Sunday, 13 January 2019

اسلامی عصری اسکولوں میں بعض طالبہ کا اناؤنسری کرنا؟

اسلامی عصری اسکولوں میں بعض طالبہ کا اناؤنسری کرنا؟
السلام علیکم
مفتی شکیل صاحب ایک مسئلہ ہے کہ ایک مسلم اسکول ہے وپاں بچے اور بچیاں دونوں کی پڑھائی ہوتی ہے اور دونوں کے اوقات بھی الگ الگ ہیں. اب مسئلہ یہ ہے کہ اسکول میں سال میں ایک مرتبہ دینی پروگرام ہوتآ ھے جس میں نظم اور تقریر اور اسلامی ڈرامہ اور بھی بہت کچھ پروگرام ہوتے ہیں. اس پروگرام میں بچے اور بچیاں اور اسکول کا اسٹاف جس میں 90% ٹیچرس عورتیں ہیں اور 10% فیصد مرد حضرات ہیں، بس مسئلہ اس بآت کا ہے  کہ ایک 14 سال کی لڑکی کو اس پروگرام میں اناؤنسر  کے طور پر رکھنا ہے جس میں وہ سب بچوں اور بچیوں کو پروگرام کے لئے بلائے تو اس کا ان بچوں کو بلانے کے لئے آواز دینا کیسا ہے؟ کیا اس کی آواز ستر میں داخل ہے؟ اسی بچی کو پروگرام میں اسپپچ کے لئے رکھنا جائز ھے؟ اور پروگرام کو سننے والے تھوڑی عورتیں اور تھوڑے مرد حضرات بھی ہوتے ہیں، اب کیا حکم ہے اس مسئلہ کا؟ پوری تفصیل کے ساتھ جواب مطلوب ہے؟
حافظ مسعود اعجازی، اورنگ آباد، مہاراشٹر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
اسلام سراپا معرفت اور تعلیم وتدریس کا مذہب ہے، اس کا اولیں نزول ہی پڑھنے پڑھانے سے ہوا ہے، مرد وعورت دونوں پہ بقدر ضرورت دینی تعلیم کو وہ ضروری قرار دیتا ہے.
یہاں تعلیم نسواں کی بھی ہمت افزائی کی گئی ہے ، لیکن اس کے "حیاء باختہ" طریقوں اور "انسانیت سوز" و "آوارہ گرد" نصاب تعلیم اور مرد وزن کے بے مہابا اختلاط پہ قدغن لگائی گئی ہے، مخلوط نظام تعلیم والے اسکولوں اور اداروں نے نسل نو کی اخلاقی مٹی پلید کردی ہے
تعلیمی اداروں میں آزانہ اختلاط نے اخلاقی بگاڑ، جنسی انارکی، ہم جنس پرستی اباحیت پسندی اور ہوس پرستی کو فروغ دے کر ایسی نسل تیار کی ہے جو رنگ وخون کے اعتبار سے چاہے کچھ بھی ہو لیکن ذہن وفکر کے اعتبار اسلام بیزار اور عیسائیوں کے غلام ضرور ہونگے!
واقفان احوال پہ یہ بات یقیناً مخفی نہیں ہے کہ آج مسلمانوں میں جو متمول طبقہ ہے، باستثنائے معدودے چندے اکثریت اپنے بچے اور بچیوں کو مدارس میں نہیں پڑھاتی- إلا من رحم ربك ـ
ان کے بچے ماڈرن انگریزی میڈیم کانوینٹ میں جاتے ہیں پھر لبرل طبقہ یا  عیسائی اور یہودی ٹیچرس کے اثرات کی وجہ سے  پڑھنے والے بیشتر بچوں میں ایمانی پختگی میں کمی آجاتی ہے، ایمان واسلام سے دور اور کفر وشیطنت سے قریب ہوجاتے ہیں، شعائر وتعلیم اسلام کو حقارت کی نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں، ان کی فکری بنیادیں کھوکھلی کردی جاتی ہیں، یوں ہمارے مسلم بچے ہماری نظروں کے سامنے ہمارے صحن آگن میں فکری ہائی جیک ہوجارہے ہیں، “لارڈ میکالے” کی خفیہ مشن اگر اسی برق رفتاری سے جاری رہی تو بعید نہیں کہ سرمایہ داروں کی آئندہ نسل دین سے محروم یا بالکل کمزور یا ختم ہوجائے!
صورت حال کی حساسیت و نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے ہندوستان کے متعدد مقامات پہ اسلام پسند علمی وتربیتی شخصیات نے ایسے اسکولز کے قیام کا منصوبہ بنایا جہاں مکمل اسلامی ماحول میں اعلی پیمانے کی معیاری عصری تعلیم  کے ساتھ تجوید، دینیات، اسلامی تاریخ، ودیگر دینی ضروری تعلیم دی جائے،
اس مقصد کے لئے متعدد بڑے شہروں میں ایسے اسکولز قائم کئے گئے ہیں جہاں بچوں اور بچیوں کے لئے الگ الگ اوقات میں دسویں یا بارہویں تک تعلیم ہوتی ہے، دینی تعلیم کے لئے علماء ومعلمات ہوتی ہیں، ایک جامع دینی نصاب مرتب کیا جاتا ہے جس کے مطابق تعلیم ہوتی ہےـ بعض  اسکولوں میں ذہین بچے میٹرک تک پہنچنے سے پہلے حافظ بھی ہوجاتے ہیں، معلمات اور خاتون ٹیچر نیز چھٹی کلاس سے اوپر کی بچیوں کے لئے چہرے کے پردے کے ساتھ اسلامی برقع لازمی ہوتا ہے.
