Tuesday 9 July 2019

اللہ کے رسول ﷺ بحیثیت داماد

اللہ کے رسول ﷺ بحیثیت داماد
    
اللہ تعالیٰ نے حق وصول کرنے کے بجائے حق ادا کرنے کی تاکید کی ہے ،حقوق کو وصول کرنے کی بجائے حق کو ادا کرنے کا حکم دیا ہے
بخا ری: باب الطیب للجمع، صحیح ابن حبان میں ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے غار ثور میں جب نظر اٹھاکر دیکھا تو آپؓ کو پتہ چلا کہ قدموں کے نشانات کی تتبع کرتے ہوئے مشرکین مکہ یہاں تک پہنچ چکے ہیں۔ گھبرا کر حضرت ابوبکرؓ نے کہا: اے اللہ کے سول ﷺ! ہم لوگ غار میں ہیں، اگر اُن میں سے کسی نے اپنے قدم کے نیچے کی طرف دیکھ لیا تو ہم پکڑے جائینگے، اللہ کے رسول ﷺ نے بڑے ہی اطمینان کے ساتھ فرمایا: ’’اے ابوبکر! تمہارا کیا خیا ل ہے اُن 2 آدمیوں کے بارے میں جس کا تیسرا اللہ رب العالمین ہے۔‘‘ اور قرآنِ مقدس نے خود کہا: لا تحزن ان اللہ معنا ’’غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘ (التوبہ40)۔
نبی کریم ﷺ کا قول حضرت ابوبکر ؓکے تسلّی و تشفّی کے لئے تھا اور جب آپ ﷺ نے ہجر ت کا سفر شروع کیا تو آپ کی سالیٔ محترمہ حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓکے سلسلہ میں ابن سعد نے ذکر کیا ہے: حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کھانا تیار کرکے لے جایا کرتی تھیں، اور جب توشہ دان کا منھ باندھنا ہوا تو اپنی کمر کا پٹہ (کپڑا) پھاڑ کر 2 حصہ کردیے اور اس سے توشہ دان باندھ دیا، اور اس وجہ سے سیدہ اسماء کو ذات النطاقین کا لقب بھی ملا (الطبقات ابن سعد: ذکر الغار ولہجرہ الی المدینہ)۔
جلال الدین قاسمی فرماتے ہیںکہ عمرہ پر گیا تھا توجبل ثوربھی گیا۔ جب میں نے نگاہ اوپر اٹھائی تو میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے یہ سوچکر کہ ایک صنف نازک آپ ﷺ کی سالی سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کس طرح چھپ چھپا کر مکہ سے چل کر، وہ بھی پیدل ودشوار گزار راستوں کو عبور کرتے ہوئے، اس پہاڑ کے اوپر کیسے چڑھیں اور ٹفن کیسے پہنچادیا ... تو ہجرت کی راہ میں قربانیاں آپ ﷺکے سسرال والوں نے دیں۔ ایک طرف سسر ہے تو دوسری طرف سالی ہے۔ اور ایسا ہی حال حضرت مو سیٰ علیہ السلام کا بھی تھا کیونکہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور نبی ﷺ کی زندگی بہت حد تک ایک دوسرے کے امتیوں سے مشابہ ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی بے یار ومددگار مصر سے نکلنے پر مجبور ہوئے تھے۔ ہمارے نبی ﷺ بھی جب مکہ سے نکلے تو چاروں طرف خطرہ ہی خطرہ تھا۔ پکڑے جانے کا خطرہ ہے۔ تلواروں کے سایہ میں آپﷺ نے راستہ نکالا۔ اسی طریقہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بھی حال تھا۔
جیساکہ اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا: ’’اور جب مدین کی طرف متوجہ ہوئے تو کہنے لگے: مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھی راہ لے چلے گا۔‘‘ (القصص 22 )۔ یہی حال نبی کریم ﷺ کا بھی تھا۔ خوف کے عالم میں آپ ﷺنے ہجرت کا سفر شروع کیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے بھی خوف کی حالت میں مصر سے روانگی کی اور بے یار ومددگار جب شہر مدین میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حضرت شعیب علیہ السلام کے گھر پہنچادیا۔ حضرت شعیب ؑ نے اپنی بیٹی سے انکا نکاح فرمایا۔ وہاں ان کو لڑکی بھی مل گئی، یعنی بیوی مل گئی اور دوسرے پیٹ بھرنے کا ذریعہ بھی اللہ رب العالمین نے دے دیا، تو جب حضرت موسیٰ ؑ بے یارومددگار تھے تو اس وقت ان کے سسرال کے لوگوں نے ان کا ساتھ دیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے داماد ہیں۔ انہوں نے اللہ کے راستے میں کتنا مال خرچ کیا وہ ہم سے مخفی ہے۔
