Friday, 25 January 2019

وندے ماترم اور جن گن من ادھنایک کا گانا کیسا ہے؟

وندے ماترم اور جن گن من ادھنایک کا گانا کیسا ہے؟
مندرجہ ذیل پوسٹ پر وضاحت مطلوب ہے:
"(سوال نمبر 106)
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسٔلہ کے بارے میں آج کل اکثروبیشتر اسکولوں میں اور خاص کر 26 جنوری و 15 اگست کو جو ترانے یعنی 'وندے ماترم' اور 'جن گن من ادھنایک' جو گاۓ جاتے ہیں انکا مسلمان اور مسلم بچوں کا گانا کیسا ہے اور ایسے پروگرام میں شرکت کرنا کیسا ہے کیا ان ترانوں کے الفاظ و معانی میں کفر وشرک کے کلمات ہیں وضاحت فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
فقط والسلام
مشاہد الاسلام امام بلال مسجد صدیق پورہ پلکھوا ضلع ہاپوڑ یوپی

________________________
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ! الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال کا شرعی حکم بتایا جائے اس سے قبل بہتر ہوگا کہ وندے ماترم کا ترجمہ دیکھ لیا جائے۔ ترجمہ:
"تیری عبادت کرتا ہوں اے میرے اچھے پانی، اچھے پھل، بھینی بھینی خشک جنوبی ہواوں اور شاداب کھیتوں والی میری ماں، حسین چاندنی سے روشن رات والی، شگفتہ پھولوں والی، گنجان درختوں والی، میٹھی ہنسی، میٹھی زبان والی، خوشی دینے والی، برکت دینے والی ماں، میں تیری عبادت کرتا ہوں اے میری ماں.تیس کروڑ لوگوں کی پرجوش آوازیں، ساٹھ کروڑ بازو میں سمیٹنے والی تلواریں،کیا اتنی طاقت کے بعد بھی تو کمزور ہے اے میری ماں۔ تو ہی میرے بازو کی قوت ہے، میں تیرے قدم چومتا ہوں اے میری ماں۔ تو ہی میرا علم ہے، تو ہی میرا مذہب ہے، تو ہی میرا باطن ہے، تو ہی میرا مقصد ہے، تو ہی جسم کی روح ہے، تو ہی بازو کی طاقت ہے، تو ہی دلوں کی حقیقت ہے، تیری ہی محبوب مورتی مندر میں ہے، تو ہی درگا،دس مسلح ہاتھوں والی، تو ہی کملا ہے، تو ہی کنول کے پھولوں کی بہار ہے، تو ہی پانی ہے، تو ہی علم دینے والی ہے، میں تیرا غلام ہوں، غلام کا غلام ہوں، غلام کے غلام کا غلام ہوں، اچھے پھل والی میری ماں ۔ میں تیرا بندہ ہوں، لہلہاتے کھیتوں والی مقدس موہنی، آراستہ پیراستہ، بڑی قدرت والی قائم و دائم ماں، میں تیرا بندہ ہوں۔ اے میری ماں میں تیرا غلام ہوں" (یہ اردو ترجمہ، آل انڈیا دینی، تعلیمی کونسل لکھنو کا شائع شدہ ہے)۔
مضامین ڈاٹ کام پورٹل پر ایک کالم نگار لکھتے ہیں: "آپ جانتے ہیں کہ وندے ماترم بنگلہ زبان کے مشہور ناول نگار بنکِم چندر چٹرجی کی 1882 میں لکھی ناول 'آنندمٹھ' میں شامل ہے۔ وندے ماترم ناول کا ایک حصہ ہے۔ لیکن چونکہ
