Saturday, 1 February 2025

اسلامی معاشرہ کا ایک بھولا سبق (قسط نمبر 2)

 اسلامی معاشرہ کا ایک بھولا سبق (قسط نمبر 2) 

وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ [النساء: 36].

اور اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، نیز رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب والے پڑوسی، دور والے پڑوسی، ساتھ بیٹھے (یا ساتھ کھڑے) ہوئے شخص اور راہ گیر کے ساتھ (اچھا برتاؤ رکھو)

معزز قارئین، اس آیت مبارکہ میں والدین اقرباء اور رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے بھی مستقل حقوق بیان کیے گئے ہیں- ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر ہمارا پڑوسی بھوکا ہے تو ہم اسے اپنے کھانے میں شریک کریں، اگر وہ بیمار ہے تو اس کی عیادت و تیمارداری کریں، اگر وہ کسی آفت و مصیبت کا شکار ہے یا کسی رنج و غم میں مبتلا ہے تو ہم اس کا دست و بازو بن کر اس کے رنج وغم کا مداوا کریں لیکن آج ہمارا مسلم معاشرہ اس اسلامی معاشرہ کے سبق سے اتنا غافل ہوچکا ہے کہ ایک طرف تو ایک مسلمان بھائی پوری فیملی کے ساتھ بھوکا سونے پر مجبور ہے کیونکہ گھر پر ایک روٹی کے آٹے تک بندوست نہیں ہے- دوسری طرف پورا محلہ اور گاؤں روایتی بے سود جلسوں اور پروگراموں اور مہنگی شادیوں میں مگن ہے. جی. یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حال ہی میں گھٹی ایک سچی گھٹنا ہے. اسی طرح کچھ عرصہ قبل ایک عالم دین کی ویڈیو کال آئ جو حالات اور تنگدستی سے پریشان ہوکر خودکشی کرنے پر مجبور تھا- ان سطور کے قلم بند کرنے کا واحد مقصد امت کے اہل خیر حضرات کی توجہ اس پہلو کی طرف مبذول کرنا ہے جس کی امر کی واضح تعلیمات آپ علیہ السلام بار بار امت کے سامنے بیان فرمائی- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات میں ہمسایہ اور پڑوسی کے حقوق کی اہمیت اس طرح فرمائی ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پڑوسیوں کے یہاں تک حقوق بیان کئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث ٹھہرا دیں گے- (مسنداحمد: 20350)

پڑوسی کی اقسام:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پڑوسی کی تین اقسام ہیں: (1) وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہوتا ہے (2 ) وہ پڑوسی جس کے دو حق ہوتے ہیں (3) وہ پڑوسی جس کے تین حق ہوتے ہیں۔بعد ازاں خود نبی کریم ﷺ نے ان تینوں اقسام کے حقوق کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:مسلمان رشتہ دار پڑوسی کے تین حق ہیں:حقِ پڑوس، حقِ اسلام اور رشتہ داری کا حق۔مسلمان پڑوسی کے دو حق ہیں: حقِ پڑوس اور حقِ اسلام۔ مشرک پڑوسی کا صرف ایک حق ہے: اورہ وہ ہے حقِ پڑوس۔(شعب الایمان، باب فی اکرام الجار: 9113)

پڑوسی کے حقوق کی اختصار کے ساتھ تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میرے پڑوسی کا مجھ پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ بیمار ہو تو تم اس کی عیادت کرو، اگر وہ مرجائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو، اگر وہ تم سے قرض مانگے تو اس کو قرض دو، اگر وہ بدحال ہو تو اس کی پردہ پوشی کرو، اگر اس کو کوئی اچھائی پہنچے تو اس کو مبارکباد دو، اگر اس کو کوئی مصیبت پہنچے تو اس کی تعزیت کرو، اپنے گھر کی عمارت اس کی عمارت سے بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا رک جائے۔ (المعجم الکبیر: ج 19، ص 419) 

اُم المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کی:میرے دو پڑوسی ہیں، ان میں سے ایک میرے دروازے کے سامنے رہتا ہے اور دوسرا کچھ دور، بعض اوقات میرے پاس موجود چیز اتنی ہوتی ہے کہ دونوں کو دینے کی گنجائش نہیں ہوتی، لہٰذا ان دونوں میں سے کس کا حق زیادہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا دروازہ تمہارے سامنے ہے- (صحیح بخاری: 2595)۔

حضرت جابررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب تم میں سے کوئی شخص سالن پکائے تو اس میں شوربہ زیادہ کرے، پھر اپنے پڑوسی کو بھی اس میں سے دے (المعجم الاوسط: 3615)۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص پیٹ بھرکر رات گزارے اور اس کو علم ہو کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہے اس کا مجھ پر ایمان نہیں ہے. (المعجم الکبیر: 751) ۔

 جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرے. (صحیح مسلم: 165)

اللہ تعالیٰ ہم کو اس بھولے سبق پر عمل کی توفیق نصیب فرمائے 

آمیــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــن يارب العالمیــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــن

مُحَمَّد عَارِف دَهٗلَوِى٘ (02/02/25)  ( #ایس_اے_ساگر )

https://saagartimes.blogspot.com/2025/02/2.html



No comments:

Post a Comment