Tuesday, 15 January 2019

شرعی پردہ کا اہتمام

شرعی پردہ کا اہتمام

قرآن وحدیث کی رو سے مسلمان خواتین کے لیے شرعی پر دے کا اہتمام کرنا ایسے ہی لازمی ہے، جیسے کہ نماز، روزہ، زکوٰة اور حج جیسے یہ عبادات فرض عین ہیں، ایسے ہی شرعی پردہ بھی فرض عین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے ایک مقام پر پردے کے حکم کو شریعت کے دوسرے احکامات پر مقدم ذکر فرمایا ہے۔

چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَقَرْنَ فِیْ بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأُولَی وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِیْنَ الزَّکَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّہَ وَرَسُولَہ﴾․(احزاب:33)
ترجمہ:” اے مومن عورتو! تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو اور تم نمازوں کی پابندی رکھو اور زکوٰة دیا کراور الله تعالیٰ اور اس کے رسول کا کہنا مانو۔“ ( سورہٴ احزاب، آیت:33)

مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں خواتین کے لیے گھروں کے اندر ٹھہرے رہنے کو واجب قرار دیا گیا ہے مگر مواقع ضرورت اس سے مستثنیٰ ہیں۔ (معارف القرآن)

دوسری جگہ ارشاد فرمایا:﴿یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْْہِنَّ مِن جَلَابِیْبِہِنَّ﴾․(سورہٴ احزاب، آیت:59)
”اے نبی! آپ اپنی بیویوں سے او راپنی صاحب زادیوں سے اورمسلمان عورتوں سے فرما دیجیے ( کہ جب مجبوری کی بنا پر گھروں سے باہر جانا پڑے) تو اپنے چہروں کے اوپر ( بھی) چادروں کا حصہ لٹکایا کریں۔“ 

اور سورہٴ احزاب ہی میں تیسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے:﴿وَإِذَا سَأَلْتُمُوہُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوہُنَّ مِن وَرَاء حِجَاب﴾․
ترجمہ:”اور جب تم ان سے (امہات المؤمنین سے) کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر ( کھڑے ہو کر وہاں) سے مانگا کرو۔“ (سورہٴ احزاب)

یعنی بلا ضرورت تو پردے کے پاس جانا اور بات کرنا بھی نہیں چاہیے، لیکن بہ ضرورت کلام کرنے میں مضائقہ نہیں مگر ایک دوسرے کو دیکھنا نہیں چاہیے۔ (بیان القرآن)

نگاہ پست رکھنے کا حکم
ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿قُل لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ ذَلِکَ أَزْکَی لَہُمْ إِنَّ اللَّہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُونَ ، وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَی جُیُوبِہِنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ أَوْ آبَائِہِنَّ أَوْ آبَاء بُعُولَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَائِہِنَّ أَوْ أَبْنَاء بُعُولَتِہِنَّ أَوْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ أَخَوَاتِہِنَّ أَوْ نِسَائِہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُنَّ أَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْْرِ أُوْلِیْ الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوا عَلَی عَوْرَاتِ النِّسَاء وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِن زِیْنَتِہِنَّ وَتُوبُوا إِلَی اللَّہِ جَمِیْعاً أَیُّہَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون﴾․(سورة النور:31-30)

”اے نبی! آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں( یعنی جس عضو کی طرف مطلقاً دیکھنا جائز نہیں، اس کو بالکل نہ دیکھیں اور جس کافی نفسہ دیکھنا جائز ہے، مگر شہوت سے دیکھنا جائز نہیں اس کو شہوت کی نگاہ سے نہ دیکھیں) اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں (یعنی ناجائز محل میں شہوت رانی نہ کریں، جس میں زنا اور لواطت سب داخل ہیں) یہ ان کے لیے زیادہ صفائی کی بات ہے، بے شک الله کو سب خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں۔ اور اسی طرح مسلمان خواتین سے کہہ دیجیے کہ (وہ بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کریں (یعنی ناجائز محل میں شہوت رانی نہ کریں جس میں زنا اور سحاق سب داخل ہیں)۔“ (بیان القرآن)

