Thursday 14 May 2015

نئے معاشرے کے نئے مسائل

ترقی یافتہ دورحاضر میں جوں جوں معاشرے میں ہر پہلو پر نمایاں ترقیاں نظر آرہی ہے اسی طرح عام انسانوں میں بڑی تیزی سے خود غرضی بھی نظر آرہی ہے۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خود غرضی کے سبب ہی رشتوں کا احترام ختم ہوتا جارہا ہے۔ رشتے کئی طرح کے ہوتے ہیں جن میں سب سے اہم مقدس رشتہ والدین کا ہوتا ہے۔ والدین اولاد کی پیدائش کے بعد اپنی نیند، چین، آرام کو پس پشت ڈال کر جس طرح پرورش کرتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ والدین ایثار و قربانیاں دے کر اپنے بچوں کو دنیا میں خوشگوار زندگی گزارنے کے قابل بنا دیتے ہیں۔ مگر آج کے معاشرے میں بچے والدین کے عظیم رشتے کو فراموش کردیتے ہیں۔
کہاں گیارشتوں کا احترام ؟
 والدین کی ایثار و قربانیوں کو بچے چند سکوں کی چمک میں بھول جاتے ہیں اس ضمن میں متعدد والدین کی ذہنی پریشانیاں اور بے بسی الفاظ میں بیاں نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح استاد اور شاگرد کا رشتہ بہت اہم ہے۔ استاد شاگرد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہوئے اس کی ذہنی نشونما کے راستے بناتے ہیں جہاں سے گزر کر وہ تن و مند معاشرے کی تعمیر میںمصروف ہو جاتے ہیں جبکہ کسی انسان کے ارتقا کے پیچھے اس کے استاد کا رول نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ جس کے بغیر کوئی شخص کچھ بننے کا تصور نہیں کرسکتا ہے۔ اس لےے شاگردوں کو چاہئے کہ اس رشتے کا احترام کریں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ تعلیم یافتہ خوشحال نوجوان بھی اپنے ابتدائی تعلیم کے وقت کے استادوں سے ملنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ مفاد پرستی اور خود غرضی کے سبب ہی استاد اور شاگرد کے رشتوں کا احترام ختم ہوتا جارہا ہے۔ اس طرح معاشرے میں آج والدین کی جائیداد کیلئے بھائی بھائی کے رشتوں میں خلش عام بات ہے۔ بڑا بھائی چھوٹے بھائی کو حصہ دے کر دعوت کررہا ہے۔ بہنیں بھائیوں سے والدین کی جائیداد میں اپنے حق کیلئے سسرال والوں کا دباو قائم کرنا فطری ہوچکا ہے۔ ساس، بہو کے رشتوں کا جھگڑا، سسرال میں، نند دیور سے نااتفاقی، ازدواجی زندگی میں شوہر اور بیوی کے درمیان جھگڑا گھر گھر کی کہانی بن چکا ہے۔ بزرگ معاشرے کے وقار ہوتے ہیں مگر آج کے نوجوانوں میں معاشرے کے وقار کی عزت ختم ہوتے جارہی ہے۔ بچے والدین سے ’ابے یار‘ کہہ کر مخاطب ہورہے ہیں جو نہایت ہی تشویش کا باعث ہے۔ غرض کہ ہمارے معاشرے میں رشتوں کا احترام ختم ہوتا جارہا ہے اس سنگین و نازک مسئلہ پر ہمیں خود اپنا احتساب کرنا ہوگا ورنہ آئندہ نسل میں رشتوں کی داستان کتابوں تک محدود ہوجائے گی۔ 
ایک سے زیادہ حج اور عمرہ پر جانے والوں کے نام:
یہ تو ناممکن ہے کہ کوئی فرد یا جماعت اٹھے اور پورے پانچ چھ ارب روپے اکٹھا کرے۔ لیکن یہ تو ممکن ہے کہ ایک سے زیادہ نفل عمرے یا حج کی نیت کرے اور اسی نیت کے ساتھ وہی رقم اپنے قریب ترین لوگوں کی تعلیم پر خرچ کردے کیونکہ جو ذہانت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بخشی ہے اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اگر اس قوم کے پچاس فیصد افراد بھی غربت سے نکل کر تعلیم سے آراستہ ہوجائیں تو امریکہ و یورپ کو مات ہوجائے۔ یہ تو ممکن ہے کہ لوگ اپنا ایک عمرہ یا حج کم کرلیں اور پیسہ مدرسوں پر لگادیں جہاں سے علماءحافظ تو بن کر نکل رہے ہیں اور جو امام یا موذن تو بنتے ہں لیکن عصری تعلیم سے محرومی کی وجہ سے دین اور دنیا دونوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ان مدرسوں کو عصری تعلیم سے آراستہ کرنے سے اندازہ لگایئے کتنی بڑی خدمت ہوسکتی ہے۔ مدرسوں کو بجائے زکوٰة خیرات دے کر علماءکی عزت نفیس کو ٹھیس پہنچانے کے اگر دو دو چار چار افراد مل کر پورا مدرسہ ہی اسپانسر کرلیں تو مدرسوں کو نہ صرف سو سو پچاس پچاس روپے کے چندوں سے نجات مل جائے گی بلکہ دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کا وقار بھی بلند ہوگا۔ آج دینی یا سماجی جماعت کے پاس ایک نہ ایک ایسا شاندار منصوبہ کاغذ پر موجود ہے جو امت کے کسی نہ کسی شعبے کو مضبوط کرسکتا ہے۔ لیکن لوگ یہ چاہتے ہیں کہ خود تو کماتے رہیں یا اپنی مرضی سے خرچ کرتے ہیں اور مزید بچت ہو تو نفل عمرے یا حج کریں۔ ان کا بچہ بہترین اسکول میں پڑھے، امریکہ، لندن جائے اور مدرسہ کے بچے سرکاری اسکول یا مفت کے مدرسہ میں پڑھیں؟ کیا یہ خود غرضی نہیں۔ ہزاروں لڑکیاں جہیز کی وجہ سے کنواری بیٹھی ہیں۔ کتنی غیر مسلم کے یہاں نوکریاں کررہی ہیں اور بے شمار ایسی ہیں جو دو وقت کی روٹی کیلئے کچھ بھی کرنے پر مجبور ہیں۔ ہزاروں ایسی جو بے سہارا ہیں شوہر چھوڑ کر بھاگ گیا ہے یا ناکارہ ہیں۔ ہزاروں بچے تعلیم سے محروم ہیں اور چور اُچکے بن گہے ہیں۔ اخبارات میں جرائم حادثات کے کالم میں مسلمان کا نام پڑھ کر آپ کی غیرت نہیں جاگتی؟ کیا سارے مسلمان مل کر ایک ایسا سینٹر قائم نہیں کرسکتے جہاں ایسی بے سہارا عورتوں اور ان کے بچوں کو سہارا دیا جاسکے؟ 
تعلیم یافتہ لڑکیوں کے رشتے میں رکاوٹ کیوں؟
(ساگر ٹائمز)رشتے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک خون کا رشتہ اور دوسرا دو خاندان کے درمیان رضامندی رشتہ داری کہلاتی ہے۔ ہر خاندان کے بچے شادی کی عمر کو پہنچتے ہیں تو والدین بہترین رشتوں کی جدوجہد میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ کچھ والدین کے یہاں بہو یا داماد کا رشتہ کم عرصے میں طے ہوجاتا ہے مگر کچھ والدین بہو یا داماد کی تلاش میں مہینوں بعد کامیاب ہوتے ہیں۔ دو خاندانوں کے درمیان رشتہ طے ہوجاتا ہے تو طرفین کی جانب سے شادی کے وقت ہر ایک کی زبان پر صرف یہی الفاظ ہوتے ہیں کہ رشتے آسمان پر بنائے جاتے ہیں اور اگر رشتہ دیگر وجوہات کے سبب طے نہیں ہوپاتا ہے تو اکثر حضرات یہی کہتے ہیں کہ اللہ کی مرضی نہیں تھی۔ وغیرہ وغیرہ۔ 1992-93کے فسادات کے بعد مسلم معاشرے میں تعلیمی بیداری آئی ہے۔ اعداد و شمار اور ماہرین تعلیم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ لڑکوں کی بہ نسبت مسلم لڑکیاں تعلیمی میدان میں آگے ہیں۔ ہماری قوم کیلئے یہ ایک نیک و فعال قدم ہے کہ لڑکیاں سخت محنت اور جدوجہد کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ ظاہر ہے لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنا رشتہ ایسے نوجوان سے طے کرنا پسند کریں گی جو اس سے زیادہ قابل اور تعلیم یافتہ ہوگا۔ کبھی کبھی لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتی ہیں کہ وہ اپنی آئندہ زندگی شادی کے بغیر ہی گزارا کرلینے کا ارادہ کرلیتی ہیں۔ اکثر ایسی بھی تعلیم یافتہ لڑکیاں ہیں جوہر آنے والے رشتے میں کچھ نہ کچھ خامیاں نکال کر اسے مسترد کردیتی ہیں اور شادی کی عمر نکل جانے کے بعد کہتی ہیں کہ میری قسمت میں شادی کا سکھ نہیں ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں کی سلیقہ زندگی اور ان کی سوچ میں تبدیلی آجاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک ذہین قابل ملازمت پیشہ دوشیزہ کی ماہانہ آمدنی تقریباً بیس سے پچیس ہزار روپے سے زائد ہے تو وہ کم از کم اپنے لےے ایسا رشتہ قبول کرے گی جس کی تقریباً ماہانہ آمدنی اس سے زائد ہو اور وہ صاف رنگ والا اسمارٹ نوجوان ہوجبکہ میرا یہ ذاتی مشاہدہ ہے کہ تعلیم یافتہ، صاف رنگ والی خوبصورت جاذب نظر لڑکیاں صرف اور صرف صاف رنگ والے تندرست لڑکے کو ہی پسند کرتی ہیں۔اگر لڑکا نمازی، کرتا پائیجامہ پہننے والا، دیندار، پانچ فٹ دو انچ کا ذہن قابل لڑکا ہوگا تو بھی لڑکیاں ایسے لڑکوں سے رشتہ قبول نہیں کرتیں۔ آج کل اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں کی پہلی پسند ماڈرن مغربی کپڑے پہننے والا لڑکا ہوتا ہے۔ 
اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں چاہتی ہیں کہ شادی کے بعد بھی ملازمت کرتی رہوں۔ میرے سسرال کے گھریلو امور گھر میں کام والی خادمہ انجام دے۔ اکثر تعلیم یافتہ ملازمت کرنے والی خاتون ذہنی طور پر اس قدر تیار نہیں رہتی کہ وہ صبح سے شام تک ذہنی دباﺅ والی ملازمت کے بعد گھریلو امور کو بحسن و خوبی انجام دے سکے لہٰذا جب رشتہ طے ہونے کی بات ہوتی ہے تو کبھی کبھی بات یہاں آکر ختم ہوجاتی ہے کہ ہماری لڑکی کو ہم نے خوب تعلیم یافتہ بنایا ہے مگر اس کو اتنا وقت نہیں ملتا تھا کہ وہ اپنا ڈپلومہ اور ڈگری حاصل کرنے کے درمیان امور خانہ داری سیکھ سکے لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی ایسی لڑکیوں کا رشتہ طے نہیں ہوپاتا۔ 
اکثر اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں چاہتی ہیں کہ ان کا نکاح رئیس گھرانے میں ہو۔ ان کو یہ گمان ہوتا ہے کہ میری ڈگری یا ڈپلومہ بے کار نہیں جائے میں شادی کے بعد بھی ملازمت کروں اور اپنی تنخواہ کا کچھ حصہ اپنے والدین کو بھی دوں۔ جب کہ امیر گھرانے کے عزت دار افراد یہ چاہتے ہیں کہ شادی کے بعد ہماری بہو گھر کے جملہ افراد کے ساتھ گھر میں ہی رہے۔ امیر گھرانوں میں دولت کی کمی نہیں ہوتی لہٰذا ایسے گھرانے کے افراد چاہتے ہیں کہ ہماری بہو شادی کے بعد ملازمت نہیں کرے بلکہ گھر کی جملہ ذمہ داریاں سنبھال لے۔ مگر اکثر تعلیم یافتہ خاتون کے ذہن میں یہ بات نقش ہوجاتی ہے کہ میری اتنی محنت کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا بےکار ہوجائے گا لہٰذا وہ ایسا گھرانے تلاش کرتی ہیں جہاں امیری بھی ہو اور ملازمت کرنے کی بھی چھوٹ ہو اور گھریلو کام کاج خادمہ کے ذریعے پورے کےے جاتے ہوں۔ ظاہر ہے تمام سہولتیں ایک ہی جگہ نہیں مل پاتی ہیں لہٰذا ان کا رشتہ طے نہیں ہوپاتا ہے۔ 
