حقیقتِ اعتکاف: اکابر کے ساتھ اجتماعی اعتکاف کی حقیت وحیثیت!
پچھلی امتوں میں رب تعالی کی قربت، رضاء، محبوبیت، انسانی سعادت اور روحانی ترقیوں کے حصول کے لئے جنگلوں، پہاڑوں، غاروں اور "عزلت وخلوت" کے "مہیب گوشوں" میں ڈیرے ڈال کر نفسانی مرغوبات، لذائذِ حیات اور فطری احساسات کے تقاضوں کو کچلتے ہوئے بیوی، بچوں اور معاشرتی و اجتماعی مصروفیات ومسئولیات سے یکسر منہ موڑکر ریاضت شاقہ کرنا لابدی سمجھا جاتا تھا، انسانی طبعی تقاضوں، آرزؤوں اور تمناؤوں سے دستبردار ہوئے بغیر انسانی معراج، اخروی سعادت اور روحانی ترقیوں و بلندیوں تک رسائی ناقابل تصور تھی۔ اسلام نے اپنی آمد کے بعد اس "ایجاد بندہ" اور "خانہ زاد" تصور کو باطل کرتے ہوئے واشگاف کیا کہ معاشرت، تمدن، سیاست ،معیشت ، اور زندگی کے دیگر شعبوں کے ساتھ رہ کر بھی روحانیت کا نور حاصل کیا جا سکتا ہے۔ "ردائے بہیمیت" کو "تار تار" کیا جاسکتا ہے. "انوارملکوتی" سے قلب ونظر کو جگمگایا جاسکتا ہے. سعادتِ اخروی، معراجِ انسانی، تزکیہ و تصفیۂِ باطن کے لئے "صحراؤں کی خلوت نشینی" یا نفس کشی کے بوجھ تلے خود کو دبانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ تمدنی اور معاشرتی واجتماعی حقوق وذمہ داریاں نباہتے ہوئے: "مخصوص جگہ پر مخصوص زمانے میں مخصوص شروط کے ساتھ مخصوص عمل کرنے اور مخصوص چیزوں کو ترک کرنے (اعتکاف مسنون) سے بھی یہ فوائد حاصل ہوسکتے ہیں." غور کیا جائے تو "طاعات وقربات" کا یہ ربانی وروحانی تربیتی عشرہ "أيامًا معدودات" جسے ہم اعتکاف کہتے ہیں- "رہبانیتِ باطلہ" کے بالمقابل "ربانیت کا شاہکار نظام ہے." جس میں بندۂ مومن صرف گنتی کے چند دن علائقِ دنیا و مافیہا سے کٹ کر خلوت میں اپنے خالق ومالک سے قلب وقالب کے ساتھ منہمک ہوجائے، کثائفِ بہیمیہ پہ خود کا محاسبہ کرے. خالق ومالک دو جہاں سے آلائشِ قلب پر اصلاح حال و تطہیر نفس کی تمنائے بے تاب اور الحاح وزاری کے ساتھ تعلقِ بندگی کی تجدید کرے تو بعید نہیں کہ وہ جلوتِ محبوب کی دولت سے مالا مال ہوجائے اور طفل نومولود کی طرح گناہوں سے دُھل دھلاکر واپس لوٹے۔ اعتکاف کی تعریف علماء محققین نے اپنے اپنے مزاج ومذاق کے اعتبار سے مختلف تعبیرات وپیرائے میں کی ہے. مراقی الفلاح اور حاشیۃ الطحطاوی کے لحاظ سے اعتکاف کا لغوی مفہوم ٹھہڑنا اور کسی چیز کو لازم پکڑنا ہے.
(هو لغة اللبث والدوام على الشيء. حاشية الطحطاوي على المراقي ٦٩٨)
شرعی طور پر کسی ایسی مسجد میں اعتکاف کی نیت (اللہ کی عبادت کی نیت )سے ٹھہرنے (مسجد کو خود پر لازم پکڑنے) کو اعتکاف کہتے ہیں جس میں باقاعدہ پانچ وقت کی باجماعت نماز ادا کی جاتی ہو۔
(وشرعًا هو الإقامة بنية الاعتكاف في مسجد تقام فيه الجماعة بالفعل للصلوات الخمس . حاشية الطحطاوي على المراقي ٦٩٩)
امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
الاعتكاف هو الاقامة على الشىء فقيل لمن لازم المسجد واقام العبادة فيه:معتكف وعاكف (شرح السنہ ج 2 ص 391۔)
"اعتکاف کامطلب کسی چیز پر ہمیشگی کرنا جو شخص مسجد کو اپنے لیے لازم کرلے اور اس میں عبادت پر ہمیشگی کرے، اسے معتکف اور عاکف کہا جاتا ہے۔"
امام ابن قدامہ مقدسی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:
"والاعتكاف فى اللغة هو لزوم الشىء وحبس النفس عليه برا كان أو غيره ومنه قول اللّه تعالى فى القرآن": ("مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِى أَنْتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ")
وهو في الشرع الإقامة فى المسجد، (المغنی ۔ج 32۔ ص 183۔)
"اعتکاف لغت میں کسی شے کو لازم پکڑنا اور اپنے آپ کو اس کے لئے روکے رکھنا چاہے نیک مقصد کے لئے ہو اس کےعلاوہ۔ اسی سے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
"مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِى أَنْتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ"
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
هو فى اللغة: الحبس والمكث واللزوم ، وفي الشرع: المكث فى المسجد من شخص مخصوص بصفة مخصوصة، ويسمى الاعتكاف جوازاً (شرح النووي على صحيح مسلم 247/8)
"لغت میں اس کا مطلب رکنا، ٹھہرنا اورلازم پکڑنا ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں مخصوص شخص کا مخصوص حالت میں مسجد میں قیام کرنا، اعتکاف کہلاتا ہے."
امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:
الاعتكاف: هو فى اللغة: الحَبس، والمكث، واللُّزوم. وفى الشَّرع: المكث فى المسجد من شخص مخصوص بصفة مخصوصة، (نیل الاوطار ج 3 ص221۔)
"اعتکاف لغت میں بند رہنا، لازم پکڑنا، ٹھہرنا، استقامت اختیار کرنا اور اردگرد رہنا کے معنی میں آتا ہے ۔۔۔ شریعت میں مخصوص شخص کا مخصوص حالت میں مسجد میں ٹھہرنا اعتکاف کہلاتا ہے." امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:
الاعتكاف لغة / :لزوم الشىء وحبس النفس عليه وشرعا المقام فى المسجد من شخص مخصوص على صفة مخصوصة (فتح الباری ج 4 ص 271)
"اعتکاف سے لغوی طور پر کسی شے کو لازم کرلینا اور اس پر اپنے آپ کو روک لینا مراد ہے شریعت کی اصطلاح میں مخصوص شخص کا مخصوص حالت پر مسجد میں قیام کرنا اعتکاف کہلاتا ہے." علامہ ابن رشد ان تعریفات کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: "مخصوص جگہ پر مخصوص زمانے میں مخصوص شروط کے ساتھ مخصوص عمل کرنے اور مخصوص چیزوں کو ترک کرنے کو مجموعی طور پر اعتکاف مسنون کہتے ہیں۔"
(وهو بالجملة يشتمل على عمل مخصوص في موضع مخصوص وفي زمان مخصوص بشروط مخصوصة وتروك مخصوصة. (بداية المجتهد ونهاية المقتصد 261/1)
رمضان کے اخیر عشرہ کا اعتکاف کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مستقل سنت ہے، ہجرت مدینہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اس کا اہتمام فرماتے تھے، ہجرت مدینہ سے لے کر وفات تک بلا ناغہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کرتے رہے، کبھی ترک نہیں کیا۔ قرآن کریم میں اس کی مشروعیت کی تصریح ہے:
وَعَهِدْنَآ إِلَىٰٓ إِبْرَٰهِۦمَ وَإِسْمَٰعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِىَ لِلطَّآئِفِينَ وَٱلْعَٰكِفِينَ وَٱلرُّكَّعِ ٱلسُّجُودِ (البقرة: 125۔۔۔
ہم نے ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو")
{وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ} [البقرة: 187].
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس فانی دنیا سے پردہ فرمانے تک رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور ان کے بعد ان کی ازواج مطہرات اعتکاف کیا کرتی تھیں:
"حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ ثُمَّ اعْتَكَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ۔ (صحيح البخاري 2026 ومسلم: 1172)
علامہ ابن المنذر نے اعتکاف کی سنیت پر علماء امت کا اجماع نقل کیا ہے.
