Sunday, 31 December 2023

اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے

 اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے

#ایس_اے_ساگر

کیا کسی کی بھی سمجھ میں آ رہا ہے کہ ہونا کیا چاہئے، ہو کیا رہا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ ہونی کو انہونی اور انہونی کو ہونی بنانے کے مشاقینِ کرام کے سوا سب کی سمجھ میں آ رہا ہے۔ ضروری تو نہیں کہ دائیں بائیں اور نیچے ہر طرح کی زیادتیوں کے جواب میں خاموشی کا مطلب صرف بے حسّی بزدلی، مصلحت کوشی اور منافقت ہی ہو۔ خاموشی لاتعلقی و اکتاہٹ کا استعارہ بھی تو ہے، مزاحمت کی کم ازکم شکل بھی تو ہے، خاموشی معنی خیز بھی تو ہوسکتی ہے، دل و دماغ کے درمیان جاری کش مکش کو پوشیدہ رکھنے کا بھیس بھی تو ہوسکتی ہے۔ خاموشی سوچ بچار کی مہلت بھی تو ہو سکتی ہے اور خاموشی کسی طوفان یا جھکڑ سے پہلے کا سناٹا بھی تو ہوسکتی ہے۔ جبھی تو جون ایلیا کہتے ہیں:

کوئی حالت نہیں یہ حالت ہے

یہ تو آشوب ناک صورت ہے

انجمن میں یہ میری خاموشی

بردباری نہیں ہے وحشت ہے

آج کا دن بھی عیش سے گذرا

سر سے پا تک بدن سلامت ہے

ہر ریاست کا بیانیہ جھوٹ اور سچ کے آمیزے سے تیار ہوتا ہے۔ کھوٹ ملائے بغیر نہ زیور بن سکتا ہے نہ ہی بیانیہ۔ یونیورسل سچائیاں اگرچہ ابدی ہیں انھیں کسی تعارف یا تفسیر کی ضرورت نہیں۔ مگر بیانیہ گھڑا جاتا ہے۔ قبولِ عام بنانے کیلئے اپنی مرضی اور پسند کے پتھر ، ہیرے موتی جڑے جاتے ہیں۔ اس میں ایسے باریک باریک منطقی سوراخوں سے گذارا جاتا ہے کہ اس عمل کے ذریعے بیانیہ لچکدار رہے اور حسبِ ضرورت موقع محل اور مفاد کے اعتبار سے اسے بدلنے میں آسانی رہے۔سچ، جھوٹ، ڈھٹائی، غیرت، اصول پسندی، بے اصولا پن، چکنا گھڑا، دورخا پن، ایثار، قربانی، بے حسّی، تعصّب، دنیا دکھاوا، قول و فعل میں تضاد وغیرہ وغیرہ یہ سب انسانی خوبیاں اور خامیاں ہیں۔ ریاست بھی انسان ہی چلاتے ہیں۔ جیسی اقدار ورثے میں ملیں گی وہی تو نافذ ہوں گی وہی تو آگے بڑھیں گی۔

 ایک عام آدمی اور کرسی نشین میںبس اتنا فرق ہوتا ہے کہ عام آدمی کو نشہ کرنا پڑتا ہے۔ کرسی کا نشہ خود بخود ہوتا ہے۔ اس نشے پر قابو پا لیا جائے تو رعایا کیلئے رحمت، چڑھ جائے تو تہہ در تہہ عذاب ہے۔ مگر جیسے جیسے نام نہاد تہذیبی بیانیہ آگے بڑھ رہا ہے توں توں ریاستی سفاکی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ جب بڑی بڑی ذمہ دار ریاستیں سفاکی پر اترتی ہیں تو ان کی طفیلی ریاستیں اسے لائسنس سمجھ کے دس ہاتھ آگے بڑھ جاتی ہیں۔

ہمیں پسند آئے نہ آئے مگر انسانی جبلت ہے کہ جب وہ بے دست و پا ہوتا ہے تو اس سے زیادہ مظلوم کوئی نہیں ہوتا اور اسی کے ہاتھ میں طاقت آجاتی ہے تو بتدریج ویسا ہی ظالم بنتا چلا جاتا ہے کہ جس سے وہ دورِ مظلومیت میں نفرت کرتا رہا ہے۔ روزِ گذشتہ کا یہ مظلوم اپنے ہر جائز ناجائز قدم کیلئے وہی منطق اور تاویل اپنا لیتا ہے کہ جس سے اسے دورِ مظلومیت میں انتہائی چِڑ ہوتی ہے۔ اور جب یہ فرد ایک گروہ اور پھر گروہ سے ریاست بنتا ہے تو غیرمحسوس انداز میں کلر بلائنڈ ہوتا چلا جاتا ہے۔ احمد نوید نے کیا خوب کہا ہے:

سب کا حق لے کے بھی محروم نظر آتا ہے

اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے

(بشکریہ :وسعت اللہ خان)



No comments:

Post a Comment