Tuesday 9 July 2019

سپر پاور کون؟ اراکین یا شیاطین؟

سپر پاور کون؟ اراکین یا شیاطین؟

ایک بار شیطان کی مدرسے کے ایک ٹرسٹی سے ملاقات ہوگئی،
بات چیت کے دوران دونوں اس بات پر لڑ پڑے کہ سپر پاور کون؟
شیاطین یا اراکین،
شیطان نے کہا:
 میں نے ابو البشر آدم (علیہ السلام) کو دھوکہ دے کر جنت سے نکلوادیا یہ ہے میری طاقت،
ٹرسٹی نے کہا:
 ہم بھی نائبین رسول (علماء) کو پروپیگنڈا کرکے مدرسہ سے نکال دیتے ہیں، اس میں کون سی بڑی بات ہے،
شیطان نے کہا:
میں انسانوں کو پریشان کرتا ہوں ورغلاتا ہوں، بہکاتا ہوں.
ٹرسٹی نے کہا:
میں علماء کو پریشان کرتا ہوں، کبھی تنخواہ کاٹ کر، کھبی کاہلی کا الزام لگاکر،
اور سب سے بڑی بات میں اتنی تنخواہ ہی نہیں دیتا ہوں وہ کسی لمحہ خوش رہیں،
ٹرسٹی نے کہا: ابے شیطان تُو، تو سلادیتا ہے کبھی کبھار آرام سے،
ہم تو سکون سے سونے بھی نہیں دیتے.
شیطان نے کہا:
ایک مولوی کے پیچھے ہم ستر شیطان لگے رہتے ہیں.
ٹرسٹی: پکڑی گئی نہ تمہاری کمزوری تم ستر شیطان ایک مولوی کے پیچھے ارے کمزورو ڈوب مرو،
ارے ہم میں کا ایک ٹرسٹی ستر مولویوں کو پریشان کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے.
شیطان:
خاموش ہو گیا اس کے سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دے.
ٹرسٹی:
پاجامہ اٹھاکر ہنستے ہوئے خوشی سے ناچنے لگا، اس کے ادارے کے مولوی صاحب نے اسے دیکھ کر ناچنے سے منع فرمایا،
ٹرسٹی نے کہا تم لوگ مجھے منع کروگے ارے میں تم سے زیادہ جانکار ہوں، میں نے شیطان کو مات دی ہے.
اور سنو! آج سے ہمارے ادارے کو تمہاری ضرورت نہیں تمہیں بڑے لوگوں (اراکین) سے بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے ابھی اپنا سامان اٹھاؤ اور ادارے سے باہر نکل جاؤ 
بیچارے مولوی صاحب  اپنا سامان لےکر گیٹ سے باہر نکلتے وقت یہ ارادہ کرلئے کہ اب میرے ہونے والے بچہ کو مولوی نہیں بناؤں گا تاکہ اسے یہ غیر معقول تنخواہ کے ساتھ ایسی ذلت نہ اٹھانی پڑھے
ادھر شیطان یہ سب دیکھ رہا وہ ٹرسٹی کے سامنے گرگیا اور کہنے لگا 
مان گئے بوس آپ کو یقینا آپ ہی ہم سے اعلی ہو
ہم تو بچہ کے پیدا ہونے کے بعد اسے دینی تعلیم سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں مگر آپ نے تو کمال ہی کردیا. پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کی سیٹنگ کردی؟ واہ مان گئے بوس مان گئے
(یہ تحریر ظالم وجابر، جاہل، فتین، نکمے، اراکین کے لیے ہے)
 جو لوگ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دینی کام کرتے ہیں انہیں میرا سلام۔
------------------------------------------------