چٹرجی مشہور شاعر بھی تھے لہذا اسے پہلی مرتبہ انہوں نے7؍ نومبر1875 میں لکھا تھا۔ لیکن باضابطہ طور پر روندرناتھ ٹیگور نے 1896 میں کانگریس کی منعقدہ میٹنگ، کلکتہ میں اسے پہلی مرتبہ گایا تھا۔ یہ درست ہے کہ کانگریس اجلاس میں اس نظم کو سب سے پہلے رابندر ناتھ ٹیگور نے ہی آواز دی تھی اور اس کا دھن بھی بنایا تھا مگر جب اس نظم کو قومیت کی علامت بناکر پیش کیا جانے لگا تو انہوں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے 1937 میں سبھاش چندر بوس کو ایک خط بھی لکھا کہ ”وندے ماترم کا بنیادی عقیدہ دیوی درگا کی پرستش ہے اور یہ اتنا واضح ہے کہ اس پر کسی قسم کی بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بیشک بنکم نے درگا کو متحدہ بنگال کی ایک علامت کے طور پر پیش کیا ہے مگر کسی مسلم سے یہ توقع نہیں کی جانی چاہیے کہ وہ حب الوطنی کے نام پر دس ہاتھوں والی درگا کی عبادت کرے" (بحوالہ: رابندر ناتھ کے منتخبہ خطوط‘ مطبوعہ کیمبریج یونیورسٹی)
(ماخوذ از مضامین ڈاٹ کام کالم نگار محمد آصف)
اس کے حوالے سے عدلیہ نے کیا کہا ہے ایک اردو"روزنامہ اخبار تاثیر ای پیپر" کی رپورٹ ملاحظہ فرمائیں:
(2017  فروری 17 طارق حسن) (یو این آئی) سپریم کورٹ نے قومی گیت 'وندے ماترم' کو قومی ترانہ 'جن گن من' کے برابر تسلیم کرنے سے متعلق ایک عرضی کو اس دلیل کے ساتھ مسترد کردیا کہ قومی گیت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جسٹس دیپک مسرا، جسٹس آر بھانومتی اور جسٹس ایس ایم ملک ارجن گوڑا کی بنچ نے بی جے پی رہنما اور سینئر وکیل اشونی اپادھیائے کی اس عرضی کو مسترد کردیا جس میں انہوں نے قومی ترانہ، قومی پرچم اور قومی گیت کو فروغ دینے کے لئے آئین کی دفعہ 51 اے کے تحت قومی پالیسی بنانے کی اپیل کی تھی۔ جسٹس مشرا نے اپنے مختصر حکم میں کہا کہ دفعہ 51 اے میں صرف قومی پرچم اور قومی ترانہ کا ذکر کیا گیا ہے اس لئے جہاں تک قومی گیت (وندے ماترم) کی بات ہے تو ہم اس پرکوئی نئی بحث نہیں چھیڑنا چاہتے ہیں۔ عدالت نے دفاتر، عدالتوں، ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں قومی ترانہ کو لازمی قرار دینے سے متعلق عرضی مسترد کردی۔ حالانکہ اسکولوں میں قومی ترانہ کو لازمی قرار دینے سے متعلق عرضی پر الگ سے غور کرنے کے لئے حامی بھر دی۔ جسٹس مشرا نے کہا کہ اسکولوں میں تمام کام کے دنوں میں قومی ترانہ گانے کے سلسلے میں عرضی کو چھوڑ کر دیگر تمام عرضیاں مسترد کردی جاتی ہیں۔ دیکھیے (مذکورہ روزنامہ برقی اشاعت)
لہذا رائٹر کے بیان کردہ شرکیہ الفاظ نیز عدلیہ کی وضاحت سے یہ صاف ہوجاتا ہے کہ قومی گیت "وندے ماترم" کہنے کی شرعا بالکل اجازت نہیں. اور نہ کوئی خارجی مجبوری ہے. ہاں البتہ جن گن جو قومی ترانہ ہے. اس کی ساخت اور تفصیلات سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ اسے گانے  میں کوئی حرج نہیں! یہاں اس  کے حوالے سے بھی چند باتیں ملاحظہ فرمالیں!
