Sunday, 16 February 2025

حاجت مندوں کے لئے مجرب عمل

حاجت مندوں کے لئے ایک مجرب عمل
حافظ القرآن و الحدیث حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ مسجد نبوی شریف میں، گنبد خضریٰ کے سامنے وعظ ارشاد فرما رہے تھے، دوران وعظ فرمایا ایک وظیفہ بتلاتا ہوں جو میرا مجرب ہے، جب بھی کسی چیز کی حاجت پیش آتی ہے تو میں یہ پڑھ لیتا ہوں، اللہ تعالیٰ اتنا عطاء فرماتے ہیں کہ پھر سنبھالا نہیں جاتا، پڑھنے کا طریقہ درج ذیل ہے:
صبح کی نماز کے بعد تین مرتبہ، اور 
مغرب کی نماز کے بعد تین مرتبہ 
اول آخر درود شریف کے ساتھ، ان شآءاللہ چند دنوں میں تمام حاجات پوری ہوتی نظر آئیں گی بشرطیکہ صدق دل اور یقین سے پڑھا جائے،
- اَللّٰهُمَّ مَالِكَ الْملْكِ تُؤتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ رَحْمٰنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَرَحِيْمَهُمَا تُعْطِيْهِمَا مَنْ تَشَآءُ وَتَمْنَعُ مِنْهُمَا مَنْ تَشَآءُ ارْحَمْنِيْ رَحْمَةً تُغْنِيْنِيْ  ِبهَا عَنْ رَحْمَةِ مَنْ سِوَاكَ.
روایت میں ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ  پر قرض تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایسی دعا نہ سکھلاؤں کہ اگر تم پر اُحد پہاڑ جیسا قرض ہو تو بھی اللہ تعالیٰ تمہاری طرف سے ادائیگی کا انتظام فرمادیں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں درج بالا دعا  پڑھنے کی تلقین فرمائی۔ (رواہ الطبراني في المعجم الصغير)
2- " تَوَكَّلْتُ عَلَى الْحَیِّ الَّذِيْ لَا یَمُوْتُ الْحَمْدُلِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا."
3- "اَللّٰهُمَّ اكْفِنِيْ بِحَلاَلِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَ أغْنِنِيْ بِفَضْلِكَ عَنْ مَنْ سِوَاكَ."
نوٹ: حضرت درخواستی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے وظیفہ پڑھنے کی اجازت عام ہے،
طالب دعاء مرغوب الرحمن درخواستی ( #ایس_اے_ساگر )

