نابینا شخص غیر ضروری بالوں کی صفائی کس طرح کرے؟
_________
سوال
___
اگر کوئی شخص نابینا ہو یا انتہائی ضعیف ہو اور زیرناف کی صفائی نہیں کرسکتا ہو اور بیوی بھی نہ ہو تو اس کی صفائی کسی شخص سے کرواسکتا ہے؟
جواب مرحمت فرمائیں
از حامد (سوات)
_________
الجواب وباللہ التوفیق:
عمومی احوال میں مرد کا مرد سے اور عورت کا عورت سے سترِ عورت واجب ہے
بلا ضرورت شدیدہ دوسرے کا ستر دیکھنا یا دکھانا جائز نہیں ہے ،اس مسئلہ پہ علماء امت کا اجماع ہے ،ارشاد باری ہے:
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا [النور: 30-31].
عن أبي سعيدٍ الخُدريِّ رَضِيَ اللهُ عنه: أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قال: ((لا يَنظُرُ الرَّجُلُ إلى عورةِ الرَّجُلِ، ولا المرأةُ إلى عورةِ المرأةِ، ولا يُفضِي الرَّجُلُ إلى الرَّجُلِ في ثوبٍ واحدٍ، ولا تُفضِي المرأةُ إلى المرأةِ في الثَّوبِ الواحِدِ ، رواہ مسلم (338)
قال النوويُّ: (ففيه تحريمُ نظَر الرَّجُلِ إلى عورةِ الرَّجُلِ، والمرأةِ إلى عورةِ المرأة، وهذا لا خلافَ فيه، وكذلك نَظَرُ الرَّجُلِ إلى عورةِ المرأةِ والمرأةِ إلى عورةِ الرَّجُلِ، حرامٌ بالإجماع، ونبَّه صلَّى اللهُ عليه وسلَّم بنظر الرَّجُلِ إلى عورةِ الرَّجُلِ على نظَرِه إلى عورةِ المرأةِ، وذلك بالتَّحريمِ أَوْلى، وهذا التحريمُ في حقِّ غَيرِ الأزواجِ والسَّادةِ). ((شرح النووي على مسلم)) (4/30).
وقال أيضا : (سَترُ العورةِ عَن العُيونِ واجبٌ بالإجماعِ). ((المجموع)) (3/166).
غیر ضروری بال کی ہر ہفتہ صفائی سنت اور پندرہ دن پر مستحب اور چالس دن مؤخر کرنا مکروہ ہے ،چالس دن کے بعد نماز بھی مکروہ ہوتی ہے
اگر کوئی از خود صفائی سے معذور یا نابینا ہو تو وہ اپنی بیوی یا شوہر کی خدمت حاصل کرسکتا ہے
اگر شوہر یا بیوی موجود نہ ہو تو بدرجہ مجبوری عورت عورت کے ذریعہ اور مرد مرد کے ذریعہ موئے زیر ناف صاف کروا لے
ضرورت کے مواقع پر اجنبی سے ستر کے وجوب میں ضرورتاً گنجائش نکل جاتی ہے
جیسے ڈاکٹر اور معالج کے لیے ضرورتاً ستر کھولنے کی گنجائش ہے ۔
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی
<https://saagartimes.blogspot.com/2019/01/blog-post_29.html>
<https://saagartimes.blogspot.com/2019/01/blog-post_29.html>
No comments:
Post a Comment