Thursday, 10 January 2019

کاغذی تصویر حرام ہے، ڈیجیٹل تصویر حلال اور مولوی کنفیوز کا مدلل جواب

"کاغذی تصویر حرام ہے، ڈیجیٹل تصویر حلال اور مولوی کنفیوز" کا مدلل جواب
تصاویر کے تعلق سے سماجی روابط کی ویب سائٹس پر ایک پوسٹ "کاغذی تصویر حرام ہے، ڈیجیٹل تصویر حلال اور مولوی کنفیوز" پیش کی گئی ہے۔ براہ کرم اس کا مدلل جواب عنایت فرمائیں:


"کاغذی تصویر حرام ہے، ڈیجیٹل تصویر حلال اور مولوی کنفیوز
 عدنان خان کاکڑ 
بے شمار ٹی وی چینل آنے سے پہلے ٹی وی اور تصویر بالاتفاق حرام قرار دیے جاتے تھے۔ جب ویڈیو کے فوائد دکھائی دیے تو بعض گوشوں سے یہ رائے آنے لگی کہ تصویر تو حرام ہے لیکن ویڈیو جائز ہے۔ پھر جب موبائل کیمرے والے فون ہر ایک کے ہاتھ میں پہنچ گئے تو اب بہت بڑی تعداد میں یہ رائے دی جانے لگی کہ کاغذ پر چھپی ہوئی تصویر حرام ہے لیکن ڈیجیٹل تصویر جائز۔ گو کاغذ پر چھپی تصویر کی حرمت کے بارے میں بھی بعضے اختلاف کرتے ہیں کہ فوٹوگراف تو عکس ہے اس لئے جائز ہے، صرف پینسل یا برش وغیرہ سے کھینچا ہوا سکیچ حرام ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا دار الافتا تو واشگاف الفاظ میں کہتا ہے کہ ”جاندار کی تصویر کشی اور اس کی ویڈیوگرافی چاہے کسی بھی طریقے سے اور کتنے ہی ترقی یافتہ آلے سے ہو حرام ہے، اس کا پرنٹ بھی اسی حکم میں ہے“۔

جامعۃ العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹاؤن والوں کا فتوی ہے کہ ”کسی بھی جاندار کی تصویر کھینچنا یا بنانا، چاہے اس کھینچنے یا بنانے کے لیے کوئی سا آلہ استعمال کیا جائے، ناجائز اور حرام ہے۔ اہل علم و اہل فتوی کی ایک بڑی تعداد کی تحقیق کے مطابق تصویر کے جواز وعدم جواز کے بارےمیں ڈیجیٹل اور غیر ڈیجیٹل کی تقسیم شرعی نقطہ نظر سے ناقابل اعتبار ہے۔ الیکٹرنک آلہ بند کرنے سے تصویر تحلیل ہوجاتی ہے مگر مواد موجود رہتا ہے اور کمانڈ دینے سے پھر آ موجود ہوتا ہے، پس جب اصل غلط ہے تو اس کا مواد محفوظ رکھنا بھی غلط ہے۔ “

چلیں ان کا موقف تو واضح ہو گیا کہ چاہے تصویر کاغذی ہو یا ڈیجیٹل، یکساں حرام ہے۔ لیکن ان کا معاملہ دلچسپ ہے جو کہتے ہیں کہ چھپی ہوئی تصویر حرام ہے لیکن ڈیجیٹل حلال۔ یعنی اگر آپ اپنے موبائل سے تصویر کھینچ لیں اور اس کو موبائل یا کمپیوٹر پر دیکھتے رہیں یا اس کا وال پیپر بنا لیں تو خیر ہے۔ لیکن اسے پرنٹ کر لیں تو وہ حرام ہو جاتی ہے۔

اس معاملے پر ایک موقف کچھ یوں ہے کہ یہ سکرین پر پائیدار نہیں ہوتی۔ جب تک کرنٹ برقرار ہے دکھائی دے گی۔ اور وہ بھی کیتھوڈ رے کی صورت میں 50 ہرٹز کی رفتار سے بار بار پینٹ کی جاتی ہے اور ایل ای ڈی کی سکرین 300 ہرٹز کی سپیڈ سے۔ اس لئے ڈیجیٹل تصویر پائیدار نقش نہیں ہوتی اور جائز ہے۔ ایک وضاحت یہ بھی کی جاتی ہے کہ اول ڈیجیٹل تصویر کا کوئی وجود نہیں ہوتا بلکہ یہ روشنیوں کے اجتماع سے آنکھوں کا دھوکہ ہوتی ہے۔ اگر کسی چیز کا وجود ہی نہ ہو تو اس پر کوئی تعریف بھی صادق نہیں آ سکتی۔