"وأجمعوا على أن الاعتكاف سنة لا يجب على الناس فرضاً إلا أن يوجبه المرء على نفسه نذرا فيجب عليه".أ.هـ."الإجماع" (ص 53)
اعتکاف ان عبادتوں میں سے ہے جو پچھلے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے عہد میں بھی مشروع اور باعث تقرب الہی تھا، چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بیت اللہ کی تعمیر کے بعد طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور نماز ادا کرنے والوں کے لئے اسے پاک صاف رکھنے اور معتکفین کی خدمت کا حکم دیا ہے۔ جیساکہ اوپر مذکورہ آیات میں ہے. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام سے پہلے مسجد حرام میں ایک شب اعتکاف کی نذر مانی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنے پر انہیں ایفاء نذر کا حکم ہوا اور انہوں نے زمانہ جاہلیت میں مانی گئی نذراعتکاف زمانہ اسلام میں پوری کی:
أنَّ عمرَ قال: يا رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليك إنِّي نذَرْتُ أنْ أعتكفَ ليلةً في المسجدِ الحرامِ في الجاهليَّةِ فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: (أَوْفِ بنَذْرِكَ)
أخرجه البخاري (2032)، ومسلم (1656)
ان آیات، احادیث اور اجماع امت کے باعث رمضان کے اخیر عشرے کا اعتکاف سنت قرار پایا، پھر حضور کے دوام ومواظبت:
(عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ قَالَ نَافِعٌ وَقَدْ أَرَانِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَالْمَكَانَ الَّذِي كَانَ يَعْتَكِفُ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔۔۔۔)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے۔ نافع رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے وہ جگہ دکھائی تھی جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کیا کرتے تھے۔ سنن ابن ماجہ 1773) کی وجہ سے اس سنت میں تاکُّد پیدا ہوا اور رمضان کے عشرہ اخیر کا اعتکاف سنت مؤکدہ قرار پایا:
وسنة" كفاية "مؤكدة في العشر الأخير من رمضان" (حاشية الطحطاوي على المراقي 700)
علامہ عبدالحی لکھنوی کی نقل کے مطابق اخیر عشرے کا اعتکاف سنت مؤکدہ ہے اور باقی عشرے کا اعتکاف مستحب ہے:
(هل هو سُنَّة مؤكَّدة مُطْلقًا؟ أم في العشر الأواخر من رمضان؟
قولان نقلهما في "مَجْمَعِ الأنْهُر"، وقد مَال إلياس زادَه في "شرح النُّقاية" إلى الأول، وتفصيل الزَّيْلعي الذي دَارَ عليه مَدَار الحق يقتضي أنَّه سُنَّة مُؤَكَّدةٌ في العَشْرِ الأواخرِ من رمضان، ومُسْتَحَبٌّ في غيره.
وقال العلامة الهدّاد الجُونفوري في "حاشيَة الهداية": لا شَكَّ أنَّ الاعتكافَ في نفسِ الأمر مُسْتَحَب، إنَّما السُّنَّة في العَشْر الأواخر من رمضان. (كتاب الإنصاف في حكم الإعتكاف[أبوالحسنات اللكنوي ص 39]
پھر مؤکدہ میں بھی سنت مؤکدہ "کفائی" ہے، سنت مؤکدہ "عینی" نہیں ہے؛ کیونکہ خلفاے اربعہ سمیت جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنی دیگر اہم ترین ضروری مصروفیات کے باعث اعتکاف نہیں فرمایا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر نکیر نہ فرمائی، اگر یہ سنت مؤکدہ عینی ہوتا تو اولاً تو اکابر صحابہ اسے ترک نہ فرماتے اگر کسی باعث ترک ہوجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نکیر ضرور فرماتے. جلیل القدر تابعی امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لوگوں پر تعجب ہے کہ انہوں نے اعتکاف کی سنت کو چھوڑ رکھا ہے، حال آں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض امور کو انجام دیتے تھے اور ان کو ترک بھی کرتے تھے لیکن جب سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے اس وقت سے لے کر وفات تک بلا ناغہ آپ اعتکاف کرتے رہے،کبھی ترک نہیں کیا.
عجباً للمسلمين! تركوا الاعتكاف؛ مع أن النبي -صلى الله عليه وسلم- ما تركه منذ قدم المدينة حتى قبضه الله عز وجل" الفتح 4/285).
کفائی اور عینی (فرض عین و کفایہ یا سنت عینیہ وکفائیہ) کا مفہوم یہ ہے کہ جہاں شریعت کو انجام دہندہ سے قطع نظر صرف نفس فعل کی انجام دہی مطلوب ہو خواہ کوئی بھی انجام دیدے، تو اسے کفائی کہتے ہیں، اس کے برخلاف جہاں شریعت کو متعینہ طور پر ہر ہر مکلف سے عمل کی انجام دہی مطلوب ہو تو اسے عینی کہتے ہیں۔ عشرہ اخیر کی سنتِ اعتکاف سنت مؤکدہ کفائی ہے، اس میں مکلف من جانب شرع متعین نہیں ہے، جو بھی ادا کردے سنت مطلوبہ ادا ہوجائے گی، بقیہ کا ذمہ فارغ ہوجائے گا. تراویح کی طرح آخر عشرے کا اعتکاف بھی سنت مؤکدہ ہے. لیکن تراویح میں جماعت سنت مؤکدہ کفائی ہے.