علماء کا مقام امت میں نائبین انبیاء کا ہے۔ علماء انبیاء کے وارث ہیں یہ وراثت علمی ہے۔ ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا طبقہ علماء کی شان میں گستاخی کرنا اپنا مقصد سمجھتا ہے۔ کچھ طبقات جان بوجھ کر اور سمجھ رکھتے ہوئے یہ لعن و طعن کرتے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ انجانے میں اور ناسمجھی کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ علماء اور صلحاء کی شان میں گستاخی کرنا، ان کی اہانت کرنا، ان کا مذاق اڑانا اور تحقیر کرنا یہ سب انتہائی نقصان کا باعث ہے ان باتوں سے ایمان جانے کا خطرہ ہے۔ غیر سیاسی علماء کے تو اکثر لوگ معتقد ہوتے ہیں ان کی تعریفیں کرتے ہیں لیکن سیاسی علماء جو سیاست میں حصہ لیتے ہیں ان کے بارے میں بیباک لہجہ اپنانا ہمارا شیوہ بن چکا ہے کیونکہ ان کی رائے ہماری رائے سے مختلف ہوتی ہے یا کچھ جماعتوں کی یہ خصلت و جبلت ہے کہ ان جماعتوں میں کام کرنے والوں کا ذہن ہی بغض علماء پر بنایا جاتا ہے ان کی مجلسوں اور محفلوں میں سوائے علماء کی غیبت کے باقی کچھ نہیں ملتا۔
ایک مسلمان کے لیے یہ باتیں تعجب خیز ہیں اور ہلاکت کا سبب ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ وبا عام ہے اپنے سوچ اور نظریہ سے متصادم اگر کوئی عالم ہو تو عوام اس کی عزت افزائی اس انداز میں کرتی ہے کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ بلکہ بعض تو اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ سنت رسول ( داڑھی) کا مذاق اڑانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ علماء کی توہین اور بدنامی کے لیے مختلف بے دین دانشوروں کے اقوال اور شاعروں کے اشعاربڑے فخر سے پیش کیے جاتے ہیں۔
ان سب باتوں کو مد نظر اور لوگوں کی رہنمائی کے لیے اس مضمون میں چند احادیث جمع کی ہیں۔ جن کی روشنی میں ہم اپنی اصلاح کرسکتے ہیں۔ بھٹکے ہووں کو راستہ مل سکتا ہے، پھسلے ہوئے سنبھل سکتے ہیں، راہ سے ہٹے ہوئے راہ پاسکتے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے قرآن و احادیث سے بڑی رہنمائی کسی اور کتاب میں نہیں۔ لہذا ہمیں ان احادیث کی روشنی میں اپنی سمت بدلنی چاہیے اور گزشتہ گناہوں پر توبہ کرکے آئیندہ احتیاط سے چلنا چاہیے۔ اختلاف ضرور رکھیں لیکن تحقیر نہ کریں، کم نظر سے نہ دیکھیں، اور علماء سے محبت کرنے والے بن جائیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تو یا عالم بن یا طالب علم یا علم کا سننے والا یا (علم اور علماء) سے محبت رکھنے والا۔ پانچویں قسم میں داخل نہ ہونا ورنہ ہلاک ہو جائے گا۔ 
حافظ ابن عبد البر فرماتےہیں کی پانچویں قسم سے مراد علماء کی دشمنی اور ان سے بغض رکھنا“۔ (مقاصد حسنہ جامع) اب ذرا غور کریں کہ ہم ان پانچ اقسام میں سے کس قسم میں داخل ہیں۔
ایک حدیث میں وارد ہے کہ ”حاملین قرآن (علماء) اللہ کے ولی ہیں۔ جو شخص ان سے دشمنی کرتا ہے وہ اللہ سے دشمنی کرتا ہے اور جو ان سے دوستی کرتا ہے وہ اللہ سے دوستی کرتا ہے“۔ 
اب سوچیں: علماء سے دشمنی کرنے والا اللہ سے دشمنی کررہا ہے تو اللہ سے دشمنی والا ہلاک ہی ہوگا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تو عالم بن یا طالب علم اور اگر دونوں نہ بن سکے تو علماء سے محبت رکھنا ان سے بغض نہ رکھنا۔ (مجمع) 