عورت کو گھروں سے باہر نکلنے کا حق نہیں
جناب نبی صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ”عورتوں کو اپنے گھر سے باہر نکلنے کا حق نہیں، مگر اس وقت ( جب کہ وہ کسی ضرورت شدیدہ پیش آنے کی وجہ سے نکلنے پر) مجبور ہو جائیں۔“ (طبرانی)

عورت چھپانے کی چیز ہے
قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: المرأة عورة، اذا خرجت استشرفھا الشیطان․ (رواہ الترمذی، مشکوٰة باب النظر الی المخطوبة) جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ” عورت چھپانے کی چیز ہے (یعنی عورت کے لیے پردہ کے ذریعے خود کو چھپانا ضروری ہے) کیوں کہ وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاک جھانک کرتا ہے۔“ (ترمذی، ص:140)

بدباطن لوگ جو گلی کوچوں میں بیٹھ کر عورتوں کو جھانکتے رہتے ہیں، یہ سب شیطان کے کارندے ہیں۔ شیطان کے ورغلانے سے یہ عورتوں کی تاک جھانک میں لگے رہتے ہیں، اس لیے عورتوں کی چاہیے کہ بلا ضرورت شدیدہ گھروں سے باہر نہ نکلیں۔

ایک غیرت مند خاتون کا واقعہ
حضرت قیس بن شماس رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ : ”ام خلاد نامی ایک صحابیہ عورت اپنے بیٹے کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے دربار نبوی صلی الله علیہ وسلم میں حاضر ہوئیں۔ اپنے چہرے پر نقاب ڈالے ہوئی تھیں۔ اس حالت کو دیکھ کر ایک صحابی رضی الله عنہ نے کہا اپنے ( شہید) بیٹے کی حالت معلوم کرنے آئی ہو اور چہرے پر نقاب؟ (مطلب یہ تھا کہ پریشانی کے عالم میں بھی پردے کا اس اقدر اہتمام!) ام خلاد رضی الله عنہا نے جواب دیا کہ جی ہاں ! بیٹے کی شہادت کی مصیبت میں مبتلا ہو گئی ہوں، لیکن اس کی وجہ سے شرم وحیا کو چھوڑ کر (دینی) معصیت زدہ نہیں بنوں گی اور حضور صلی الله علیہ وسلم نے بیٹے کے بارے میں خوش خبری سنائی کہ تمہارے بیٹے کو دو اجر ملیں گے۔ وجہ پوچھنے پر ارشاد فرمایا، اس لیے کہ ان کو اہل کتاب نے قتل کیا ہے۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد)

مطلب یہ کہ کسی غیرت مند خاتون کا ضمیر اس بات کو کبھی برداشت نہیں کرسکتا کہ حیا وشرم کی چادر کو اتار کر مردوں کے سامنے ننگی پھرتی رہے۔ چاہے موقع خوشی کا ہو یا غم کا حیا وشرم کابرقرار رکھنا ہی کمال ہے۔

حضرت حسن بصری رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں کہ: ”کیا تم اپنی عورتوں (ماں، بہنوں اور بیٹیوں) کو چھوڑ دیتے ہو کہ وہ بازاروں میں گھومتی پھریں اور کفار اور فاسقوں سے رگڑ کر چلیں۔ خدا تباہ وبرباد کرے اس کو، جو غیرت نہ رکھتا ہو۔“ (احیاء العلوم، ج 2ص: 48)

حیاء انبیاء کی سنت ہے
جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ” پیغمبروں کی طرز زندگی میں چار چیزیں ( بہت اہم ہیں) حیا کرنا، خوش بو لگانا، مسواک کرنا، نکاح کرنا۔“ (ترمذی شریف)

غیر محرم مردوں کا بے محابا گھروں میں داخل ہونا بڑا گنا ہ ہے
عن عقبة بن عامر قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: وایاکم والدخول علی النساء، فقال رجل یا رسول الله، أرأیت الحمو؟ قال: الحمو الموت․ ( متفق علیہ)

جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ” تم (غیر محرم) عورتوں کے پاس داخل ہونے سے اجتناب کرو۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول الله (صلی الله علیہ وسلم) ! اگر وہ مرد، شوہر کی طرف سے عورت کا رشتہ دار ہو؟ (یعنی تب بھی منع ہے؟) تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس سے (یعنی شوہر کے رشتہ دار دیور، جیٹھ وغیرہ) سے تو اس طرح ڈرتے رہنا چاہیے، جس طرح موت سے ڈرا جاتا ہے ۔“ (مشکوٰة ص: 267)