(الجماعة سنة كفاية فيها (التراويح) مراقي الفلاح 413)؛
جبکہ یہاں جماعت سنت مؤکدہ کفائی نہیں ہے؛ بلکہ نفس عمل ہی سنت مؤکدہ کفائی ہے، اور من جملہ نفل ہونے کے تفرد مطلوب ہے؛ لہذا ہر محلے کی مسجد میں تراویح کی جماعت قائم کرنا تو مطلوب شرع ہے؛ لیکن اعتکاف میں جماعت مطلوب شرع نہیں ہے، بلکہ یہ عمل اصلاً انفرادی طور پر مشروع ہے۔ اس میں باضابطہ جماعت کا قیام مشروع نہیں ہے، دونوں میں فرق ہے، دونوں کے درمیان من کل وجہ تسویہ درست نہیں ہے؛ ہاں ہر کوئی اپنے اپنے طور پر ادا کرے، نتیجۃً وظاہراً اجتماع کی شکل بن جائے تو امر آخر ہے، بحث سے خارج ہے اور اس کی شرعاً گنجائش ہے۔
بخاری میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی طویل روایت کا ایک حصہ ہے. "اعْتَكَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ الأُوَلِ مِنْ رَمَضَانَ وَاعْتَكَفْنَا مَعَهُ ۔۔بخاری 813
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے اوّل عشرے کا اعتکاف فرمایا تو ہم لوگ بھی حضور کے ساتھ اعتکاف میں بیٹھ گئے) اس میں راوی صیغہ جمع
(وَاعْتَكَفْنَا مَعَهُ)
کے ساتھ بیان فرمارہے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ صحابہ کی ایک پوری جماعت اپنے مرشد ومربی کے ہمراہ اپنے اپنے طور پر اعتکاف میں بیٹھ گئی تھی، اور انتہاءً وظاہراً پوری جماعت کی شکل بن گئی تھی. پھر جب حضور کو جبرئیل نے شب قدر کی اطلاع دیدی تو آپ نے اپنے ان صحابہ کو اپنے "ہمراہ" عشرہ اخیر کا اعتکاف کرنے کا کہا:
مَن كانَ اعْتَكَفَ مَعِي، فَلْيَعْتَكِفِ العَشْرَ الأوَاخِرَ (صحيح البخاري 2027)
صحیحین کی ایک دوسری روایت میں بھی تصریح ہے کہ حضور کے ساتھ پھر صحابہ کی ایک جماعت شامل اعتکاف ہوگئی:
(إِنِّي اعْتَكَفْتُ الْعَشْرَ الْأَوَّلَ، أَلْتَمِسُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ، ثُمَّ اعْتَكَفْتُ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ، ثُمَّ أُتِيتُ، فَقِيلَ لِي: إِنَّهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَعْتَكِفَ فَلْيَعْتَكِفْ " فَاعْتَكَفَ النَّاسُ مَعَهُ) (صحيح مسلم: (1167)
اوپر مذکورہ تمام روایات میں "معیت" کی تصریح ہے. اس سے جہاں یہ واضح ہورہا ہے کہ سنت کفائی میں "جاں بخشی" کے طور پر صرف ایک بندے کو جبراً بٹھادینا مزاج نبوت سے مغائر ہے وہیں یہ بھی ثابت ہورہا ہے کہ سالک ومسترشد راست اپنے مرشد ومربی سے اکتساب فیض اور تربیت باطنی کے مقصد سے عشرہ اخیر میں مرشد کی معیت اختیار کرے تو اس کی گنجائش ہے:
الأمور بمقاصدها.
اعتکاف کی لغوی وشرعی تعریفات اوپر کی سطروں میں آچکی ہیں، چونکہ شریعت کی جانب سے اس بات کی تصریح اور تحدید نہیں کی گئی ہے کہ دوران اعتکاف کون کون سے اعمال کئے جاسکتے ہیں اور کون کون سے نہیں؟ اس لئے ائمہ مجتہدین کے نقطہائے نظر اعتکاف کے معنی کے تعیّن میں مختلف ہوگئے ہیں، احناف وشوافع کا خیال ہے کہ مسجد سے متعلقہ قربات وطاعات ہی دوران اعتکاف انجام دیئے جاسکتے ہیں، لہذا جنازہ وغیرہ کے لئے بالقصد نکلنے کی گنجائش نہ ہوگی۔ جبکہ سفیان ثوری ودیگر حضرات کا خیال ہے کہ آخرت سے متعلقہ جملہ اعمال بِر وقربات دوران اعتکاف انجام دیئے جاسکتے ہیں؛ لہذا عیادت مریض و جنازہ وغیرہ کے لئے خروج کی اجازت ہوگی:
(فأما العمل الذي يخصه ففيه قولان: قيل : إنه الصلاة وذكر الله وقراءة القرآن لا غير ذلك من أعمال البر والقرب، وهو مذهب ابن القاسم. وقيل جميع أعمال القرب والبر المختصة بالآخرة، وهو مذهب ابن وهب، فعلى هذا المذهب يشهد الجنائز ويعود المرضى ويدرس العلم، وعلى المذهب الأول لا، وهذا هو مذهب الثوري ، والأول هو مذهب الشافعي وأبي حنيفة [ص: 261] وسبب اختلافهم: أن ذلك شيء مسكوت عنه - أعني: أنه ليس فيه حد مشروع بالقول- فمن فهم من الاعتكاف حبس النفس على الأفعال المختصة بالمساجد قال: لايجوز للمعتكف إلا الصلاة والقراءة . ومن فهم منه حبس النفس على القرب الأخروية كلها أجاز له غير ذلك مما ذكرناه . (بداية المجتهد ونهاية المقتصد 261/1)
اعتکاف کے معانی کے تعین میں ائمہ کے اس اختلاف نظر کو سامنے رکھنے کے بعد اب ذرا اس پر بھی غور کرتے چلئے کہ "تربیتی مقصد" کے علاوہ "اعتکافی حیثیت" سے بھی مرشد کے ساتھ اجتماع کی گنجائش موجود ہے. انفرادی اعمال اور متعلق بالمساجد قربات کے، دورانِ اعتکاف اجازت کے ساتھ، ائمہ فقہ نے بعض اہم ترین مقاصد کے پیش نظر اجتماعی نوعیت کے دیگر امور کی بھی اجازت دی رکھی ہے. مثلًا معتکف کے لئے درس وتدریس کے حلقے قائم کرنا، بغیر اجرت کے اللہ کی رضا کے لیے تعلیم دینا، مفلوک الحال مدرس کا با تنخواہ بھی پڑھانا وغیرہ وغیرہ.