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی فقیہ (عالم) کو اذیت پہنچائے اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچائی اور جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اذیت پہنچائے اسں نے اللہ جل جلالہ کو اذیت پہنچائی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ وہ شخص میری امت میں سے نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے عالم کی قدر نہ کرے۔ 
(ترغیب)
اس ارشاد نبوی کے بعد علماء کو علی العموم گالیاں دینے والے برا بھلا کہنے والے اپنے کو امت محمدیہ میں شمار کرتے رہیں لیکن صاحب امت ان ک اپنی امت میں شمار کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے من اللہ جل جلالہ ارشاد فرماتے ہیں: ”جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے، میری طرف سے اس کو اعلان جنگ ہے“۔ (مشکوتہ و بخاری)
ایک حدیث میں آیا ہے، جو میرے کسی ولی کی اہانت کرتا ہے وہ میرے ساتھ مقابلہ کے لیے سامنے آتا یے۔ (فتح الباری) بعض روایتوں میں وارد ہے جس شخص نے میرے کسی ولی کو ستایا، وہ میرے ساتھ لڑائی تک اتر آیا۔ (فتح الباری)۔
ائمہ نے کہا ہے کہ گناہوں میں کوئی گناہ بھی ایسا نہیں ہے جس کے کرنے والے کو اللہ جل شانہ نے اپنے ساتھ لڑائی سے تعبیر فرمایا ہے بجز اس گناہ (اہانت علماء) کے اور سود کھانے کے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ان دونوں کا گناہ بہت ہی زیادہ بڑھا ہوا ہے اور ان لوگوں کے سوئہ خاتمہ (برا خاتمہ) کا سخت اندیشہ ہے۔ 
(مرقات شرح مرقات)۔ صاحب مظاہر حق نے بھی لکھا ہے کہ اللہ سے بندہ کخ لڑائی دلالت کرتی ہے خاتمہ بد ہونے پر۔ یہاں اللہ کے ولی سے مراد علماء ہی ہیں۔ خطیب بغدادی نے حضرت امام ابو حنیفہ اور امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ اگر فقہاء (علماء) اللہ کے ولی نہیں ہیں تو پھر اللہ کا کوئی ولی ہے ہی نہیں۔
اللہ ہم سب کو علماء اکرام کی محبت قربت عطاء فرمائے اور دین کی سمجھ عطا فرمائے- جزاکم اللہ خیرا
-----------------------------
فقہ حنفی میں اوصاف امامت 
امام وہ بنے جو اچھے خلق والا پھر وہ جو خوبصورت ہو پھر وہ جو بڑے حسب نسب والا ہو پھر وہ جو اچھی آواز والا ہو پھر وہ جو خوبصورت بیوی والا ہو پھر وہ جو زیادہ مال دار ہو پھر وہ جو بڑے مرتبے والا ہو پھر وہ جو نظیف کپڑوں والا ہو پھر وہ جو بڑے سر والا اور چھوٹے عضو والا ہو۔
ثم الاحسن خلقا ثم الاحسن وجہا ثم الاشرف نسبا، ثم الاحسن صوتا، ثم الاحسن زوجۃ، ثم الاکثر مالا، ثم الاکثر جاہا، ثم الانطف ثوبا، ثم الاکبر رأسا والاصغر عضوا
رد المحتار: 1/375)
یہ چیزیں اوصاف احقیت امامت ہیں، انہیں شرائط امامت کا عنوان دینا (جیساکہ شرپسندوں کا وطیرہ ہے ) دجل وفریب اور علمی خیانت ہے ۔
حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
