"بچوں
کو ’خوبصورت‘ بنانے
کے ٹوٹکے جو خطرناک ہوسکتے ہیں"
کہتے ہیں خوبصورتی دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے لیکن اگر آپ ہندپاک سمیت جنوبی ایشیا کے کسی ملک میں پیدا ہوئے ہیں تو زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ یہ خوبصورتی دیکھنے والی آنکھیں آپ کی ماں کی ہوں، کیونکہ ہمارے معاشرے میں خوبصورتی کے معیار اتنے اونچے ہیں کہ اِن پر شاید ہی کوئی پورا اُتر سکے۔
یہاں پہلے شادی کرنے کا پریشر ہوتا ہے، ہو جائے تو بچے پیدا کرنے کا پریشر۔ بچہ ہو جائے تو یہ پریشر کہ اب وہ معاشرے کی ’خوبصورت‘ ہونے کی تعریف پر پورا بھی اُترے۔
اگر کسی ایک کو بھی اعتراض ہو تو پورا خاندان، محلہ اس بچے کے نین نقش نکھارنے میں اپنا بھرپور حصہ ادا کرنے لگ جاتا ہے۔ بچے پر اپنا زیادہ حق سمجھنے والے معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ باقی لوگ مشورے دے کر کام چلاتے ہیں۔
’بچی کا سر بنانا ہے تو پلیٹ پر رکھ دو‘
ڈاکٹر سے رجوع کرنے پر معصومہ کو پتہ چلا کہ یہ خود ہی ٹھیک ہوجائے گا اور پھر تین ماہ بعد ہیماٹوما ٹھیک ہوگیا۔
آپ نے بعض مرتبہ سنا ہوگا کہ فلاں کا سر بہت اچھا بنا ہوا ہے یا پھر سر ٹھیک سے نہیں بنایا گیا اور اسے لمبا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ماؤں پر بچوں کا فلیٹ سر بنانے کا بہت پریشر ہوتا ہے۔
معصومہ رضا کو اسی پریشر کا سامنا ایک سال پہلے تب کرنا پڑا جب ان کی بچی کی پیدائش ہوئی اور ہیماٹوما یا جمے ہوئے خون کی وجہ سے بچی کے سر کے اوپر تھوڑی سی جگہ ابھری ہوئی تھی۔
معصومہ کہتی ہیں گھر والوں نے تو خیال کرتے ہوئے پوچھا لیکن باہر والے لوگوں نے انھیں ایسے مشورے بھی دیئے جو انھوں نے مانگے بھی نہیں تھے۔
معصومہ نے بتایا ’لوگوں نے پوچھنا شروع کردیا کہ یہ کیا مسئلہ ہے، الگ سے نظر آ رہا ہے۔ ایک جاننے والی خاتون تو پلیٹ ہی لے کر آگئیں کہ لاؤ تہھیں سکھلاؤں بچی کا سر پلیٹ میں رکھ کر بنانا کیسے ہے۔‘
ڈاکٹر سے رجوع کرنے پر انھیں پتہ چلا کہ یہ خود ہی ٹھیک ہوجائے گا اور پھر تین ماہ بعد ہیماٹوما ٹھیک ہوگیا۔
معصومہ کہتی ہیں کہ ’میں نے ٹھان لی کہ نہ پریشر لوں گی اور نہ کبھی اپنی بچی کو لینے دوں گی۔ ہمارا کلچر بن گیا ہے کہ بیٹی ہے تو ایسے خوبصورت بناؤ۔۔۔ آنکھیں اتنی بڑی ہونی چاہیں، ماتھے پر بال نہ ہوں، ناک پتلی ہو۔۔۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے، ہمارے معاشرے کو بھی تھوڑا آزاد خیال ہونا چاہیے۔‘
’12 دن کی بچی کی ویکسنگ کردو، بال ختم ہوجائیں گے‘
ماہم حسّان جب پہلی بار ماں بنیں تو انھیں یہ پتہ نہیں تھا کہ لوگ بچے کو خوبصورت بنانے کے لئے کتنا پریشر ڈالتے ہیں۔
ان کی بیٹی کے روئیں جیسے بال دیکھ کر ایک جان پہچان والی خاتون نے کہا کہ آٹے کی لوئی لے کر بال صاف کردو ایک اور خاتون نے انھیں بتایا کہ بچوں کی ویکس بھی آتی ہیں۔
ماہم اس وقت دنگ رہ گئیں جب ایک خاتون نے انھیں مشورہ دیا کہ بچوں کی ویکس بھی آتی ہے اور اگر وہ اپنی 12 دن کی بچی کی ویکس کردیں گی تو بعد میں شکر کریں گی کہ بچی کے بال دوبارہ نہیں آئے۔
وہ کہتی ہیں مجھے سمجھ نہیں آتا کہ کوئی 12 دن کی بچی کو ویکس کرنے کا کیسے سوچ سکتا ہے!