یہاں اب ناپائیداری والی دلیل ٹیکنالوجی سے ٹکرانے کو تیار ہے۔ اگر ہم کہیں کہ ڈیجیٹل تصویر مستقل نہیں ہوتی بلکہ بار بار ریفریش کر کے دکھائی دیتی ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا ریفریش ریٹ ہو گا جس کے بعد تصویر پائیدار قرار پائے گی؟ ایک سیکنڈ میں 50 ہرٹز کا ریفریش ریٹ تو چلو ناپائیدار قرار پا گیا کہ اس سے کم میں تصویر مٹنے لگتی ہے۔ اگر ایک سکرین ایسی ہو کہ جس پر ایک مرتبہ ریفریش کرنے کے ایک گھنٹے بعد وہ مٹنے لگے تو کیا وہ پائیدار کہلائے گی یا ناپائیدار؟ اسی طرح اگر ایک سکرین ایسی ہو جو ایک مرتبہ پینٹ ہونے کے ایک ہفتے یا مہینے بعد ختم ہو تو کیا وہ ناپائیدار ہو گی یا پائیدار؟ یا پھر ایک ایل سی ڈی پر ہم مستقل ایک ہی تصویر سال بھر دکھاتے رہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟

ٹیکنالوجی اب ہمیں ڈیجیٹل کاغذ کی طرف لے جا رہی ہے۔ یہ ایک عام کاغذ جیسی موٹائی والی پلاسٹک کی شیٹ ہوتی ہے جس پر ویسے ہی سکرین ڈسپلے آتا ہے جیسے ہمارے کمپیوٹر یا ٹی وی یا موبائل کی سکرین پر آتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی تقریباً پندرہ برس پرانی ہے اور اب اتنی سستی اور ایڈوانس ہو چکی ہے کہ کمرشل پیمانے پر اسے بنایا جا سکے۔ سنہ 2016 میں کمپنی ایل جی نے ایک 18 انچ کی سکرین والا ایسا ٹی وی کا نمونہ پیش کیا تھا جو اخبار کی طرح رول کیا جا سکتا تھا۔

سیمسنگ ایسا موبائل کا نمونہ بنا کر پیش کر چکا ہے ہے جو ماچس کی ایک ڈبیہ جتنا ہے۔ اس کے اندر کاغذ جتنی موٹائل والی سکرین رول کی ہوئی پڑی ہوتی ہے۔ اسے کھینچے اور پھیلا کر دیکھ لیں۔ ان سب کو تصویر برقرار رکھنے کے لئے مسلسل برقی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عام کاغذ ختم ہو جائیں گے۔ اگلے دس بیس برس بعد سب کے ہاتھوں میں ایک ایسی ہی ماچس کی ڈبیا ہو گی جس پر وہ کسی وقت بھی اپنی لاکھوں کتابوں کی لائبریری میں سے کوئی کتاب بھی کھول کر پڑھ سکیں گے، یا کوئی تصویر بھی دیکھ سکیں گے۔ یا پھر ایک ایسی کاپی سب کے ہاتھ میں ہو گی جس میں صرف ایک ورق ہو گا۔ ایک بٹن دبانے پر اس ایک ورق پر ہماری مطلوبہ کتاب کا صفحہ ویسے ہی نمودار ہو جائے گا جیسے طلسم ہوشربا میں کتاب سامری کے سادہ ورق پر ہوا کرتا تھا۔