اولا: یہ کہ یہ "جن گن من" ہندوستان کا قومی ترانہ نوبل انعام یافتہ مصنف رابندر ناتھ ٹیگور نے لکھا ہے جو پہلے بنگالی زبان میں تھا. بعد میں اسے سنسکرت کا لہجہ دے کر سنوارا گیا۔ اس ترانے کی وجہ تخلیق یہ ہے کہ جب کنگ جارج پنجم کے  ہاتھوں ہندوستان کی حکومت سپرد ہوئی، اوراس کی تاج پوشی کا وقت آیا؛ تو اس وقت شاعر نے اسے بطور نذرانہ عقیدت ان کے سامنے پیش کیا. دیکھیے ("جن من گن: وکی پیڈیا)
ثانیا: یہ اور بات ہے کہ جب آنجہانی رابندر ناتھ ٹیگور سے تقریباً سولہ سترہ سال بعد اس کی وضاحت طلب کی گئی تو انہوں نے کہا کہ یہ خدا کی حمد ہے. حالانکہ اس کی تردید کے لیے خود لفظ "ادھینایک" اور لفظ "توَا شبھ آسیش" نیز وقت پیشکش یہ سبھی اس کی نفی کر نے کے لیے کافی ہوں. آپ جب لغت سے رجوع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ "ادھینایک" کا مطلب ہی ہے "Lord of rule" ۔ یعنی سربراہ قانون و حاکم؛ جو اس وقت کنگ جارج پنجم تھے. نیز "توا" بمعنی تیرے لیے ہوتا ہے. اور جب اسے پیش کیا جارہا تھا تو اس وقت ایک حاکم کی تاجپوشی ہورہی تھی. جن کی عظمت وسربلندی کی دعائیں مانگی گئی ہیں. انڈین نیشنل کانگریس: سنہ انیس سو گیارہ کے اجلاس میں یہ نظم پہلی دفعہ گائی گئی۔ سنہ انیس سو سینتالیس میں برطانوی راج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد اسے ہندوستان کے قومی ترانے کے طور پر اپنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ چوبیس جنوری سنہ انیس سو پچاس میں جب آئین ساز اسمبلی نے اس ترانے کو آئینی طور پر قومی ترانے کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا تو لفظ سندھ کو ”سندھو“ سے تبدیل کردیا گیا۔ ایسا درحقیقت اس وجہ سے کیا گیا کیونکہ سندھ پاکستان کا حصہ بن چکا تھا لیکن اس کے باوجود بھی ابھی تک لفظ "سندھ" ہندوستان کے قومی ترانے میں جوں کا توں موجود ہے۔ اس کی وجہ درحقیقت یہی ہے کہ ارباب اختیار نے اس کو ترویج دینے اور عام کرنے کے لئے موثر اقدامات نہیں کرسکے۔ چنانچہ آج بھی ملک عزیز کے قومی ترانے کےالفاط سبھی لفظ بلفظ جوں کا توں درست نہیں ہیں اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ  ممبئی کے ایک پروفیسر نے ترانے میں لفظ سندھ کے استعمال پر اعتراض کرتے ہوئے عدالت میں درخواست دائر کردی جس میں یہ موقف اختیار کیا کہ قومی ترانے میں لفظ "سندھ" کا استعمال کیا جانا درست نہیں کیونکہ سندھ پاکستان کے ایک صوبے کا نام ہے بلکہ سندھ کی جگہ ”سندھو“ کا لفظ استعمال کیا جانا چاہئے جو یہ ایک دریا کا نام ہے۔ دیکھیے (مضمون" ہندوستان کا قومی ترانہ اور سندھ" از: نجیم شاہ اردو پاور پورٹل) مزید دیکھیے (مضمون نگار شکیل اختر بی بی سی نیوز پورٹل)
جناب ڈاکٹر یاسر ندیم الواجدی القاسمی صاحب کا اس موضوع پر ایک تحقیقی مضمون بھی شایع ہوا ہے. اس کا بھی ایک اقتباس یہاں کافی سودمند ہوگا. وہ لکھتے ہیں:
"ٹیگور کا یہ ترانہ سب سے پہلے 27 دسمبر1911 کو انڈین نیشنل کانگریس کے کلکتہ اجلاس میں پڑھا گیا۔ اس وقت برطانوی بادشاہ جارج پنجم ہندوستان کے دورے پر تھا، لہذا اجلاس کی اسی نشست میں بادشاہ کے لیے استقبالیہ تجویز بھی منظور ہوئی۔ 28 دسمبر کو برطانیہ کے اخبار 'اسٹیٹسمین' نے یہ خبر لگائی کہ "بادشاہ کے استقبال میں بنگلہ شاعر ٹیگور نے استقبالیہ نظم کہی" برطانوی استعمار کے زیر اثر چلنے والے دیگر اخبارات نے بھی اسی طرح کی رپورٹنگ کی تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ ٹیگور بھی 'استعمار حامی' ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں آج بھی خود ہندؤں میں یہ بحث وقتا فوقتاً اٹھتی رہتی ہے۔ ماضی قریب میں کلیان سنگھ اور جسٹس کاٹجو اس موضوع کو ہوا دے چکے ہیں۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ برطانوی اخبارات نے اس اجلاس کی رپورٹنگ کرتے ہوے اس دجل وفریب سے کام لیا جس کا ہم آج ہر روز مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس لیے کہ بادشاہ کے استقبال میں جو گانا پڑھا گیا تھا وہ ہندی میں رامبوج چودھری نے لکھا تھا، اس کے پہلے شعر کا آغاز "وہ بادشاہ ہمارا" سے ہوتا ہے۔) امرتا بازار پتریکا، 28 دسمبر 1911 (اب آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی یہ ترانہ شرکیہ کلمات پر مبنی ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ خود ٹیگور کا مذہبی رجحان کیا تھا۔ اگر ٹیگور مشرک تھا تو یہ ترانہ بھی بے شک مشرکانہ ہے، لیکن ٹیگور کے لٹریچر میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی۔ پروفیسر جان واٹسن نے اپنی کتاب 'ٹیگور کے مذہبی نظریات' میں ایک خط نقل کیا ہے جس میں ٹیگور لکھتے ہیں: "نہ میں کسی مذہبی فرقے سے تعلق رکھتا ہوں اور نہی میں کسی خاص عقیدے پر کاربند ہوں، میں اتنا جانتا ہوں کہ جب سے خدا نے مجھے بنایا ہے اس نے اپنے کو میرا بنالیا ہے" جان واٹسن لکھتے ہیں کہ "ٹیگور کا مذہب خدا اور فطرت سے محبت تھی"۔ مورخین نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ ٹیگور بت پرست نہیں تھے۔ البتہ وہ اسی فلسفے سے متاثر تھے جس سے ہمارے بہت سے غالی صوفیاء بھی متاثر رہے ہیں۔ ان کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے خدا کے قائل تھے جو بے نیاز ہو، زمان ومکان سے وراء ہو اور کائنات کا تنہا خالق وہادی ہو۔ البتہ وہ وحدت الوجود کے عقیدے سے سخت متاثر تھے۔ اس عقیدے پر خود ہمارے یہاں صدیوں بحث ہوئی ہے، لیکن اکابر دیوبند نے دونوں جانب کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوے سکوت کو ترجیح دی ہے۔ ٹیگور فلسفیانہ تصوف سے اس قدر متاثر تھے کہ ان کے مذہب اور خدا کے تعلق سے منقول بہت سے اقوال سے ایسا لگتا ہے کہ گویا وہ اسی تصوف سے ماخوذ تھے۔ غالی صوفیاء کے یہاں ایک موضوع حدیث کا بڑا رواج رہا ہے: "كنت كنزا مخفيا…" میں چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ مجھے جانا جائے لہذا میں نے مخلوق کو پیدا کیا"۔ ٹیگور نے اس سے ملتی جلتی ہی ایک بات کہی ہے کہ: ”خدا نےتخلیق کے ذریعے اپنے کو جانا“۔ ایک دوسرے موقع پر وہ کہتے ہیں کہ "اصل عبادت اس کے سامنے کھڑا ہونا نہیں ہے بلکہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کردینا ہے“۔ ٹیگور کے ترانہ سے متعلق تنازع ان کی زندگی میں ہی شروع ہوگیا تھا، جب لوگوں نے ان پر اعتراض کیا کہ آپنے یہ ترانہ شاہ جارج پنجم کے لیے لکھا ہے، انھوں نے جواب دیا کہ: "میں صرف اپنی ہی بے عزتی کرتا اگر میں بادشاہ کی تعریف کرتا، یہ میری حماقت ہوتی اگر میں جارج کو – چہارم ہو کہ پنجم–خدائے صمد) کہ جس نے ہمیشہ اپنے طالبوں کی راہنمائی کی ہے (قرار دیتا"۔ اس اقتباس سے اندازہ ہوا کہ نہ تو ٹیگور نے وہ ترانہ شاہ جارج کے لیے لکھا تھا اور نہی بھارت ماتا نامی کسی معبود کے لیے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ٹیگورکا خدا کے بارے میں کیا تصور تھا۔ اب آئیے 'امریتا بازار پتریکا' کی 28 دسمبر1911  کی خبر کا ایک حصہ ملاحظہ کیجیے: "کانگریس کی کارروائی کا آغاز بنگلہ میں لکھی حمد سے ہوا" دیکھیے (رسالہ ہندی: اشاعت: 25 اگست 2017)
ان تمام باتوں سے یہ بھی حقیقت عیاں ہوگئی کہ سایل اور مجیب کی آپسی گفتگو نیز معانی ومفاہیم اور پس منظر وغیرہ سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ یا تو "حاکم" کی شان میں لکھا گیا قصیدہ تھا یا پھر "خدا کی حمد" تھی. بھارت ماتا یا کسی اور ماتا و دیوی کے حوالے سے کوئی بات سامنے نہیں آتی!
ثالثا: یہ کہ لفظ "جے" یہ کسی مذہبی علامت پر اصرار نہیں بتلاتا؛ بلکہ اسکے معانی "جیت" "فتح" اور"عظمت" وغیرہ کے آتے ہیں. دیھکیے (ہندی شبد کوش)
یہاں ہم ایک بچوں کے لیے لکھنے والے شاعر جناب الف عین لائبریرین مہاراشٹر کا منظوم ترجمہ پیش کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں "جن گن من۔۔" کا منظوم ترجمہ
"ہر ذہن و دل پہ یا رب پر تیری ہی حکمرانی بھارت کا ہو مقدّر ہرگام کامرانی!
پنجاب ہوکہ مہاراشٹر، بنگال یا اڑیسہ گجرات و سندھ کی ہو یا ہو زمیں دکن کی!
بامِ فلک کو چھوتے یہ وندھیہ یہ ہماچل گنگ و جمن کی موجیں، بحرعرب کا پانی؛
ہر چیز پر ہے گویا تیرا نشان، عظمت! ہرلہر میں ہے تیرا ذکرِ مدام جاری تیرا ہی نامِ اقدس لے کر اٹھے زباں پرہم خیر کے ہیں طالب مصروفِ حمدِ باری خوشیاں جہان بھر میں تقسیم کرنے والے بھارت کا ہو مقدّر تاحشر کامرانی"
اسی طرح مزید "جن گن من" کا منظوم اردو ترجمہ پر مبنی قومی ترانہ رقم کیا جاتا ہے!
