Tuesday, 24 February 2015

سوائن فلو:خطرناک ،مگر ممکن ہے بچاؤ

جس طرح ایبولا نے مغربی افریقہ میں اپنا قہر برپایا کیا تھا ویسے ہی ان دنوں ملک میں سوائن فلو نے بھی آفت مچا رکھی ہے،تقریباً نصف ہندوستان اس سے متاثر ہوچکا ہے جس کی وجہ سے سال رواں میں اموات کی تعداد ۷۷۴تک پہنچ گئی ہے۔ جب کہ ۱۳۰۰۰ لوگوں کو سوائن فلو سے متاثر ہونے کی خبر ہے۔یہ کوئی پراسرار بیماری نہیں ہے اس کے علاج اور بچاؤ کا طریقہ بھی ہمیں معلوم ہے، معاملہ صرف اتنا ہے کہ حکومت کے پاس اس کی دوا ٹے مے فلو(Tamiflu) کا اسٹاک کافی کم ہے اور اسے ضرورت والی جگہوں پر پہنچانے میں تساہلی برتی جارہی ہے۔مرکزی و ریاستی حکومتوں نے شروع سے ہی سوائن فلو کی خبروں کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ مرکز کے کئی افسران نے تو صرف یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری ادا کر دی کہ اس کا علاج عام فلو کی طرح ہی ہوتا ہے بعد میں خطرہ بڑھتے دیکھ کر حکومت یہ دعویٰ کرنے لگی کہ اس کی جانچ کے لئے ڈایگنوسس کٹس اور اس کی دوا ٹے مے فلو کا وافراسٹاک موجود ہے ۔حکومت کے دعوے میں اگرکچھ سچائی ہے تو متاثر ہ علاقوں کے سرکاری اسپتالوں میں دونوں چیزیں کیوں دستیاب نہیں ہو پا رہی ہیں؟ قومی راجدھا نی تک میں سوائن فلو کے لئے نشان زدہ اسپتالوں میں بھی ٹے مے فلو نہیں ملی۔کئی مقامات پر مریضوں کے آنے پر آنا فانا میں دوائیں منگانی پڑیں لیکن دیر ہو جانے کی وجہ سے کئی مریضوں کی موت ہو گئی۔
سوائن فلو کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ جلدی اس کی شناخت نہیں ہو پاتی، لوگ بخار یا سانس پھولنے کی پریشانی کو عام فلو مان کر اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں یا ہلکے پھلکے علاج پر بھروسہ کرنے لگتے ہیں۔لیکن آج جس انداز سے سوائن فلو ملک میں پاؤں پھیلا رہا ہے لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہورہا ہے لیکن اس سے ڈرنے کے بجائے ضرورت اس کی علامات کے بارے میں جاننے اور احتیاط برتنے کی ہے۔
سوائن فلو سانس کی نالی سے متعلق بیماری ہے، جو اے ٹائپ کے انفلوئنزاوائرس H1N1سے ہوتی ہے۔ یہ وائرس بیمارخنزیروں کے قریب رہنے والے انسانوں میں آسانی کے ساتھ منتقل ہو جاتا ہے۔لیکن جن لوگوں کاان سے دور کابھی واسطہ نہیں وہ بھی پہلے سے متاثرہ کسی فرد یا وائرس سے متاثر ہ شے سے سوائن فلو کا شکار ہو سکتے ہیں۔یہ وائرس انسانوں، خنزیروں اور پرندوں کے فلو وائرس کے اجتماع سے سامنے آتا ہے۔ کھانسنے ، چھینکنے اور متاثرہ شخص کو چھونے سے دوسرے شخص کے جسم میں منہ یا ناک کے ذریعہ داخل ہو جاتاہے نیز دروازے، فون، کی بورڈ یا ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ بھی منتقل ہوسکتا ہے۔اگر بروقت علاج نہ ہوتو مدافعتی نظام ناکارہ ہوجاتاہے اور مریض نمونیا کا شکار ہو کر دم توڑ دیتاہے۔ کسی بھی مریض میں اس بیماری کی علامات انفکشن کے بعدایک سے سات دن میں ظاہر ہو سکتی ہیں، علامات نظر آنے کے۲۴؍ گھنٹے پہلے اور ۸ ؍دن بعد تک دوسرے افرادمیں وائرس کے منتقل ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔چونکہ سوائن فلو کی بیماری واضح علامات ظاہر نہیں کرتی اور عام معمولی فلو کے مریض کی طرح ہی علامات سامنے آتی ہیں جس کی وجہ سے اس بیماری میں مبتلا انسان اس کی شدت کا اندازہ نہیں کرپاتا اس لئے اس سے بچاؤ بھی نہیں ہو پا تا ہے۔۵ سال سے کم عمر کے بچے، ۶۵ سال سے زیادہ عمر کے بزرگ ،حاملہ خواتین اور وہ افراد جن کوہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، پھیپھڑوں، گردے ،جگریا دل کی بیماریاں،دماغ سے متعلق عارضہ مثلا پارکنسن ہویا جنہیں گزشتہ تین سال میں کبھی بھی دمہ کی شکایت تھی یا اب بھی ہو، اورکمزورامیونٹی والے لوگوں کو فلو کی ابتدائی علامات نظر آتے ہی ڈاکٹر سے مشورہ حاصل کرنا چاہئے۔ سوائن فلو میں مبتلا ہونے کی اہم علامات میں اچانک ۱۰۴درجے کا بخار، شدیدزکام،چھینک ،ناک جام ہونا،گلے میں خراش،کھانسی،تھکاوٹ ،عضلات اورسرمیں درد ،نیندمیں کمی شامل ہیں۔مگر کچھ مریضوں میں مذکورہ علامات کے ساتھ ساتھ جوڑوں کا درداور بھوک میں کمی واسہال کی شکایت ملتی ہیں۔
کسی کو سوائن فلو ہے اس کی تصدیق کے لئے پی سی آر ٹیسٹ کی ضرورت ہوتی ہے ٹیسٹ کے مثبت ہونے کی صورت میں ابتدائی۴۸؍گھنٹوں کے اندر اندر علاج شروع ہو جانا چاہئے، اس علاج کی مدت پانچ دن ہوتی ہے جس میں مریض کو ٹے مے فلونامی دوا دی جاتی ہے۔اسپتال میں بالغوں کو سوائن فلو کی ابتدائی علامات نظر آنے پر عام طور پر ۵دنوں تک نگہداشت میں رکھتے ہیں لیکن بچوں کے معاملے میں ۷ سے ۱۰دنوں تک انتظارکیا جاتا ہے۔ زیادہ تر معاملات میں سوائن فلوسے متاثر مریض سات دن میں ٹھیک ہو جاتے ہیں۔اکثر لوگوں کو تواسپتال میں بھرتی بھی نہیں ہونا پڑتا اور گھر پر ہی عام بخار کی دوا اور آرام کرنے سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔WHOکے مطابق علاج کے دوران مرنے والوں کی تعداد صرف ۴ء۰ فیصد ہی ہے ان میں بھی زیادہ تر کیس ایسے ہوتے ہیں، جن میں مریض پہلے ہی سے امراض قلب یا کسی دوسری بیماری کی گرفت میں ہوتے ہیں یا پھر انہیں بہت دیر سے علاج کے لئے لایا جاتا ہے۔
سوائن فلو نہ ہو اس کے لئے صفائی کاخاص خیال رکھا جائے، اگراحتیاط برتی جائے تو اس بیماری کے پھیلنے کے امکانات نہ کے برابر ہو جاتے ہیں۔مثلاًجب بھی کھانسی یا چھینک آئے تورومال یا ٹشو پیپراستعمال کریں اوراستعمال کے بعد اس کو ڈھکن والے ڈسٹبن میں پھینکیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر میں ہاتھ کو صابن اور پانی سے دھوتے رہیں کیو ں کہ یہ وائرس ہاتھوں میں ۳۰ منٹ تک فعال رہتے ہیں، لوگوں سے ہاتھ ملانے، گلے لگنے یا بوسہ سے بچیں۔ فلو کی ابتدائی علامات نظر آتے ہی اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کریں اورگھر پر ہی رہیں دفتر،اسکول اور بازار نہ جائیں، بغیر دھلے ہاتھوں سے آنکھ، ناک یا منہ چھونے سے گریز کریں، گھروں اور دفاتر میں تا زہ ہوا کی آمد و رفت کا انتظام کریں اور کھڑکیاں وغیرہ کھلی رکھیں،دروازں کی کنڈیاں اورہینڈل،ٹی وی کے ریموٹ کنٹرول،اور گھر میں ایسی چیزیں جو دیگر افراد کے ہاتھوں سے مس ہوتی ہوں ان کو روزانہ اینٹی سپٹک سولیوشن سے صاف کریں۔ گھر کا تازہ کھانا کھائیں، پانی زیادہ پئیں، تازہ پھل اورسبزیاں کھائیں،باہر کے کھانے سے بچیں۔
سوائن فلو سے تحفظ کے لئے ماسک کافی کارگر ہوتے ہیں، ٹرپل لیئرسرجکل ماسک لگانے سے اس وائرس سے ۷۰ سے ۸۰ فیصد تک اور این -95 سے ۹۵  فیصد تک بچاؤ ممکن ہے جن کی قیمت بالترتیب ۱۰ سے ۱۲اور ۱۰۰ سے ۱۵۰روپے ہے۔جب بھی ماسک پہنیں تو یہ خیال رکھیں کہ منہ اور ناک مکمل طور پر ڈھک جائیں کیونکہ وائرس سائیڈ سے بھی حملہ کر سکتے ہیں۔ ایک ماسک۶۔۴ گھنٹے تک ہی تک ہی استعمال کریں۔ماسک نہ ملے تو ململ کے صاف کپڑے کی چارتہہ بنا کر اسے ناک اور منہ پر باندھیں یہ سستا اورآسان طریقہ ہے اسے دھو کر دوبارہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔لیکن یہ بات بھی یاد رکھیں کہ جب تک آپ کے آس پاس کوئی مشتبہ مریض نہ ہوتب تک ماسک کا استعمال نہ کریں البتہ ا یرکندیشنڈ ٹرینوں یا بسوں میں سفر کرنے والے لوگوں کو احتیاطاًماسک جوکہ ایکدم خشک ہوپہننا چاہئے۔ پرہجوم جگہوں پر بھی احتیاط کے طور پر ماسک پہن سکتے ہیں۔ ڈاکٹر، نرس اور اسپتال میں کام کرنے والے ا سٹاف کو اس کا استعمال کرنا چاہئے۔یہ بات بھی یاد رہے کہ اگر ماسک کو صحیح طریقے سے تباہ نہ کیا جائے یا اس کا استعمال ایک سے زیادہ بار کیا جائے تو سوائن فلو پھیلنے کا خطرہ اور زیادہ ہوتا ہے۔
ہم ہر معاملہ میں امریکہ کی برابری کرتے ہیں مگرواضح رہے کہ امریکہ میں ۲۰۰۵ء سے اب تک اس کے صرف۱۲ کیس سامنے آئے ہیں ظاہر ہے کہ خطرے کو بھانپ کر وہاں اس سے تحفظ کی ساری تیاریاں کر لی گئی تھیں، لیکن گزشتہ پانچ سالوں میں ہم اس سمت میں کچھ نہیں کر پائے. ہماری سرکاری مشینری کی یہ عادت ہے کہ جب تک پانی سر کے اوپر سے نہ نکلنے لگے، تب تک وہ فعال نہیں ہوتی ۔ہندوستان ہیلتھ سیکٹر پر سب سے کم خرچ کرنے والے ممالک میں ہے۔ مرکزی حکومت نے۱۵۔۲۰۱۴ء کے بجٹ میں صحت کی مد میں مختص رقم کو۲۰ فیصد کم کر دیا تھا۔ ایسے میں سوائن فلو جیسی متعدی بیماری کی روک تھام ایک بڑا چیلنج ہے۔ اب اسے روکنے کے لئے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو مل کر کام 
کرناچاہئے اور غیرسرکاری اداروں کو بھی اس میں تعاون کرنا چاہئے۔
ڈاکٹر خالد اختر علیگ



No comments:

Post a Comment