Thursday, 13 February 2025

شب برات اور زیارت قبور کے آداب و احکام

 شب برات اور زیارت قبور کے آداب و احکام

----------------------------------

---------------------------------- 

شب برات میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پوری عمر مبارک میں ایک مرتبہ خاموشی سے جنت البقیع جانا اور مردوں کے لئے دعائے مغفرت کرنا بعض ضعیف روایت سے ثابت ہے:
عن عائشة قال : فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَيْلَةً فَخَرَجْتُ فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ فَقَالَ "أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ." قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ . فَقَالَ "إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ."
(ترمذی، الصوم، باب ماجاء فی لیلة نصف الشعبان (۷۳۹)، وابن ماجه (۱۳۸۹)، واحمد (٢٦٥٤٦)، والبیھقی فی شعب الایمان (٣٨٢٤)، والمعجم الاوسط لطبرانی (۱۹۹)، وجمع الجوامع (۱۷۳۷)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (بستر سے) غائب پایا۔ (میں نے تلاش کیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع الغرقد میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا یہ گمان تھا کہ آپ کسی دوسری اہلیہ کے ہاں چلے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان (۱۵ شعبان) کی رات کو آسمانِ دُنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدار (لوگوں) کو معاف فرما دیتا ہے۔ (ترمذی، الصوم، باب ماجاء فی لیلة نصف الشعبان (۷۳۹)، وابن ماجه (۱۳۸۹)، واحمد (٢٦٥٤٦)، والبیھقی فی شعب الایمان (٣٨٢٤)، والمعجم الاوسط لطبرانی (۱۹۹)، وجمع الجوامع (۱۷۳۷)
یہ روایت اسنادی حیثیت سے کمزور ہے، مسلم شریف کی ایک صحیح طویل حدیث میں بقیع غرقد جانے کا یہ واقعہ مطلق وارد ہوا ہے، شب برات کا اس میں کوئی ذکر نہیں۔ ترمذی وغیرہ کی روایات مذکورہ کی بنیاد پر شب برات میں عبرت وموعظت کے حصول اور مردوں کے ایصال ثواب کے غرض سے قبرستان جانے کا جواز ثابت تو ہوتا ہے۔ لیکن اس کی شرعی حیثیت استحباب سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ کسی التزام و اہتمام و اجتماعی ہیئت وکیفیت کے بغیر انفرادی طور پر اس رات قبرستان جانا مستحب ہے۔ قبرستان جاکر قبروں سے استمداد، جزع فزع، صاحب قبر کی بیجا تعریف کرنے سے منع کیا گیا ہے:
نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا، وَلَا تَقُولُوا هُجْرًا۔ (طبرانی کبیر: 11653)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں: میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، پس اب تم زیارت کرلیا کرو اور کوئی بیہودہ بات نہ کہا کرو۔ حضرت ابن بُریدہ رضی اللہُ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:
وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يَزُورَ فَلْيَزُرْ، وَلَا تَقُولُوا هُجْرًا۔(نسائی: 2033)
میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، لیکن اب جو زیارت کرنا چاہے وہ کرسکتا ہے، لیکن(قبروں کی زیارت میں)کوئی بیہودہ بات نہ کہا کرو۔ قبرستان پہنچ کر سب سے پہلے صاحب قبر کے لیے سلامتی کی دعا کی جائے. حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ قبرستان کی جانب نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعاء پڑھی:
«السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ»
تم پر سلامتی ہو اے ایمان والو! اور بیشک ہم بھی تمہارے ساتھ لاحق ہونے والے ہیں۔ (مسلم: 975۔ ترمذی: 1053)
سلامتی کی دعا کے بعد ان کے لئے دعا مغفرت ورحمت کی جائے:
«السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا، مُؤَجَّلُونَ، وَإِنَّا، إِنْ شَاءَ اللهُ، بِكُمْ لَاحِقُونَ، اَللَّهُمَّ، اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ»۔
(سلامتی ہو تم پر اے مومنین! تمہارے پاس وہ چیز آئی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا یعنی ثواب و عذاب کل کو یعنی قیامت کے دن کو تمہیں ایک معین مدت تک مہلت دی گئی ہے اور یقیناً ہم بھی اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تم سے ملنے ہی والے ہیں۔ اے اللہ! بقیع غرقد والوں کو بخش دے)۔ (مسلم: 974)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں قیام فرما ہوتے تو (اکثر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصہ میں بقیع کے قبرستان میں تشریف لے جاتے اور (قبر والوں سے خطاب کرکے یہ دعا فرماتے) مردہ کے پائوں کی طرف سے قبر پہ جائے، سر کی طرف سے داخل نہ ہو، اس سے مردے کو تکلیف ہوتی ہے۔ ایصال ثواب کرتے ہوئے قبر کی طرف منہ اور قبلہ کی طرف پشت کرکے کھڑا ہو. اور جب دعا کا ارادہ کرے تو قبر کی طرف پشت اور قبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو، ہندیہ میں ہے:
ثم يقف مستدبر القبلة مستقبلا لوجه الميت . وإذا أراد الدعاء یقوم مستقبل القبلة مستدبرا لوجه الميت. (هنديه 350/5. كتاب الكراهية)
قبرستان میں بحالت قیام قبلہ رو ہوکر، دونوں ہاتھ اُٹھا کر دعاء و استغفار کرنا سنت ہے، حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے قبرستان بقیع الغرقد میں کھڑے ہوکر، ہاتھ اُٹھاکر تین دفعہ دعاکی:
جاء البقيع فأطال القيام ثم رفع يديه ثلاث مرات. (مسلم. الجنائز. باب الذهاب الى زيارة القبور 1619. نسأيي 2010.)۔
دوسرے رخ پہ اور بیٹھے ہوئے اور بلا ہاتھ اٹھائے ہوئے بھی دعا کرنا جائز ہے۔ اس کے بعد قرآن میں سے جو یاد ہو پڑھ کر ایصالِ ثواب کرے، عض روایات میں ہے کہ جو شخص قبروں پر سے گزرا اور [قل ھو اللّٰہ احد] گیارہ دفعہ پڑھ کر اس کا ثواب مرُدوں کو پہنچایا، تو اس کو وہاں کے مرُدوں کی تعداد کے برابر اجر ملے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو قبرستان میں داخل ہو ا، اور سورۂ فاتحہ اور اخلاص اور الھاکم التکاثر پڑھا اور کہا کہ اے اللہ! میں نے تیرا جو کلام پڑھا ہے اس کا ثواب قبر والے مؤمن مردوں اور عورتوں کو میں دیتا ہوں تو یہ قبر والے ا للہ کے پاس اس کے حق میں سفارش کریں گے۔ (بہ حوالہ اعلاء السنن: ۸/۲۸۷ تا ۸/۲۸۸) قبرستان جاتے ہوئے قبروں کے درمیان جوتے پہن کر نہ چلے، ہاں اگر باضابطہ راستہ بنا ہوا ہو تو پھر کوئی مضائقہ نہیں۔ قبر پہ ٹیک لگاکے بیٹھے، نہ اسے روندے اور نہ وہاں پیشاب پاخانہ کرے۔ شور وغوغا، جشن وچراغاں اور طوفان ہائو ہو بپا کئے بغیر انفرادی طور پر مذکورہ بالا آداب کی رعایت ولحاظ کے ساتھ شب برات میں قبروں کی زیارت کی اجازت ہے، یہ عمل صرف مستحب کے درجے کا ہے، عوام اسے سنت و واجب نہ سمجھے۔ فقط۔ واللہ اعلم
https://saagartimes.blogspot.com/2025/02/blog-post_38.html