ایسے مکاتب واسکولز کے سالانہ اجلاسات میں دعوتی نقطہ نظر سے کبھی پڑھے لکھے غیرمسلم طبقہ کی خواتین کو بھی مدعو کیا جاتا ہے، تاکہ اس اسکولی نظام کی تشہیر ہو، اس پہ لوگوں کا اعتماد ووثوق بڑھے، لوگ اس سے قریب آئیں اور ارتداد کے دہانہ پہ پہنچے ہوئے مالدار طبقہ کے بچے یہاں داخل ہوں
اس دعوتی نقطہ نظر اور ناگزیر ضرورت و مصلحت کی وجہ سے اگر مکمل شرعی پردہ کے ساتھ بعض طالبہ اسٹیج پہ، غیر لذت بخش آواز  وانداز میں، امیدواروں کے نام پکاریں یا بعض نشستوں کی جزوی نظامت یا بیان کریں جبکہ سامعین اجلاس میں خواتین کی معتدبہ تعداد بھی ہو موجود ہو تو بر بنائے ضرورت مذکورہ اس کی گنجائش ہے.
اس نوع کے اسکولز کے فروغ و تعمیر میں ہم سب کو رفیق کار کی حیثیت سے اپنا اپنا دست تعاون بڑھانا چاہئے، اگر واقعی کہیں کوئی خامی کوتاہی ہوئی ہو تو نصح وخیر خواہی، و آداب اسلامی کی رعایت کے ساتھ اصلاح کی کوشش ہونی چاہئے
جہاں تک عورتوں کی آواز کے پردہ کی بات ہے تو صحیح اور راجح قول کے مطابق عورت کی آواز پردہ (ستر) میں داخل نہیں ہے۔ عوارض مثلا خوف فتنہ کی وجہ سے اس پہ روک لگائی گئی ہے۔ جہاں یہ علت نہ ہوگی، وہاں عورت کی آواز کا پردہ بھی نہ ہوگا۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آیت حجاب کے نزول کے بعد بھی پردہ سے امہات المومنین سے بوقت ضرورت باتیں کرتے۔ مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
کیا عورت کی آواز فی نفسہ ستر میں داخل ہے اور غیر محرم کو آواز سنانا جائز ہے؟ اس معاملے میں حضرات ائمہ کا اختلاف ہے۔ امام شافعی کی کتب میں عورت کی آواز کو ستر میں داخل نہیں کیا گیا۔ حنفیہ کے نزدیک بھی مختلف اقوال ہیں۔ ابن ہمام نے نوازل کی روایت کی بناء پر ستر میں داخل قرار دیا ہے۔ اسی لئے حنفیہ کے نزدیک عورت کی اذان مکروہ ہے لیکن حدیث سے ثابت ہے کہ ازواج مطہرات نزول حجاب کے بعد بھی پس پردہ غیر محارم سے بات کرتی تھیں. اس مجموعہ سے راجح اور صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس موقع اور جس محل میں عورت کی آواز سے فتنہ پیدا ہونے کا خطرہ ہو وہاں ممنوع ہے جہاں یہ نہ ہو جائز ہے (جصاص) اور احتیاط اسی میں ہے کہ بلا ضروت عورتیں پس پردہ بھی غیر محرموں سے گفتگو نہ کریں۔
(معارف القرآن 407/6)
الموسوعةالفقہیہ میں ہے:
ذَهَبَ الْفُقَهَاءُ إِلَى أَنَّهُ لاَ يَجُوزُ التَّكَلُّمُ مَعَ الشَّابَّةِ الأَْجْنَبِيَّةِ بِلاَ حَاجَةٍ لأَِنَّهُ مَظِنَّةُ الْفِتْنَةِ، وَقَالُوا إِنَّ الْمَرْأَةَ الأَْجْنَبِيَّةَ إِذَا سَلَّمَتْ عَلَى الرَّجُل إِنْ كَانَتْ عَجُوزًا رَدَّ الرَّجُل عَلَيْهَا لَفْظًا أَمَّا إِنْ كَانَتْ شَابَّةً يُخْشَى الاِفْتِتَانُ بِهَا أَوْ يُخْشَى افْتِتَانُهَا هِيَ بِمَنْ سَلَّمَ عَلَيْهَا فَالسَّلاَمُ عَلَيْهَا وَجَوَابُ السَّلاَمِ مِنْهَا حُكْمُهُ الْكَرَاهَةُ عِنْدَ الْمَالِكِيَّةِ وَالشَّافِعِيَّةِ وَالْحَنَابِلَةِ، وَذَكَرَ الْحَنَفِيَّةُ أَنَّ الرَّجُل يَرُدُّ عَلَى سَلاَمِ الْمَرْأَةِ فِي نَفْسِهِ إِنْ سَلَّمَتْ عَلَيْهِ وَتَرُدُّ هِيَ فِي نَفْسِهَا إِنْ سَلَّمَ عَلَيْهَا، وَصَرَّحَ الشَّافِعِيَّةُ بِحُرْمَةِ رَدِّهَا عَلَيْهِ۔
(بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية 4 / 1577، وحاشية ابن عابدين 1 / 272، 5 / 233، والفواكه الدواني 2 / 224، وشرح الزرقاني 3 / 110، وروضة الطالبين 10 / 229، والمغني 6 / 558 - 560.)