لیکن ان سے سے زیادہ دلچسپ وہ ٹیکنالوجی ہے جسے ای۔ انک کہا جاتا ہے۔ اس قسم کی سکرین کو ای بک ریڈرز میں کئی برس سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس میں سکرین کے نیچے مقناطیسی اجزا موجود ہوتے ہیں۔ سکرین پر تصویر یا تحریر بنانے کے لئے ایک مخصوص چارج اس میں سے گزارا جاتا ہے۔ مقناطیسی اجزا مخصوص ترتیب میں اچھل کر سکرین پر چسپاں ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد تصویر کرنٹ کی ضرورت سے بے نیاز ہو کر برقرار رہتی ہے اور اسے ریفریش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب پیج بدلنے کا بٹن دبایا جاتا ہے، یا آپریٹنگ سافٹ وئیر مختلف تصویر پینٹ کرنا چاہتا ہو، تو کرنٹ کی ایک نئی لہر دوڑا کر تصویر بدل دی جاتی ہے۔ میرے ایک ای بک ریڈر پر ایسی ایک تصویر ایک سال بعد بھی موجود تھی حالانکہ بیٹری کب کی ختم ہو چکی تھی۔ اب یہ ای۔ انک والی سکرین پائیدار نقش کہلائے گی یا ناپائیدار؟ ممکن ہے کہ سال دو سال بعد اس کی تصویر ختم ہو جائے۔ ممکن ہے کہ سو برس بعد ہو۔

نہایت باریک ای-پیپر۔ اسے موڑیں فولڈ کریں یہ ایک صفحہ آپ کی لاکھوں کتابوں کی لائبریری میں سے کچھ بھی دکھا سکتا ہے۔

پھر ایک نئی ٹیکنالوجی اور بھی ہے۔ وہ ہے ہولوگرام کی۔ بغیر سکرین کے ہوا میں ہی تصویر بنا دی جاتی ہے۔ اب کیا وہ حلال قرار پائے گی یا حرام؟ اگر کاغذ پر بنی تصویر حرام ہے اور سکرین پر بنی جائز، تو پھر یہی معاملہ سمجھ آتا ہے کہ اعتراض تصویر پر نہیں ہے، اسے بنانے کی ٹیکنالوجی پر ہے۔ جب سکرین ہی کاغذ بن جائے گی تو پھر کیا حکم ہو گا؟

ہم جو بھی کہیں لیکن ڈیجیٹل تصویر سے مفر ممکن نہیں۔ بہت جلد ہماری ہر کتاب اسی سکرین پر ملے گی۔ ہماری ہر تصویر اسی پر آئے گی۔ ہم سفر کرنے اور ایک دوسرے سے بات کرنے کے لئے اس سکرین کے محتاج ہوں گے۔ ہمارے سکولوں میں اس کا استعمال ہو گا۔ ہم اسے حرام کریں گے، تو جدید علم اور ٹیکنالوجی کو خود پر حرام کر بیٹھیں گے۔ سنہ 2010 میں دنیا کے سب سے بڑے کتاب فروش امیزون نے یہ اعلان کیا تھا کہ اس نے ہر سو کاغذی کتابوں کے مقابلے میں 105 ای۔ بکس بیچی ہیں۔

اب تصویر کو جائز قرار دینے کے لئے یا تو ویسے ہی ”مجبوری“ والی تاویلات پیش کی جائیں جیسی کرنسی نوٹ اور پاسپورٹ وغیرہ کے معاملے میں پیش کی جاتی ہیں، یا مان لیا جائے کہ تصویر کی حرمت کا مقصد صرف یہ تھا کہ پرانے زمانے میں اسے عبادت کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ مقصد عبادت نہ ہو تو پھر اسے جائز مان لینا چاہیے۔ دوسری صورت میں مولوی حضرات کو اپنے سمارٹ فونز اور ٹی وی چینلز سے دستبردار ہونا پڑے گا جو ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہمیشہ خود کو حلال ہی قرار دلوایا ہے۔ خواہ زمین کے گول ہونے کا معاملہ ہو، پرنٹنگ پریس کا، انگریزی تعلیم کا، لاوڈ سپیکر کا، ٹی وی کا یا کمپیوٹر کا۔
ختم شد۔"
ایس اے ساگر

الجواب وباللہ التوفیق: 
یہ بات تو سو فیصد درست ہے کہ اس معاملے میں اپنی ذاتی تحقیق رکھنے والے یا دو طرفہ تحقیق کو سمجھ کر کسی ایک کو راج قرار دینے کے بعد اس پر عمل درآمد کر نے والے علماء کی تعداد تمامی علماء کے مقابلے آٹے میں بال برابر ہے 