اس کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن مقدس میں جہاں بھی حقوق وفرائض کی آیت ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے حق کو وصول کرنے کے بجائے حق کو اداکرنے کی زیادہ تاکید کی ہے تاکہ کسی کے اوپر تمہارا حق ہو تو اس کو وصول کرلو، طریقہ کچھ بھی ہو،بلکہ حقوق کو وصول کرنے بجائے حق کو اداکرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد مبارک ہے: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں تاکید ی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچادو، اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کرو۔‘‘ (النساء58)۔ اللہ رب العالمین نے یہ نہیں کہا کہ اگر تمہارا حق کسی پر ہوتو جبراً وہ حق تم وصول کرلو۔طریقہ کچھ بھی ہو بلکہ حقوق کو اصول کرنے کی بجائے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا ہے۔ فرمایا: ’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانت والوں کو انکی امانتیں ادا کردو، قرابت داروں کو ان کا حق دیدو ۔‘‘ کہیں یہ نہیں کہا کہ اگر تمہارا حق کسی کے اوپر ہو تو جبرا ًوہ حق تم وصول کرلو، تو جب حقوق کی ادائیگی کی تاکید کی گئی ہے تو ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم نسبی رشتوں کی بھی حفاظت کریں اور جو لوگ نسبی رشتوں سے ہم سے جڑے ہوئے ہیں ان کے حقوق کا خیال رکھیں۔ ان کے بھی حقوق کا ہم پاس ولحاظ کریں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سلسلہ میں آپ کو معلوم ہوگا کہ رسولﷺ کی یکے بعد دیگرے 2 بیٹیاں انکے عقد میں تھیں، یعنی سیدہ ام کلثوم اور سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہما۔ آپ ﷺ نے ارشادفرمایا: ’’اگر میرے پاس 10 بیٹیا ں ہوتیں تو یکے بعد دیگرے (حضرت) عثمان کی نکاح میں دیدیتا۔‘‘
آپ ﷺ کی اس بات سے کیا پتہ چلا ؟ پتہ یہ چلا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی بیویوں کے تعلق سے بہت ہی عظیم ہستی تھے۔ آپ سیرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پڑھئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہی وہ داماد ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی دونوں بیٹیوں کے سلسلہ میں کبھی کوئی شکایت محمد ﷺ کے یہاں لے کر نہیں آئے۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ داماد کو سسر کی بیٹی یعنی اپنی بیوی کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرنا چاہئے۔ حتی الامکان وہ یہ کوسش کرے کہ اسکی ذات سے بیوی کے واسطہ سے سسر یا ساس کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ایک داما د کو اسی طرح سے ہونا چاہئے۔ ایک بارسیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا جو ایک یہودی حیی بنت اخطب کی بیٹی ہیں اور آپ ﷺ کی بیوی بھی ہیں، جنگ خیبر کے موقع پر آپ ﷺ نے ان سے شادی فرمائی۔ ان کے کمرے میں آپ ﷺ تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہ زار وقطار رورہی ہیں۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ صفیہ کیوں رورہی ہو؟ کہا کہ زینب جو آپ کی بیوی ہیں وہ کہہ رہی تھیں کہ ہمارا تعلق نبی کریم ﷺ سے نسبی ہے، لہذا فضیلت میں ہم تم سے بڑھ کر ہیں۔ تم فضیلت میں ہمارے برابر نہیں ہوسکتیں اور ہم سے بڑھ نہیں سکتیں۔ فورا ًنبی کریم ﷺ نے ان سے یہ کہا کہ: ارے !تم نے یہ کیوں نہیں کہہ دیا کہ تم مجھ سے فضیلت میں کیسے بڑھ کر ہوسکتی ہو جبکہ میرا باپ ہارون اور میرے چچا موسیٰ اور میرے شوہر حضرت محمد ﷺ ہیں۔ اس واقعہ پر ذرا غور فرمائیے! تو ہم کو ایک معاشرتی زندگی کا عجیب وغریب نکتہ اور سبق ملتا ہے۔ وہ نکتہ اور سبق یہ ہے کہ ایک طرف تو رسول اللہ ﷺ اپنی بیوی کے جذبات کا احترام کر رہے ہیں،تو دوسری طرف ان کے خاندان کے لوگوں کی تکریم فرمارہے ہیں تاکہ بیوی کو یہ احساس ہو کہ اس گھر میں شوہر کی نظر میں میری بڑی عزت ہے، بڑی تکریم ہے اور اس گھر کے اندر میرے والدین اور میرے گھر والوں کی بھی بڑی عزت ہے۔ یہ اس لئے کہ انتہائی قلبی مسرت اور انتہائی قلبی راحت کا باعث ہے۔ آپﷺ نے خود سیدہ صفیہ کی تکریم فرمائی کہ تم فضیلت میں ان سے بڑھ کر کیسے ہوسکتی ہو، اور دوسرے آپکے خاندان والوں کی آپ ﷺنے اس طرح تکریم فرمائی کہ تمہارا باپ ہارون ؑ اور تمہارے چچا موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم میں سسرالی رشتے سے جو منسلک ہیں ان کا ادب واحترام کریں۔ حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا جو نبی کریم ﷺ کی ایک زوجۂ محترمہ ہیں، ایک بار انہوں نے ایک لونڈی آزاد کی۔
مسلم شریف کی روایت ہے: نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم نے لونڈی آزاد کردی، تم نے اپنے ماموں کو دے دیا ہوتا،لیکن بخاری شریف کی روایت میں" اختک" کا لفظ ہے، کہ اگر تم نے اس لونڈی کو آزاد کرنے کی بجائے اپنی بہن کو دیدیتیں اور تمہاری بہن اس سے فائد ہ اٹھاتیں تو تمہار ااجر بڑھ جا تا۔ قارئین کرام آپ دیکھ رہے ہیں ! اپنی سالی کو وہ لونڈی دینے کی بات محمد ﷺ کر رہے ہیں۔ اگر اس لونڈی کو آزاد کرنے کی بجائے میری سالی یعنی تم اپنی بہن کو دیدیتیں تو تمہارا اجر بڑھ جاتا۔ اس سے یہ پتہ چلا کہ نبی کریم ﷺ سسرالی رشتہ کا کس قدر خیال رکھتے تھے۔ حضرت جویریہ بنت حارث ،یہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں۔ غزوہ بنی مصطلق میںجب بنو مصطلق والو ں کو شکست ہوئی تو خود وہ کتابت لے کر آئیں، نبی ﷺ نے ان سے شادی فرمائی،او ر جیسے ہی آپﷺ نے ان سے شادی فرمائی آپﷺ نے اعلان کردیاکہ غزوہ بنی مصطلق کے جتنے لوگ جویریہ کے خاندان و قبیلہ کے ہیں، تمام قیدی آزاد کردیئے جائیں۔ آپ ﷺ نے ان کے قبیلہ کے تمام قیدیوں کو آزاد کردیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ میں نے جویریہ سے بہتر اپنی قوم کے لئے اس سے زیادہ بابرکت ہستی نہیں دیکھی کہ ان کی وجہ سے ان کے قبیلے کے لوگوں کو اللہ کے رسول ﷺ نے آزادی دیدی۔
یہ تو تھا شوہر کا معاملہ۔ داماد کا معاملہ کہ داماد اپنے سسرال والوں کے ساتھ کیا سلوک کرے۔ سسرال والوں کا کیا فریضہ بنتا ہے کہ داماد کے تعلق سے اس سلسلہ میں بھی نبی کریم ﷺ کی سیرت اٹھا کر دیکھئے۔ اسلام میں اس رشتے کی بنیاد انتہائی پائیدار ہے۔ اس کے لئے مرد وعورت دونوں پرذمہ داریاں اور ایک دوسرے پر دونوں کے جائز حقوق متعین کئے گئے ہیں جن سے خاندان کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے اور معاشرہ میں امن وسکون کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ گھر میں بیوی اور اولادایک امانت ہے۔ اسلامی خطوط پر ان کی تربیت کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ کل قیامت کے دن آپ کو اپنے ماتحتوں کے متعلق جواب دینا ہے اس لئے اپنے آپ کو ایک ذمہ دار اوردیندارشوہر بنائیں، اپنی بیوی کو پاکباز اور تقویٰ شعار بیوی بنائیں، اپنے بچوں کوایک نیک اورفرمانبردار اولاد بنائیں اوراپنے گھرکو ایک مثالی گھر بنائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بخشے۔ آمین یارب العالمین۔
محمد عباس انصاری۔ نئی دہلی 
----------------------------
https://saagartimes.blogspot.com/2019/07/2-40-2.html


No comments:

Post a Comment