Wednesday 18 February 2015

گیارہویں کی حقیقت

گیارہویں دینے سےاگرحضرت شیخ عبد القادر جیالانی کی روح کو ثواب پہنچانا مقصود ہے تو بلا شبہ یہ مقصد بہت ہی مبارک ہے ، لیکن جس طرح یہ ایصال ثواب کیا جاتا ہے اس میں چند خرابیاں ہیں ۔
یہ کہ ثواب پہنچانے کیلئے شریعت نے کوئی دن اور وقت مقرر نہیں فرمایا ، مگر یہ حضرات گیارہویں رات کی پابندی کو کچھ ایسا ضروری سمجھتے ہیں گویا یہی خدائی شریعت ہے ۔ اور اگر اسکے بجائے کسی اور دن ایصال ثواب کرنے کو کہا جائے تو یہ حضرات اس پر کسی طرح راضی نہیں ہوں گے ۔ ان کے اس طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ایصال ثواب مقصود نہیں ، بلکہ انکے نزدیک یہ ایک عبادت ہے جو صرف اسی تاریخ کو اداکی جاسکتی ہے ۔ جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ۔ اسلئے اسے ضروری سمجھ لینا اللہ اور رسول کے مقابلے میں گویا اپنی شریعت بنانا ہے ۔
دوسرے ۔ گیارہویں میں اس بات کا خصوصیت سے اہتمام کیا جاتا ہے کہ کھیر ہی پکائی جائے حلانکہ اگر ایصال ثواب مقصود ہو تا تو اتنی رقم بھی صدقہ کی جاسکتی تھی ۔ اور اتنی مالیت کا غلہ یا کپڑا کسی مسکین کو چپکے سے اسطرح دیا جاسکتا تھا کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو تی ۔ اور یہ عمل نمود ونمائش اور ریا سے پاک ہونے کی وجہ سے مقبول بارگاہ الہی بھی ہوتا ، کھیر پکانے یا کھانا پکانے ہی کو ایصال ثواب کے لئے ضروری سمجھنا اور یہ خیال کرنا کہ اس کے بغیر ایصال ثواب ہی نہیں ہوگا ۔ یہ بھی مستقل شریعت سازی ہے ۔
3⃣تیسرے ۔ ایصال ثواب کیلئے دیا گیا کھانا وغلہ ایک قسم کا صدقہ ہے جو فقراء ومساکین کا حق ہے ۔ مگر گیارہویں کا کھانا پکاکر لوگ زیادہ تر خود ہی کھا پی لیتے ہیں یا اپنے عزیز و اقارب اور احباب کو کھلا دیتے ہیں ، فقراء ومساکین کا حصہ اسمیں بہت کم ہوتا ہے اس کے باوجود یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جتنا کھانا پکایا گیا پورے کا ثواب پیران پیر کو پہنچ جاتا ہے ۔ یہ بھی قاعدۃ شریعت کے خلاف ہے ۔ کیونکہ شرعا ثواب تو اس چیز کا ملتا ہے جو بطور صدقہ کسی کو دے دی جائے ۔
چوتھے ۔ بہت سے لوگ گیارہویں کے کھا نے کوتبرک سمجھتے ہیں ، حلانکہ ابھی معلوم ہوچکا کہ جو کھا نا خود کھا لیا گیا وہ اگر ایصال ثواب تھا تو وہ صدقہ تھا جسکا کھا نا بنانے والوں کےلئے جائز نہ تھا لہذا حضرت پیران پیر کے ایصال ثواب سے اس کو کوئی تعلق نہیں ہے ۔
پانچویں ۔ بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ گیارہویں نہ دینے سے ان کے جان ومال کا خدانخواستہ  نقصان ہوجاتا ہے یا مال میں بےبرکتی ہوجاتی ہے ، گویا نماز ،روزہ ، حج ،زکاۃ، قطعی فرائض میں کوتاہی کرنے سے کچھ نہیں بگڑتا ، مگر گیارہویں میں ذراکوتاہی ہوجائےتو جان ومال کے لالے پڑ جاتے ہیں ۔

اب آپ ہی انصاف کیجئے کہ ایک ایسی چیز جس کا شرع شریف میں اور ائمہ کے اقوال میں کوئی ثبوت نہ ہو، جب اسکا التزام فرائض شرعیہ سے بھی بڑھ کر کیا جائے اور اسکے ساتھ ایسا اعتقاد جم جائے کہ خدا تعالی کے مقرر کردہ فرائض کے ساتھ بھی ایسا اعتقاد نہ ہو تو اس کے مستقل شریعت ہونے میں کوئی شبہ رہ جاتا ہے ؟
انا للہ وانا الیہ راجعون ،
اور پھر اس پر بھی غور فرمایئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام ، تابعین عظام ، ائمہ مجتہدین اور بڑے بڑے اکابر اولیاء اللہ میں سے کسی کے بارے میں مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں کہ اگر ان اکابر کیلئے ایصال ثواب نہ کیا جائے تو جان ومال کا نقصان ہو جاتاہے ، میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر حضرت پیران پیر کی گیارہویں نہ دنے ہی سے کیوں جان ومال کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے ، ہمارے ان بھائیوں نے اگر ذرا بھی غور و فکر سے کام لیا ہوتا تو ان کیلئے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ وہ اپنے اس غلو سے حضرت پیران پیر کی توہیں کے مرتکب ہورہے ہیں ۔
لہذا گیارہویں کی دعوت میں شرکت کرنا، یا یہ بدعت انجام دینے والوں کا تعاون کرنا جائز و درست نہیں ہے..

No comments:

Post a Comment