سونے کے آداب اور علم طب
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں اپنا خلیفہ بناکر بھیجا ہے، دنیا کی ساری رونقیں اسی کے دم سے ہے۔ انسان کی پوری زندگی محنت شاقہ سے عبارت ہے، بعض لوگ ذہنی کام کرتے ہیں اور بعض جسمانی۔ دونوں قسم کے کام انسان کو ذہنی اور جسمانی طور پر تھکا دیتے ہیں، دن بھر کی بھاگ دوڑ میں جسم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے، تھکاوٹ کا احساس، درد اور ذہنی تناؤ اسی کی علامات ہیں۔ دن بھر کی حرکت اور جہد مسلسل کے بعد آدمی کو تازہ دم ہونے کے لئے کچھ وقت آرام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے نیند کی نعمت عطا فرمائی ہے۔ نیند میں ہمارا جسم نامیاتی مادے کو صاف کرتا اور اپنی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرتا ہے جس سے ہم جاگنے کے بعد صحیح طرح سے کام کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص نیند نہ لے یا ضرورت سے کم سوئے یا کسی وجہ سے پرسکون نیند نہ ہو تو وہ جلد ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 17 سے 19 گھنٹے جاگنے سے بہت سے معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت بالکل ویسے ہی متاثر ہوتی ہے جیسے ایک شراب پینے والے کی۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«يَا عَبْدَاللَّهِ، أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَصُومُ النَّهَارَ وَتَقُومُ اللَّيْلَ؟» قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «فَلاَ تَفْعَلْ، صُمْ وَأَفْطِرْ، وَقُمْ وَنَمْ، فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا».
’’اے عبداللہ! کیا مجھے یہ درست خبر نہیں ملی کہ آپ دن میں روزہ رکھتے ہیں اور رات کو قیام کرتے ہیں؟ میں نے عرض کی: کیوں نہیں ! (بالکل درست ہے ) اے رسول اللہ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، کبھی روزہ رکھو اور کبھی نہ رکھو، رات کو کچھ وقت قیام اور کچھ وقت آرام کرو، بلاشبہ آپ پر آپ کے جسم کا بھی حق ہے، آپ کی آنکھوں کا بھی حق ہے، اور آپ کی بیوی کا بھی حق ہے۔‘‘
نیند کا دورانیہ
انسان کی ضروریات میں نیند بھی شامل ہے، جبکہ ضروریات میں شمولیت کا مطلب یہ ہے کہ اسے صرف اتنا وقت دیا جائے جس سے کارکردگی بہتر ہوجائے، سونے میں ضرورت سے زیادہ وقت صرف کرنا مناسب نہیں ہے۔ بعض لوگ فارغ اوقات کو نیند کے اوقات سمجھتے ہیں اور بے تحاشا سوتے ہیں۔ وہ جسمانی طور پر سست اور دماغی طور پر کمزور ہوجاتے ہیں۔ زیادہ سونےکا جسم اور دماغ پر وہ اثر ہوتا ہے جو نشے کا اثر ہوتا ہے۔لہٰذا کم سونا بھی نقصاندہ ہے اور ضرورت سے زیادہ نیند بھی ذہنی و جسمانی مسائل کا سبب بنتا ہے۔
پرسکون نیند کے لئے نبوی ترتیب:
موجودہ دور میں ذہنی اور جسمانی بیماریاں بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ ان کا ایک بڑا سبب نیند کا بروقت اور پرسکون نہ ہونا ہے۔ جو آہستہ آہستہ مختلف بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مناسب مقدار میں سوتے تھے جبکہ آپ کے ذمے کاموں کا بوجھ بے تحاشا تھا۔ اس کے باوجود آپ دنیا میں کسی بھی انسان سے زیادہ چست، متحرک اور صحت مند تھے۔ آئیے دیکھئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سونے کے حوالے سے طریقہ کیا تھا؟
نیند کے بہترین اوقات:
پرسکون نیند کے لئے سب سے اہم چیز وقت کا تعین ہے۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ انسانی جسم میں ایک حیاتیاتی گھڑی ہے، جو دن کی روشنی اور رات کے اندھیرے کی بنیاد پر ہمارے جسمانی نظام کو منظم کرتی ہے، یعنی جسم کو سونے جاگنے اور کام کے لئے تیار کرتی رہتی ہے۔ جب کوئی شخص دوسرے اور نئے ٹائم زون میں جاتا ہے تو یہی گھڑی ہمارے جسم کو مقامی وقت کے مطابق ترتیب دینے میں مدد کرتی اور ہمیں سونے کا صحیح وقت بتلاتی ہے۔
