منہ پر تعریف کرنا ہر ایک کے لئے ممنوع نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعریف سننے سے متعلق ہر شخص کے احوال مختلف ہیں، بعض اپنی تعریف سن کے پھولے نہیں سماتا۔ جبکہ بعض ذہنیت ایسی ہوتی ہےکہ اپنی تعریف کو حقیقت میں خدا کی تعریف سمجھتا ہے۔
جس حدیث میں یہ کہا گیا ہے کہ منہ پہ تعریف کرنے والے کے منہ میں مٹی ڈالدو اس سے مراد یہ ہے کہ اپنا نفس نہ بگڑ جائے، چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دور دور تک اس کا احتمال نہیں تھا اسی لئے بیان جواز کے لئے آپ علیہ السلام نے خود اپنی شان میں قصیدے سنے ہیں، ایک قصیدے پر حضور علیہ السلام نے کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ کو خوش ہوکر اپنی چادر مبارک عطا فرمائی جو بعد میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے بیس ہزار درہم میں خرید لی۔
حدیث پاک میں کہا گیا ہے کہ اگراحسان کرنے والے کو دینے کے لئے کچھ نہ ہو تو سچی تعریف ہی کردو
کہ اس سے مکافات ہوجائے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعریف سننے سے متعلق ہر شخص کے احوال مختلف ہیں، بعض اپنی تعریف سن کے پھولے نہیں سماتا۔ جبکہ بعض ذہنیت ایسی ہوتی ہےکہ اپنی تعریف کو حقیقت میں خدا کی تعریف سمجھتا ہے۔
جس حدیث میں یہ کہا گیا ہے کہ منہ پہ تعریف کرنے والے کے منہ میں مٹی ڈالدو اس سے مراد یہ ہے کہ اپنا نفس نہ بگڑ جائے، چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دور دور تک اس کا احتمال نہیں تھا اسی لئے بیان جواز کے لئے آپ علیہ السلام نے خود اپنی شان میں قصیدے سنے ہیں، ایک قصیدے پر حضور علیہ السلام نے کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ کو خوش ہوکر اپنی چادر مبارک عطا فرمائی جو بعد میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے بیس ہزار درہم میں خرید لی۔
حدیث پاک میں کہا گیا ہے کہ اگراحسان کرنے والے کو دینے کے لئے کچھ نہ ہو تو سچی تعریف ہی کردو
کہ اس سے مکافات ہوجائے گی
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ وَ الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ بِمَکَّةَ قَالَا حَدَّثَنَا الْأَحْوَصُ بْنُ جَوَّابٍ عَنْ سُعَيْرِ بْنِ الْخِمْسِ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صُنِعَ إِلَيْهِ مَعْرُوفٌ فَقَالَ لِفَاعِلِهِ جَزَاکَ اللَّهُ خَيْرًا فَقَدْ أَبْلَغَ فِي الثَّنَائِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ جَيِّدٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا فَلَمْ يَعْرِفْهُ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ حَازِمٍ الْبَلْخِيُّ قَال سَمِعْتُ الْمَکِّيَّ بْنَ إِبْرَاهِيمَ يَقُولُ کُنَّا عِنْدَ ابْنِ جُرَيْجٍ الْمَکِّيِّ فَجَائَ سَائِلٌ فَسَأَلَهُ فَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ لِخَازِنِهِ أَعْطِهِ دِينَارًا فَقَالَ مَا عِنْدِي إِلَّا دِينَارٌ إِنْ أَعْطَيْتُهُ لَجُعْتَ وَعِيَالُکَ قَالَ فَغَضِبَ وَقَالَ أَعْطِهِ قَالَ الْمَکِّيُّ فَنَحْنُ عِنْدَ ابْنِ جُرَيْجٍ إِذْ جَائَهُ رَجُلٌ بِکِتَابٍ وَصُرَّةٍ وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْهِ بَعْضُ إِخْوَانِهِ وَفِي الْکِتَابِ إِنِّي قَدْ بَعَثْتُ خَمْسِينَ دِينَارًا قَالَ فَحَلَّ ابْنُ جُرَيْجٍ الصُّرَّةَ فَعَدَّهَا فَإِذَا هِيَ أَحَدٌ وَخَمْسُونَ دِينَارًا قَالَ فَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ لِخَازِنِهِ قَدْ أَعْطَيْتَ وَاحِدًا فَرَدَّهُ اللَّهُ عَلَيْکَ وَزَادَکَ خَمْسِينَ دِينَارًا
