Tuesday 23 October 2018

عورت کے محرم مرد

عورت کے محرم مرد
عورت اپنے محرم مردوں سے پردہ نہیں کرے گی۔
اورعورت کا محرم وہ ہے جس سے اس کا نکاح قرابت داری کی وجہ سے ہیشہ کےلیے حرام ہو (مثلا باپ دادا اور اس سے بھی اوپر والے، بیٹا پوتا اور ان کی نسل، چچا، ماموں، بھائی، بھتیجا، بھانجا) یا پھر رضاعت کے سبب سے نکاح حرام ہو (مثلا رضاعی بھائی، اور رضاعی باپ) یا پھر مصاہرت (شادی) کی وجہ سے نکاح حرام ہوجائے (مثلا والدہ کا خاوند، سسر، اگرچہ اس سے بھی اوپر والی نسل کے ہوں، اور خاوند کا بیٹا اور اس کی نسل) ۔
ذیل میں ہم سائلہ کے سامنے یہ موضوع بالتفصیل پیش کرتے ہیں:
نسبی محرم:
نسبی طور پر عورت کے محرم کی تفصیل کا بیان سورۃ النور کی مندرجہ ذیل آیت میں بیان ہے:
فرمان باری تعالی ہے:
{اوراپنی زینت کوظاہر نہ کریں سوائے اس کےجوظاہر ہے، اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں، اور اپنی زیب وآرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے سسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکرمردوں سے جوشہوت والے نہ ہوں، یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہيں ۔۔۔} النور (31)۔
مفسرین حضرات کا کہنا ہے کہ نسب کی بنا پرعورت کے لیے جو محرم اشخاص ہيں اس کی صراحت اس آیت میں بیان ہوئي ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
اول: آباء واجداد:
یعنی عورتوں کے والدین کے آباء اور اوپر کی نسل مثلا والد، دادا، نانا اور اس کا والد اور ان سے اوپر والی نسل، اور سسر اس میں شامل نہیں کیونکہ وہ محرم مصاہرت میں شامل ہے نہ کہ نسبی میں ہم اسے آگے بیان کریں گے ۔
دوم: بیٹے:
یعنی عورتوں کے بیٹے جس میں بیٹے، پوتے، اوراسی طرح دھوتے یعنی بیٹی کے بیٹے اوران کی نسل، اور آیت کریمہ میں جو (خاوند کے بیٹوں) کا ذکر ہے وہ خاوند کی دوسری بیوی کے بیٹے ہیں جوکہ محرم مصاھرت میں شامل ہے، اور اسی طرح سسر بھی محرم مصاھرت میں شامل ہے نہ کہ محرم نسبی میں ہم اسے بھی آگے چل کربیان کريں گے۔
سوم: عورتوں کے بھائی:
چاہے وہ سگے بھائی ہوں یا پھر والد کی طرف سے یا والدہ کی طرف سے ہوں ۔
چہارم: بھانجے اور بھتیجے یعنی بھائی اور بہن کے بیٹے اور ان کی نسلیں۔
پنجم: چچا اورماموں:
یہ دونوں بھی نسبی محرم میں سے ہیں ان کا آيت میں ذکر نہیں اس لیے کہ انہیں والدین کا قائم مقام رکھا گیا ہے، اور لوگوں میں بھی والدین کی جگہ پر شمار ہوتے ہیں، اور بعض اوقات چچا کو بھی والد کہا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{کیا تم یعقوب (علیہ السلام) کی موت کے وقت موجود تھے؟ جب انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کروگے؟
تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباء واجداد ابراہیم اور اسماعیل، اوراسحاق (علیھم السلام) کے معبود کی جومعبود ایک ہی ہے اورہم اسی کے فرمانبردار رہيں گے} البقرۃ (133)۔
اور اسماعیل علیہ السلام تویعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کے چچا تھے ۔
دیکھیں تفسیر الرازی (23 / 206) تفسیر القرطبی (12 / 232 – 233) تفسیر الآلوسی (18 / 143) فتح البیان فی مقاصد القرآن تالیف نواب صدیق حسن خان (6 / 352) ۔
رضاعت کی بنا پر محرم:
عورت کے لئے رضاعت کی وجہ سے بھی محرم بن جاتے ہیں، تفسیر الآلوسی میں ہے:
(جس طرح نسبی محرم کے سامنے عورت کے لئے پردہ نہ کرنا مباح ہے اسی طرح رضاعت کی وجہ سے محرم بننے والے شخص کے سامنے بھی اس کے لیے پردہ نہ کرنا مباح ہے ،اسی اس طرح عورت کے لئے اس کے رضاعی بھائی اور والد سےبھی پردہ نہ کرنا جائز ہے) دیکھیں تفسیر الآلوسی (18 / 143) ۔
اس لئے کہ رضاعت کی وجہ سے محرم ہونا بھی نسبی محرم کی طرح ہی ہے جوکہ ابدی طور پر نکاح حرام کردیتا ہے۔
امام جصاص رحمہ اللہ تعالی نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے:
(جب اللہ تعالی نے آباء کے ساتھ ان محارم کا ذکر کیا جن سے ان کا نکاح ابدی طور پرحرام ہے، جوکہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ جوبھی اس طرح کی حرمت والا ہوگا اس کا حکم بھی یہی حکم ہے مثلا عورت کی ماں، اور رضاعی محرم وغیرہ) دیکھیں احکام القرآن للجصاص (3 / 317) ۔
اورسنت نبویہ شریفہ میں بھی اس کی دلیل ملتی ہے:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
(رضاعت بھی وہی حرام کرتی ہے جونسب کرتا ہے)
تواس کا معنی یہ ہوا کہ جس طرح عورت کے نسبی محرم ہوں گے اسی طرح رضاعت کے سبب سے بھی محرم ہوں گے۔
صحیح بخاری میں مندرجہ ذيل حدیث وارد ہے:
ام المؤمنین عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
(ابوقعیس کے بھائي افلح نےپردہ نازل ہونے کےبعد آ کر اندر آنے کی اجازت طلب کی جوکہ ان کا رضاعی چچا تھا تومیں نے اجازت دینے سے انکار کردیا ، اورجب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو میں نے جوکچھ کیا تھا انہيں بتایا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں اسے اپنے پاس آنے کی اجازت دے دوں) صحیح بخاری مع الفتح الباری لابن حجر ( 9 / 150 ) ۔
امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے بھی اس حدیث کوراویت کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہيں :
عروۃ رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا نےانہیں بتایا کہ ان کے رضاعی چچا جس کا نام افلح تھا نے میرے پاس اندرآنے کی اجازت طلب کی تومیں نے انہيں اجازت نہ دی، اورپردہ کرلیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارہ میں بتایا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اس سے پردہ نہ کرو، اس لیے کہ رضاعت سے بھی وہی حرمت ثابت ہوتی ہے جو نسب کی وجہ سے ثابت ہوتی ہے۔
دیکھیں صحیح مسلم بشرح نووی (10 / 22) ۔
عورت کے رضاعی محرم بھی اس کے نسبی محرم کی طرح ہی ہیں :
فقھاء کرام نے جوکچھ قرآن مجید اورسنت نبویہ سے ثابت ہے پر عمل کرتےہوئے اس بات کی صراحت کی ہے کہ عورت کے رضاعی محرم بھی اس کے نسبی محرم کی طرح ہی ہیں، لھذا اس کے لیے رضاعی محرم کے سامنے زینت کی چيزیں ظاہر کرنا جائز ہیں جس طرح کہ نسبی محرم کے سامنے کرنا جائز ہے، اوران کے لیے بھی عورت کے بدن کی وہ جگہیں دیکھنی حلال ہيں جونسبی محرم کےلیے دیکھنی حلال ہيں ۔
مصاھرت کی وجہ سے محرم: (یعنی نکاح کی وجہ سے)
عورت کے لیے مصاھرت کے محرم وہ ہیں جن کا اس سے نکاح ابدی طور پر حرام ہوجاتا ہے، مثلا ، والد کی بیوی، بیٹے کی بیوی، ساس یعنی بیوی کی والدہ۔ دیکھیں: شرح المنتھی (3 / 7)۔
تواس طرح والد کی بیوی کے لیے محرم مصاھرت وہ بیٹا ہوگا جو اس کی دوسری بیوی سے ہو، اور بہو یعنی بیٹے کی بیوی کے لیے اس کا باپ یعنی سسر ہوگا، اور ساس یعنی بیوی کی ماں کے لیے خاوند یعنی داماد محرم ہوگا ۔
اللہ عزوجل نے سورۃ النور کی مندرجہ ذيل آیت میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:
{اوراپنی زیب وآرائش کوکسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے سسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکرمردوں سے جوشہوت والے نہ ہوں، ایا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہيں ۔۔۔} النور (31)۔
تواس میں سسر اورخاوند کے بیٹے عورت کے لیےمصاھرت کی وجہ سے محرم ہیں، اوراللہ تعالی نے انہيں ان کے باپوں اوربیٹوں کے ساتھ ذکر کیا ہے اورانہيں حکم میں بھی برابر قرار دیا ہے کہ ان سے پردہ نہیں کیا جائے گا۔ دیکھیں المغنی لابن قدامہ المقدسی (6 / 555) ۔
واللہ اعلم .

No comments:

Post a Comment