یہ نظام ایک جنیاتی مادے ”جینز“ کے کنٹرول میں ہے جو ایچ این ایف 4 اے پروٹین بناتا ہے۔ اور یہ رات اندھیرے کے اوقات میں کم اور دن روشنی کے اوقات میں زیادہ متحرک ہوتا ہے۔ مثلاً ہمارا صبح ناشتے کے بعد کام کرنے کے لئے چاق و چوبند ہونا اور رات کھانے کے بعد نیند محسوس کرنا اسی قدرتی جسمانی گھڑی کے باعث ہے۔ اس پروٹین میں کوئی خلل ہو جائے تو اس’گھڑی‘ میں بھی خلل ہو جاتا ہے کہ جس سے طبی بدنظمی پیدا ہو جاتی ہے۔ ماہرین کے بقول دن میں غیر ضروری طور پر سونے، رات بھر جاگنے اور ایک سے دوسرے براعظم تک تیز رفتار سفر وغیرہ کے باعث جسمانی گھڑی میں اچانک آنے والی تبدیلیوں کے سبب یہ پروٹین خرابی کا شکار ہو جاتی ہے۔اور اس کا اثر انسان کے مزاج، خیالات، سوچ، رویے اور نفسیات پر بھی براہ راست پڑتا ہے۔ اگر ہم اپنے خالق کے بنائے ہوئے اس نظام کے مطابق اپنے روز مرہ کے معاملات کو ترتیب دیں گے تو جسمانی گھڑی اپنا کام درست کرتی رہے گی اور انسان جسمانی طور پر توانا اور تندرست رہے گا۔ اور اگر انسان اس فطری اور قدرتی ترتیب کے برعکس چلے گا تو اس کا جسم مناسب کام نہیں کرے گا اور اسے مسلسل فطری نظام کی مخالفت سہنا پڑے گی۔
﴿فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ﴾ [الروم: 30]
’’لہٰذا (اے نبی!) یکسو ہوکر اپنا رخ دین پر مرتکز کردو۔ یہی فطرتِ الٰہی ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی اس خلقت میں کوئی ردو بدل نہیں ہوسکتا۔‘‘
لہٰذا رات کو مسلسل معاشی سرگرمیوں میں لگنے والوں کو متعدد ذہنی اور جسمانی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ مادہ ایسے وقت پر کام کرتا ہے جبکہ حیاتیاتی گھڑی جسم کو سونے کے لیے تیار کر چکی ہوتی ہے اور بدن میں چستی اور کام کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ جب بندہ ڈیوٹی ختم کرکے گھر میں جاکر آرام کرنے کے لیے نکلتا ہے توباہر دن کی روشنی ہوتی ہے جس سے جسم کے اندرونی نظام کو اشارہ ملتا ہے کہ یہ بیدار ہونے کا وقت ہےلہذا انسانی جسم اچھی نیند نہیں لے سکتا۔ اسی لئے رات کی ڈیوٹی کرنے والے 97 فیصد ملازمین کئی سال کام کرنے کے باوجود بھی اپنے کام کے انداز میں ڈھلنے میں ناکام رہتے ہیں اور ان کی صحت کے بہت سے پہلو متاثر رہتے ہیں ۔
دوران خون بڑھنے سے جسم میں توانائی اور چستی پیدا ہوتی ہے۔ جس سے جسم ہشاش بشاش اور کام کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ جب خون کا دوران کم ہوتا ہے تو جسم میں سستی، پھر غنودگی پیدا ہونے لگتی اور آہستہ آہستہ آدمی نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جب شام کو اندھیرا چھانے لگتا ہے تو حیاتیاتی گھڑی آہستہ آہستہ ہمارے جسم کو نیند کے لئے تیار کرنا شروع کردیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
﴿هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ۰۰۶۷﴾ [يونس: 67]
’’وہی اللہ جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ اس میں آرام کرو۔ اور روز روشن بنایا تاکہ اس میں کام کرو ۔غور سے سننےوالوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔‘‘
﴿وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِبَاسًا وَّالنَّوْمَ سُبَاتًا وَّجَعَلَ النَّهَارَ نُشُوْرًا۰۰۴۷﴾ [الفرقان: 47]
’’اور وہی ہے جس نے رات کو تمہارے لئے پردہ اور نیند کو آرام بنایا اور دن کو اٹھ کھڑے ہونے کا وقت ٹھہرایا۔‘‘
﴿اَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا الَّيْلَ لِيَسْكُنُوْا فِيْهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۰۰۸۶﴾ [النمل: 86]
’’کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ ہم نے رات کو اس لئے بنایا ہے کہ اس میں آرام کریں اور دن کو روشن بنایا ہے کہ اس میں کام کریں بیشک اس میں مومن لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ ‘‘
﴿وَمِنْ رَّحْمَتِهٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۰۰۷۳﴾ [القصص: 73]
’’اور اللہ نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات کو اور دن کو بنایا تاکہ تم اس میں آرام کرو اور اس میں اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔‘‘
﴿اَللّٰهُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًا اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ۰۰۶۱﴾ [غافر: 61]
’’اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی کہ اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا کہ اس میں کام کرو بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے۔ لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَ العِشَاءِ وَالحَدِيثَ بَعْدَهَا».