مطلب یہ ہے کہ سسرالی رشتہ داروں سے پردہ نہ کرنے میں دیگر غیر محرموں کی بہ نسبت زیادہ خطرہ ہے کہ کسی برائی میں مبتلا ہو جائے، اس لیے ان سے بچنے کا زیادہ اہتمام ہونا چاہیے۔

اجنبی مردو زن کی خلوت میں شیطان کی شرکت
عن عمر  عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: لا یخلون رجل بامرأة الا کان ثالثھما الشیطان․ (رواہ الترمذی، مشکوٰة، ج2،ص:269)

جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ” کوئی مرد جب کسی (غیر محرم) عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو وہاں ان دونوں کے علاوہ تیسرا فرد شیطان ضرور ہوتا ہے۔“ (مشکوٰة، ص: 269)

پردہ کس عمر میں لازم ہے؟
کتنی عمر کے لڑکوں سے پردہ کیا جائے؟ اس کی حد کیا ہے؟ تو عرض یہ ہے کہ جب لڑکا دس سال کا ہو جائے او راس کے جسم کے ظاہری نشو ونمابالغ کی طرح معلوم ہوں تو دس سال سے ہی پردہ کیا جائے ،اگر ماحول او رحالات اور جسمانی نشونما سے یہ اندازہ ہو کہ یہ ابھی حد شہوت کو نہیں پہنچا تو بارہ سال تک رخصت ہوگی۔ اس کے بعد عورتوں کے لیے پردہ ضروری ہے۔ پندرہ سال پورے ہونیکے بعد کسی طرح کی گنجائش باقی نہیں رہتی، کیوں کہ پندرہ سال کے بعد بالاتفاق اس پر بالغ ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔ (احسن الفتاویٰ:8)

او رلڑکیوں کی عمر جب نو سال پوری ہو جائے تو اس وقت سے ان کو پردے کا حکم کیا جائے گا، یعنی نو سال عمر پوری ہونے کے بعد بے پردہ باہر نہ نکلیں، والدین سرپرست حضرات اس کا اہتمام کروائیں۔

لیکن افسوس صد افسوس! آج مسلمان خواتین نے اسلام کے اس اہم حکم پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ گھروں میں رہنا، چاردیواری میں بیٹھنے کو پسند کرنا تو دور کی بات ہے، ہر کام کے لیے خود گھر سے باہر جانے کو ضروری سمجھ لیا گیا ہے ۔ لباس خریدنا ہو یا او رکوئی سامان، میاں کو گھر بیٹھاکر خود بازار چلی جاتی ہیں، بلکہ اب تو تفریحی مقامات کا چکر لگانا بھی خواتین کی زندگی کا ایک حصہ بن چکا ہے ۔ پھر مزید یہ ہے کہ باہر جاتے ہوئے برقعہ پہننا فیشن کے خلاف قرار دیا جارہا ہے اور اس کو معیوب سمجھا جارہا ہے، اس لیے برقعہ چھوڑ دیا اس پر مزید ستم ظرفی یہ ہے کہ لباس بھی نیم آستین اور تنگ اپنانے لگی ہیں۔ گو یا کہ قرآنی احکام کے سراسر خلاف نیم برہنہ مسلم خواتین، گھروں سے باہر گھومنے لگی ہیں۔ (اعاذنا الله منہ)

جہاں کہیں پردہ کا کچھ تصور ہے وہ بھی برائے نام ہے۔ (الا ماشاء الله) اور بہت سی خواتین اس دھوکے میں ہیں کہ ہم باپردہ ہیں۔ جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہیں تو برقعہ اوڑھ لیتی ہیں، لیکن گھر کے اندر ہر قسم کے مردوں سے اختلاط رکھتی ہیں ۔ حالاں کہ گھر کے اندر بھی شرعی پردے کا اہتمام کرنا خواتین پر فرض ہے، گھر کے اندر داخل ہونے والے مرد رشتہ دار دو قسم کے ہیں، محرم اور غیر محرم ، جو غیر محرم ہیں ان سے پردہ فرض ہے۔

