Sunday 6 January 2019

کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے بذات خود کبھی کسی موقع سے آذان دینا ثابت ہے؟

کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے  بذات خود کبھی کسی موقع سے آذان دینا ثابت ہے؟
عرض یہ ہے کہ کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے  بذات خود کبھی کسی موقع سے آذان دینا ثابت ہے ؟؟؟ ازراہ کرم مدلل ومفصل جواب عنایت فرماکر ممنون ومشکور ہوں فقط

الجواب باللہ التوفیق:
ترمذی کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ بذات خود اذان دی ہے:

أخرج الترمذي (411) عن يعلى بن مرة وفيه (فأذن رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على راحلته) 

لیکن اسی سند سے مسند احمد میں  مروی ذیل کی حدیث کی وجہ سے ترمذی کی مذکورہ روایت کو مختصر کہ کر مجاز پر محمول کیا گیا ہے:
في مسند احمد (4/173) فامر المؤذن فأذن وأقام 
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترمذی کی روایت میں جو اذان کی نسبت حضور کی طرف کی گئی ہے وہ “بنی الامیر المدینہ “ کی طرح مجاز ہے 
پہر ترمذی کی روایت سندا ضعیف بھی ہے ۔
حافظ عسقلانی فتح الباري (2 /79) میں لکھتے ہیں:
ومما كثر السؤال عنه هل باشر النبي صلى الله عليه وسلم الأذان بنفسه وقد وقع عندالسهيلي أن النبي صلى الله عليه وسلم أذن في سفر وصلى بأصحابه وهم على رواحلهم السماء من فوقهم والبلة من أسفلهم أخرجه الترمذي من طريق تدور على عمر بن الرماح يرفعه إلى أبي هريرة أه
وليس هو من حديث أبي هريرة وإنما هو من حديث يعلى بن مرة وكذا جزم النووي بان النبي صلى الله عليه وسلم أذن مرة في السفر وعزاه للترمذى وقواه ولكن وجدناه في مسند أحمد من الوجه الذي أخرجه الترمذي ولفظه فأمر بلالا فأذن فعرف أن في رواية الترمذي اختصار وأن معنى قوله أذن أمر بلالا به كما يقال أعطى الخليفة العالم الفلانى ألفا وإنما باشر العطاء غيره ونسب للخليفة لكونه آمرا به) انتهى

ترمذی کی مذکورہ روایت اگرچہ اسنادی حیثیت سے کمزور ضرور ہے، لیکن تقریر رافعی میں ایک روایت میں صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ بذات خود اذان دی ہے:
روی عقبة بن عامر قال: کنت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في سفر، فلما زالت الشمس أذن بنفسہ وأقام، وصلی الظہر۔ وقال السیوطي: ظفرت بحدیث آخر مرسل، أخرجہ سعید بن منصور في سننہ، قال: أذّن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مرةً، فقال: حي علی الفلاح، وہٰذہ روایة لا تقبل التاویل، واللّٰہ سبحانہ تعالیٰ أعلم (تقریرات الرافعي ۲:۴۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ونقل قول السیوطي في شرح الزرقاني علی الموطأ ، باب ما جاء في النداء للصلاة ۱:۲۶۳، المکتبة الشاملة) ، عن عقبة بن عامر قال: کنت مع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في سفر، فلما طلع الفجر، أذن وأقام، ثم أقامني عن یمینہ وقرأ بالمعوذتین، فلما انصرف، قال: کیف رأیت؟ قلت: قد رأیت یا رسول اللّٰہ! قال: فاقرأ بہما کلما نمت وکلما قمتَ (المصنف لابن أبي شیبة ۶:۱۴۶، ط: دار الکتب العلمیة بیروت) 
اس روایت کی بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اذان دینا ثابت ہے 
اس کے انکار کی کوئی وجہ نہیں!
واللہ اعلم 
شکیل منصور القاسمی
https://saagartimes.blogspot.com/2019/01/blog-post_95.html


No comments:

Post a Comment