’’بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نا پسند کرتے تھے نماز عشا سے پہلے سونے اور بعد میں گپ شپ کرنے کو۔‘‘
اگر مغرب اور عشا کی نمازوں کے اوقات پر غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ نماز مغرب کے بعد کھانا کھانے اور اس دن کے معاملات کو نمٹانے کا وقت ہے، تاکہ عشا کے بعد کوئی ضروری کام باقی نہ رہ جائے۔ اور نماز عشا اس دن کے اختتام کی عبادت ہے۔ اس لئے عشا کے بعد بلاوجہ جاگنے کی شرع میں ممانعت ہے۔
ماہرین کے بقول ہر روز ایک ہی وقت پر سونا صحت کے لئے مفید ہے۔ سونے کے وقت میں روزانہ جس قدر زیادہ تبدیلی ہوگی، صحت کو اتنا ہی زیادہ نقصان لاحق ہوگا۔ اگر ہم مذکورہ بالا ہدایات کے مطابق نماز عشا کے فوراً بعد سو جائیں تو بہر صورت فجر تک نیند پوری ہوجاتی ہے۔اور فجر کے وقت خودبخود بیداری نصیب ہوجاتی ہے۔ بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ نمازِ فجر کے لئے جاگنےکا طریقہ کیا ہے؟ تو عرض ہے کہ صبح وقت پر جاگنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ رات کو صحیح وقت پر سویا جائے۔
قیلولہ کرنا:
اگر رات بہت چھوٹی ہو یا کسی وجہ سے رات کے اوقات میں نیند پوری نہ ہو تودوپہر کو کچھ وقت سو لینا چاہئے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے ملتا ہے کہ وہ قیلولہ کرتے تھے:
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: «كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الجُمُعَةَ، ثُمَّ تَكُونُ القَائِلَةُ».
’’حضرت سہل بن سعد ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ پڑھتے اور پھر قیلولہ کرتے تھے۔‘‘
بعض احادیث میں دوپہر کو سونے کا باقاعدہ حکم دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«قِيلُوا فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَقِيلُ».
’’دوپہر کو ضرور سویا کرو، بلاشبہ شیطان قیلولہ نہیں کرتا۔‘‘
ایک روایت میں اس کا فائدہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ دوپہر کو کچھ وقت قیلولہ کرنے سے رات کی نیند پوری کرنے اور تہجد کے لئے اٹھنے میں مدد ملتی ہے۔
قیلولہ کی طبی اہمیت:
سائب بن یزید کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ دوپہر کو ہمارے پاس سے گزرتے تو فرماتے:
”جاؤ قیلولہ کرو۔“
پروفیسر جم ہارن، ڈائریکٹر سلیپ ریسرچ لیبارٹری انگلینڈ کا کہنا ہے کہ دوپہر 2 سے 4 بجے تک انسانی جسم میں اتار چڑھاؤ اور تغیریات کا گہرا عمل دخل ہوتا ہے، اس لئے زیادہ تر لوگوں پر اس وقت نیند کا غلبہ ہوتا ہے۔ اگر دوپہر 20 منٹ تک سویا جا ئے توکام کرنے کی قوت بڑھ جائے گی اورجسم میں چستی اور راحت محسوس ہوتی ہے۔
انسانی عادتوں کے ماہرین نے اعداد و شمار کی بنیاد پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ دنیا میں 99 فیصد غلط فیصلے دن دو بجے سے چار بجے کے درمیان ہوتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کو جب مزید کھنگالا گیا تو پتہ چلا دنیا میں سب سے زیادہ غلط فیصلے دن دو بج کر 50 منٹ سے تین بجے کے درمیان کیے جاتے ہیں۔ یہ حیران کن تحقیق تھی۔ اس تحقیق نے قوت فیصلہ کی تمام منطقوں کو ہلاکر رکھ دیا۔ ماہرین جب وجوہات کی گہرائی میں اترے تو پتہ چلا ہم انسان سات گھنٹوں سے زیادہ ایکٹو نہیں رہ سکتے۔ انسانی دماغ کو سات گھنٹے بعد فون کی بیٹری کی طرح ’’ری چارجنگ‘‘ کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر انسان خود کو ریچارج نہیں کرتے تو یہ غلط فیصلوں کے ذریعے ہمیں تباہ ہوتا ہے۔
