نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ وہ دن کو کنوئیں سے باہر آتا اور میں اسے قرآن پڑھاتا۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ جِن قرآن مجید پڑھ رہا تھا اور ایک منتر پڑھنے والا دروازہ پر آیا اور آواز دی کہ میں سانپ، بد نظری اور جن کا دم کرتا ہوں۔ تو اس جن نے کہا یہ کیا چیز ہے؟ میں نے کہا یہ جھاڑ پھونک کرنے والا شخص ہے۔ جن نے کہا اسے اندر بلاؤ تو میں گیا اور اسے بلا لیا پھر میں نے دیکھا کہ وہ جن چھت پر ایک بڑا سانپ بن گیا۔ جب اس جھاڑ پھونک والے نے جھاڑ پھونک کی تو سانپ لوٹ پوٹ ہونے لگا یہاں تک کہ گھر کے درمیانی حصہ میں گر پڑا۔ تو وہ شخص اٹھا اور اسے پکڑ کر اپنی گڈری میں ڈال دیا تو میں نے اسے منع کیا۔ اس نے کہا تو مجھے میرے شکار سے منع کرتا ہے۔ پھر میں نے اس کو ایک اشرفی دی تو وہ چلا گیا پھر اس نے حرکت کی سانپ سے جن کی شکل میں ظاہر ہوا لیکن وہ کمزور ہو کر پیلا اور دبلا ہو چکا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا تمھیں کیا ہو گیا؟ جن نے کہا کہ منتر پڑھنے والے نے مجھے ان اسماء مبارکہ سے قتل کر دیا اور مجھے اپنے بچنے کی امید نہیں۔ اب جب تم کنوئیں سے چیخ کی آواز سنو تو یہاں سے چلے جانا۔ چنانچہ رات کے وقت چیخ کی آواز سنی تو میں وہاں سے چلا گیا۔ ابن عقیلؒ کہتے ہیں کہ اس کے بعد اس گھر میں لوگ رہنے رک گئے۔
No comments:
Post a Comment