Tuesday 1 January 2019

کیا راجہ بھوج صاحب حضور علیہ الصلاة و السلام کی خدمت میں ہدایا بھیجے تھے؟

کیا راجہ بھوج صاحب حضور علیہ الصلاة و السلام کی خدمت میں ہدایا بھیجے تھے؟ جس میں پان بھی شامل تھا جیسا کہ عام طور پے لوگوں کی زبانوں سے سننے کو ملتا ہے اس کی کوئی حقیقت ہے؟ مطلع فرمائیں ۔۔۔
مفتی صاحب اس کے بارے میں رہنمائی فرمائیں

الجواب و بالله التوفيق:

مذکورہ نام تو مجھے نہیں ملا 
لیکن اس طرح کی روایت تو مروی ہے کہ ایک ہندوستانی بادشاہ نے شق القمر کے معجزہ کو دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدایا کی ایک زنبیل ارسال فرمائی تھی، 
"مستدرك حاکم میں ہے" ( حدیث نمبر 7190 =7272) . 
حدثنا علي بن حمشاد العدل ثنا العباس بن الفضل الأسفاطي ومحمد بن غالب قالا: ثنا عمرو بن حكام ثنا شعبة أخبرني علي بن زيد قال: سمعت أبا المتوكل يحدث عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: "أهدى ملك الهند إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم جرة فيها زنجبيل، فأطعم أصحابه قطعة قطعة وأطعمني منها قطعة" .
(مستدرك حاکم :حدیث نمبر 7190) 

لیکن اول تو یہ روایت  اسنادی و فنی حیثیت سے حد درجہ کمزور ہے 
 "علل الحديث" (1 /302). 
 "ميزان الاعتدال" (3/ 254).
 "مجمع الزوائد" (5 /59).
وغیرہ میں اس روایت کے ضعف کو واضح کیا گیا ہے 

ثانیاً یہ کہ متن روایت میں بھی اضطراب ہے 
کہیں ہدایا بھیجنے کی بات ہندوستانی راجہ کے لئے کہی گئی ہے، جبکہ طبراني کی "المعجم الأوسط" (2416)، اور طبري کی 
"التهذيب" (1599) اور عقيلي کی "الضعفاء" (3/267)، اور ابن عدي کی "الكامل" (5/137) 
میں یہی بات روم کے بادشاہ کے لئے مذکور ہوئی ہے:
"أهدى ملك الروم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم هدايا، وكان فيما أهدى إليه جره فيها زنجبيل، فأطعم كل إنسان قطعة وأطعمني قطعة" 

اسنادی وفنی ضعف اور متن میں اضطراب کے باعث اس نوع کی روایت ناقابل احتجاج و اعتبار قرار دی گئی ہے 

پھر قابل غور یہ بھی ہے کہ مشرکین مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق ومصدوق اور امین کہتے ہوئے بھی واقعہ شق القمر کو نبوی معجزہ تسلیم کرنے کی بجائے سحر و جادو پہ محمول کرکے مسترد کردیا 
تو عجم کے ایک بادشاہ کا جس کی اصلیت کا بھی کچھ پتہ نہیں کہ وہ کون ہے اور کیا ہے؟ 

اسے تسلیم کرلینا تھوڑا عجیب لگتا ہے (مستفاد من فتوی: الشيخ عبد الرحمن السحيم)

اس لئے ایسی کمزور روایتوں کی صحت پہ اعتماد ووثوق نہیں کیا جاسکتا
جن ہندوستانی ملوک کے ہدایا بھیجنے یا از خود وہاں پہنچ کر مشرف باسلام ہونے کی باتیں تاریخی یا حدیثی روایتوں میں مذکور ہوئی ہیں 
خواہ وہ شخصیت "جا کروانی فرماس" ہو 
یا "سَرْبانَک" ہو (رأيتُ سربانكَ ملكَ الهندِ ، فقال لي: إنَّهُ ابنُ تسعمائةِ سنةٍ وخمسٍ وعشرين سنةً، وأنَّهُ مسلمٌ، وزعم أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أنفذَ إليهِ عشرةً، منهم حذيفةُ وأسامةُ، فأجاب وأسلمَ، وقبَّل كتابَ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ.
قال الذھبی فی ميزان الاعتدال : 1/178 : باطل)

ملیبار کا بادشاہ ہو 
یا بابا رتن ہندی!

وہ ساری تفصیلات درجہ صحت ووثوق کو نہیں پہنچتیں! بعض کا موضوع ہونا بھی واضح ہے 
صحابیت کا درجہ بہت اہم ہے 
قابل اعتماد ووثوق ذرائع کے بغیر اس کے اثبات میں تکلف مناسب نہیں! رطب ویابس سے استفادے کی میں چنداں ضرورت نہیں سمجھتا 

میں اپنی تلاش وجستجو کے مطابق یہ لکھ ہوں 
باقی مسافران علم وتحقیق اس بابت اپنی تحقیقات یقیناً زیادہ  رکھتے ہوں گے

واللہ اعلم 
شکیل منصور القاسمی
https://saagartimes.blogspot.com/2019/01/blog-post_20.html

No comments:

Post a Comment