ماہرین نے اعداد و شمار کا مزید تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ انسان اگر صبح سات بجے جاگے تو دن کے دو بجے تک سات گھنٹے کا وقفہ پورا ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد انسانی دماغ آہستہ آہستہ سُن ہونا شروع ہوجاتا ہے اور ہم غلط فیصلوں کی لائین لگا دیتے ہیں۔ چناں چہ ہم اگر بہتر فیصلے کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں دو بجے کے بعد فیصلے کرنے بند کردینے چاہئیں اور آدھا گھنٹہ قیلولہ کرنا چاہئے۔ نیند کے یہ 30 منٹ ہمارے دماغ کی بیٹریاں چارج کردیں گے اور ہم اچھے فیصلوں کے قابل ہوجائیں گے۔ یہ تحقیق شروع میں امریکی صدر، کابینہ کے ارکان، سلامتی کے بڑے اداروں اور کثیرالقومی کمپنیوں کے سی ای اوز کے ساتھ شیئر کی گئی۔ وہ اپنے فیصلوں کے معمولات تبدیل کرتے رہے اور ماہرین نتائج اخذ کرتے رہے اور یہ تحقیق سچ ثابت ہوتی چلی گئی۔ سی آئی اے نے بھی اس تھیوری کو اپنے معمولات کا حصہ بنالیا۔ آپ نے بھی محسوس کیا ہوگا کہ آج سے پچاس سال پہلے تک لوگ زیادہ بشاس ہوتے تھے، کیوں کہ دنیا بھر میں اس وقت قیلولہ کیا جاتا تھا۔ لوگ دوپہر کو سستاتے تھے مگر انسان نے جب موسم کو کسی حد تک اپنے قابو میں کرلیا، یعنی سردی کو گرمی اور گرمی کو سردی میں تبدیل کرنے میں کام یاب ہوگیا تو اس نے قیلولہ کرنا چھوڑدیا۔ چناں چہ لوگوں میں بشاشت کا مادہ بھی کم ہوگیا اور ان کی قوت فیصلہ کی ہیئت بھی بدل گئی۔ ریسرچ نے ثابت کیا ہم اگر صبح سات بجے اٹھتے ہیں تو پھر ہمیں دو بجے کے بعد ہلکی نیند کی ضرورت پڑتی ہے اور ہم اگر دو سے تین بجے کے دوران تھوڑا سا سستا لیں یا سولیں تو ہم تازہ دم ہوجاتے ہیں اور اپنی کارکردگی بہتر بناسکتے ہیں۔
خالق کائنات کے نظام پر غور کریں کہ موسم گرما کے دن اسی لئے لمبے ہوتے ہیں کہ دوپہر کو جب گرمی شدید ہوتی ہے، محنت کش کچھ وقت آرام کرلے تو بھی اس کے کام کے اوقات پورے ہوجائیں گے۔ اور سردی کے دنوں میں دوپہر کو آرام کئے بغیر مسلسل کام کرسکتا ہے کہ سردیوں کے دن چھوٹے ہوتے ہیں۔
سونے کی تیاری:
پرسکون نیند کے لئے سونے سے پہلے اس کی تیاری کرنی چاہئے مثلاً
1. رات کے کھانے کا وقت:
ماہرین کے مطابق رات کو سونے سے تقریباً تین گھنٹے پہلے کھانا کھالینا چاہئے۔ اس لئے کہ جب کھانا کھایا جاتا ہے تو معدہ اسے ہضم کرنے لگتا ہے، اس کام میں معدے کو بہت زیادہ مشقت برداشت کرنا پڑتی ہے، اور معدے کی مدد کے لئے دماغ کو خون کی روانی مسلسل اس کی طرف رکھنی پڑتی ہے، جس سے جسم نیند کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اگر نیند آبھی جائے تو معدے کی گرانی پورے نظام ہضم کو خراب کرتی ہے۔
2. اضافی لائٹس بجھا دیں
حیاتیاتی گھڑی اسی وقت ذہن اور جسم کو نیند کے لئے تیار کرتی ہے جب اندھیرا چھا جائے۔ لہٰذا سونے سے آدھ گھنٹہ پہلے گھر کی اضافی روشنی گل کردیں۔ سونے کی تیاری کے سارے کام مثلاً بیت الخلاء جانا، مسواک اور وضو کرنا، ہلکی روشنی میں کریں تاکہ لیٹنے تک آپ کا جسم سونے کے لئے تیار ہوجائے اور لیٹتے ہی نیند آجائے۔
3. الیکٹرانک آلات بند کردیں۔
سرے یونیورسٹی کے پروفیسر میلکم فون شانتز کا مشورہ ہے کہ سونے سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے الیکٹرانک آلات کا استعمال بند کردینا چاہئے۔ یہ الیکٹرانک آلات ایک خاص طرح کی طاقتور نیلی روشنی خارج کرتے ہیں۔ اس روشنی کی وجہ سے جسم میں میلاٹونن ہارمون ٹھیک سے نہیں چھٹ پاتے ہیں۔ یہ ہارمون نیند کے لئے ذمے دار ہے۔ اس کے علاوہ شام کو گھر میں، خاص طور پر سونے والے کمرے میں روشنی کے دیگر ذرائع بھی کم کر دینے چاہئیں۔
4. بستر جھاڑیں
جب بھی لیٹیں بستر کو لازمی جھاڑلیں اور جب اٹھیں تو لازمی طور پر بستر کو لپیٹ کر رکھیں۔ کئی بار ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ دن کے وقت کوئی موذی جانور بستر میں گھس گیا۔ جب کوئی فرد بستر میں داخل ہوا، تو موذی جانور نے اسے ڈس لیا، جو اس کی موت کا سبب بن گیا۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: « إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ فِرَاشَهُ فَلْيَنْفُضْهُ بِصَنِفَةِ ثَوْبِهِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ».
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے بستر پر جائے تو اسے چاہئے کہ اسے اپنے کپڑے کے کنارے سے تین مرتبہ جھاڑ لے۔‘‘
