Friday 25 January 2019

مساجد کے ائمہ وموَذنین کو حکومت یا غیرمسلم کی امداد کا حکم

مساجد کے ائمہ وموَذنین کو حکومت یا غیرمسلم کی امداد کا حکم
سوال # 148777
حکومت آندھرا پردیش کی جانب سے مساجد کے ائمہ وموَذنین کو بالترتیب پانچ ہزار اور تین ہزار روپے بطور امداد دینے کا اعلان کیا گیا اور اس کے لئے ان مساجد سے درخواستیں لی جارہی ہیں جن کی آمدنی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کا لینا جائز ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ چونکہ یہ رقم مسجد کے اکاؤنٹ میں آئے گی تو کیا یہ رقم امام اور مؤذن کو دینا ضروری ہے یا ان کو حسب معمول سابقہ تنخواہ دیکرحکومت کی امدادی رقم کو مسجد کے اکاؤنٹ میں روک لینا جائز ہے بالفاظ دیگر حکومت کی امداد کو سابقہ تنخواہ میں مدغم کردینا مثال کے طور پر امام کی تنخواہ دس ہزار ہو تو حکومت کی امداد آنے کے باوجود پندرہ ہزار کی بجائے دس ہزار ہی دینا یا کل نہیں تو بعض رقم روک لینا اور امام و مؤذن کو نہ دینا کا کیا حکم ہے۔ براہ کرم ان سوالوں کا ایسا مفصل ومدلل جواب عطا فرمائیں کہ پھر کسی سے پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آے ۔

Published on: Feb 18, 2017
جواب # 148777
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 465-349/sd=5/1438
(۱) مساجد کے لئے حکومت سے امداد لینا فی نفسہ ناجائز نہیں ہے؛ لیکن ہمارے اکابر رحمہم اللہ نے مساجد وغیرہ کے لئے حکومت کی امداد قبول کرنے کو بعض مصالح کے پیش نظر اور مفاسد کے اندیشہ سے کبھی پسند نہیں فرمایا ہے اور اب حالات کے تجربہ سے اکابر کی رائے کا راجح اور بہتر ہونا ثابت ہوچکا ہے؛ اس لئے احتیاط اسی میں ہے کہ مساجد کے ائمہ اور موٴذنین کے لئے حکومت کی امداد کو قبول نہ کیا جائے؛ بلکہ مسلمانوں کے عمومی چندے اور تعاون سے ان کی تنخواہ کا نظم کرنا چاہئے۔
(۲) اگر بالفرض حکومت کی امداد قبول کرلی گئی، تو حکومت کی رقم جس مد کے لئے آئے گی، شرعا اُس رقم کو اسی مد میں خرچ کرنا لازم ہوگا۔ اگر حکومت کی رقم ائمہ اور موٴذنین کے لئے آئے گی، تو اسی میں رقم خرچ کرنا لازم ہوگا۔ اس رقم کو روک کر کسی اور مصرف میں استعمال کرنا شرعا جائز نہیں ہوگا؛ البتہ عمومی چندہ کی رقم جس میں چندہ دہندگان کی طرف سے کسی خاص مصرف کی تعیین نہ کی گئی ہو، اس کو متولی یا منتظمہ کمیٹی مصالح مسجد میں کہیں بھی استعمال کرسکتی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
---------
سوال # 36188
غیر مسلم کا پیسہ مسجد مدرسہ میں لگاسکتے ہیں یا نہیں؟ اسی طرح ان کے یہاں افطار وغیرہ کرسکتے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ انکی کمائی کا کوئی بھروسہ نہیں، حلال ہے یا حرام؟ بہت سے علما ء کہتے ہیں کہ جائز ہے لیکن کیسے جائز ہے؟ اسکی کوئی دلیل۔

Published on: Jan 4, 2012
جواب # 36188
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ھ): 76=87-2/1433
----------------------
(اصل یہ ہے کہ عام لوگوں سے حسن ظن رکھنے کے لیے کسی دلیل کی حاجت نہیں، البتہ سوء ظن کے لیے دلیل کی حاجت ہے، بغیر کسی وجہ شرعی اور بلادلیل شرعی کسی کے ساتھ برا گمان قائم کرلینا برا ہے، اس کا کسی کو حق نہیں، البتہ اپنی ذات کی حد تک کوئی تقویٰ اختیار کرے اور دل جس کے مال وغیرہ پر مطمئن نہ ہو خواہ وہ صاحب مال مسلم ہویاغیرمسلم اوراس کے مال سےحکمت حسن اندازسےبچتارہے، تو یہ بھی مستحسن قدم ہے لیکن دوسروں کو حق حاصل نہیں)
------------
اور نہ ہی یہ مقدار (بھروسہ نہ ہونا یا اپنا دل مطمئن نہ ہونا) مسلم یا غیرمسلم کے مال کو قطعاً حرام قرار دینے کے لئے کافی ہے، یہ تو مال سے متعلق اصولی کلام ہے، جو مختصرا عرض کردیا۔ درپیش مسئلے میں حکم یہ ہے کہ مسجد ومدرسہ میں غیر مسلم سے پیشہ لینے یا لگانے کی ابتداء درخواست کرنا کراہت سے خالی نہیں، حمیتِ ایمانی وغیرت اسلامی کے بھی سخت خلاف ہے، البتہ اگر کوئی غیرمسلم نیک نیتی سے نیک کام سمجھ کردے اور ذمہ داران کا دل گواہی دیتا ہو کہ لے کر دینی کام میں لگادینے کی وجہ سے کسی مفسدہ وخرابی کا اندیشہ نہیں ہے تو قبول کرلینے کی گنجائش ہے اور اگر خرابیوں کا اندیشہ ہو یا کسی دلیل سے اس کے مال کے حرام وغصب وغیرہ کا ہونا ظاہر ہو تو لینا جائز نہیں اور زبردستی دیدے اور واپس کرنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو تو لے کر چپکے سے غرباء فقراء مساکین محتاجوں کو دیدیا جائے، یہی حکم افطاری کا بھی ہے بلکہ افطاری میں تو یہ امر بھی ملحوظ رہنا چاہئے کہ افطاری کی و جہ سے مسجد کی جماعت مغرب فوت نہ ہو، خواہ افطاری کا نظم مسلمان کی طرف سے ہو یا غیرمسلم کی طرف سے ہو، نیز یہ بہی امر قابل لحاظ رہے کہ کبھی کبھار اس قسم کے میں شرکت کی نوبت آجائے تو خیر مگر کثرت سے اس قسم کی افطار پارٹیوں میں شرکت کرکے رمضان المبارک جیسے بابرکت اوقات اور عبادات وغیرہ کو ضائع نہ کیا جائے کہ یہ دنیا وآخرت کا بہت بڑا خسارہ ہے، علمائے کرام کا منصب حدودِ شرعیہ کو ملحوظ رکھ کر احکام اسلام کی طرف رہنمائی کرنا ہے اس لئے بغیر وجہ شرعی اور بلا دلیل شرعی کسی کے مال پر حرام ہونے کا حکم عائد نہیں کرتے، امید ہے کہ اب کچھ اشکال نہ رہے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
<https://saagartimes.blogspot.com/2019/01/blog-post_25.html>

No comments:

Post a Comment