Tuesday, 15 January 2019

خاوند کی رغبت بہت ہی قوی اور شدید ہو تو بیوی کیا کرے؟

خاوند کی رغبت بہت ہی قوی اور شدید ہو تو بیوی کیا کرے؟
سوال: ہماری شادی چھ ماہ قبل ہوئی ہے اور ہمیں ہم بستری کے بارہ میں ایک مشکل ہے جسے ہم ابھی تک منظم نہيں کرپائے، کیونکہ خاوند کی رغبت بہت ہی قوی اور شدید ہے، میں نے اس کی خواہش پوری کرنے کی کوشش تو کی ہے لیکن نہیں کرسکی اور اب میں بہت ہی تکلیف محسوس کرتی ہوں اور بدنی طور پر مجھ میں اس کی طاقت نہیں رہی۔
میرے خاوند نے اس سے بہت ہی برا تاثر لیا ہے اور گھر میں مجھ سے علیحدہ رہنے لگا ہے، مجھے یہ تو علم ہے کہ میں اس کی رغبت کو پوری کروں، لیکن ہمارے ایک دوسرے کے بارہ میں واجبات کیا ہيں؟
اگر طرفین کی رضامندی کے باوجود ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کے قریب رہنے کی طاقت نہ رکھے، تو کیا خاوند کے لئے جائز ہے کہ وہ اس طریقے سے مجھ سے علیحدہ ہو؟
اور کیا اسے یہ حق ہے کہ وہ میرے پاس صرف یہ تعلق قائم کرنے کے لئے ہی آئے باوجود اس کے ہم نے ابھی تک اکٹھے بات چیت بھی نہیں کی؟
ان حالات کے باوجود المحد للہ ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور بہت ہی خوش ہيں اور ہر ایک دوسرے کا احترام بھی کرتا ہے، لیکن ہم اپنی زندگی کی اس مشکل کا اسلامی حل چاہتے ہیں۔
جواب:
الحمدللہ
خاوند پر واجب اور ضروری ہے کہ وہ بیوی سے حسن معاشرت کرے، اور حسن معاشرت میں جماع بھی شامل ہے، جوکہ اس پر واجب ہے، جمہور علماء کرام نے ہم بستری کے لئے مدت مقرر کی ہے کہ زيادہ سے زيادہ چار مہینہ تک کے لیے جماع چھوڑا جاسکتا ہے، اور صحیح تو یہی ہے کہ وہ کوئی مدت محدد نہ کرے بلکہ بیوی کے لئے جتنا کافی ہو اس سے اتنی ہی ہم بستری کرنی چاہئے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں:
مرد پر جب اس کے پاس کوئی عذر نہ ہو تواپنی بیوی سے ہم بستری واجب ہے، امام مالک رحمہ اللہ تعالی کا بھی یہی قول ہے۔
دیکھیں المغنی لابن قدامہ (7 / 30) ۔
جصاص رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں:
خاوند پر ضروری ہے کہ اپنی بیوی سے ہم بستری کرے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
کہ تم اسے معلق کرکے چھوڑ دو یعنی نہ تو اسے فار‏غ کرو کہ وہ کہیں اور شادی کرلے، کہ جب خاوند اسے ہم بستری کا حق نہیں پورا کرتا تو وہ ایسے ہی ہے کہ اس کا خاوند نہ ہو۔
دیکھیں احکام القرآن للجصاص (1 / 374)۔
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ ا للہ تعالی کہتے ہيں:
خاوند پر اپنی بیوی کی کفایت کے حساب ہم بستری کرنا واجب ہے، جب تک خاوند کا بدن لاغر نہ یا پھر وہ اسے اس کی معیشت سے روک دے، اور چار ماہ کی تحدید کئے بغیر۔ دیکھیں: الاختیارات الفقھیۃ ص (246) ۔
جب خاوند بیوی کو ہم بستری کے لئے بلائے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اس کی بات تسلیم کرے اگر وہ انکار کرے گی تو نافرمان ہوگی۔
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(جب مرد اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور بیوی آنے سے انکار کردے تو صبح ہونے تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں) صحیح بخاری حديث نمبر (3065) صحیح مسلم حدیث نمبر (1436) ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
جب خاوند بیوی کوہم بستری کے لیے بلائے تواس پر واجب ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے کیونکہ یہ اس پر فرض اور واجب ہے ۔۔۔ اور جب بھی وہ ہم بستری کرنا قبول نہ کرے تو نافرمان شمار ہوگی ۔
جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
اور وہ عورتیں جن کی نا فرمانی سے تم ڈرتے ہو انہيں وعظ ونصیحت کرو اور انہیں بستروں میں الگ کردو، اور انہیں مار کی سزا دو جو کہ شدید نہ ہو، اگر وہ تمہاری اطاعت کرلیں تو پھر ان پر کوئی راہ تلاش نہ کرتے پھرو ۔
دیکھیں الفتاوی الکبری (3 / 145 - 146)۔
خاوند کے لئے جائز نہیں کہ وہ بیوی کے ساتھ طاقت سے زيادہ ہم بستری کرے، اگر وہ بیماری کی وجہ سے ہم بستری کرنے سے معذور ہو یا پھر اس کی برادشت سے باہر ہو تو وہ ہم بستری کرنے سے انکار پر گنہگار نہیں ہوگی۔
حافظ ابن حزم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں:
لونڈی اور آزاد عورت پر فرض ہے کہ جب اس کا مالک اور خاوند جب بھی اسے ہم بستری کی دعوت دے تو وہ اس کی بات قبول کرے اور انہیں انکار نہیں کرنا چاہئے، لیکن جب وہ حائضہ یا پھر مریض ہوں اور ہم بستری ان کے لئے تکلیف دہ ہو، یا پھر فرضی روزے سے ہوں تو پھر انکار کرسکتی ہیں، اور اگر بغیر کسی عذر کے انکار کریں تووہ ملعون ہیں۔ محلی ابن حزم (10 / 40)۔
اور بھوٹی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے:
خاوند کو اپنی بیوی سے ہر وقت استمتاع کا حق ہے ۔۔۔ جب تک کہ اسے وہ فر‏ائض سے مشغول نہ کرے اور یا پھر اس کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔
تو اسی حالت میں خاوند کو اس سے استمتاع کا حق نہیں کیونکہ ایسا کرنا حسن معاشرت میں داخل نہیں، اور جب اسے فرائض سے مشغول نہ کرے اور نہ ہی اس کے لئے نقصان دہ ہو تو پھر خاوند کو حق استمتاع حاصل ہے۔
دیکھیں کشف القناع ( 5 / 189 ) ۔
ایسی بیوی جسے خاوند کی زيادہ ہم بستری نقصان اور تکلیف دہ ہوتی ہو اسے چاہئے کہ وہ اپنے خاوند سے مصالحت کرے اور اس کے ساتھ اپنی برداشت کےمطابق ہم بستری کی تعداد متعین کرلے، اور اگر وہ اس سے زيادہ کرے حتی کہ اسے نقصان اور تکلیف دے تو پھر اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا معاملہ عدالت میں لے جائے اور قاضی کو بیان کرے اور قاضی کوحق حاصل ہے کہ وہ اس کے لیے تعداد متعین کرے جو خاوند اور بیوی دونوں پر لازم ہو ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں:
خاوند پر اپنی بیوی کی کفایت کے حساب ہم بستری کرنا واجب ہے، جب تک خاوند کا بدن لاغر نہ یا پھر وہ اسے اس کی معیشت سے روک دے، اور چار ماہ کی تحدید کیے بغیر ۔۔۔۔
اور اگر وہ آپس میں تنازع کریں توحاکم کو چاہئے کہ وہ خاوند پر نفقہ کی طرح ہم بستری اگر زيادہ کرتا ہے تو اس کی تعداد متعین کرکے اس پر لازم کرے۔
دیکھیں: الاختیارات الفقھیۃ ص (246)۔
اور اب جبکہ آپ کے ملک میں شرعی عدالت نہیں تو بیوی کو چاہئے کہ وہ اس معاملہ میں اپنے خاوند کے ساتھ متفق ہوکر اسے حل کرلے، اور اسے صراحتا اپنے خاوند سے بات کرنی چاہئے، اور اس کے سامنے وہ احادیث اور آیات بیان کرے جس میں حسن معاشرت کا ذکر ہے اور حکم دیا گيا ہے کہ خاوند بیوی کے ساتھ حسن معاشرت اختیار کرے۔
اور بیوی کواپنے خاوند کے لئے یہ بھی بیان کرنا چاہئے کہ وہ اس سے انکار تو نہیں کرتی لیکن جو چيز اس کے نقصان دہ ہے اور جس کی وہ متحمل نہيں اور وہ نقصان اور تکلیف دیتی ہے وہ اس سے انکار کرتی ہے، بلکہ وہ خود تو اس پر حریص ہے کہ آپ کی اطاعت اور آپ کی خواہش و رغبت پوری کرے اور بات کو تسلیم کرے۔
ہم سوال کرنے والی بہن کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنے خاوند کے معاملہ میں صبرو تحمل سے کام لے، اور اس معاملہ کو حسب استطاعت برداشت کرے اور اسے یہ علم ہونا چاہئے کہ اسے اس پر اللہ تعالی کی جانب سے اجر وثواب بھی ملے گا۔
اور خاوند پر بھی یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی بیوی کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرے اور اس کا خوف اپنے ذہن میں رکھے، اور اس پر ایسا کام مسلط نہ کرے جو اس کی برداشت سے ہی باہر ہو، اور اسے اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئے، اور حسن معاشرت اختیار کرنی چاہئے۔
اگر اس کی شہوت اتنی ہی زيادہ ہے کہ اسے ایک بیوی کافی نہیں تو پھر وہ اس کا حل کیوں نہیں تلاش کرتا، ہوسکتا ہے یہ مشکل خاوند اور بیوی کے مابین تعلقات میں خرابی اور ناچاقی کا باعث بن جائيں، یا پھر اس سے بھی خطرناک کام میں پڑجائے کہ اپنی شہوت کو حرام طریقے سے پوری کرنا شروع کردے۔
اس مشکل کو حل کرنے کے لئے جو حل ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ دوسری شادی کرلے، کیونکہ اللہ تعالی نے مرد کے لئے مباح کیا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں چار بیویاں رکھ سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اگر وہ ان میں عدل وانصاف اور برابری کرنے کی طاقت رکھتا ہو وگرنہ نہیں۔
اور اس مشکل کا حل یہ بھی ہے کہ:
وہ روزے کثرت سے رکھنے شروع کردے، اس لئے کہ روزے شہوت کو کم کردیتے ہیں۔
ایک حل یہ بھی ہے کہ: شہوت کم کرنے والی ادویات استعمال کرے لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ وہ نقصان دہ نہ ہوں۔
اللہ تعالی سے دعاگو ہوں کہ وہ مسلمانوں کے حالات کی اصلاح فرمائے۔
واللہ اعلم.

No comments:

Post a Comment