Sunday 13 January 2019

خواتین کی آواز کا پردہ

خواتین کی آواز کا پردہ
سوال: پردہ کی شرعی حد کیا ہے؟ آواز اور نام کا بھی پردہ ہے؟ اگر ہاں! پھر قریبی رشتہ داروں سے کس طرح کیا جائے؟ مہربانی کرکے بتائیں۔
جواب:
صحیح قول کے مطابق عورت کی آواز حجاب میں داخل نہیں ہے، لیکن بلاضرورت اجنبیہ عورت کے کلام کو سننا اور اس سے بات کرنا ممنوع وناجائز ہے، اگر بات کرنے کی ضرورت پیش آئے تو پردے میں رہ کر، لب ولہجہ میں سختی ودرشتی کے ساتھ بات کرنا چاہئے، نیز عورتوں کے لئے بھی جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی آواز بلاضرورت کسی اجنبی مرد کو سنائیں اور پردے کے حکم میں قریبی غیر محرم رشتہ دار بھی داخل ہیں، بلکہ غیرمحرم قریبی رشتے دار مثلاً بھابی وغیرہ کے سلسلے میں حدیث میں صراحتاً پردے کا تاکیدی حکم وارد ہوا ہے کہ ان سے موت کی طرح بچو؛ لہٰذا اگر اللہ نے وسعت دے رکھی ہے تو اصل شریعت کا منشاء یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے اہل وعیال کے ساتھ الگ مکان میں رہے، لیکن اگر کسی وجہ سے ایک ہی مکان میں چند ایسے قریبی غیر محرم لوگ رہتے ہیں جن کا آپس میں شرعاً پردہ کرنا ضروری ہے، تو فقہاء نے اس وقت صرف اتنی گنجائش دی ہے کہ مثل اجنبیہ عورت کے ہر وقت گھر میں نقاب اوڑھ کر بیٹھنا تو لازم نہیں؛ البتہ خلوت وتنہائی، باہم بے تکلفی سے باتیں کرنے اور قصداً چہرہ کھول کر سامنے آنے سے احتیاط ضروری ہے، اگر سامنے آنے کی ضرورت پڑے تو کپڑے سے چہرہ ڈھانک لیاجائے ۔ عن عقبة بن عامر رضي الله عنه أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: ایاکم والدخول علی النساء، فقال رجل من الأنصار یارسول الله أفرأیت الحموقال: الحمو الموت (البخاری: باب لایخلون رجل بامرأة الی ذومحرم،رقم:۵۲۳۲) وزادابن وہب فی روایة عن مسلم سمعتُ اللیثَ یقول: الحمرأخوالزوج وماأشبہ من أقارب الزوج ابن العم ونحوہ وقال الترمذی:یقال: وہو أخوالزوج ، کرہ لہ أن یخلوبہا قال: ومعنی الحدیث علی نحوماروی: لا یخلون رجل بامرأة فان ثالثہا الشیطان(الترمذی ، رقم: ۱۱۷۱) وفی مرقاةالمفاتیح:قولہ “ایاکم والدخول علی النساء” أی غیر المحرمات علی طریق التخلیة أوعلی وجہ التکشف، (المرقاة:کتاب النکاح، باب النظر الی المخطوبة وبیان العورات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے قریبی غیر محرم اعزہ سے پردے کے سلسلے میں بہت ہی محتاط الفاظ میں ایک جامع حکم بیان فرمایا تھا، جس کو یہاں نقل کرنامناسب ہے، "جو رشتہ دار محرم نہیں مثلاً: خالہ زاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد، بھائی یا بہنوئی یا دیور وغیرہ، جوان عورتوں کو ان کے روبرو آنا اور بے تکلف باتیں کرنا ہرگز نہیں چاہئے، اگر مکان کی تنگی یاہر وقت آمد ورفت کی وجہ سے گہرا پردہ نہ ہوسکے تو سرسے پاؤں تک کسی میلی چادر سے ڈھانک کر شرم ولحاظ سے بہ ضرورت روبرو آجائے اور کلائی، بازو، سر کے بال اور پنڈلی ان سب کاظاہر کرناحرام ہے، اسی طرح ان لوگوں کے روبرو عطر لگاکر عورت کا آنا جائز نہیں اور نہ بجتا ہوا زیور پہنے۔ (تعلیم الطالب: ص: ۸)۔
عن أبی ہریرة رضي الله عنه قال خرج رسول الله صلی الله علیہ وسلم ذات یوم أولیلة- فأتی رجلاً من الأنصار فاذاہو لیس فی بیتہ فلما رأتہ المرأة قالت: مرحبًا وأہلاً فقال لہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم: أین فلان؟ قالت: ذہب لیستعذب لنا من الماء۔ قال النووی: فیہ جواز سماع کلام الأجنبیة ومراجعتہا الکلام للحاجة۔ (النووی علی مسلم: کتاب الأشربة ، باب جوازاستتباعہ غیرہ الی دار من یثق برضاہ بذٰلک۔ (شرح النوی علی مسلم:۲۱۰/۱۳،ط: داراحیاء التراث العربی) وفی الدرالمختار: وللحرة جمیعُ بدنہا خلا الوجہ والکفین والقدمین علی المعتمد وصوتہا علی الراجح وقال الشامی: قولہ: “علی الراجح” عبارة البحر عن الحلیة أنہ الأشبہ وفی النہر وہو الذی ینبغی علیہ اعتمادہ الی قولہ: فانا نجیز الکلامَ مع النساء للأجانب ومحاورتہن عند الحاجة الی ذٰلک، ولا نجیزلہُنَّ رفعَ أصواتہن ولا تمطیطہا ولا تلیینہا وتقطیعہا؛ لما فی ذٰلک من استمالة الرجال الیہن وتحریک الشہوات منہم، ومن ہٰذا لم یجز أن توٴذن المرأة۔۱ھ (الدر مع الرد:’۷۸-۷۹۔ط: زکریا، دیوبند)
------------------------
سوال: اگرخواتین اجتماعی دعا مانگیں اور آواز مردوں تک پہنچے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: عورت کی آواز کو بہت سے فقہاء کرام نے ستر جبکہ جمہور نے فتنہ  قرار دیا ہے لہٰذا عورتوں کے لئے بلاضرورت مردوں تک اپنی آواز پہنچانے کی اجازت نہیں ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اجتماعی دعا اگر عورتیں مانگیں تو اتنی کم آواز میں مانگیں کہ مردوں تک ان کی آواز نہ پہنچے۔
المبسوط للسرخسي – (1 / 133)
وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالْأَذَانِ وَالْمَرْأَةُ مَمْنُوعَةٌ مِنْ ذَلِكَ لِخَوْفِ الْفِتْنَةِ، فَإِنْ صَلَّيْنَ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ جَازَتْ صَلَاتُهُنَّ مَعَ الْإِسَاءَةِ لِمُخَالَفَةِ السُّنَّةِ وَالتَّعَرُّضِ لِلْفِتْنَةِ.
(م م) غمز عيون البصائر – (3 / 383)
وصوتها عورة في قول في شرح المنية الأشبه أن صوتها ليس بعورة وإنما يؤدي إلى الفتنة وفي النوازل نغمة المرأة عورة وبنى عليه أن تعلمها القرآن من المرأة أحب إلي من تعلمها من الأعمى ولذا قال عليه الصلاة والسلام التسبيح للرجال والتصفيق للنساء فلا يجوز أن يسمعها الرجل كذا في الفتح

No comments:

Post a Comment