ان سرکم ان تقبل صلاتکم فلیؤمکم خیارکم فانہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم
طبرانی کبیر ج20 ص328، دار قطنی، مستدرک حاکم، مرقاۃ ج3 ص196
اگر تمہیں اچھا لگتا ہے کہ تمہاری نماز قبول ہو تو چاہیے کہ تمہاری امامت وہ لوگ کریں جو تم میں سے بہتر ہوں کیونکہ امام تمہارے نمائندے ہوتے ہیں تمہارے اور خدا کے درمیان۔
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعا لی عنہما حضرت محمد علیہ الصلوۃ والسلام سے روایت کرتے ہیں: اجعلوا ائمتکم خیارکم فانہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم
سنن الکبریٰ ج3 ص90
اپنے امام اپنے سے بہترین لوگوں کو بناؤ کیونکہ امام تمہارے نمائندے ہوتے ہیں تمہارے اور تمہارے خدا کے درمیان۔
قارئین کرام! اس بات سے ہمیں انکار نہیں کہ حضرات محدثین کرام نے ان دونوں روایتوں کی صحت میں کچھ کلام کیا ہے لیکن یہ بات بھی قابل انکار نہیں کہ محدثین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ضعیف حدیث فضائل میں قابل حجت ہے۔
شرح النقایہ ج1 ص9، مستدرک ج1 ص490، فتح المغیث ص120، فتاویٰ لابن تیمیہ ج1 ص39، فتاویٰ نذیریہ ج1 ص265
ان احادیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام اسے بنایا جائے جو سب سے بہتر ہو اب بہترین لوگ کون سے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
احقیت امامت کے لیے پہلی صفت
حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
خیارکم خیارکم لنسائہم
مشکوٰۃ ج2 ص289
تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے حق میں بہتر ہو۔
شریعت مطہرہ میں تو کالے گورے خوبصورت اور بدصورت کا تو کوئی امتیار نہیں ہے لیکن دل غیر اختیاری طور پر خوبصورت بیوی کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور یہ بھی تجربہ شدہ بات ہے کہ جس کی بیوی خوبصورت ہو عام طور پر وہ اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ مومن بندہ اﷲ تعالیٰ کے تقویٰ کے بعد جو سب سے بہتر چیز اپنے لیے پسند کرتا ہے وہ نیک بخت بیوی ہے۔
ان امرہا اطاعۃ وان نظر الیہا سرۃ
مشکوٰۃ ج2 ص268
اگر اس کو کوئی حکم دیتا ہے تو وہ اس کی تعمیل کرتی ہے جب وہ شوہر) اس کی طرف دیکھتا ہے تو وہ اس کا دل خوش کرتی ہے۔ ملا علی قاری اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں
”ای جعلتہ مسرورا بحسن صورتھا و سیرتھا
مرقاۃ ج2 ص274
یعنی اگر شوہر اس عورت کو دیکھے تو یہ عورت اپنے صورت و سیرت کے حسن سے اسے خوش کرتی ہے۔ اسی طرح جس آدمی کی بیوی خوبصورت ہو وہ عموماً بد نظری، بے حیائی اور فحش کاموں سے محفوظ رہتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے بیوی کو شوہر کے لیے لباس ٹھہرایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نکاح کرنا نظر کو بہت چھپاتا ہے اور شرم گاہ کو بہت محفوظ رکھتا ہے۔
بخاری و مسلم و مشکوٰۃ ج2 ص267