وہ رشتہ دار جن سے پردہ فرض ہے
یعنی جس طرح اجنبی مردوں سے پردہ فرض ہے، اسی طرح بہت سے رشتہ داروں سے پردہ کرنا بھی فرض ہے، جن کی فہرست یہ ہے:
چچازاد، پھوپی زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، دیور، جیٹھ، نندوئی، بہنوئی، پھوپھا، خالو، شوہر کا بھتیجا، شوہر کا بھانجا، شوہر کا چچا، شوہر کا ماموں، شوہر کا پھوپھا، شوہر کا خالو۔

بعض عورتوں کو اشکال ہوتا ہے کہ اتنے سارے رشتہ داروں سے پردہ ہے تو کون سے مرد رہ گئے؟ جن سے پردہ نہیں۔ اس طرح تو شریعت میں بہت تنگی ہے، حالاں کہ شریعت میں کوئی تنگی نہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ:﴿لا یکلف الله نفسا الا وسعھا﴾ (سورہ بقرہ) ”یعنی الله تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زائد احکام کا مکلف نہیں بناتے۔“

وہ رشتہ دار جن سے پردہ فرض نہیں ہے
شوہر، باپ، دادا، پڑدادا، بیٹا، پوتا، پڑپوتا، نواسہ، پڑ نواسہ، چچا ، (حقیقی، علاتی، اخیافی) بھائی (تینوں قسم کے) بھتیجے (تینوں قسم کے بھائیوں کے بلاواسطہ یا بالواسطہ) بھانجے (تینوں قسم کے بہنوئی کے بلا واسطہ یا بالواسطہ) ماموں (تینوں قسم کے)، نانا، پڑنانا، سسر، داماد، شوہر کے بیٹے، رضاعی باپ، رضاعی بیٹا، رضاعی بھائی، رضاعی چچا، رضاعی ماموں وغیرہ۔

غرض یہ کہ فروعات کو ملاکر تیس سے زائد قسم کے مردوں سے پردہ فرض نہیں ہے، لہٰذا یہ اشکال پیش کرنا کہ شریعت میں تنگی ہے بالکل فضول اور لایعنی بات ہے، ایک غیرت ایمان رکھنے والی خاتون کبھی بے پردگی بے حیائی کو پسند نہیں کرسکتی، وہ ہمیشہ اپنی عفت وناموس کی حفاظت کا خیال رکھتی ہے، جان تو دے سکتی ہے، لیکن پردے کے حکم کو نہیں چھوڑسکتی۔

بے پردہ خواتین کے لیے سخت وعید
قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: صفات من أھل النارلم أرھما، قوم معھم سیاط کأذناب البقر،یضربون بھا الناس، ونساء کاسیات عاریات ممیلات مائلات، رؤوسھن کأسنمة البخت المائلة، لا یدخلن الجنة ولا یجدن ریحھا،وان ریحھا لتوجد من مسیرة کذا وکذا․(رواہ مسلم، مشکوٰة باب الترجل)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دو قسم کے لوگ جہنمی ہیں، ان کو میں نے نہیں دیکھا (یعنی میرے زمانے میں موجود نہیں، بعد میں پیدا ہوں گے) ایک تو وہ (ظالم) جن کے ہاتوں میں گائے کی دم کی طرح کوڑے ہوں گے، جن سے لوگوں کو (ظلماً) ماریں گے۔ دوسری وہ عورتیں ہوں گی جو ننگے لباس والی ہوں گی (یعنی باریک لباس میں ہوں گی، یا نیم برہنہ لباس میں، چال چلن کے اعتبار سے) مردوں کی طرف مائل ہونے والی او رمردوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی ہوں گی۔ ان کے سربختی اونٹ کے کوہان کی طرح ہوں گے (یعنی ہندو عورتوں کی طرح سر کے اوپر جوڑا باندھیں گی)، نہ تو جنت میں داخل ہوں گی اور نہ ہی ان کو جنت کی خوش بوملے گی، حالاں کہ جنت کی خوش بو جنتیوں کو بہت دور کے فاصلے سے ملے گی۔ (مسلم)