"حکمران ذہن و دل پر تیرا پیار ہے قسمت ہند کا تو ہی معمار ہے فتح و نصرت رہے تیری عظمت رہے جوش تجھ ہی سے ارض پنجاب میں اور مہاراشٹرا میں، سندھ و گجرات میں اور دکّن میں، اڑیسسا میں، بنگال میں گونجتا ہے ترا نام ہی ہر گھڑی وندھیاچل، ہمالہ کے کوہسار میں تیرے ہی نام کی ہیں ترنگیں گھلی اپنی گنگا کی، جمنا کی ہر دھار میں ہیں نمایاں ہر اک  سمت جلوے ترے جاودانی ہے سب میں ترے نام سے تیری تعریف و توصیف کرتے ہیں سب داستان تیری عظمت کی ہر دم بلب! سب کی بہبود میں تیرا کردار ہے قسمت ہند کا تو ہی معمار ہے
فتح و نصرت رہے، تیری عظمت رہے تو سلامت رہے، تو سلامت رہے
(نتیجہ فکر: ضمیر ہاشمی، نئئ دہلی، مطبوعہ: راشٹریہ سہارا اردو مجریہ ٢٦ جنوری ٢٠١٠)
اب ظاہر ہے کہ ہر ملک کا کوئی نہ کوئی ترانہ یا قومی گیت ہوتا ہے، جس میں وہ قوم اپنے وطن سے محبت وعقیدت کا اظہار کرتی ہے اور اس کے حق میں بہتری کی دعا کرتی ہے۔ اسی طرح یہ "جن گن من.." بھی وطن عزیز ہندوستان کا کا فقط ایک قومی ترانہ ہے، بظاہر تو اس میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی جو عقیدے کے لحاظ سے غلط ہو، لہذا پڑھنے والے طلبا مسلمان ہوں یا غیر مسلم اپنے وطن سے محبت کا اظہار اگر ان مذکورہ ایام میں کریں؛ تو یہ جائز ہے۔ بشرطیکہ حقیقت یہی ہو اور کہیں سے بھی ڈھکے چھپے شرک کی کوئی بات اس میں واقعی نہ ہو! ویسے آپ دیگر اہل علم سے بھی ان باتوں کی تحقیق کرلیں. 
ھذا عندی والصواب عنداللہ
25 /1/2018
توقیر بدر القاسمی ڈائریکٹر المركز العلمی للإفتاء والتحقيق سوپول دربھنگہ بہار انڈیا
t51337.wordpress.com
t.me/fatawatouqueeri
+919122381549
+918789554895

 -----------------------
جواب وباللہ التوفيق:
آپ چاہے شاعر کی بت پرستی کے عدم ثبوت پہ تاریخی طور پر بحث کرلیں
لیکن اس گیت کے“تخلیق کار “ کا “موحد“ نہ ہونا تو کانفرم ہے۔
ذات خدا سے محبت کرنے کا لفظی موہوم دعوی مفید نہیں، رسالت محمدی کے اقرار کے بغیر ذات باری پہ ایمان کے کھوکھلے دعوی کا کوئی اعتبار نہیں ہے
ٹیگور کے عقیدہ خدا یا اس کے مذہبی جذبات سے اس کا موحد ہونا ثابت نہیں ہوتا
“بنگال، اتکل، گنگا اور جمنا میں ذاتی باری تعالی کا رواں دواں ہونا“ شاعر کے شرکیہ وغیر اسلامی عقیدے کو بتانے کے لئے کافی ہے
اسلام نے ان چیزوں (ارض وسماء اور بحر و جبل وغیرہ) کو مظاہر قدرت باری قرار دیا ہے انہیں خود ذاتی باری کا مظہر خیال کرنا اسلام کے تصور  توحید کے خلاف ہے۔
صرف یہ ترانہ پڑھنے کا معاملہ نہیں ہے! بلکہ قومی جھنڈا کے سامنے احتراما کھڑا ہونا اور نیچے پ
ھول بچھانا بھی ہوتا ہے
یہ ہیئت بھی روح اسلام سے ہم آہنگ نہیں
پھر لفظ "تیری جئے ہو، تیری جئے ہو، تیری جئے ہو"
اگرچہ ہندی زبان کے اعتبار سے کچھ اور حقیقت رکھتا ہو
لیکن ہندوستان کے موجودہ حالات میں “جے ہو“ ایک مخصوص متشدد مذہبی فرقے کا خاص نعرہ بن چکا ہے
حتی کہ مسلم نوجوانوں کو جبریہ اسلحہ کے زور پہ “جے شری رام“ کہلوایا جارہا ہے
اس لفظ کا عرفی استعمال مشرکین کے ساتھ مخصوص ہوگیا ہے، قومی ترانے میں اس کے بار بار تکرار سے کم از کم تشبہ بالکفار کا شائبہ تو ضرور ہے۔
اس لئے "اختیاری مواقع" پہ مسلم طلبہ اس کے پڑھنے سے اجتناب کریں تو بہتر ہے ہاں اگر موقع محل کے اعتبار سے کہیں مجبوری والی صورت پیش آجائے تو وہاں گنجائش نکل سکتی ہے.
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی

No comments:

Post a Comment