کیا کسی حدیث میں (کلیم اللہ) نام رکھنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
من فضلكم
کیا کسی حدیث میں (کلیم اللہ) نام رکھنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے؟
وما حكم التسمي بهذالاسم؟
سائل : محمد یامین قاسمی ،سعودی عرب
الجواب و بالله التوفيق:
---------------------------
کسی بھی حدیث میں اس کی ممانعت وارد نہیں
عرب کے حنبلی علماء اسے ناجائز کہتے ہیں
صرف عقلی دلیل یہ دیتے ہیں کہ یہ القابِ انبیاء میں سے ہے
جو انہی کی خصوصیت تھی
جبکہ ہمارے اکابر دیوبند کے نزدیک یہ نام رکھنا جائز ہے
مفتی اعظم ہند حضرت گنگوہی نے جواز کا فتوی دیا ہے
ہاں ! اگر کلیم اللہ سے پہلے موسی بھی ملالے اور یوں کہے : موسی کلیم اللہ
تب ناجائز ہوگا کیونکہ اب ذہن حضرت موسی علیہ السلام کی طرف ہی منتقل ہوگا
جیسے ابتداء اسلام میں ابو القاسم نام رکھنا ناجائز تھا
وجہ یہ تھی کہ جب ایک آدمی نے ابو القاسم کہ کر پکارا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ ہوئے تو اس نے کہا
میں آپ کو نہیں پکارا
بلکہ فلاں کو پکارا
تو چونکہ اُس وقت مطلق ابو القاسم کہنے سے ذہن حضور کی طرف ہی منتقل ہوتا تھا
اس علت کی وجہ سے اس وقت یہ نام رکھنا جائز نہیں تھا “ولاتکنوا بکنیتی”
بعد میں یہ ممانعت باقی نہ رہی
اسی طرح اگر کلیم اللہ سے پہلے موسی بھی ملالے اور موسی کلیم اللہ نام رکھے
تب تو حضرت موسی علیہ السلام کی طرف انتقال ذہن کی وجہ سے یہ نام رکھنا ناجائز ہوگا
لیکن صرف کلیم اللہ
نام رکھنے یا پکارنے کی وجہ سے موسی علیہ السلام کی طرف ذہن منتقل نہیں ہوتا
جو علت عدم جواز ہے
اس لئے یہ نام رکھنا جائز ہے
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی
No comments:
Post a Comment