بعض سائنسی تحقیقات کے مطابق ہمارے جسم کے مردہ خلیات بیٹھنے اور لیٹنے والی جگہ پر گرتے رہتے ہیں۔ مردہ خلیات جسم کو لگیں تو زندہ خلیات کو نقصان دیتے ہیں لہذا بستر کو جھاڑکر لپیٹیں اور پھر جھاڑکر ہی بستر بچھائیں۔ مزید یہ کہ دو باتوں کا خاص خیال رکھیں کہ بستر پر کھانےکی کوئی چیز نہ لائیں، اس لئے کہ بستر پر گرے ہوئے غذا کے ذرات کیڑے مکوڑوں کی کشش کا ذریعہ بنتے ہیں، جو سونے والے کے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جب اٹھیں تو فوراً بستر کو لپیٹ دیں، تاکہ کوئی شخص کھولے اور جھاڑے بغیر اس میں داخل نہ ہوسکے۔
5. کپڑا لپیٹ کر سوئیں:
گرمی ہو یا سردی کپڑا اوڑھ کر سوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دو مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے کا تذکرہ کیا ہے، اور دونوں مقامات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے کے دوران اوڑھے ہوئے کپڑے کا تذکرہ ملتا ہے۔ فرمایا:
﴿يٰۤاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ۰۰۱ قُمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًاۙ۰۰۲﴾ [المزمل: 1، 2]
’’اے کپڑا لپیٹ کر لیٹنےوالے! رات کو کچھ حصہ قیام بھی کیا کریں۔‘‘
﴿يٰۤاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ۰۰۱قُمْ فَاَنْذِرْ۪ۙ۰۰۲﴾ [المدثر: 1، 2]
’’اے کپڑا اوڑھ کر لیٹنے والے، اٹھئے اور لوگوں کو دعوت دیجئے۔‘‘
’زمل‘ سے مراد وہ کپڑا ہے جو سردیوں میں لپیٹ کر سویا جاتا ہے یعنی موٹا کمبل وغیرہ۔ اور ’دثر‘ سے مراد وہ ہلکا پھلکا کپڑا جو دوپہر کو عام طور پر اوڑھا جاتا ہے۔ یعنی گرمی و سردی ہر حالت میں کپڑا اوڑھ کر لیٹنا چاہئے۔
6. طہارت کرنا:
دن بھر آدمی مختلف لوگوں اور چیزوں کو چھوتا رہتا ہے، جس سے مختلف قسم کے جراثیم جسم پر منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ اس لئے بستر پر جانے سے پہلے استنجا، مسواک، منجن اور وضو کریں۔ اسی طرح سونے سے پہلے پیشاب کریں، مثانہ خالی نہ ہو تو نیند پرسکون نہیں آتی۔ أطباء کے نزدیک دانتوں کو خراب کرنے والا فاسد مواد سب سے زیادہ رات کو پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے رات کو سونے سے پہلے اچھی طرح مسواک / برش اور وضو کریں۔
عَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:«إِذَا أَتَيْتَ مَضْجَعَكَ، فَتَوَضَّأْ وُضُوءَكَ لِلصَّلاَةِ، ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلَى شِقِّكَ الأَيْمَنِ» …
’’حضرت براء بن عازب سے روایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تو اپنے بستر پر جائے تو نماز والا وضو کر، پھر دائیں کروٹ پر لیٹ جا ۔‘‘
اس سےنہ صرف جسم صاف ہوگا بلکہ بستر بھی صاف رہے گا، اور آدمی بیماریوں سے محفوظ ہوجائے گا۔
7. سونے کی جگہ
سونے کی جگہ بھی پرسکون نیند میں بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ سونے کی جگہ محفوظ مگر ہوادار ہونی چاہئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
«مَنْ بَاتَ عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ لَيْسَ لَهُ حِجَارٌ، فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ الذِّمَّةُ»
”جو شخص رات کو ایسے گھر کی چھت پر سویا جس پر پردہ یا رکاوٹ نہ ہو تو اس سے (الله تعالیٰ کی) ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے“۔
8. زمین پر سونا یا بیڈ پر
پرسکون نیند کے لئے جگہ اور بستر کا پرسکون ہونا ضروری ہے۔جتنی راحت ہمیں سونے کے کمرے میں ملتی ہے کہیں دوسری جگہ نہیں ملتی۔ اسی لئے انسان زندگی کا بڑا حصہ خواب گاہ میں گزارتے ہیں۔ انسان نے ابتداء میں ہی بستر ایجاد کرلیا تھا۔ پھر زمین کے کیڑوں مکوڑوں سے بچنے کے لئے بستر کو زمین سے بلند جگہ پر بچھاتے تھے۔ آہستہ آہستہ یہ تصور پلنگ اور مسہری کی شکل میں رواج پاگیا۔ جاپانیوں کے علاوہ آج تقریباً ساری دنیا بلند جگہ پر ہی سوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بستر پر آرام فرماتے تھے جیساکہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں:
«لَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَإِنِّي عَلَى السَّرِيرِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ القِبْلَةِ مُضْطَجِعَةً ».
’’البتہ تحقیق میں نے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے ہیں اور میں بستر/ چارپائی پر آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے اور قبلہ کے درمیان لیٹی ہوتی تھی۔‘‘
پرسکون نیند اور جسمانی صحت کے لئے ضروری ہے کہ زمین پر سوئیں یا سیدھی مسہری پر۔ اگر بان سے بنی ہوئی چار پائی ہو تو وہ کسی ہوئی ہو، ورنہ جسم سیدھا نہیں رہتا جس سے کئی طرح کے طبی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
9. بستر نرم ہونا چاہئے یا سخت
پرسکون نیند اور صحت کے مسائل میں بستر کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ اس لئے بستر مناسب ہونا چاہئے، نہ بہت زیادہ نرم کہ آدمی اس میں دھنس جائے اور نہ بالکل سخت کہ جسم کو راحت محسوس نہ ہو۔ اور صاف ستھرا ہونا چاہئے۔
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:«كَانَ ضِجَاعُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهُ لِيفٌ»
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ کا بستر چمڑے کا تھا، جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔‘‘
زمین پر یا سیدھے سخت بستر پر سونے سے کمر درد سے نجات ملتا ہے، کیونکہ نرم گدہ جسم کو مناسب آرام نہیں پہنچاتا اور سونے کے دوران جسم اس میں دھنستا ہے جس سے کمر خمیدہ ہوجاتی ہے اور کمر اور پشت کے عضلات ڈھیلے پڑجاتے ہیں۔ اور اگرمسلسل نرم بستر استعمال کیا جائے تو یہ درد بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ بعض محققین کے نزدیک نرم بستر گردوں پر بھی برا اثر ڈالتا ہے، حتی کہ گردوں کی نالیوں Ureters میں ایک پیچیدہ ورم پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ نرم بستر ریڑھ کی ہڈی کے درمیانی فاصلوں کو کم کرنے کا باعث ہے، لہذا دور حاضر میں ماہرین اسے ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ہارورڈ میڈیکل اسکول کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کمر درد کی صُورت میں بستر کے نیچے سخت پلائی وُڈ لگوانی چاہئے یا بستر کو زمین پر بچھاکر لیٹنا چاہئے یا سخت گدہ استعمال کرنا چاہئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کمر درد اور عرق النسا میں سخت بستر فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ زمین پریا سخت بستر پر سونےسے ریڑھ کی ہڈی کی کارکردگی میں بہتری آتی ہے اور جسم میں خون کی گردش کو بھی فروغ ملتا ہے جس سے کندھوں اور گردن کے درد سے بھی نجات ملتی ہے۔
10. سونے کے نبوی اذکار اور دعائیں
دعا عبادت کی سب سے اہم ترین صورت ہے ، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر مواقع کی طرح سونے کے بھی اذکار اور دعاؤں کی تعلیم دی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو اذکار اور دعائیں ثابت ہیں وہ تو بہت ساری ہیں، مختصر سے مضمون میں سارے تو بیان نہیں کئے جاسکتے۔ چند اہم اذکار اور دعائیں بیان کی جارہی ہیں:
• سونے کے اذکار
• سورۃ الاخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس:
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی رات کے وقت بستر پر آتے تو اپنی ہتھیلیوں کو ملاکر ان میں پھونکتے اور ﴿ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ۰۰۱﴾ ،﴿قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِۙ۰۰۱﴾اور ﴿قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِۙ۰۰۱﴾ پڑھتے۔ پھر اپنی دونوں ہتھیلیوں کو جہاں تک ہوسکتا اپنے جسم پر ملتے۔ اس کیلیے سر، چہرہ اور جسم کے اگلے حصے سے ابتدا فرماتے، اور یہ عمل تین مرتبہ کرتے۔