اعلیٰ تعلیم یافتہ دوشیزہ کے والدین ایسے گھر میں رشتہ طے کرنے کو ترجیح دیتے ہں جہاں لڑکے کا خود اپنا فلیٹ ہو، کار، موٹر سائیکل ہو، خاندان چھوٹا ہو۔ والدین چاہتے ہیں کہ ہماری بیٹی جس گھر میں بیاہ کر جائے وہاں لڑکے کی بہ کی شادی ہوگئی ہو۔ اگر لڑکے کے بھائی ہیں تو ان کا اپنا الگ گھر اور الگ نوکری یا کاروبار ہو۔ والدین چاہتے ہیں کہ شادی کے بعد ہماری لڑکی پر کسی بھی قسم کی پابندی عائد نہیں کی جائے۔ مثلاً ہماری لڑکی ابھی تک برقعہ یا نکاب نہیں پہنتی ہے تو اشدی کے بعد بھی نہیں پہنے گی۔ ہر اتوار کو والدین سے ملنے آنے کی اجازت دینی ہوگی۔ شادی کے بعد ہماری لڑکی کے کپڑوں، سینڈل، میک اپ ، تنگ کپڑوں ، مردانہ لباس وغیرہ پر اعتراض نہیں ہونا چاہےے۔ ہماری اکلوتی بیٹی ہے ہم نے اسے بہت ناز و نخروں سے پرورش کرکے اعلیٰ تعلیم دلائی ہے لہٰذا ہماری لڑکی کے طریقہ زندگی پر پابندی نہیں ہونی چاہےے۔ لہٰذا ایسے والدین مہینوں، سالوں تک ان کے معیار کے مطابق لڑکے کی تلاش میں رہتے ہیں اپنی لڑکی کی میریج بیورو میں ہز زاوےے سے جاذب نظر تصویر دیتے ہیں۔ اتوار کو اخبارات میں اشتہار دیتے ہیں مگر ان کے رشتے کے سلسلہ میں جو پخ ہوتی ہے وہ جوں کی توں رہتی ہے۔ لہٰذا تعلیم یافتہ قبول صورت لڑکیوں کی شادی کی عمر نکل جاتی ہے اور رشتہ طے نہیں ہوپاتا ہے۔ 
کبھی کبھی ایسی بھی تعلیم یافتہ ملازمت پیشہ لڑکیاں ہوتی ہیں جن کے گھر کی ذمہ داریاں اس قدر زیادہ ہوتی ہیں کہ وہ بحالت مجبوری اپنی شادی کے ارادے کو ترک کردیتی ہیں۔ اپنے آپ کو اپنے گھرکے جملہ افراد کی کفالت کیلئے خون کے آنسو رولیتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے بھی والدین اور بھائی بہنیں ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہماری بیٹی بہن کی اگر شادی کردیں گے تو گھر میں مالی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 
کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ ذہنی لڑکیاں شادی کی عمر کو پہنچتی ہیں تو ان سے جب کوئی عزیز کہتا ہے کہ اب آپ جلدی شادی کرلو تو اس وقت ان کا جواب ہوتا ہے ابھی مجھے چند سال شادی کیلئے سوچنا تک نہیں ہے۔ ابھی میری نئی نئی نوکری ہے مجھے میرا مستقبل سنہرا بنانا ہے۔ مجھے شادی کرکے جھنجھٹ میں پڑکر اپنا مستقبل تباہ نہیں کرنا ہے۔ شادی کے بعد ذمہ داری بڑھ جائیں گی ، خاوند، ساس، سسر وغیرہ کا خیال رکھنا ہوگا۔ چند سال میں بچے ہوجائیں گے ان کی پرورش وغیرہ سوچ کر ہی شادی کا ارادہ ترک کردینا پڑتا ہے پھر لڑکیوں اور عورتوں کی جبلت ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو جوان ہی تصور کرتی ہیں۔ شادی کی عمر ہونے پر بھی اگر ان سے کہا جائے کہ اب آپ شادی کرلیں تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ’ابھی میری عمر ہی کیا ہوئی ہے۔‘
اس ترقی یافتہ دور میں اعلیٰ تعلیم یافتہ بچوں کو رشتہ داروں کی محبت سے بھی محروم کررہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ بہو چاہتی ہے کہ میرے گھر میں شادی کے بعد میرے ساس، سسر وغیرہ علاحدہ رہیں۔ جب ان سے اس ضمن میں پوچھا جاتا ہے کہ آپ کو ساس سسر سے کیا تکلیف ہے تو ان کا برجستہ جواب ہوتا ہے کہ شادی کے بعد وہ Privacy نہیں مل پاتی ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ اب رشتہ طے کرتے وقت لڑکے کے گھر والوں کے سامنے ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے کہ ہماری ہونے والی بہو شادی کے بعد ہمارے بیٹے سے علاحدہ رہے گی لہٰذا کچھ والدین اپنے دل پر پتھر رکھ کر اپنے بیٹے کیلئے ایسا نازک رشتہ قبول کرلیتے ہیں اور زیادہ تر والدین بہو کے علاحدہ رہنے کے مسئلے پر رشتے سے انکار کردیتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں کے ذہن میں رشتے کیلئے بیرون ممالک جاکر شادی کرکے بسنے کا بھی خبط سوار رہتا ہے۔ اس میں کامیابی بھی حاصل ہوتی ہے مگر اکثر ایسی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں انٹرنیٹ یا میریج بیورو وغیرہ کے جال میں پھنس جاتی ہیں۔ اخبارات و ٹیلی ویژن کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ شادی کرکے سات سمندر پار جانے کا خواب پورا نہیں ہوسکا۔ لڑکا پہلے سے شادی شدہ تھا ان کے ساتھ دھوکہ اور فریب ہوجاتا ہے اور شادی کی عمر نکل جاتی ہے۔ 
 افسوس کہ آج مسلمانوں کی تعلیم یافتہ بیٹیاں اپنی پسند سے غیر مسلموں کے گھروں کی بہو بننے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ صرف بات اپنی سی ہے کہ آج ہماری تعلیم یافتہ بہنوں کو ان کا ہم سفر ساتھی بہت تلاش کرنے کے بعد بھی ہماری قوم میں نہیں مل پاتا ہے۔ لہٰذا وہ بت پرستوں کے گھر کی بہو بننے کو تیار ہوجاتی ہیں۔ مختصراً اعلیٰ یافتہ دلہنیں جب اپنی عمر کے بیس سے پچیس سال تک ڈاکٹر، انجینئر، بزنس مین وغیرہ وغیرہ اپنے سے قابل اور رئیس دولہا تلاش کرتی ہیں۔ وہ اپنی چھبیس سے تیس سال کی عمر میں اپنے سے برابر تنخواہ یا لیاقت والا دولہا تلاش کرتی ہیں۔ تیس سے پینتیس سال ہونے پر وہ تعلیم یافتہ خاتون اپنی تنخواہ سے کم آمدنی والی دولہے کی تلاش میں رہتی ہیں۔ اگر ایسی خاتون جن کی شادی پینتیس سال تک نہیں ہوپاتی ہے تو وہ اب میرج بیورو سے رابطہ قائم کرتی ہیں۔ اپنی تعلیمی لیاقت، تنخواہ، ملازمت وغیرہ کے بارے میں معلومات دیتی ہیں اور وہ سوچتی ہیں کہ ایسے شخص سے رشتہ ہوجائے جس کی پہلی بیوی کا انتقال ہوگیا ہو یا کسی وجہ سے علاحدگی ہوگئی ہو۔ ظاہر ہے اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں کی خوش فہمی ان کے رشتے کی ہمیشہ رکاوٹ ہوتی ہے۔ 
اسلام مساوات کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام میں امیری غریبی، اونچ نیچ، چھوٹا بڑا، کالا گورا، وغیرہ وغیرہ کی تفریق کرنے کی سخت ممانعت ہے۔ مذہب اسلم میں ہدایت دی گئی یہ کہ ہم سب انسان برابر ہیں۔ مگر ہم اپنے بیٹے یا بیٹی کے رشتے کیلئے مذہب اسلام کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے بچوں کا رشتہ طے کرتے ہیں۔ اس میں کامیابی بھی ملتی ہے۔ مگر اکثر والدین اپنی ضد، انا، حیثیت، لڑکیوں کی خوش فہمی، امیری غریبی، فلاں مہینہ فلاں تاریخ، دیگر مسلک سے نااتفاقی، کنڈلی، جہیز وغیرہ وغیرہ غیر اسلامی رواج اور غیر ضروری مطالبات کے سبب رشتہ طے نہیں ہوپاتا ہے۔ 
 اعلیٰ تعلیم یافتہ بہنوں سے میری استدعا ہے کہ وہ اپنے اندر فراخدلی و ایثار کا جذبہ پیدا کریں۔ اپنی قابل بچیوں کا نکاح معقول تنخواہ پانے والے، قبول سیرت، پرہیزگار لڑکے سے کریں۔ ہماری اعلیٰ تعلیم یافتہ بہنیں اگر اپنے سے کم تعلیم یافتہ، شریف لڑکے سے نکاح کریں گی تو لڑکے کے خاندان اور دنیا والوں کی نظر میں ان کی عزت، رفعت و اعلیٰ مقام اتنا بلند ہوگا کہ وہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔ 
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات
 آصف پلاسٹک والا
ربانی ٹاور، آگری پاڑہ، ممبئی11-
9323793996



No comments:

Post a Comment