"ولو جلس المعلم في المسجد والوراق يكتب، فإن كان المعلم يعلم للحسبة والوراق يكتب لنفسه فلا بأس به؛ لأنه قربة، وإن كان بالأجرة يكره إلا أن يقع لهما الضرورة، كذا في محيط السرخسي" (الفتاوى الهندية (5/ 321)
درس وتدریس اور تعلیم وتعلم جیسے اجتماعی امور کی گنجائش جب اعتکاف میں موجود ہے تو تربیت باطنی اور تزکیہ نفس کے حلقے کے قیام کی بھی لامحالہ گنجائش ہوگی، رذائل سے بچنا اور فضائل کو حاصل کرنا باتفاق علماء ہر عاقل، بالغ پر فرض ہے، اسی کو اصلاحِ نفس یا تزکیہ نفس اور تزکیہ اخلاق یا تہذیبِ اخلاق بھی کہا جاتا ہے، حضرت مرشد تھانوی قدس سرہ کے بقول:
"تزکیہ فعلِ متعدی ہے، جس سے معلوم ہوا کہ یہ ایسا فعل نہیں جو صرف اپنے فاعل پر تمام ہو جیسا کہ فعلِ لازم کا خاصہ ہے، بلکہ ایک مُزَكِّي اور مُرَبِّي کی ضرورت ہے جو تزکیہ اور تربیت کرے، پس اپنی اصلاح کوئی انسان خود نہیں کرسکتا، کسی مُصلِح کی اشد ضرورت ہے اور چوں کہ فرض کا مقدمہ فرض ہوتا ہے، اس لیے مُصلِح تلاش کرنا اور اس کی صحبت حاصل کرنا بھی فرض ہوا۔" (اصلاحِ اخلاق، ص: 6، ط: خانقاہ امدادیہ اشرفیہ)
عوام تو عوام؛ بعض نو فارغ فضلاء مدارس میں بھی اخلاقی وروحانی کمیاں رہ جاتی ہیں، نسلِ نو کی علمی و عملی، فکری و نظریاتی، اخلاقی و روحانی تربیت کا فکر واہتمام کرنا “انبیائی مزاج “ہے، جس کا ثبوت سورہ بقرہ کی آیات ( 130–133) سے بھی ملتا ہے. آج کل عصری درسگاہوں میں دین و اخلاق کی تعلیم نہیں ہے. اور اسے تقریباً "شجرممنوعہ" قرار دیا گیا ہے۔ ان حالات میں اگر رمضان کے عشرہ اخیر جیسے مبارک وروحانی "ربانی تربیتی نظام" کے جلو میں مستند اکابر علماء ومتبع سنت مشائخ عظام دینی واسلامی شناخت اور روحانی ترقی کو باقی رکھنے کے لئے اجتماعی اعتکاف کے ظاہری عنوان کے تحت تربیت روحانی کا نظام قائم کررہے ہیں تو شرعی حدود کی رعایت اور افراط وغلو اور منکرات شرعیہ سے گریز کی شرط کے ساتھ یہ مستحسن اقدام ہے، از روئے شرع اس کی گنجائش ہے. جن متبع سنت شخصیات کی طرف سے ایسی کوششیں ہورہی ہیں وہ بلاشبہ لائق تحسین اور قابل قدر ہیں، انہیں نہ صرف استحکام بخشنے کی ضرورت ہے؛ بلکہ ان سے مربوط ہوکر استفادے کی صورت بھی نکالی جانی چاہئے تاکہ آج کے پرفتن دور میں دین و اخلاق و روحانیت کے بیش بہا موتی سے دامن مراد بھرسکیں۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین مدنی قدس سرہ کی جلالت علمی وعظمت شان سے کون ناواقف ہوگا؟ حضرت اپنی سال بھر مختلف دینی، دعوتی، اور ملی سرگرمیوں میں مصروف عمل رہ کر جب عشرہ اخیر میں اپنے وطن مالوف میں اعتکاف فرماتے تو محبین ومعتقدین کا ایک انبوہ عظیم شامل اعتکاف ہوجاتا، برکۃ العصر، بقیۃ السلف شیخ الحدیث حضرت مولانا شیخ زکریا صاحب کاندہلوی قدس سرہ کی شخصیت اور مقام و مرتبہ کا کوئی اندازہ لگا سکتا ہے؟ حضرت کے ساتھ عشرہ اخیر میں معتکفین کا یہی ہجوم ہوتا تھا. مفتی اعظم ہند، فقیہ الامت حضرت اقدس مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی قدس سرہ العزیز کے ہمراہ مسجد چھتہ دیوبند میں ملک کے طول وعرض سے تشریف فرما اکابر علماءِ معتکفین کا جم غفیر تو ہم نے اپنی گنہگار چشم سر سے دیکھا ہے. حضرت گنگوہی کے مایہ ناز خلیفہ حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی مدظلہ العالی مہتمم دارالعلوم دیوبند بھی اسی طرح روحانی مجلس اعتکاف میں چوٹی کے علماء وصلحاء کو اسرار محبت کے جام ومینا لنڈھا رہے ہیں۔ دورصحابہ سے آج تک رمضان کے عشرہ اخیر میں علماء، اولیاء اور ائمہ دین، توبہ و استغفار، عبادات کی عملی مشق، تعلیم و تربیت، تطہیر وتزکیہ نفس کے مقاصد سے رمضان میں اجتماعی مجالس قائم فرماتے ہیں، ان کا مقصد تعلیم وتربیت اور تزکیہ وتصفیہ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ دوردراز سے آنے والے حضرات بھی اسی مقصد سے حاضر ہوتے ہیں۔ اعتکاف کا عنوان بس ایک ڈھانچہ محض ہے، جیسا کہ اوپر ہم نے عرض کردیاکہ تراویح کی حیثیت سے بھی تعلیم وتربیت کی اجازت ہے، ہاں شرعی حدود سے تجاوز کرنا، اشتہاربازی، خودنمائی، خود ستائی، چندہ دھندہ ،التزام مالایلزم اور دیگر ایجادات بندہ کا اہتمام تو وہ ہر جگہ مردود و ممنوع ہے، یہاں بھی ممنوع رہے گا. شرعی حدود کی رعایت اور منکرات شرعیہ سے اجتناب کی شرط کے ساتھ ان مجالس کے قیام میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے. اپنے محلہ کی مسجد کو ویران چھوڑ کر ان مجالس میں حاضر ہونے کا الزام بھی کم علمی پر مبنی ہے۔ کیا محلہ میں کلُ اتنے ہی لوگ رہ گئے ہیں؟ باقی لوگ کیا کررہے ہیں؟ محلے کی مسجد میں معتکف ہونا صرف انہی کی ذمہ داری ہے؟ باقی سب تماشائی بنے رہیں گے؟ وہ اپنے گھروں میں آرام کرتے رہیں گے؟ اکابر علماء کے ساتھ معتکف ہونے کے لئے جانے والے ہر محلہ کے ایک آدھ فرد کو محلہ کی مسجد میں اعتکاف کے لئے بھلا کس نے متعین و نامزد کردیا؟ کہ سارا نزلہ انہی پر اتاڑ دیا جائے؟ حالانکہ اگر اعتکاف کی غرض ومقصد پر ہی غور کرلیا جاتا تو یہ غلط فہمی پیدا نہ ہوئی ہوتی! علامہ عبدالحی لکھنوی کی تصریح کے بموجب اعتکاف کی سنیت وتاکد کی غرض مسجد محلہ کے حقوق کا تحفظ ہے. جیسے نمازجنازہ کے وجوب کی غرض حقوق مسلم کا تحفظ ہے. مسجد محلہ میں لاعلی التعیین کسی بھی ایک بندہ کے معتکف ہوجانے سے یہ غرض حاصل ہوجائے گی. اصلاح باطن جیسے فریضے کی ادائی واکتساب فیوض روحانی کے لئے اکابر کی معیت میں اعتکاف کے لئے جانے والوں پر ہی ایفاء حق مسجد واجب نہیں ہے. ان پر زبردستی واجب کردینا بجائے خود بدعت ہے.