• آیت الکرسی:
حضرت ابو ہریرہ ؓسے مروى ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۃ الفطر کی حفاظت پر مامور کیا، چنانچہ ایک شخص آیا، اور غلہ سمیٹنے لگا، میں نے اسے پکڑ لیا، اور کہا: میں تمہیں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاؤں گا۔ یہ طویل واقعہ ہے جس میں یہ بھی ہے کہ اس شخص نے کہا: جب بستر پر لیٹ جاؤ تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو، اس سے اللہ کی جانب سے حفاظت کرنے والا (فرشتہ) تمہاری حفاظت کرے گا اور صبح تک شیطان تمہارے قریب نہیں آسکتا۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شیطان تھا، وہ ہے تو جھوٹا لیکن تم سےسچ کہہ گیا ہے۔
• سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات:
حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے سورہ بقرہ کی آخری دو آیات رات میں پڑھ لیں، تو یہ اس کے لئے کافی ہوں گی۔
• سورۃالکافرون:
حضرت نوفل اشجعی بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ﴿قُلْ يٰۤاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَۙ۰۰۱﴾ سورت پڑھ کر سوجاؤ، یہ شرک سے اظہار برأت ہے۔
• سورۃ بنی اسرائیل:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ الزمر کی تلاوت کئے بغیر نہیں سوتے تھے۔
• سورۃ الزمر :
اس کی دلیل گزشتہ روایت میں گزرچکی ہے۔
• 33 بار سبحان للہ، 33 بار الحمد للہ، اور 34بار اللہ أكبر:
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خادمہ کا مطالبہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں تمہارے مطالبے سے بھی بہتر چیز نہ بتلاؤں؟ جب سونے لگو تو 33 بار ’’سبحان الله‘‘، 33 بار ’’الحمدلله‘‘ اور 34 بار ’’الله أكبر‘‘ کہو۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اس دن سے کسی بھی رات انہیں ترک نہیں کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: کیا جنگ صفین کی رات بھی ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: صفین کی رات بھی میں نے انہیں نہیں چھوڑا۔
• سونےکی دعائیں:
• بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ أَمُوتُ وَأَحْيَا .
’’تیرے نام کے اے میرے اللہ ! میں مرتا ہوں اور زندہ ہوتا ہوں۔‘‘
• اللهُمَّ إِنِّي أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ، لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ.
’’یا اللہ! میں نے اپنا تن تیرے سپرد کر دیا ہے، اپنا معاملہ تیرے حوالے کر دیا ہے، اور پشت پناہی کے لیے تیری پناہ میں آگیا ہوں۔ تجھ ہی سے امید ہے اور تجھ ہی سے ڈرتا ہوں۔ تیرے علاوہ کوئی جائے پناہ نہیں۔ میں تیری نازل کردہ کتاب، اور تیرے مبعوث کردہ نبی پر ایمان لایا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کلمات سب سے آخر میں کہو۔ اور اگر اسی رات تمہارا انتقال ہوجائے تو فطرت پر تمہارا انتقال ہوگا [21]۔
• سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبِّي بِكَ وَضَعْتُ جَنْبِي، وَبِكَ أَرْفَعُهُ، إِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي، فَاغْفِرْ لَهَا، وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِينَ۔
’’یا اللہ! میرے رب تو پاک ہے، میں تیرے نام پر اپنے پہلو کے بل لیٹ رہا ہوں، اور تیرے نام پر ہی اٹھوں گا۔ اگر تو میری جان کو قبض کر لے تو اسے معاف کرنا، اور اگر اسے چھوڑ دے تو اس کی ایسے حفاظت فرمانا جیسے تو نیک بندوں کی حفاظت فرماتا ہے۔‘‘
• اللَّهُمَّ قِنِى عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ. (تین بار پڑھنا)
’’ اے اللہ! مجھے اس دن اپنے عذاب سے محفوظ رکھنا جب تو اپنے بندوں کو دوبارہ زندہ کرے گا۔‘‘
• الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَكَفَانَا وَآوَانَا فَكَمْ مِمَّنْ لَا كَافِيَ لَهُ وَلَا مُؤْوِيَ .