بقیہ علماء میں تین طبقے ہو جاتے ہیں ایک وہ جو کہ اپنی علمی عقیدت کی بنیاد پر دونوں طرف کے اکابرین میں سے کسی ایک کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اور اسی راے پر عمل پیرا بھی ہیں لیکن یہ حضرات بھی بقیہ حضرات کے مقابلے آٹے میں بال برابر ہی ہیں 
دوسرے وہ حضرات ہیں جو اپنی علمی عقیدت دونوں سے رکھتے ہیں اور عمل زیادہ تر جواز والی شکل پر ہی کرتے ہیں انکی تعداد بہت زیادہ ہے 
تیسرے وہ حضرات ہے جو یقینا کنفیوژن کا شکار ہیں اور انکے ذہن میں بھی بہت سے سوالات موجے مارتے ہے لیکن اکثر عمل جائز والی شکل پر ہی کرتے ہیں.....اسکی علامت یہ ہے کہ انکے سامنے جب ایسے سوالات آتے ہیں اور اعتراضات آتے ہیں تو وہ یا تو خاموش ہو جاتے ہیں یا کہتے ہیں کہ یار بڑے حضرات جانے علمی تحقیق ہمیں تو گنجائش نظر آرہی ہے اس لئے عمل کرتے ہیں اگرچہ سمجھ میں نہیں آتا انکی تعداد بھی بہت زیادہ ہے 

البتہ صاحب مضمون کی چند باتیں قابل مؤاخذہ ہے 
اس نے لکھا ہے عدم جواز والوں کی دلیل کے اخیر میں 
جب اصل غلط تو اسکا مواد محفوظ رکھنا بھی غلط حالانکہ اصل غلط مان لینے کے بعد مواد رکھنے نہ رکھنے پر بات ہی بے جا ہے

اخیر میں اس نے لکھا ہے کہ ڈیجیٹل تصویر سے مفر نہیں اس لئے فتوے میں زبردستی مجبوری کی تاویلات نکالنی پڑیگی... یہ بات بھی غلط ہے کیونکہ مفر نہیں کی بات فضول ہے اسکے بغیر چلیگا ہی نہیں ورنہ علم کے دروازے کو بند کرنا لازم ہوگا یہ ساری باتیں یا طنز کے تیر یا تو صاحب مضمون نے دکھی دل سے لکھ دی ہے یا پھر موجودہ کشمکش پر شدید نکتہ چینی کی ہے.... 

ویسے طالب علم کا ذاتی تجربہ و تجزیہ یہ ہے کہ عمومی جواز پر عمل کرنے والے حضرات کی اکثریت جواز والی گنجائش پر چل نکلی ہے اور اسکی وجہ سوائے آزادی نفس کے کچھ نہیں جو مزیدار چیزوں کی طرف جھکاؤ کو زیادہ پسند کرتا ہے..... اور سب سے بڑا اس آزادی کا نقصان یہ ہے کہ ۹۵%  طبقہ اس استعمال کی وجہ سے حرام چیزوں سے قطعا نہیں بچ پاتا بلکہ دھیرے دھیرے حرام چیزوں کا مزہ زبان کو چڑھنے لگا ہے اور کوئی مجبوری کا نام دیکر تو کوئی ضرورت کا نام دیکر تو کوئی تبلیغ کا دیکر تو کوئی حالات پر نظر کا نام دیکر کسی شکل میں سہی حرام چیزوں مثلا نامحرم کا دیکھنے دکھانے اور موسیقی کے سننے سنانے کا عادی ہونے لگا ہے اور اس گناہ کے گناہ نہ ہونے پر دلائل دینے تک سے باز نہیں آتا....... 

طالب علم کا دکھ بھرا سوال ہے اگرچہ بظاہر حکم نافذ کرنے کے بعد بھی جو وہ حضرات جو تحقیق نہیں رکھتے بس گنجائش سے فائدہ اٹھانے کے چکر میں جواز کی راہ پر بہت آگے نکل چکے ہیں انکا اب یوٹرن لینا تقریبا ناممکن سا ہے 
سوال یہ ہے 
کیا اب بھی جواز کو قابل قبول مانا جانا چاہیے؟؟؟
واللہ اعلم 
طالب علم
https://saagartimes.blogspot.com/2019/01/blog-post_10.html
"کاغذی تصویر حرام ہے، ڈیجیٹل تصویر حلال اور مولوی کنفیوز" کا مدلل جواب

No comments:

Post a Comment