Saturday, 21 February 2015

لکل قوم هاد

مفتی الیاس صاحب کے بیان پر ایک عالم دین نے حضرت مولانا سید محمد طلحہ صاحب قاسمی نقشبندی دامت برکاتہم سے سوال پوچها، جسکا مختصر مگر جامع جواب مولانا نے یوں دیا:
الحمد لله . والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه أجمعين
الله تعالى نے فرمایا لکل قوم هاد
لیکن غور کریں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضرت عیسٰی علیہ السلام ، حضرت عزیر علیہ السلام ، حضرت یحییٰ علیہ السلام،  کا مثلاً تذکرہ نہ کیا هوتا تو صرف تورات اور انجیل میں پڑهکر کون اندازہ لگا سکتا تها کہ یہ اللہ کے جلیل القدر پیغمبر هیں .
مهاجل پلاون والے منو کا برادران وطن کی مذهبی کتابوں میں جو تفصیلی تذکرہ ہے وہ سوره هود میں حضرت نوح علیہ السلام کے اور آپکی کشتی کے تذکرہ سے بهت قریب ترهے ، نیز منو کا ایک نام ان کتابوں میں نیوه بهی ذکرهوا هے جو تلفظ میں بھی نوح سے کتنا قریب تر ہے . عربی زبان جاننے والوں کو معلوم ہے کہ نوح اصلا عربی نام نهی هے اور اگر یہ ساکن الاوسط نہ هوتا تو عجمہ اور علمیت کی بناپر غیر منصرف هوتا .
لیکن اگر قرآن پاک کے ذریعہ حضرت نوح کا تعارف نہ هو تو صرف هندوستانی تعارف کے ذریعہ کون حقیقت تک پهونچ سکتا ہے .
جن محققین نے ویدوں کا گہرا مطالعہ کیا ہے انکی رائے هے کہ ان کتابوں میں بعض انبیاء کرام علیہم السلام کے تذکرےموجود هیں ،  جو تحریف در تحریف کے نتیجہ میں اس قدر مسخ هو چکے هیں کہ قرآن پاک کی مدد کے بغیر انکا سمجهنا اور انپر جمی هوئی بهول کی دهول کو صاف کرنا ممکن نهی هے ،
اسی طرح ایک مرد اور ایک عورت کے ذریعہ نسل انسانی کی ابتداء قرآن کے صاف اور صریح بیان کے مطابق ایک اٹل حقیقت ہے .
یاایهاالناس انا خلقناكم من ذکر وأنثى ...
اور یہ مرد اور عورت حضرت آدم اور حوا ہیں . علیهما السلام .
هندومذهبی لٹریچر میں جس مرد اور عورت کا تذکرہ ہے بعید نهی کہ وہ حضرت آدم و حوا کا هی تذکرہ هو جو صدیوں کے شرک سے آلوده هوکر موجودہ شکل اختیار کر گیا هو .
علماء تفسیر کهتے هیں کہ . ود، سواع ، یغوث ، یعوق ، نسر ، جنکی وه قوم پرستش کرتی تهی جسمیں حضرت نوح مبعوث هوئے تهے ، یہ سب اپنے وقتوں میں اللہ کے نیک بندے تهے  ، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس قوم نے اپنی جهالت اور اندهی عقیدت میں ان بزرگوں کو عبد کے بجائے معبود بنادیا .
همارے بعض بزرگوں نے هندوستان میں بسنے والے کروروں بندگان خدا کو اللہ کے صاف ، شفاف، اور سچے دین اسلام سے - جو اسی دین کا آخری اور دائمی ایڈیشن ہے جو دین اللہ نے هرزمانہ میں اپنے پیغمبروں کے ذریعہ انسانوں کو عطا فرمایا تها - قریب کرنے کےلئے تقابلی مطالعہ کا یہ طریقہ اپنایا ہے . لیکن یہ بهت نازک اور خطرناک کام هے ، ذرا سی چوک خود داعی کو اس تاریک اور گهری کهائی میں گرادیتی هے جسمیں مدعو پهلے سے پڑاهواهے .
اسلئے هماری ناقص طالب علمانہ رائے یہ هیکہ دعوتی میدان میں کام کرنے والے حضرات کو صرف قرآنی لب ولهجہ اختیار کرناچاهئے . اور اگر کهیں دعوتی مصالح کا شدید تقاضا هوتو ، ان موضوعات پر بهت مخصوص حضرات هی  کوگفتگو کرنا چاهئے .
هر کس وناکس بات کریگا تو نتیجہ یہی هوگا جو هوا .
اس موضوع پرانهیں  بولنے کا کیا حق هے جنهوں نے خود عبد کو معبود بنا نے کا عالمی ٹهیکہ لیا هواهے .

No comments:

Post a Comment