سترہ قائم کرنے کی شرعی حیثیت، اس کی حکمت ومقصد اور اس کی شرعی مقدار؟

سترہ قائم کرنے کی شرعی حیثیت، اس کی حکمت ومقصد اور اس کی شرعی مقدار؟

----------------------------------

---------------------------------- 

حضرات مفتیان عظام سے سوال یہ ہے کہ نمازی نماز ادا کررہا ہوتا ہے اس کے آگے کی صف میں بیٹھا ہوا شخص اپنا ہاتھ چوڑائی میں بطور سترہ کے رکھ لیتا ہے پھر لوگ اس کے آگے سے گزرجاتے ہیں تو کیا اس طرح رکھا ہاتھ سترہ کے قائم مقام ہوجائے گا یا نہیں؟ مدلل جواب مطلوب ہے. دارالافتاء دارالعلوم دیوبند اور بنوری ٹائون کا احقر کے سامنے ہے سوال کا مقصد مزید تنقیح و تحقیق ہے بطور خاص مفتی شکیل منصور قاسمی دامت برکاتہم سے توجہ کی درخواست ہے. حضرت ہاتھ کا کہنی تک کا حصہ سیدھا کھڑا کرکے سترہ بنایا تو اوصاف و شرائط سترہ کے وجود کے سبب اس کے کافی ہونے میں شک نہیں لیکن یہاں سوال چوڑائی میں ٹیڑھا رکھنے کے بارے میں ہے.

الجواب وباللہ التوفیق:

امام اور منفرد کے لئے اتخاذ سترہ سنت ہے. حنفیہ کے یہاں اگر کسی کے گزرنے کا مظنہ نہ ہو تو ترک سترہ کی بھی گنجائش ہے؛ ورنہ مکروہ تنزیہی ہے. سترہ قائم کرنے کی سنیت یا استحباب کا مقصد نمازی کو ذہنی انتشار سے محفوظ رکھنا ہے ۔ جب نفس عمل کی حیثیت سنیت کی ہے تو اس کی تحدید وتنصیب بھی سنیت سے متجاوز نہیں ہوسکتی. سترہ کی اقل مقدار کے بارے میں حدیث میں "مِثْلُ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ" آیا ہے، اور مُؤْخِرَةُ الرَّحْلِ (کجاوے کا پچھلا حصہ) کماً مختلف ہوتا تھا. اس لئے ائمہ میں اس کی تحدید مقدار میں اختلاف ہوا. ائمہ ثلاثہ کے یہاں اس کی کم سے کم مقدار  لمبائی میں ایک ہاتھ اور چورائی میں انگلی کے برابر ہونا مسنون ہے جبکہ حنابلہ کے یہاں بالشت بھر ہونے سے بھی کام چل جائے گا. یہ بھی مسنون ہے کہ اس کیفیت کا حامل سترہ کھڑا ہو. لیکن جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں عرضاً رکھ دینے سے بھی سنیت ادا ہوجائے گی. سترہ قائم کرنا بھی سنت ہے. اور اسے لمبائی میں کھڑا کرنا بھی سنت ہے. جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں ہاتھ بھر لمبی جس چیز سے بھی پردہ کردیا جائے اور نمازی کی توجہ منتشر ہونے سے بچ جائے؛ خواہ قیاماً ہو یا نصباً وہ سترہ کے قائم مقام ہوجائے گی. بعض ائمہ کے یہاں خط کھینچ دینا بھی کافی ہے جس سے مسئلے میں عموم وتوسع کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے. اس تفصیل سے اب مسئولہ جزئیہ کا جواب بھی واضح ہے کہ چوڑائی میں ہاتھ رکھنے سے بھی سترہ کی سنیت ادا ہوجائے گی۔ واللہ اعلم 

