Monday 11 May 2015

ہیلو اور سلام کی حقیقت

سوال :-بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ فون پر’’ہیلو ‘‘ کہناسخت غلط ہے۔ وجہ یہ بتاتے ہیں کہ یہ انگریزی لفظ "HELL"سے مشتق ہے ۔ گویا اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم ہیلو کہہ کر اپنے مخاطب کو جہنمی کہتے ہیں۔اس کی کیا حقیقت ہے ؟کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پہلے ’’ہیلو‘‘ کہنا حدیث کے خلاف ہے ۔ اس لئے کہ حدیث میں ہے : السلام قبل الکلام ۔ پہلے سلام پھر کلام کا حکم ہے ۔کیا یہ واقعتاً حدیث کے خلاف ہے ۔کچھ حضرات نے یہ بھی کہاکہ سعودی عرب کے نوّے یا ستّر علماء نے اس کو حرام قرار دیاہے ۔ کیا یہ دُرست ہے ۔ ضرور آپ کا جواب انشاء اللہ سب کے لئے تشفی بخش ہوگا.

جواب:-فو ن پر ہیلو سے آغاز کرنا بالکل دُرست ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہیلو کہہ کر فون کرنے والا صرف یہ جاننا چاہتاہے کہ مخاطب تک میری آواز پہنچ رہی ہے یا نہیں ۔اسی وجہ سے دوران گفتگو بھی بولنے والے کو اگر یہ شک ہو جائے کہ نہ معلوم مخاطب سُن رہاہے یا نہیں اور لائن کٹ تو نہیں گئی تو بات چیت چھوڑ کر ہیلوہیلو کہتاہے۔گویا ہیلو کہہ کر وہ یہ معلوم کرنا چاہتاہے کہ مخاطب تک آواز پہنچ رہی ہے یا نہیں ۔اب جب حقیقت یہ ہے کہ ہیلو کہہ کر بولنے والا صرف یہ جاننا چاہتاہے کہ مخاطب تک میری آواز پہنچ گئی تو اب سلسلۂ کلام شروع کرتا ہے۔لہٰذا حدیث کے حکم کے مطابق اب پہلے سلام کرکے پھر بات چیت شروع کرے۔اس طرح کلام سے پہلے سلام پایا گیا ۔ ہیلو کوئی کلام ہے نہیں بلکہ صرف متوجہ کرنے ، مخاطب بنانے اورآواز پہنچنے کے متعلق جاننے کا ایک تمہیدی لفظ ہے ۔سعودی عربیہ کے ستّر یا نوّے علماء کا ناجائز قرار دینا تو حقیقت یہ ہے کہ اس میں کوئی سچائی نہیں ہے ۔ اس طرح کا کوئی فتویٰ ہمارے علم میں نہیں آیاہے اور خود سعودی عرب میں اس سلسلے میں جو معلومات مل سکیں اُن سے بھی یہی پتہ چلا کہ ایسا کوئی فتویٰ کسی ایک شخص نے بھی نہیں دیا۔ ستّریا نوّے علماء کی تو بات ہی نہیں ہے اور یہ کہنا کہ ہیلو کا لفظ انگزیزی کے"HELL"سے ماخوذ ہے ،جس کے معنی جہنم کے ہیں ، یہ بھی سراسر غلط ہے ۔اس میں شک نہیں کہ HELL کے معنی جہنم کے ہی ہیں مگر کیا ہیلو اسی سے ماخوذ ہے ؟ یہ صریحاً غلط ہے ۔ دراصل جو شخص دور ہوتاہے اُس کو مخاطب بنانے اور اُسے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے ہر زبان میں کوئی لفظ ہوتاہے جس کو بول کر انسان دوسرے کو مخاطب اور متوجہ کرنے کا کام لیتاہے ۔ مثلاًکشمیری میں ’’ہیو‘‘ بولتے ہیں اسی طرح عربی میں الا یا ھلّابولتے ہیں ۔اسی  لیے ممکن ھلّا سے ہیلو بنایا گیا ہو ۔پھر غورکرنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہیلو کہنے والا اپنے ذہن میں یہ تصوررکھتاہے کہ وہ اپنے مخاطب کو جہنمی کہے؟آخرانسان اپنے والدین ، اپنے احباب واقارب ،اپنے اساتذہ ومشائخ ، اپنے اعزہ ومتعلقین کو بھی ہیلو کہہ کر ہی بات شروع کرتاہے تواس کے حاشیۂ خیال میں بھی اس کا شائبہ نہیں ہوتا کہ وہ اِن کو ہیلو کہہ کر جہنمی کہنا چاہتاہے ۔خلاصہ یہ کہ ہیلو کا لفظ صرف کسی شخص کو مخاطب بنانے ،متوجہ کرنے او راُس تک آواز پہنچانے کا پتہ کرنے کے لئے مستعمل ہے اوریہ خود کوئی مستقل کلام نہیں ہے ۔ صرف او رصرف استفہام ہے ۔ اس لئے پہلے ہیلو کہنا پھر سلام کرنا دُرست ہے ۔اگر مخاطب اجنبی ہوتو اپنا تعارف کرانا اور اُس کے بعد بات چیت کرنا صحیح ہے .

Hello
ke
baare tahqeeq

According to the Oxford English Dictionary, hello is an alteration of hallo, hollo, which came from Old High German "halâ, holâ, emphatic imperative ofhalôn, holôn to fetch, used especially in hailing a ferryman." It also connects the development ofhello to the influence of an earlier form, holla, whose origin is in the French holà (roughly, 'whoa there!', from French là 'there'). As in addition to hello,[8] hallo, hollo, hullo and (rarely) hillo also exist as variants or related words, the word can be spelt using any of all five vowels.

شریعت اسلامیہ نے سلام کا جو طریقہ مقرر کیا ہےوہ باقی تمام قوموں سے ممتاز ہیں،احادیث میں سلام کے الفاط یہ ہے

’’السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ‘‘
لہذا انہی الفاظ کے ساتھ کرنا مشروع ہے۔ سوال میں درج الفاظ کی تفصیل درج ذیل ہیں۔ [السام علیکم]
اس لفظ کے بارے میں حدیث میں آتا ہے’’ایک مرتبہ یہودیوں کی ایک جماعت نے آکر حضور اقدس ﷺ کو اس طرح سلام کیا:’’السام علیکم‘‘حضرت عائشہؓ نے فرمایا:’’علیکم السام واللعنہ‘‘یعنی تم پرہلاکت ہواور لعنت ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔آپﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایااے عائشہ؛رک جاؤاور نرمی سے کام لو۔۔۔۔۔۔۔(اصلاحی خطبات:191/6) 

[سلالیکم]
’’سلا‘‘(ن) سے ماضی کا صیغہ ہے،جس کا معنی ہے (بھول جانا،تسلی پانا،بے غم ہونا) (منجد:488) 

[اساعلیکم]
’’اساء‘‘لغت میں خراب اورفاسدکے معنی میں آتا ہے۔(منجد:500)

(سام علیکم)’’سام لغت میں زہریلی چیزکو کہتے ہیں۔(منجد:489) 

اس تمام تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ سلام کے لئے صرف’’السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ‘‘کے الفاظ استعمال کرنے چاہیئے اورباقی الفاظ کے استعمال سے گریز کرنا چاہیئے۔ 
والدلیل علی ذلک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عن عائشةؓ قالت ان رھطا من الیھود دخلوا علی النّبی ﷺِ،فقالوا:السام علیک،فقال النبیﷺ:علیکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الحدیث۔ 
واللہ اعلم بالصواب۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment