تیری رضا جو ہو سو ہو
----------------------------------
خلّاقِ اکبر نے انسان کی طبعیت میں ناپائیدار خواہشات ومتضاد خوابوں کا تعاقب کرنا شامل کردیا ہے، وہ دنیاوی حسن، جمال، دولت، شہرت، مادی آسائش وآرام پاکر بھی مضطرب وبے چین ہی رہتا ہے، انسانی زندگی کی حقیقی خوشی، مسرت وطمانینت اور معنویت دنیاوی آسائشوں ، کامیابیوں اور حصولیابیوں میں نہیں؛ بلکہ روحانی تعلقات کی استواری اور "تسلیم ورضاء" میں مضمر ہے۔ انسان عموماً اپنی ایک حالت پر راضی نہیں ہوتا، بلکہ ہمیشہ اس چیز کی خواہش کرتا ہے جو اسے نصیب نہیں ہوئی ہوتی، اور وہ نعمت جو اللہ نے اسے عطا کر رکھی ہوتی ہے، اس کی قدر نہیں کرتا۔ اسلام نے بندہ مومن کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ صبر وتوکل کا پیکر بنا رہے اور رنج وراحت میں بھی اس کا شعار “الحمد للہ” ہونا چاہیے۔ غم ہوکہ خوشی، آسانی وفتوحات کا زمانہ ہو یا ابتلاء وآزمائش اور مشکلات کی گھڑی، وہ ہر دو حالتوں میں اپنے رب کی عطاء ونوازش اور اس کے فیصلے پر راضی رہ کر "الحمدللہ" کہنے کا مزاج بنائے، اس سے حقیقی بندگی کا مزہ پائے گا اور یہی وہ بلند مقام ہے جس تک پہنچنا انسان کے لئے بہ ظاہر مشکل ہوتا ہے؛ لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس میں بھی اس کے لیے کوئی بھلائی چھپا رکھی ہوتی ہے۔ انسانی فطرت کی بے قراری، خواہشات کی نہ ختم ہونے والی دوڑ اور زندگی کی ناپائیداری کو ایک عربی شاعر عباس محمود العقاد نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ انتہائی مؤثر اور دلکش انداز میں بیان کیا ہے، اشعار اس قابل ہیں کہ انہیں سرمہ بصیرت بنایا جائے اور لوح قلب پہ ثبت کرلیا جائے:
۱: صغيرٌ يطب الكبرَا —-وشيخٌ ودَّ لو صغرا
(چھوٹا بچہ بڑا بننے کی خواہش رکھتا ہے، اور بوڑھا شخص چاہتا ہے کہ کاش وہ پھر سے جوان ہوجاتا) یعنی چھوٹا بچہ بڑا ہونا چاہتا ہے تاکہ خود مختار ہوسکے، اپنی امیدوں اور خوابوں کو پورا کر سکے۔جبکہ بوڑھا شخص حسرت کرتا ہے کہ کاش وقت پیچھے پلٹ جائے تاکہ وہ ان تمناؤں کو پورا کر لے جنہیں وہ حاصل نہ کرسکا۔ (جیسا کہ کہا گیا: ألا ليت الشباب يعود يوماً.. فأخبره بما فعل المشيب. "اے کاش! جوانی ایک دن لوٹ آتی، تاکہ میں اسے بتا سکتا کہ بڑھاپے نے میرے ساتھ کیا کیا!")
۲: وخالٍ يشتهي عملًا —-وذو عمل به ضجرا
(بے روزگار شخص کام کی تمنا کرتا ہے، اور جو کام میں لگا ہوا ہے، وہ اس سے بیزار ہے) یعنی بے روزگار شخص چاہتا ہے کہ اسے کوئی مصروفیت ملے، جبکہ جو شخص مصروف کارگہِ حیات ہے، وہ تھکن اور بوجھ سے تنگ آ چکا ہوتا اور کام سے فراغت کی تمنا کرتا ہے)۔
۳: ورب المال في تعب —-وفي تعب من افتقرا
(مالدار شخص بھی پریشان ہے[چاہے اس کے پاس کوئی اس کا کاروبار سنبھالنے والا ہو، پھر بھی وہ فکرمند اور بے چین ہے] اور جو غریب ہے، وہ بھی تکلیف میں ہے [کیونکہ اس کے پاس ضروریات زندگی کے وسائل نہیں ہیں].
۴: وذو الأولاد مهمومٌ —-وطالبهم قد انفطرا
(جس کے پاس اولاد ہے، وہ ان کے حال اور مستقبل کی فکر میں مبتلا ہے۔
اور جو اولاد کے لیے ترستا ہے، وہ بھی بے چین ہے)
۵: ويشقى المرءُ منهزمًا ولا يرتاحُ منتصرا
( انسان شکست کھا کر افسردہ ہو جاتا ہے، اور جیت کر بھی سکون نہیں پاتا۔( بلکہ ہفت اقلیم کے حصول کے لئے سرگرداں ( حیران وسرگرداں) رہتا ہے)
۶: ومن فقد الجمال شكي —-وقد يشكو الذي بُهِرا
(جسے حسن نہیں ملا، وہ شکوہ کرتا ہے (آئینہ میں شکل دیکھ کر خوش نہیں ہوتا) چاہے وہ اپنی ذات کے بارے میں ہو یا اپنی بیوی کے بارے میں) اور جسے حسن ملا، وہ بھی شکایت کرتا ہے(اسے دوسروں کی حسد اور جلن کا سامنا کرنا پڑتا ہے) چاہے وہ خود کا ہو یا اپنی بیوی کا۔
۷: ويبغي المجد في لهفٍ فإن يظفر به فترا
(وہ عظمت اور کامیابی کی شدید خواہش رکھتا ہے، لیکن جب اسے حاصل کر لیتا ہے تو اس سے بیزار ہوجاتا ہے (ناقدری شروع کردیتا اور اپنے کام کی تحقیر شروع کردیتا ہے)
۸: شكاة ما لها حَكمٌ —-سوى الخصمين إن حضرا
(یہ تمام شکایتیں ایسی ہیں جن کا کوئی منصف نہیں، سوائے اس کے کہ دونوں فریق خود موجود ہوں)
۹: فهل حاروا مع الأقدا ر—- أو هم حيَّروا القدرا؟
(تو کیا یہ لوگ تقدیر سے پریشان ہیں، یا انہوں نے خود تقدیر کو حیران کردیا ہے؟)
حیاتِ انسانی مستقل "تغیّر" کا نام ہے، یہاں احوال کو نہیں؛ صرف "تغیرات" کو دوام واستقلال ہے۔ رات کی تاریکیوں سے نورسحر پھوٹتا اور آفتاب عالم تاب کی ضوفشانیوں کے بعد گُھپ اندھیری رات ڈیرہ ڈال دیتی ہے، غم ہو یا خوشی عسر ہو یا یسر! سارے احوال فانی ہیں، بندہ مومن کو اس فلسفہ تغیرات کو سمجھتے ہوئے اچھی وبُری ہر حالت میں تسلیم وتوکل کے ساتھ مستانہ وار یہ گنگناتے رہنا چاہیے:
درپہ ہوں تیرے آکھڑا
کیا کہوں بس خاموش ہوں
شاہ بنا گدا بنا
تیری رضا جو ہو سو ہو
(ہفتہ 2؍ شعبان المعظم 1446ھ یکم ؍ فروری 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2025/02/blog-post.html
No comments:
Post a Comment