https://saagartimes.blogspot.com/2025/02/blog-post_13.html


Saturday, 1 February 2025

تیری رضا جو ہو سو ہو

 تیری رضا جو ہو سو ہو 

----------------------------------

---------------------------------- 

خلّاقِ اکبر نے انسان کی طبعیت میں ناپائیدار خواہشات ومتضاد خوابوں کا تعاقب کرنا شامل کردیا ہے، وہ دنیاوی حسن، جمال، دولت، شہرت، مادی آسائش وآرام پاکر بھی مضطرب وبے چین ہی رہتا ہے، انسانی زندگی کی حقیقی خوشی، مسرت وطمانینت اور معنویت دنیاوی آسائشوں ، کامیابیوں اور حصولیابیوں میں نہیں؛ بلکہ روحانی تعلقات کی استواری اور "تسلیم ورضاء" میں مضمر ہے۔ انسان عموماً اپنی ایک حالت پر راضی نہیں ہوتا، بلکہ ہمیشہ اس چیز کی خواہش کرتا ہے جو اسے نصیب نہیں ہوئی ہوتی، اور وہ نعمت جو اللہ نے اسے عطا کر رکھی ہوتی ہے، اس کی قدر نہیں کرتا۔ اسلام نے بندہ مومن کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ صبر وتوکل کا پیکر بنا رہے اور رنج وراحت میں بھی اس کا شعار “الحمد للہ” ہونا چاہیے۔ غم ہوکہ خوشی، آسانی وفتوحات کا زمانہ ہو یا ابتلاء وآزمائش اور مشکلات کی گھڑی، وہ ہر دو حالتوں میں اپنے رب کی عطاء ونوازش اور اس کے فیصلے پر راضی رہ کر "الحمدللہ" کہنے کا مزاج بنائے، اس سے حقیقی بندگی کا مزہ پائے گا اور یہی وہ بلند مقام ہے جس تک پہنچنا انسان کے لئے بہ ظاہر مشکل ہوتا ہے؛ لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس میں بھی اس کے لیے کوئی بھلائی چھپا رکھی ہوتی ہے۔ انسانی فطرت کی بے قراری،  خواہشات کی نہ ختم ہونے والی دوڑ اور زندگی کی ناپائیداری کو ایک عربی شاعر  عباس محمود العقاد نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ انتہائی مؤثر اور دلکش انداز میں بیان کیا ہے، اشعار اس قابل ہیں کہ انہیں سرمہ بصیرت بنایا جائے اور لوح قلب پہ ثبت کرلیا جائے:

۱: صغيرٌ يطب الكبرَا —-وشيخٌ ودَّ لو صغرا

(چھوٹا بچہ بڑا بننے کی خواہش رکھتا ہے، اور بوڑھا شخص چاہتا ہے کہ کاش وہ پھر سے جوان ہوجاتا) یعنی چھوٹا بچہ بڑا ہونا چاہتا ہے تاکہ خود مختار ہوسکے، اپنی امیدوں اور خوابوں کو پورا کر سکے۔جبکہ بوڑھا شخص حسرت کرتا ہے کہ کاش وقت پیچھے پلٹ جائے تاکہ وہ ان تمناؤں کو پورا کر لے جنہیں وہ حاصل نہ کرسکا۔ (جیسا کہ کہا گیا: ألا ليت الشباب يعود يوماً.. فأخبره بما فعل المشيب. "اے کاش! جوانی ایک دن لوٹ آتی، تاکہ میں اسے بتا سکتا کہ بڑھاپے نے میرے ساتھ کیا کیا!")