’’تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس نے ہمیں کھلایا، پلایا، وہی ہمارے لیے کافی ہے، اور اسی نے ہمیں رہنے کیلئے جگہ دی۔ اور کتنے ایسے لوگ ہیں جن کی کفالت کرنے والا اور انہیں ٹھکانہ دینے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘
• اللَّهُمَّ خَلَقْتَ نَفْسِي وَأَنْتَ تَوَفَّاهَا، لَكَ مَمَاتُهَا وَمَحْيَاهَا، إِنْ أَحْيَيْتَهَا فَاحْفَظْهَا، وَإِنْ أَمَتَّهَا فَاغْفِرْ لَهَا، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ۔
’’اے میرے اللہ ! تونے میرے نفس کو پیدا کیا، اور تو ہی اسے فو ت کرے گا، تیرے لئے ہی اسے مارنا اور زندہ کرنا ہے۔ اگر تو اسے زندہ کرے (یعنی نیند سے اٹھائے ) تو اس کی حفاظت کرنا ، ر اگر اسے موت دے دے تو اسے معاف کردینا۔ اے میرے اللہ! میں تجھ سے عافیت کا سوال کرتا ہوں۔‘‘
• اَللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْأَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ، فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَى، وَمُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْفُرْقَانِ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ شَيْءٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهِ، اللهُمَّ أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَيْسَ قَبْلَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَيْسَ بَعْدَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ، اقْضِ عَنَّا الدَّيْنَ، وَأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ .
’’ یا اللہ! آسمان و زمین اور عرش عظیم کے پروردگار، ہمارے اور ہر چیز کے پروردگار، گٹھلی اور بیج کو پھاڑنے والے، تورات، انجیل اور قرآن کو نازل کرنے والے، میں تیری پناہ چاہتا ہوں ہر اس چیز سے جو تیرے اختیار میں ہے۔ یا اللہ! تو ہی اول ہے، تجھ سے قبل کچھ نہیں، تو ہی آخر ہے تیرے بعد کچھ نہیں، تو ہی غالب ہے تجھ سے اوپر کوئی نہیں، تو ہی باطن ہے تجھ سے کچھ پوشیدہ نہیں، ہمارے قرضے چکا دے، اور ہمیں فقر سے نکال کر مالدار بنا دے۔‘‘
• اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِوَجْهِكَ الْكَرِيمِ وَكَلِمَاتِكَ التَّامَّةِ مِنْ شَرِّ مَا أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهِ، اللَّهُمَّ أَنْتَ تَكْشِفُ الْمَغْرَمَ وَالْمَأْثَمَ، اللَّهُمَّ لَا يُهْزَمُ جُنْدُكَ، وَلَا يُخْلَفُ وَعْدُكَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ، سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ .
’’یا اللہ! میں تیرے کرم والے چہرے اور کامل کلمات کی پناہ چاہتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جس کی پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے۔ یا اللہ! تو ہی قرض اور گناہوں کا خاتمہ کرنے والا ہے۔ یا اللہ! تیرے لشکروں کو شکست نہیں دی جاسکتی، تیرا وعدہ توڑا نہیں جاسکتا اور تیرے ہاں کسی چودھری کی چودھراہٹ فائدہ نہیں دیتی۔ تو پاک ہے اور تیرے لیے ہی تعریفیں ہیں۔‘‘
• بِسْمِ اللَّهِ وَضَعْتُ جَنْبِي، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي، وَأَخْسِئْ شَيْطَانِي، وَفُكَّ رِهَانِي، وَاجْعَلْنِي فِي النَّدِيِّ الْأَعْلَى.
’’اللہ کے نام سے میں نے اپنا پہلو بستر پر رکھ دیا، یا اللہ! میرے گناہ معاف فرما، میرے شیطان کو رسوا فرما۔ میرے ذمہ تمام حقوق ادا فرما اور مجھے فرشتوں کی مجلس میں شامل فرما۔‘‘ (جون 2024ء عبدالرحمن عزیز)
( #ایس_اے_ساگر )
No comments:
Post a Comment