جہاں تک رہا یہ خلجان کہ اگر ایک محلے سے چند افراد کسی شیخ کی صحبت میں معتکف ہونے گئے جبکہ خود ان کے اپنے محلے کی مسجد اعتکاف سے خالی رہ گئی تو کیا سنت مؤکدہ کے تارکین میں شیخ کی صحبت میں گئے لوگ بھی داخل ہوکر مستحق گناہ ہونگے یا نہیں؟ تو فقہاء محققین کے ظاہر کلام سے مفہوم یہ ہوتا ہے کہ اعتکاف پورے شہر کی کسی ایک مسجد میں سنت کفائی ہے، شہر کی ہر مسجد میں یا ہر محلے کی مسجد میں سنت کفائی نہیں ہے (گوکہ بعض فقہی روایت اس کے موافق بھی ہے) کیونکہ ترک کی صورت میں اہل شہر کو گنہگار کہا گیا ہے اہل محلہ کو نہیں۔ علامہ عبد الحی صاحب لکھنوی لکھتے ہیں:
الاعتكاف على تقدير كونه سُنَّةُ كفاية كما هو الحق، هل هو سُنَّة كفايةٍ على أهلِ البلدة ، كَصَلاة الجنازة، أم سُنَّة كفايةٍ على أهلِ كُلِّ مَحلَّةٍ، كصلاةِ التراويح بالجمَاعة
فظاهِرُ عباراتهم يَقْتضي الأول، ففي "مَجْمَع الأَنْهُر شرحُ مُلْتَقَى الأَبْحُر" عند ذكر الأقوال: وقيل: سنَّةٌ على الكفاية، حتى لو تَرَكَ أهل بلدة بأَسْرِهم يلحقهم الإِسَاءَة، وإلَّا فلا، كالتأْذين. (الإنصاف في حكم الاعتكاف 36-37)
شہر کی ہر ہر مسجد میں اعتکاف افضل وبہتر تو ہے؛ لازم ومؤکد نہیں ہے۔ اسی نوع کے ایک سوال کے جواب میں دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء کا بھی یہی فتوی ہے:
جواب نمبر: 41527
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1588-1086/H=10/1433
اگرچہ واجب تو نہیں مگر اعلیٰ وافضل یہی ہے کہ شہر اور گاوٴں کی ہرمسجد میں اعتکاف کیا جائے تاہم چھوٹے گاوٴں میں ایک مسجد میں اور شہر میں ہرمحلہ کی کم ازکم ایک مسجد میں اعتکاف کرلیا جائے تو سنت علی الکفایہ ادا ہوجائے گی، ہکذا یفہم من احسن الفتاوی فی باب الاعتکاف۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
——————————-
بنا بریں قول شیخ کے ساتھ جانے والے معتکف حضرات کی اگر اپنے محلے کی مسجد اعتکاف سے خالی ہوگئی ہو تو ضرور اس شہر کی دوسری مساجد میں کوئی نہ کوئی اعتکاف میں بیٹھا ہوگا! اور پورے شہر میں کسی ایک کا بیٹھنا کافی ہے؛ لہذا صورت مذکورہ میں ترک سنت اور لحوق اثم کا سوال درست نہیں ہے. علامہ شامی وغیرہ نے اعتکاف کو تراویح بالجماعت کے ساتھ جو تشبیہ دی ہے.
(نظیرھا إقامة التراویح بالجماعة. ردالمحتار 442/2، دارالکتب العلمية)
تو یہ من کل وجہ تشبیہ نہیں ہے؛ بلکہ صرف سنت کفائی ہونے میں تراویح کے مماثل ہونا بتانا مقصود ہے؛ کیونکہ اس کی وضاحت خود آگے انہوں نے کردی ہے:
"فإذا قام بهاالبعض سقط الطلب عن الباقین."
برسبیل تنزل وتقدیر:
اعتکاف کو ہر مسجد اور ہر محلہ کی سنت مان لینے کی صورت میں بھی شیخ کی معیت میں اعتکاف کرنے والے صورت مذکورہ میں ترک سنت مؤکدہ کے شریک گناہ اس لئے نہیں ہوسکتے کہ؛ اصلاح حال اور تزکیہ نفس فرض ہے اور اعتکاف سنت مؤکدہ! فرض اور سنت مؤکدہ کے اجتماع کی صورت میں تقدیم وترجیح لازماً فرض کو ہوگی؛ کیونکہ فرض کے ترک کا ضرر اشد ہے اور سنت کے ترک کا ضرر اخف، اور فقہ کا مشہور قاعدہ و ضابطہ ہے کہ:
۱: الضرر الأشد يزال بالضرر الأخف (الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص 88)، مجلة الأحكام العدلية (ص90) المادة رقم "27" در الحكام شرح مجلة الأحكام علي حيدر(1/40)، شرح القواعد الفقهية للزرقا (ص199)، القواعد الفقهية د. محمد الزحيلي (1/219)۔
۲: يختار أهون الشرين أو أخف الضررين (مجلة الأحكام العدلية (ص90) المادة رقم"29" دور الحكام شرح مجلة الأحكام علي حيدر (1/40).