۲: وخالٍ يشتهي عملًا —-وذو عمل به ضجرا

(بے روزگار شخص کام کی تمنا کرتا ہے، اور جو کام میں لگا ہوا ہے، وہ اس سے بیزار ہے) یعنی بے روزگار شخص چاہتا ہے کہ اسے کوئی مصروفیت ملے، جبکہ جو شخص مصروف کارگہِ حیات ہے، وہ تھکن اور بوجھ سے تنگ آ چکا ہوتا اور کام سے فراغت کی تمنا کرتا ہے)۔

۳: ورب المال في تعب —-وفي تعب من افتقرا

(مالدار شخص بھی پریشان ہے[چاہے اس کے پاس کوئی اس کا کاروبار سنبھالنے والا ہو، پھر بھی وہ فکرمند اور بے چین ہے] اور جو غریب ہے، وہ بھی تکلیف میں ہے [کیونکہ اس کے پاس ضروریات زندگی کے وسائل نہیں ہیں].

۴: وذو الأولاد مهمومٌ —-وطالبهم قد انفطرا 

(جس کے پاس اولاد ہے، وہ ان کے حال اور مستقبل کی فکر میں مبتلا ہے۔

اور جو اولاد کے لیے ترستا ہے، وہ بھی بے چین ہے)

۵: ويشقى المرءُ منهزمًا ولا يرتاحُ منتصرا

( انسان شکست کھا کر افسردہ ہو جاتا ہے، اور جیت کر بھی سکون نہیں پاتا۔( بلکہ ہفت اقلیم کے حصول کے لئے سرگرداں ( حیران وسرگرداں) رہتا ہے)

۶: ومن فقد الجمال شكي —-وقد يشكو الذي بُهِرا

(جسے حسن نہیں ملا، وہ شکوہ کرتا ہے (آئینہ میں شکل دیکھ کر خوش نہیں ہوتا)  چاہے وہ اپنی ذات کے بارے میں ہو یا اپنی بیوی کے بارے میں) اور جسے حسن ملا، وہ بھی شکایت کرتا ہے(اسے دوسروں کی حسد اور جلن کا سامنا کرنا پڑتا ہے) چاہے وہ خود کا ہو یا اپنی بیوی کا۔

۷: ويبغي المجد في لهفٍ فإن يظفر به فترا

(وہ عظمت اور کامیابی کی شدید خواہش رکھتا ہے، لیکن جب اسے حاصل کر لیتا ہے تو اس سے بیزار ہوجاتا ہے (ناقدری شروع کردیتا اور اپنے کام کی تحقیر شروع کردیتا ہے)

۸: شكاة ما لها حَكمٌ —-سوى الخصمين إن حضرا

(یہ تمام شکایتیں ایسی ہیں جن کا کوئی منصف نہیں، سوائے اس کے کہ دونوں فریق خود موجود ہوں)

۹: فهل حاروا مع الأقدا ر—- أو هم حيَّروا القدرا؟

(تو کیا یہ لوگ تقدیر سے پریشان ہیں، یا انہوں نے خود تقدیر کو حیران کردیا ہے؟)

حیاتِ انسانی مستقل "تغیّر" کا نام ہے، یہاں احوال کو نہیں؛ صرف "تغیرات" کو دوام واستقلال ہے۔ رات کی تاریکیوں سے  نورسحر پھوٹتا اور آفتاب عالم تاب کی  ضوفشانیوں کے بعد گُھپ اندھیری رات ڈیرہ ڈال دیتی ہے، غم ہو یا خوشی عسر ہو یا یسر! سارے احوال فانی ہیں، بندہ مومن کو اس فلسفہ تغیرات کو سمجھتے ہوئے اچھی وبُری ہر حالت میں تسلیم وتوکل  کے ساتھ مستانہ وار یہ گنگناتے رہنا چاہیے:

درپہ ہوں تیرے آکھڑا 

کیا کہوں بس خاموش ہوں 

شاہ بنا   گدا بنا 

تیری رضا جو ہو سو ہو 

(ہفتہ 2؍ شعبان المعظم 1446ھ یکم ؍ فروری 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر) 

https://saagartimes.blogspot.com/2025/02/blog-post.html



اسلامی معاشرہ کا ایک بھولا سبق (قسط نمبر 2)

 اسلامی معاشرہ کا ایک بھولا سبق (قسط نمبر 2) 

وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ [النساء: 36].

