Sunday, 15 February 2015

مرزا غالب

ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے۔
15 فروری 1869
غالب کا 146 واں یوم وفات ہے۔۔۔۔
مرزا اسد اللہ خان غالب
پیدائشی نام: اسد اللہ بیگ خاں
قلمی نام: مرزا غالب
تخلص: اسد , غالب
ولادت: دسمبر 1797ء، آگرہ
وفات: 15 فروری 1869ء
اصناف ادب: شاعری , نثر
ذیلی اصناف‎: غزل

مرزا غالب(1797-1869)اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کاا صل کمال یہ ہے کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔غالباً ً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ خاں تھا۔ باپ کا نام عبداللہ بیگ تھا ۔ آپ دسمبر 1797ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہو گئے۔ نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا۔ 1810ءمیں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراءبیگم سے ہو گئی. شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔

شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے ۔ اس دوران میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ورآخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی اور 1850ءمیں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا ، اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50روپے ماہور مرزا کا وظیفہ مقرر ہوا۔

غدر کے بعد مرزا کی سرکاری پنشن بھی بند ہو گئی ۔ چنانچہ انقلاب 1857ءکے بعد مرزا نے نواب یوسف علی خاں والی رامپور کو امداد کے لیے لکھا انہوں نے سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا جو مرزا کو تادم حیات ملتا رہا۔ کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہو گئی مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869ء کو انتقال فرمایا

’’آئین اکبری‘‘ کی منظوم تقریظ

1855 میں سرسید نے اکبر اعظم کے زمانے کی مشہور تصنیف ’’آئین اکبری‘‘ کی تصحیح کرکے اسے دوبارہ شائع کیا۔ مرزا غالب نے اس پر فارسی میں ایک منظوم تقریظ (تعارف) لکھا ۔ اس میں انہو ں نے سر سید کو سمجھایا کہ ’’مردہ پرورن مبارک کارِنیست‘‘ یعنی مردہ پرستی اچھا شغل نہیں بلکہ انہیں انگریزوں سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح فطرت کی طاقتوں کو مسخرکرکے اپنے اجداد سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ انہوں نے اس پوری تقریظ میں انگریزوں کی ثقافت کی تعریف میں کچھ نہیں کہا بلکہ ان کی سائنسی دریافتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مختلف مثالوں سے یہ بتایا ہے کہ یہی ان کی ترقی کا راز ہے۔ غالب نے ایک ایسے پہلو سے مسلمانوں کی رہنمائی کی تھی ، جو اگر مسلمان اختیار کرلیتے تو آج دنیا کی عظیم ترین قوتوں میں ان کا شمار ہوتا۔مگر بدقسمتی سے لوگوں نے شاعری میں ان کے کمالات اور نثر پر ان کے احسانات کو تو لیا ،مگر قومی معاملات میں ان کی رہنمائی کو نظر انداز کردیا۔

دہلی کے جن نامور لوگوں کی تقریظیں آثارالصنادید کے آخر میں درج ہیں انہوں نے آئینِ اکبری پر بھی نظم یا نثر میں تقریظیں لکھی تھیں مگر آئین کے آخر میں صرف مولانا صہبائی کی تقریظ چھپی ہے ۔ مرزا غالب کی تقریظ جو ایک چھوٹی سی فارسی مثنوی ہے وہ کلیاتِ غالب میں موجود ہے مگر آئینِ اکبری میں سرسید نے اس کو قصدا ً نہیں چھپوایا۔

'حیات جاوید‎'‎ میں شاگرد غالب مولانا حالی راوی ہیں کہ سید احمد خاں مرزا غالب کو چچا کہتے تھے اور مرزا بھی سید صاحب پر بزرگانہ شفقت فرمایا کرتے تھے- حیات جاوید میں مولانا حالی نے یہ بھی لکھا ہے کہ سید احمد خاں اپنے علمی ذوق کی تسکین و تکمیل کےلئے اٹھارہ انیس سال کے سن میں دہلی کے جن عالموں کی صحبت سے فیضیاب ہوتے رہتے تھے ان میں غالب بھی شامل تھے۔
غالب کا ایک نو دریافت فارسی خط کتاب 'تلاش غالب‎'‎ میں موجود ہے۔ اور اس کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ خط در اصل غالب کے نام سید احمد خاں کے ایک خط کا جواب ہے۔ غالب کا یہ خط اور اس میں سید احمد خاں کے مکتوب کا حوالہ غالب اور سید احمد خاں کے درمیان مکاتبت کے رشتے کا بھی انکشاف کرتا ہے اس خط میں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ غالب نے اس خط کے ہمراہ سید احمد خاں کو اپنی ایک نعتیہ مثنوی بھی نقل کرکے ارسال کی تھی۔

1954 میں مرزا غالب (فلم) بنی۔ جس کے اہم کردار بھرت بھوشن ادا کیا۔ حکومت ہند نے قومی بہترین فلم اعزاز کا سلسلہ اسی سال سے شروع کیا اور پہلا ایوارڈ اس فلم کو دیا گیا۔
1988 میں گلزار نے ایک ٹی وی سیریل بنایا جس میں اہم کردار نصیر الدین شاہ نے ادا کیا۔

No comments:

Post a Comment