۳: إذا تعارضت مفسدتان روعي أعظمهما ضرراً بارتكاب أخفهما (الأشباه والنظائر للسيوطي (ص87)، الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص89)، مجلة الأحكام العدلية (ص 90) المادة رقم"28" دور الحكام شرح مجلة الأحكام علي حيدر (1/41)
لہذا ترک فرض سے ہونے والے ضرر اعظم سے بہرحال بچا جائے گا
اور ترک سنت کے ضرر اخف کو برداشت کرلیا جائے گا:
يدفع أعظم الضررين باحتمال أخفهم (القواعد الفقهية د. محمد الزحيلي (1/219).
جہاں تک حضرت مہتمم صاحب مدظلہ کی اس بابت مبینہ ہدایت (کہ جو ہمارے ساتھ ایک بار معتکف ہوچکا وہ اب دوبارہ نہ آئے) کا تعلق ہے تو بر تقدیر صحت روایت بادی النظر میں اس کا تعلق صرف انتظام و انضباط سے ہے اور بنظرغائر دیکھا جائے تو اجتماعی اعتکاف کو مزید سہل الانتفاع اور اس کے دائرہ افادہ کو وسیع تر بنانے کی سمت یہ مفید ودور رس کوشش کے سوا اور کچھ نہیں ہے تاکہ استفادہ ہر کسی کے لئے آسان ہو، تکلیف دہ ازدحام نہ ہو، ہرکوئی بقدر ظرف وطلب بادہ نوشی کرسکے، کوئی محروم فیض نہ رہ سکے. یہ ایسا ہی ہے جیسے سعودی انتظامیہ حجاج کرام کے لئے انتظامی ہدایت جاری کرتی ہے کہ جو ایک بار حج کرچکا وہ پانچ سال پورے ہونے سے قبل نہیں آسکتا، ظاہر ہے کہ یہ انتظام میں سہولت وآسانی اور سعادت حج کی سہولت ہر کسی کے لئے بہم پہنچانے ہی کی کوشش ہے، شرعی حکم سے اس کا کیا سروکار؟ ویسا ہی حضرت مہتمم صاحب مدظلہ کی ہدایت کو بھی سمجھ لیجئے.
آج کے دور میں اس حقیقت سے انکار کی گنجائش یقیناً نہ ہوگی کہ دیگر شعبہائے دین کی طرح اخلاص واحسان، معرفت حق، تکمیل روحانی ، تہذیب وتطہیر نفس کا یہ شعبہ بھی تنزل سے بچ نہ سکا، بعض پیشہ ور، جاہ طلب، حقیقت فروش، نام نہاد "مرشد" بھی (افراد کی بات ہے، کلیات کی نہیں) بھی لانچ ہوگئے جو حب جاہ ومنصب، ہوسِ شہرت وزعم پارسائی میں حلق تک دھنسے ہوتے ہیں، تزکیہ نفس کی حقیقی روح اور اس کے حقیقی مقاصد سے ناآشنا و نابلد ہوتے ہیں، عوام میں اپنی مقبولیت وبالادستی کے لئے تصوف کو "آلہ کار" بنائے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے دین وشریعت سے متضاد، تعلمیات سلوک وطریقت سے مغائر ایسے کسی "طریقہ کار" کی گنجائش شریعت مطہرہ میں نہیں ہے. تاہم صحیح العقیدہ، پابند شریعت، متبع سنت، شیخ کامل کا صحبت وتربیت یافتہ ومجاز "مرشد" اگر شرعی حدود میں رہ کر "تشہیر بیجا" اور تداعی کے بغیر، تعلیم وتربیت باطنی کے مقصد سے اس طرح کی کوشش کریں، عشرہ اخیر کے مبارک جلو میں لوگ اپنی اصلاح وتربیت کے مقصد سے ان کے پاس حاضر ہوں اور وہ انہیں تعلیم وتربیت، توبہ و استغفار، اوراد و وظائف کے ساتھ، عبادات، احسان و اخلاص کی عملی مشق کروائیں تو اس کی گنجائش ہے. چیزوں کو وسیع تناظر میں دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے، یک طرفہ تحلیل وتجزیہ مناسب نہیں ہے. حالات و زمانے کے تقاضوں وچیلنجس اور علماء اہل حق کے عرف وتعامل کو سامنے رکھ کر تحلیل وتجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
واللہ ولی التوفیق
مركزالبحوث الإسلاميه العالمي
(اتوار 24 رمضان المبارک 1444ھ16
اپریل 2023ء) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2023/04/blog-post.html
No comments:
Post a Comment