اور اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، نیز رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب والے پڑوسی، دور والے پڑوسی، ساتھ بیٹھے (یا ساتھ کھڑے) ہوئے شخص اور راہ گیر کے ساتھ (اچھا برتاؤ رکھو)

معزز قارئین، اس آیت مبارکہ میں والدین اقرباء اور رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے بھی مستقل حقوق بیان کیے گئے ہیں- ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر ہمارا پڑوسی بھوکا ہے تو ہم اسے اپنے کھانے میں شریک کریں، اگر وہ بیمار ہے تو اس کی عیادت و تیمارداری کریں، اگر وہ کسی آفت و مصیبت کا شکار ہے یا کسی رنج و غم میں مبتلا ہے تو ہم اس کا دست و بازو بن کر اس کے رنج وغم کا مداوا کریں لیکن آج ہمارا مسلم معاشرہ اس اسلامی معاشرہ کے سبق سے اتنا غافل ہوچکا ہے کہ ایک طرف تو ایک مسلمان بھائی پوری فیملی کے ساتھ بھوکا سونے پر مجبور ہے کیونکہ گھر پر ایک روٹی کے آٹے تک بندوست نہیں ہے- دوسری طرف پورا محلہ اور گاؤں روایتی بے سود جلسوں اور پروگراموں اور مہنگی شادیوں میں مگن ہے. جی. یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حال ہی میں گھٹی ایک سچی گھٹنا ہے. اسی طرح کچھ عرصہ قبل ایک عالم دین کی ویڈیو کال آئ جو حالات اور تنگدستی سے پریشان ہوکر خودکشی کرنے پر مجبور تھا- ان سطور کے قلم بند کرنے کا واحد مقصد امت کے اہل خیر حضرات کی توجہ اس پہلو کی طرف مبذول کرنا ہے جس کی امر کی واضح تعلیمات آپ علیہ السلام بار بار امت کے سامنے بیان فرمائی- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات میں ہمسایہ اور پڑوسی کے حقوق کی اہمیت اس طرح فرمائی ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پڑوسیوں کے یہاں تک حقوق بیان کئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث ٹھہرا دیں گے- (مسنداحمد: 20350)

پڑوسی کی اقسام:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پڑوسی کی تین اقسام ہیں: (1) وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہوتا ہے (2 ) وہ پڑوسی جس کے دو حق ہوتے ہیں (3) وہ پڑوسی جس کے تین حق ہوتے ہیں۔بعد ازاں خود نبی کریم ﷺ نے ان تینوں اقسام کے حقوق کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:مسلمان رشتہ دار پڑوسی کے تین حق ہیں:حقِ پڑوس، حقِ اسلام اور رشتہ داری کا حق۔مسلمان پڑوسی کے دو حق ہیں: حقِ پڑوس اور حقِ اسلام۔ مشرک پڑوسی کا صرف ایک حق ہے: اورہ وہ ہے حقِ پڑوس۔(شعب الایمان، باب فی اکرام الجار: 9113)

پڑوسی کے حقوق کی اختصار کے ساتھ تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میرے پڑوسی کا مجھ پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ بیمار ہو تو تم اس کی عیادت کرو، اگر وہ مرجائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو، اگر وہ تم سے قرض مانگے تو اس کو قرض دو، اگر وہ بدحال ہو تو اس کی پردہ پوشی کرو، اگر اس کو کوئی اچھائی پہنچے تو اس کو مبارکباد دو، اگر اس کو کوئی مصیبت پہنچے تو اس کی تعزیت کرو، اپنے گھر کی عمارت اس کی عمارت سے بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا رک جائے۔ (المعجم الکبیر: ج 19، ص 419) 

اُم المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کی:میرے دو پڑوسی ہیں، ان میں سے ایک میرے دروازے کے سامنے رہتا ہے اور دوسرا کچھ دور، بعض اوقات میرے پاس موجود چیز اتنی ہوتی ہے کہ دونوں کو دینے کی گنجائش نہیں ہوتی، لہٰذا ان دونوں میں سے کس کا حق زیادہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا دروازہ تمہارے سامنے ہے- (صحیح بخاری: 2595)۔

حضرت جابررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب تم میں سے کوئی شخص سالن پکائے تو اس میں شوربہ زیادہ کرے، پھر اپنے پڑوسی کو بھی اس میں سے دے (المعجم الاوسط: 3615)۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص پیٹ بھرکر رات گزارے اور اس کو علم ہو کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہے اس کا مجھ پر ایمان نہیں ہے. (المعجم الکبیر: 751) ۔

 جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرے. (صحیح مسلم: 165)

اللہ تعالیٰ ہم کو اس بھولے سبق پر عمل کی توفیق نصیب فرمائے 

آمیــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــن يارب العالمیــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــن

مُحَمَّد عَارِف دَهٗلَوِى٘ (02/02/25)  ( #ایس_اے_ساگر )

https://saagartimes.blogspot.com/2025/02/2.html