خواتین کو شرعی پردے کا ماحول فراہم کرنا مردوں کی ذمے داری ہے
شرعی پردہ کا اہتمام کرنا تو خواتین کی ذمہ داری ہے، جیسا کہ ہر بالغ عورت پر پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں، بعینہ اسی طرح شرعی پردے کا اہتمام کرنا بھی فرض ہے۔ مردوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے گھر کی خواتین سے پردے کا اہتمام کروائیں۔ ان کے لیے ایسا ماحول فراہم کریں جس میں خواتین کے لیے پردہ کے شرعی حکم پر عمل کرنا آسان او رممکن ہو۔ اگر مرد اپنے گھر کی خواتین کے لیے شرعی پردے کے اہتمام کا ماحول فراہم نہ کرے، بلکہ ان کو بے پردگی پرابھارے یا ان کی بے پردگی پر روک ٹوک نہ کرے، کسی قسم کی مخالفت نہ کرے تو ایسے مردوں کو دیوث اور بے غیرت قرار دیا گیا ہے، ان کو جنت سے محرومی کی وعید سنائی گئی ہے۔

قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ثلثة قد حرم الله علیہم الجنة مدمن الخمر، والعاق، والدیوث الذی یقر فی أھلہ الخبث رواہ أحمد والنسائی (مشکوٰة، باب بیان الخمر ووعید شاربھا)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تین قسم کے لوگوں پر الله نے جنت کو حرام قرار دیا ہے ۔شراب کا عادی۔ والدین کی نافرمانی کرنے والا۔ وہ دیوث جو اپنے گھر والوں میں برائی کو بر قرار رکھتا ہے۔ (مشکوة) اس حدیث میں ”دیوث“ کے لیے جنت سے محرومی کی وعید ہے، دیوث کی تعریف بھی ساتھ فرمادی کہ گھر کی خواتین، ماں، بہن، بیٹی، بیوی وغیرہ کسی کو اجنبی مردوں کے ساتھ مشتبہ حالت میں دیکھے، پھر بھی اس کو غیرت نہ آئے او ران کو نہ روکے، بلکہ بے اعتنائی اور لا پرواہی کامعاملہ کرے۔ ایک مسلمان مرد کو اپنے گھر کی خواتین کے متعلق غیرت او رحمیت کا مظاہرہ کرنا بھی ضروری ہے کہ ان کو بے حیائی کے کاموں سے روکے اور بے پردگی کے جتنے مواقع ہیں ان میں خواتین کو جانے سے روکے، ان کو شرعی پردے کی تعلیم دے، پھر اس کی پابندی بھی کرو ائے۔ جو لوگ شرعی پردے کے اہتمام میں رکاوٹ بنیں، خواتین کو چاہیے کہ ان کی پروا نہ کریں، بلکہ الله تعالیٰ کا حکم سمجھ کر اپنی غیرت ایمانی کا مظاہرہ کریں اور یہ شعر پڑھا کریں۔
        سارا جہاں ناراض ہو پروا نہ چاہیے
        مد نظر تو مرضی جانانہ چاہیے
        بس اس نظر سے دیکھ کر تو کر یہ فیصلہ
        کیا کیا تو کرنا چاہیے کیا کیا نہ چاہیے

رشہ داری ختم ہونے کا خیال
بعض خواتین کا کہنا ہے کہ اس طرح تو رشتہ داری ختم ہو جاتی ہے۔ تو پہلی بات تو یہ ہے کہ ان غیر محرموں کے ساتھ آپ کی رشتہ داری پہلے ہی کہاں قائم تھی جو اب ختم ہو جائی گی…؟ ان مردوں کے ساتھ نکاح کرنا شرعاً آپ کے لیے حلال ہے اور پردہ کے بعد بھی حلال رہے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ بے پردگی کے ساتھ جو محبت ہوئی ہے وہ در حقیقت محبت نہیں، بلکہ شہوت پرستی ہے، ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق اور نظارہ بازی کے ذریعے نفسانی جذبات کو تسکین دی جاتی ہے، ورنہ رشتہ داری کی بنیاد پر جو حقیقی محبت ہوتی ہے وہ تو ہرحال میں قائم رہتی ہے ۔ خواتین شرعی پردے کی پابندی کرکے تجربہ کریں، آپ کے دل کے سکون میں اضافہ ہو گا، آپ کی قدر ومنزلت، عزت واحترام بڑھ جائے گا۔ ظاہری طور پر دنیا والے عزت نہ بھی کریں، الله تعالیٰ کی نظر میں تو عزت ہی عزت ہو گی ۔ ان شاء الله تعالی دنیا وآخرت کی زندگی سکون والی ہو گی۔