مرشد تھانوی رحمة اللہ علیہ کے مختلف ملفوظات وفتاوی میں ہے:
عورت کی آواز کے عورت (ستر) ہونے میں اِختلاف ہے مگر صحیح یہ ہے کہ وہ عورت نہیں۔ (اِمدادُالفتاوی) لیکن عوارض کی وجہ سے بعض جائز اُمور کا ناجائز ہوجانا فقہ میں معروف و مشہور ہے اِس لئے فتنہ کی وجہ سے عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے۔
(اِمدا دُالفتاوی)
بعض فقہاء نے عورت کی آواز کو عورت (ستر) کہا ہے گو بدن مستور (پردہ) ہی میں ہو کیونکہ گفتگو اَور کلام سے بھی عشق ہوجاتا ہے اَور آواز سے بھی میلان ہوجاتا ہے۔ (ملفوظاتِ اَشرفیہ)
عورت کی آواز تو بے شک عورت (ستر) ہوتی ہے، اِس کو آہستہ بولنا چاہئے تاکہ کبھی کوئی آواز سن کر عاشق نہ ہوجائے۔ اِس کے زور سے بولنے میں فتنہ ہے اِس لئے (عورت کو) زور سے نہ بولنا چاہئے۔
(الافاضات الیومیہ)
اَز افادات: حکیم الامت حضرت مولانا اَشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ)
فتاوی شامی میں ہے:
ولا یکلم الأجنبیۃ إلا عجوزاً۔’’درمختار‘‘۔ ویجوز الکلام المباح مع امرأۃ أجنبیۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وفي الحدیث دلیل أنہ لا بأس بأن یتکلم مع النساء بما لا یحتاج إلیہ ولیس ھذا من الخوض فیما لایعنیہ، إنما ذلک في کلا م فیہ إثم، فالظاہر أنہ قول آخر أو محمول علی العجوز ۔
’رد المحتار علی الدر المختار‘
(۹/۵۳۰، الحظروالإباحۃ، فصل في النظر والمس)

مذکورہ بالا فقہی نصوص سے واضح ہے کہ بوقت ضرورت اجنبیہ عورت سے بات کی جاسکتی ہے۔ بشرطیکہ لذت بخش اور نغمگی آواز کے ذریعہ نہ ہو اور خوف فتنہ بھی نہ ہو۔ ۔۔۔۔۔ اللہ نے قرآن کریم میں امہات المومنین کو جو سلیقہ گفتگو سکھایا وہ اس جانب بھی مشیر ہے۔
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ۔۔۔۔(033:032)
فلا تخضعن بالقول کہ کسی اجنبی آدمی سے دب کر بات نہ کرو بلکہ کلام میں درشتگی اختیار کرو۔ کیونکہ نرم لہجے میں بات کرنے سے فیطمع الذی فی قلبہ مرض دل کا روگی آدمی لالچ کرے گا۔ دل کے روگ سے مراد نفاق، خواہشات نفسانی اور شہوانی میلان ہے۔ اس لئے حکم دیا کہ اگر کسی اجنبی آدمی سے بات کرنی پڑے تو روکھا پن ظاہر کرو، تاکہ کسی بد باطن آدمی کے دل میں کوئی خیال نہ آسکے۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
سیّدپور /بیگوسرائے

No comments:

Post a Comment