ٹوٹکے اور ان کی حقیقت:
بچوں کو ’پیارا‘ بنانے والے ٹوٹکوں اور ان سے جڑے کئی سوالات لے کر میں شفا اسپتال میں چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر معصومہ فاطمہ کے پاس گئی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان ٹوٹکوں کو بچوں پر آزمانے سے کیا ہوتا ہے۔
آنکھیں بڑی کرنے کے لئے سرمہ لگانا:
ڈاکٹر معصومہ کے مطابق خالص سرمے میں لیڈ یا سیسہ ہوتا ہے جو نومولود بچوں کی آنکھوں میں فوراً جذب ہوسکتا ہے اور اس کی وجہ سے لیڈ پوائزننگ ہو سکتی ہے۔ صرف ایک بار سرمے کے استعمال سے بھی بچوں کے جسم میں لیڈ لیول بڑھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سرمے کی سلائی سے بچے کی آنکھوں میں انفیکشن ہونے کا خدشہ رہتا ہے جو ان کے پورے جسم میں پھیل سکتا ہے۔
بچوں کا رنگ گورا کرنے کے لیے کریمیں لگانا:
ڈاکٹر معصومہ کے مطابق بچوں کا وہی رنگ ہو گا جو ان کو جینیاتی طور پر ماں باپ سے ملے گا۔ اس کے لیے ان کی جلد پر مختلف چیزیں لگانے سے گریز کریں ورنہ کیمیکل بچوں کی جلد پر ریش کی شکل میں اثرانداز ہوسکتے ہیں۔
بچوں کا فلیٹ یا سیدھا سر بنانا:
ڈاکٹر معصومہ کہتی ہیں پاکستان میں فلیٹ سر بنانے کا رواج بہت عام ہے اور اسے اچھا سر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم دماغ کی شیپ دیکھیں تو دماغ کا ایک حصہ سر کی پچھلی طرف موجود ہوتا ہے جسے دبا کر سخت سطح پر رکھا جاتا ہے تاکہ سر کو فلیٹ کیا جاسکے۔
ان کے مطابق دماغ ایڈجسٹ تو کرلیتا ہے لیکن اس سے نہ صرف کان کی ساخت تبدیل ہو سکتی ہے بلکہ بچوں کی ذہنی نشونما میں کچھ کمی رہنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ تو اگر ان کا سر پیچھے سے گول بھی ہے تو یہ نارمل بات ہے۔
انھوں نے کہا کہ ٹائٹ ٹوپی پہنانے کا نقصان یہ ہے کہ اس سے بچوں کے سر کا سائز چھوٹا رہنے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔
نومولود بچوں کے بال اتارنا:
ڈاکٹر معصومہ کہتی ہیں کہ بہت سے بچوں کے جسم پر بالخصوص پری میچور یا وقت سے پہلے پیدا ہونے کی صورت میں کافی بال ہو سکتے ہیں لیکن بچوں کے جسم سے آٹے کی لوئی یا بیبی ویکس کے ذریعے بال اتار کر بچے کو تکلیف پہنچانے کی ضرورت نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کیونکہ جسم پر بالوں کا تعین بچے کی جینیات کرتی ہیں یعنی اگر ماں باپ کے جسم پر زیادہ بال نہیں ہیں تو زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ بچے کے جسم پر بال بھی ایک سال تک پہنچنے کے بعد کم ہو جائیں۔
بچوں کی ناک دبا کر پتلی کرنا:
ڈاکٹر معصومہ کے مطابق بچوں کی ہڈیاں، خاص طور پر ناک کی ہڈی بہت نرم اور نازک ہوتی ہے۔ ناک کو دبانے سے ہڈی کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔
گھنے بالوں کے لیے بچوں کا سر شیو کروانا:
ڈاکٹر معصومہ کہتی ہیں کہ اگر ماں باپ کے بال اچھے ہیں تو سائنس یہی کہتی ہے کہ بچوں کے بال اچھے ہونے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ بچوں کے اچھے بال عوماً ایک سال کے بعد ہی آنا شروع ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر کسی بچے کا سر ایک سال سے پہلے خالی بھی ہو تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
وزن بڑھانے کے لئے 6 ماہ سے کم بچوں کو روٹی، انڈے وغیرہ کھلانا:
چھ ماہ تک بچوں کو صرف ماں کا دودھ دینا چاہئے اور گائے یا بکری کا تازہ دودھ یا انڈے وغیرہ کسی صورت نہیں دینا چاہئے کیونکہ اس سے بچوں میں الرجی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر معصومہ کے مطابق بچوں کے لیے ماں کا دودھ کافی ہوتا ہے۔ اس کے بعد کم مقدار میں چاول یا پھل، سبزی دی جا سکتی ہے۔
بچوں کا مساج کرنا چاہئے:
تو نومولود بچوں کے لئے کوئی ٹوٹکا مفید بھی ہے؟
جی ہاں۔ ہلکے ہاتھوں کے ساتھ بچوں کی مالش کی جاسکتی ہے۔ اس کے لئے ڈاکٹر معصومہ زیتون کا تیل استعمال کرنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ ان کے مطابق مساج کرنے سے بچہ پُرسکون محسوس کرے گا۔
No comments:
Post a Comment