اسلامی معاشرہ کا ایک بھولا سبق
وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىٕكُمْؕ-اِنْ یَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (32)
ترجمہ: اور تم میں سے جو بغیر نکاح کے ہوں اور تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو نیک ہیں ان کے نکاح کردو۔ اگر وہ فقیر ہوں گے تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کردے گا اور اللہ وسعت والا، علم والا ہے۔
اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کو نگاہیں جھکاکر رکھنے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا، اب اس آیت میں شرم گاہوں کی حفاظت کا ایک پاکیزہ طریقہ بیان کیا جارہا ہے، تم میں سے جو بغیر نکاح کے ہوں، خواہ مرد ہوں یا عورتیں، کنوارے یا غیر کنوارے (یعنی شادی شدہ تھے لیکن پھر طلاق یا موت ہوگئی) اور تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو نیک ہیں ان کے نکاح کردو۔
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: تین شخصوں کی اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا۔ جن میں ایک پارسائی کے ارادے سے نکاح کرنے والا ہے۔ (ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی المجاہد والناکح والمکاتب۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۴۷، الحدیث: ۱۶۶۱)
معزز قارئین، اس وقت ہمارے معاشرے میں ایسی بے شمار خواتین ہیں، جن کو کم عمری ہی میں طلاق ہوجاتی ہے یا شوہر کے وفات پاجانے کی وجہ سے ان پر بیوہ کا ٹائٹل لگ جاتا ہے، بلا شبہ ایسی ستم زدہ اور تقدیر کی ماری خواتین ہر محلہ، گاؤں اور علاقے میں بکثرت پائ جاتی ہیں جو یا تو سسرال ہی میں یا پھر میکے میں بڑے درد و الم کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں، والدین لاکھوں جتن کرکے تو بڑے آسرے اور امنگوں کے ساتھ بیٹی کو وداع کرتے ہیں لیکن چند سال بعد پھر جب یہ نا ختم ہونے والا درد آگھیرتا ہے تو ستم بالائے ستم ہمارا معاشرہ جلے پر نمک چھڑکنے سے نہیں چوکتا ہے۔
محترم قارئین، ایسی دکھیاری اور غمزدہ خواتین کا ایک ایک منٹ ہزاروں سال کے برابر گزرتا ہے۔ وہ گھٹ گھٹ کر اپنے آنسوؤں کو پی کر زندگی گزارتی ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ان کی مایوس اور تاریک زندگیوں میں ایک نئی امید پیدا کرکےخوشیاں بھری جائیں۔
اولا تو یہ ہونا یہ چاہئے کہ جو حضرات اس کی استعداد رکھتے ہیں وہ آگے بڑھیں اور شرعی طریقے سے ایسی خواتین کا ہاتھ تھام کر انہیں نئی زندگی کی شروعات کا موقع فراہم کریں۔ حدیث میں ہے کہ من تمسك بسنتي عند فساد أمتي، فله أجر مائة شهيد (رواه الطبراني)
ترجمہ: جس شخص نے میری امت کے فساد کے وقت میری سنت پر عمل کیا تو اس کے لئے سو شہید کا ثواب ہے۔
آپ علیہ السلام نے اپنے سارے نکاح ایسی ہی بیوہ یا مطلقہ عورتوں سے فرمائے سوائے ایک کے اور معاشرہ میں ایسی خواتین کا قد بڑھاکر امہات المؤمنین کے لقب سے سرفراز فرمایا۔
اگر ہم خود اس کی قدرت اور استطاعت نہیں رکھتے تو پھر اس حدیث پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بچولیا کا کردار ادا کرکے ایسی بے سہاراؤں کا سہار بن کر ان کی دعائیں لیں: من دل على خير، فله أجر فاعله. (رواه مسلم)
ترجمہ:جس نے بھلائی کا راستہ دکھایا تو اسے اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا کہ اس کے کرنے والے کو ملتا ہے۔
نوٹ: کئی کارگزاریاں حال ہی میں بڑی تکلیف دہ اس بابت سنیں (تفصیلات کو طوالت کی بنا پر ترک کردیا ہے) اسی وجہ سے مذکورہ بالا چند سطور لکھی گئی ہیں کیونکہ مطلقہ یا بیوہ کی کفالت اور گزربسر کا کوئی معقول انتظام نہیں ہوتا بالآخر یا تو وہ گداگری کا شکار ہوجاتی ہیں یا پھر ان کو قوم کی زکوٰۃ و صدقات پر نربھر رہنا پڑتا ہے بہت سی دکھیاری بہنیں تو مجبوراً غلط راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔
اللہم احفظنا منہ
آمیــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــن يارب العالمیــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــن (بقلم: مُحَمَّد عَارِف دَهٗلَوِى٘) (31/01/25) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_31.html
No comments:
Post a Comment