گھر کے کئی افراد کا ایک ساتھ رہنا
ایک اشکال یہ کیا جاتا ہے کہ اگر گھر کے کئی افراد ایک مکان میں رہنا چاہیں تو پردے کی وجہ سے تو ایک ساتھ رہنا ممکن ہی نہیں۔ یا تو پردہ ختم کرنا ہوگا یا یکجا رہائش ختم کرکے منتشر ہونا پڑے گا؟ یہ اشکال بھی شرعی احکام سے جہالت اور ناواقفیت پر مبنی ہے، ورنہ ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی شرعی پردے کی پابندی آسانی کے ساتھ ہوسکتی ہے۔

گھر میں ساتھ رہنے والوں سے پردے کا طریقہ
جب مرد گھر میں آئے تو کھنکھارتے ہوئے آئے ۔ خواتین فوراً پردہ کر لیں اور مرد اپنے کمرے میں چلا جائے۔ اسی طرح استنجا وغیرہ کے لیے جانے کی ضرورت ہو تو یہی طریقہ اپنائے، نیز مرد یہ اہتمام کرے کہ بھاوج کے مخصوص کمرے میں ہر گز نہ جائے۔ اگر خواتین کو کچھ سودا سلف منگوانا ہو یا دیور یا جیٹھ سے کوئی ضروری بات کرنی ہو تو دیوار کے پیچھے سے ( آواز میں لچک پیدا کیے بغیر) کرے۔ اگر کوئی چیز دینی یا لینی پڑے تو ہتھیلی ظاہر کرنے کی اجازت ہے۔ ہاتھ باہر نکال کر دے اور لے سکتی ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ پورے جسم کو ظاہر کیا جائے۔ اسی طرح کھانا وغیرہ گھر کی عورتیں اور مرد الگ الگ جگہ بیٹھ کر کھائیں، اس فعل سے بہ آسانی پردے کے حکم پر عمل ہو سکتا ہے،بس شرط یہ ہے کہ مردو خواتین دونوں کے دل میں خوف خدا ہو اور دونوں شریعت کے اس حکم کو بجالانا چاہتے ہوں۔

اتنی مرتبہ تو دیکھ چکے
بعض خواتین کا کہنا ہے کہ وہ شخص چھوٹا تھا، اتنی مرتبہ دیکھ چکے یا تو وہ میرے بھائی کے برابر ہے یا میرے بیٹے کے برابر ہے وغیرہ۔ بات یہ ہے کہ پہلے جتنا عرصہ بھی بے پردگی میں گذرا ہو اس سے پردے کا حکم ساقط نہیں ہوتا، جیسے کسی نے بلوغت کے بعد دو چار سال نماز نہ پڑھی ہو تو کیا اس سے موت تک کے لیے نماز معاف ہوجائے گی، ہر گز نہیں، بلکہ جب الله تعالیٰ توفیق دے نماز شروع کردے اور فوت شدہ نمازوں کی قضا بھی کرے، اسی طرح پردے کے حکم میں بھی اگرچہ کچھ عرصہ اس پر عمل نہیں ہوا تو سابقہ بے پردگی سے توبہ کرے اور آئندہ کے لیے پابندی کرے۔ باقی بھائی یا بیٹا جیسا ہونا شریعت میں اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس سے پردہ کا حکم ساقط نہ ہوگا، کیوں کہ پھر تو کوئی بھی مرد پسند آجائے،اگر ذرا معمر ہو تو اس کو باپ جیسا اور اگر جوان ہو تو بھائی جیسا کہہ کر پردہ ختم کر دیا جائے، تب تو شریعت ایک مذاق بن جائے گی۔

الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو شریعت مطہرہ کے مطابق عمل کرنے اور مسلمان خواتین کو شرعی پردے کا اہتمام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !

No comments:

Post a Comment