یعنی جو شادی شدہ ہو تو اس کی اجنبی عورت کی طرف نظر مائل نہیں ہوتی اور حرام کاری سے بچتا ہے مشفق انسانیت پیغمبر اسلام علیہ الصلوۃ والسلام نے بے حیائی اور حرام کاری سے روکنے کا ذریعہ نکاح ٹھہرایا ہے اب آپ خود سوچیے کہ جس کی بیوی خوبصورت ہو تو کیا وہ بطریق اولیٰ حرام کاری سے نہیں رکے گا؟ فقہاء کی ان ساری باتوں پر نظر تھی اس لیے کہا کہ اگر کسی کی بیوی خوبصورت ہو تو اسے امام بنایا جائے گا۔ اور یہ بات کہ امام کی بیوی کیسے معلوم کی جائے تو ہمسایہ اور رشتہ دار لوگوں کو اپنی عورتوں کے ذریعے معلوم ہو جاتا ہے جیسا کہ کوئی آدمی نکاح کرتا ہے تو لڑکی کی حالت اپنی عورتوں سے معلوم کرتا ہے۔
احقیت امامت کے لیے دوسری صفت
رہی یہ بات کہ امام اسے بنایا جائے جس کا سر بڑا ہو دوسرے اعضا چھوٹے ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ سر کا بڑا ہوتا دوسرے اعضاء کا مناسب ہونا کمال عقل کی دلیل ہے اور یہ بات بھی تجربہ سے ثابت ہے کہ جس کا سر بڑا ہو دوسرے اعضاء چھوٹے ہوں تو وہ نہایت سمجھ دار ہوتا ہے اور چھوٹے سر والا کم عقل والا ہوتا ہے اور اس بات سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ عقل مند کم عقل والے سے بہتر ہوتا ہے اور حدیث میں بھی بہتر شخص کو امام بنانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ قارئین کرام غور فرمائیے کہ فقہ حنفی کا یہ مسئلہ حدیث کے مخالف ہے یا موافق؟
پہر ”عضو“ سے آلہ تناسل مراد لینا  بہتان عظیم  ہے:
چنانچہ علامہ ابن عابدین شامی حنفی نے خود اس بات کی تردید کی ہے کہ عضو سے مراد آلہ تناسل ہے۔
چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
وفی حاشیۃ ابن السعود ونقل عن بعضہم فی ہذا المقام مالا یلیق ان یذکر فضلا عن ان یکتب وکانہ یشیر الی ما قیل ان المراد بالعضو الذکر
رد المحتار ج1 ص412
ابو السعود کے حاشیہ میں اس مقام میں بعض سے ایسی بات منقول ہے جو اس قابل نہیں کہ اسے ذکر کیا جائے چہ جائے کہ لکھا جائے گویا اس طرف اشارہ ہے جو کہا گیا ہے کہ مراد عضو سے آلہ تناسل ہے۔
اور منحۃ الخالق ج1 ص348 پر بھی اس بات کی تردید کی ہے کہ عضو سے مراد آلہ تناسل ہے۔
غور فرما لیجیے کہ فقہائے احناف یہ کہہ رہے ہیں کہ عضو سے آلہ تناسل مراد نہیں بلکہ بدن کے اندام مراد ہیں لیکن ہمارا مہربان اس بات پر ڈٹ کر کھڑا ہے کہ مراد عضو سے آلہ تناسل ہے۔ من چہ گویم و طب نور من چہ گوید والی بات ہے۔ دانش مندوں کا مقولہ ہے
کل اناء یترشح بما فیہ
ثانیاً بدن میں واحد عضو ناک بھی ہے شیر سرحد کو صرف آلہ تناسل کیوں نظر آیا؟ مشہور ہے کسی بھوکے سے کسی نے پوچھا کہ دو اور دو کتنے ہوگئے؟ کہا چار روٹیاں۔
عبارت بالا میں  عضو کو صیغہ مفرد کے ساتھ ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے جسم میں جو ایک سے زائد اعضاء ہیں کبھی کبھار بطور جنس واحد کا صیغہ بھی ان پر بولا جاتا ہے لیکن مراد واحد نہ ہو۔
جیسا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے
من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ
یہاں پر واحد کا صیغہ ہے لیکن مراد صرف ایک نہیں بلکہ دونوں ہاتھ مراد ہیں بقول نورستانی لفظ ید واحد کا صیغہ ہے تو دونوں ہاتھوں سے برائی کا روکنا حدیث کا خلاف ہو گا۔
اسی طرح حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ
یعنی مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ سے مسلمان محفوظ ہوں یہاں بھی لفظ واحد ہے لیکن نورستانی کے نزدیک یہ معنی بنتا ہے کہ جس کے ایک ہاتھ سے مسلمان محفوظ نہ ہوں تو وہ مسلمان نہیں ہے لیکن اگر دونوں ہاتھ کے ضرر سے محفوظ نہ ہوں تو مسلمان ہے۔
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے:
جعلت قرۃ عینی فی الصلاۃ
میری آنکھ ٹھنڈک نماز میں ہے۔
اب جناب کے نزدیک یہ مطلب ہو گا کہ نماز میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی صرف ایک آنکھ کی ٹھنڈک ہو گی دونوں کی نہیں یہی مطلب جناب نے ”اصغر عضوا“ سے لیا ہے کہ لفظ عضو واحد کا صیغہ ہے اور بدن میں واحد آلہ تناسل ہے تف ہو ایسی اہل حدیثیت پر لیکن یہ بات یا جان بوجھ کر کہہ رہا ہے یا ان میں جہالت بطریق اکمل پائی جاتی ہے۔
رابعاغیر مقلدین کے مایہ ناز عالم علامہ وحید الزمان کا احناف مذہب بیان کر کے لکھتے ہیں۔
وقال الاحناف… ثم الاکبر راسا والاصغر قدما
نزل الابرار ج2 ص96
احناف کہتے ہیں… پھر امام اسے بنایا جائے جس کا سر بڑا ہو قدم چھوٹے ہوں۔
یعنی عضو سے وہ مراد نہیں جو ان حضرات نے سمجھا ہے بلکہ قدم وغیرہ مراد ہیں۔
خامساً عضو بدن کے ایسے اندام کو کہتے ہیں جس میں ہڈی ہو اور آلہ تناسل میں تو ہڈی نہیں ہوتی۔ چنانچہ صاحب قاموس لکھتے ہیں:
1۔ والعضو بالضم والکسر کل لحم وافر بعظمہ
القاموس ج1 ص1720
عضو ضمہ اور کسرہ کے ساتھ ہر وہ گوشت جو ہڈی سے ملا ہوا ہو۔
2۔ وقیل ہو کل عظم وافر لحمہ وجمعہا اعضاء
لسان العرب ج5 ص68
کہا گیا ہے کہ عضو) ہر اس ہڈی کو کہتے ہیں جس سے گوشت ملا ہوا ہو اس کا جمع اعضاء ہے۔
3۔ کل عظم وافر من الجسم بلحمہ
المنجد عربی 512
جسم کی ہر وہ ہڈی جس سے گوشت ملا ہوا ہو۔
4۔ ولا یسمی القلب والکبد عضوا الا لنحو تغلیب ذکرہ ابن حجر فی شرح العباب۔
ھامش قاموس ج1 ص1720
دل اور جگر کو عضو نہیں کہا جاتا (کیونکہ اس میں ہڈی نہیں ہوتی) مگر تغلیبًا حافظ ابن حجر نے اسے شرح عباب میں ذکر کیا ہے۔
5۔ ہر گوشت جو ہڈی میں جڑا ہوا ہو۔
مفتاح القرآن 536
معلوم ہوا کہ ان حضرات کا عضو سے آلہ تناسل مراد لینا فقہائے احناف پر عظیم بہتا ن ہے اور یہ
توجیہ القول بما لا یرضی بہ قائلہ
اور مدعی سست گواہ چست والی بات ہے۔
ماخوذ تلاش حق ص31، 36، ترمیم و اضافہ کے ساتھ
جواب نمبر2:
صاحب در مختار نے امامت کا حق دار سب سے پہلے احکام نماز کو زیادہ جاننے والے کو اور اگر احکام صلاۃ کے علم میں سب برابر ہوں تو پھر نمبر دو اچھی تلاوت والے کو، پھر نمبر تین شبہات سے زیادہ بچنے والے کو اگر اس میں بھی برابر ہوں تو پھر معمر کو، پھر اچھے اخلاق والے کو، پھر زیادہ تہجد پڑھنے والے کو، پھر خاندانی خوبیوں والے کو، پھر نسبی شرافت رکھنے والے کو، پھر اچھی آواز والے کو، اگر ان تمام خصلتوں میں برابر ہوں تو پھر اسے جس کی بیوی خوبصورت ہے۔
کیونکہ خوبصورت بیوی کی وجہ سے یہ شخص اجنبی عورتوں سے تعلق نہیں رکھے گا اور زیادہ پاک دامن ہو گا اور علامہ شامی نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ بات ساتھیوں یا رشتہ داروں یا پڑوسیوں کے ذریعے معلوم ہو سکتی ہے۔ اس سے مراد یہ ہر گز نہیں کہ ہر آدمی اپنی بیوی کی صفات بیان کرے تاکہ اس کی بیوی کا خوبصورت ہونا معلوم ہو۔ غیر مقلدوں کو اگر اس پر اعتراض ہے تو اپنی خوبصورت بیویوں کو طلاق دے دیں اور یہ بات نزل الابرار میں وحید الزماں نے ثم الاحسن زوجۃ کے الفاظ سے صفحہ96 میں ذکر کی ہے۔
تو ہم یہ اعتراض عطائے تو بلقائے تو کہہ کر غیر مقلدین کو واپس کرتے ہیں اس کے بعد زیادہ مال دار، پھر زیادہ مرتبہ والے، پھر زیادہ صاف کپڑے والے کو امامت کا زیادہ حق دار قرار دیا ہے۔ اگر ان تمام صفات میں برابر ہوں تو پھر نزل الابرار کے قول کے مطابق بڑے سر اور چھوٹے قدموں والا زیادہ حق دار ہے جس کی بنا اس مشہور پنجابی مثل پر ہے۔
”سر وڈے سرداراں دے، پیر وڈے گنواراں دے“
یعنی سر کا بڑا ہونا سرداری کی علامت اور پاؤں کا بڑا ہونا گنوار پن کی علامت ہے۔ لیکن در مختار میں قدما کی جگہ الاصغر عضوا کے لفظ ہیں۔ عضو کا معنی جوڑ ہے۔ علامہ شامی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اعضاء متناسب ہوں، اس کے لیے سر کا بڑا ہونا اور دوسرے اعضاء کا چھوٹا ہونا یہ اس کے ترکیب مزاج کے خلل کی دلیل ہے جس کو عدم اعتدال عقل لازم ہے۔ تو خلاصہ یہ نکلا کہ امام معتدل عقل والا ہونا چاہیے۔
غیر مقلدین کو اگر یہ چیز اچھی نہیں لگتی تو ان کو پاگل امام مبارک ہوں۔ داؤد ارشد نے در مختار کی شرح کے جس صفحہ کا حوالہ دے کر یہ لکھا ہے کہ شارح فرماتے ہیں کہ مراد اس سے ذکر ہے یہ علامہ شامی پر جھوٹ ہے۔ علامہ شامی نے حاشیہ ابو سعود سے اس کی تردید نقل کی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
حاشیہ ابو سعود میں ہے کہ بعض لوگوں سے اس مقام میں وہ بات نقل کی گئی ہے جو ذکر کے لائق نہیں چہ جائے کہ اس کو کتاب میں لکھا جائے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ گویا ابوسعود اس بات کی طرف اشارہ کر رہےہیں جو بیان کی جاتی ہے کہ عضو سے مراد ذکر ہے۔
شامی ص558
تو شارح در مختار تو اس بات کی تردید کر رہے ہیں لیکن غیر مقلد نے اس تردید کی ہوئی بات کو شارح شامی کی طرف بحوالہ صفحہ منسوب کر دیا۔
بے حیاء باش !  ہر چہ خواہی کن!
تفصیل کے لئے دیکھیں: اعتراض نمبر21: شرائط امامت کا مسئلہ
--------------------------
https://saagartimes.blogspot.com/2019/07/blog-post_36.html


No comments:

Post a Comment