Monday 29 July 2019

کیا ایک لاکھ نماز کے ثواب کی بشارت پوری حدود حرم کو عام ہے؟

کیا ایک لاکھ نماز کے ثواب کی بشارت پوری حدود حرم کو عام ہے؟

سوال
جی مفتی صاحب السلام علیکم
میں علاقہ پالن پور سے افضل
حضرت ان دو مسئلوں کے جواب مطلوب تھے.
۱  کیا عزیزیہ کا حصہ حرم میں داخل ہے؟ عزیزیہ کی مسجد میں نماز کا ثواب مسجد حرام میں ثواب کے برابر ہوگا؟
۲  اور کیا کنکریاں ابھی سے کوئی جمع کرلے تو کوئی حرج لازم آئے گا؟
——————————-
الجواب وباللہ التوفیق:
محلہ عزیز یہ حدود حرم سے باہر ہے
ایک لاکھ ثواب ملنے کی جو روایت ہے:
صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ بِصَلَاةٍ وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِ الْقَبَائِلِ بِخَمْسٍ وَعِشْرِينَ صَلَاةً وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي يُجَمَّعُ فِيهِ بِخَمْسِ مِائَهِ صَلَاةٍ وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِي بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ وَصَلَاهٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ بِمِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ.
جو اپنے گھر میں نماز پڑھے اسے ایک نماز کا جو محلہ کی مسجد میں نماز پڑھے اسے پچیس نمازوں کا، جو جامع مسجد میں پڑھے اسے پانچ سو نمازوں کا، جو مسجد اقصیٰ اور میری مسجد میں نماز پڑھے اسے پچاس ہزا رکا اور جو مسجد حرام میں نماز پڑھے اسے ایک لاکھ نماز کا ثواب ملتا ہے۔
(ابن ماجہ، السنن، 1: 453، رقم: 1413، بيروت: دار الفکر)
تو راجح قول کے مطابق یہ بشارت مسجد حرام کی نماز کے ساتھ مختص ہے پورے حدود حرم کو عام نہیں
اگرچہ بعض علماء کا موقف عموم کا بھی ہے ! اس بابت دارالعلوم دیوبند کا ایک فتوی ملاحظہ ہو:
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1406-1403/N=2/1438
(۱، ۲): حضرت عبد اللہ بن الزیبر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مسجد حرام میں (فرض) نماز پڑھنے کی جو فضیلت آئی ہے، اس میں مسجد حرام کی مراد میں علمائے کرام کا اختلاف ہوا ہے، جمہور احناف کے نزدیک صحیح وراجح یہ ہے کہ اس فضیلت میں مسجد حرام سے مراد اس کا وہ حصہ ہے جو مسجد شرعی ہے، اس میں نماز با جماعت ہوتی ہے اور جنبی اور حائضہ وغیرہ کے لئے اس میں داخلہ شرعاً ممنوع ہے،اور مسجد بھرجانے کی صورت میں اسی کے حکم میں وہ حصہ بھی ہوگا جہاں تک لوگوں کی صفیں ہوں، اس فضیلت میں پورا حدود حرم شامل نہیں ہے؛ لہٰذا اگر کوئی شخص مسجد حرام کے علاوہ مکہ مکرمہ کی کسی اور مسجد میں یا گھر میں فرض نماز با جماعت پڑھتا ہے تو اس کا ثواب مسجد حرام کی نماز کے برابر نہ ہوگا، البتہ بعض روایات کی بنا پر نماز کی تخصیص کے بغیر مطلق نیکی کا ثواب حدود حرم میں ایک لاکھ کے برابر ہوتا ہے (غنیة الناسک قدیم ص ۷۶) ،اور محب الدین طبری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مسجد حرام میں نماز کا ثواب عام نیکیوں سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے (البحر العمیق ص ۱۵۲)۔ اور علامہ شامی رحمہ اللہ نے علامہ بیری کی شرح اشباہ کے حوالے سے جو قول نقل فرمایا ہے وہ جمہور احناف کے نزدیک محض مشہور ہے ، صحیح وراجح اور محقق قول نہیں ہے؛ اسی لیے صاحب غنیة الناسک نے اس کی تردید فرمائی ہے، چناں چہ فرماتے ہیں: فما في رد المحتار :”وذکر البیري في شرح الأشباہ أن المشھور من أصحابنا أن التضعیف یعم جمیع مکة بل جمیع حرمھا الذي یحرم صیدہ کما صححہ النووي“ لیس کما ینبغي، نعم مضاعفة الحسنة مطلقاً بمائة ألف تعم الحرم کلہ الخ(غنیة الناسک قدیم ص ۷۶)، مزید تفصیل کے لیے اس سلسلہ میں دار العلوم دیوبند کا ایک مفصل ومدلل فتوی (۰۵ ۱۴/ن، ۱۴۰۲/آ ۱۴۳۷ھ) منسلک ہے، اسے ملاحظہ فرمالیں۔
(محرر : مفتی محمد نعمان سیتا پوری)
-----------------
کنکریاں چننے کی کوئی جگہ مخصوص نہیں ہے ، جمرات کا اطراف چھوڑ کے منی مزدلفہ مکہ اور عرفات کہیں سے بھی چن سکتے ہیں اور کبھی بھی چن سکتے ہیں ۔ دس گیارہ بارہ ذی الحجہ تین دنوں کی رمی کے لئے ہر حاجی کو انچاس کنکریاں مارنا ضروری ہے
تیرہ ذی الحجہ کو اکیس کنکریاں مارنا واجب نہیں ؛ بلکہ اختیاری ہے
ہاں یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی کے لئے مزدلفہ یا اس کے راستے سے سات کنکریاں چننا مستحب ہے:
ویجوز أخذہا من کل موضع أي بلا کراہۃ إلا من عند الجمرۃ ، أي فإنہ مکروہ لأن جمراتہا الموجودۃ علامۃ أنہا المردودۃ ، فإن المقبولۃ منہا ترفع لتثقیل میزان صاحبہا ، إلا أنہ لو فعل ذلک جاز وکرہ ۔۔۔۔۔ والمسجد أي مسجد الخیف وغیرہ فإن حصی المسجد صار محترمًا یکرہ إخراجہ خصوصًا بقصد ابتذالہ ومکان نجس فإن فعل جاز وکرہ ، شرح لباب المناسک ص/۲۴۵، فصل في رفع الحصی ، ط؛ بیروت ، غنیۃ الناسک :ص/۹۰، فصل في إضافۃ من المشعر ودفع الحصی من مزدلفۃ)
في ’’نور الإیضاح‘‘: ویستحب أخذ الجمار من المزدلفۃ أو من الطریق ، ویکرہ من الذي عند الجمرۃ ۔ (ص/۱۷۷، فصل في کیفیۃ ترکیب أفعال الحج)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

No comments:

Post a Comment