سنن الترمذی کتاب البر والصلہ ۔رقم الحدیث 2035۔
ترجمہ:
ابراہیم بن سعید جوہری، حسین بن حسن مروزی، الاحوص بن جواب، سعیربن خمس، سلیمان تیمی، ابوعثمان نہدی، حضرت اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے ساتھ نیکی کا سلوک کیا گیا اور اس نے نیکی کرنے والے سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تجھے اچھا صلہ عطا فرمائے۔ اس نے پوری تعریف کی۔ یہ حدیث حسن جید غریب ہے۔ ہم اسے اسامہ بن زید کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ بواسطہ ابوہریرہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس کی مثل مروی ہے۔ نیکی اور صلہ رحمی کے باب ختم ہوئے۔
سنن الترمذی کتاب البر والصلہ ۔رقم الحدیث 2035۔
ترجمہ:
ابراہیم بن سعید جوہری، حسین بن حسن مروزی، الاحوص بن جواب، سعیربن خمس، سلیمان تیمی، ابوعثمان نہدی، حضرت اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے ساتھ نیکی کا سلوک کیا گیا اور اس نے نیکی کرنے والے سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تجھے اچھا صلہ عطا فرمائے۔ اس نے پوری تعریف کی۔ یہ حدیث حسن جید غریب ہے۔ ہم اسے اسامہ بن زید کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ بواسطہ ابوہریرہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس کی مثل مروی ہے۔ نیکی اور صلہ رحمی کے باب ختم ہوئے۔
مرشد وقت حضرت شاہ حکیم اختر صاحب درد دل میں تحریر فرماتے ہیں
کہ حدیث پاک میں ہے:
إذا مُدِح المؤمنُ في وجهِه رَبا الإيمانُ في قلبِه
الراوي: أسامة بن زيد المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 8/122
خلاصة حكم المحدث: فيه ابن لهيعة وبقية رجاله وثقوا
إذا مُدِح المؤمنُ في وجهِه رَبا الإيمانُ في قلبِه
الراوي: أسامة بن زيد المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 8/122
خلاصة حكم المحدث: فيه ابن لهيعة وبقية رجاله وثقوا
جب مومنِ کامل کی تعریف کی جاتی ہے تو اس کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔ چوں کہ اس کا ایمان کامل ہوتا ہے تو تعریف سے اس کے ایمان میں ترقی ہوتی ہے۔ وہ اپنی تعریف کو اللہ کی تعریف سمجھتا ہے، اپنی تعریف نہیں سمجھتا۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ تعریف کی صرف چار قسمیں ہیں، پانچویں کوئی قسم نہیں ہے اور چاروں اللہ کے لئے خاص ہیں۔ تعریف کی قسمیں یہ ہیں ۔
۱) بندہ بندے کی تعریف کرے۔
۲) بندہ اللہ کی تعریف کرے ۔
۳) اللہ بندے کی تعریف کرے۔
۴) اللہ خود اپنی تعریف کرے۔
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ سب تعریفیں اللہ کے لئے خاص ہیں۔
لہذا منہ پہ تعریف کرنا ہرشخص کے لئے ممنوع نہیں ہے۔
سنت نبوی میں اس سے متعلق ہدایات موجود ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
<https://saagartimes.blogspot.com/2019/01/blog-post_22.html>
۱) بندہ بندے کی تعریف کرے۔
۲) بندہ اللہ کی تعریف کرے ۔
۳) اللہ بندے کی تعریف کرے۔
۴) اللہ خود اپنی تعریف کرے۔
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ سب تعریفیں اللہ کے لئے خاص ہیں۔
لہذا منہ پہ تعریف کرنا ہرشخص کے لئے ممنوع نہیں ہے۔
سنت نبوی میں اس سے متعلق ہدایات موجود ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
<https://saagartimes.blogspot.com/2019/01/blog-post_22.html>
No comments:
Post a Comment