فقہیاتِ رمضان (60)
=== ماہ رمضان؛ فضائل و مسائل ===
(بقلم: مفتی سفیان بلند)
لیلة الجائزہ یعنی رمضان المبارک کی آخری رات، مسلمانوں کے لئے انعامات ربانی کی عطا:
● حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ شبِ قدر میں حضرت جبرئیل علیہ السلام، ملائکہ کی ایک جماعت کے ساتھ آتے ہیں، اور اُس شخص کے لئے جو کھڑے یا بیٹھے اللہ کا ذکر کررہا ہے اور عبادت میں مشغول ہے دُعائے رحمت کرتے ہیں، اور جب عیدالفِطر کا دن ہوتا ہے تو حق تَعَالیٰ شَانُہ اپنے فرشتوں کے سامنے بندوں کی عبادت پر فَخر فرماتے ہیں (اِس لئے کہ اُنہوں نے آدمیوں پر طعن کیا تھا) اور اُن سے دریافت فرماتے ہیں کہ اے فرشتو! اُس مزدُور کا جو اپنی خدمت پوری پوری ادا کردے کیا بدلہ ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! اُس کا بدلہ یہی ہے کہ اُس کی اُجرت پوری دے دی جائے، تو ارشاد ہوتا ہے کہ فرشتو! میرے غلاموں نے اور باندیوں نے میرے فرِیضے کو پورا کردیا، پھر دُعا کے ساتھ چِلَّاتے ہوئے (عیدگاہ کی طرف) نکلے ہیں، میری عزت کی قَسم! میرے جَلال کی قَسم! میری بخشش کی قَسم! میرے عُلُوِّ شان کی قَسم! میرے بُلندیٔ مَرتبہ کی قَسم! میں اُن لوگوں کی دُعا ضرور قبول کروں گا، پھر اُن لوگوں کو خِطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ جاؤ! تمہارے گناہ معاف کردیئے ہیں اور تمہاری بُرائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا ہے، پس یہ لوگ عیدگاہ سے ایسے حال میں لوٹتے ہیں کہ اُن کے گناہ مُعاف ہوچکے ہوتے ہیں۔ (بیہقی)
فائدہ: حضرت جبرئیل علیہ السلام کا ملائکہ کے ساتھ آنا خود قرآنِ پاک میں بھی مذکور ہے جیسا کہ پہلے گزرچکا، اور بہت سی احادیث میں بھی اِس کی تَصرِیح ہے، روایات میں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام تما م فرشتوں کو تقاضہ فرماتے ہیں کہ ہر ذَاکر و شاغل کے گھرجائیں اور اُن سے مُصافَحہ کریں، "غَالِیَۃُ المَواعِظ" میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی "غُنیۃ" سے نقل کیا ہے کہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ فرشتے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے کہنے سے مُتفَرق ہوجاتے ہیں، اور کوئی گھر چھوٹا بڑا، جنگل یا کشتی ایسی نہیں ہوتی جس میں کوئی مومن ہو اور وہ فرشتے مصافحہ کرنے کے لئے وہاں نہ جاتے ہوں، لیکن اُس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتَّا یا سُوَّر ہو، یا حَرام کارِی کی وجہ سے جنُبی یا تصویر ہو، مسلمانوں کے کتنے گھرانے ایسے ہیں جن میں خَیالی زِینت کی خاطر تصویریں لٹکائی جاتی ہیں اور اللہ کی اتنی بڑی نعمت رحمت سے اپنے ہاتھوں اپنے کو محروم کرتے ہیں! تصویر لٹکانے والا ایک آدھ ہوتا ہے، مگر اُس گھر میں رحمت کے فرشتوں کے داخل ہونے سے روکنے کا سبب بن کر سارے ہی گھر کواپنے ساتھ محروم رکھتاہے۔
روزہ دار کے لئے خصوصی انعامات:
● حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ میری اُمَّت کو رمَضان شریف کے بارے میں پانچ چیزیں مَخصُوص طور پر دی گئی ہیں جو پہلی اُمَّتوں کو نہیں ملی ہیں:
(۱) ان کے منہ کی بدبو اللہ کے نزدیک مُشک سے زیادہ پسند ہے۔
(۲) یہ کہ اُن کے لیے دریا کی مچھلیاں تک دعا کرتی ہیں، اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں۔
(۳) جنت ہرروز اُن کے لئے آراستہ کی جاتی ہے، پھر حق تَعَالیٰ شَانُہ فرماتے ہیں کہ قریب ہے کہ میرے نیک بندے (دنیا کی) مشقتیں اپنے اوپر سے پھینک کر تیری طرف آویں۔
(٤) اِس میں سَرکش شیاطِین قید کردیئے جاتے ہیں کہ وہ رمَضان میں اُن بُرائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیرِرمَضان میں پہنچ سکتے ہیں۔
(۵) رمَضان کی آخری رات میں روزہ داروں کے لئے مغفرت کی جاتی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یہ شبِ مغفرت، شبِ قدر ہے؟ فرمایا کہ نہیں، بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دی جاتی ہے۔ (أحمد والبزار والبیهقی)
فائدہ: حدیث بالا میں آخری خصوصِیَّت یہ ذکر کی گئی ہے کہ رمَضانُ المبارک کی آخری رات میں سب روزے داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے، چونکہ رمَضانُ المبارک کی راتوں میں شبِ قدر سب سے اَفضل رات ہے، اِس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خَیال فرمایا کہ اِتنی بڑی فضیلت اِسی رات کے لئے ہوسکتی ہے، مگر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اُس کے فضائل مُستقِل علیحدہ چیز ہیں، یہ انعام تو ختمِ رمَضان کا ہے۔
رمضان کی آخری رات کے انعامات اور مغفرت سے محروم افراد:
● حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ جنت کو رمَضان شریف کے لئے خوشبوؤں کی دُھونی دی جاتی ہے، اور شروع سال سے آخر سال تک رمَضان کی خاطر آراستہ کیا جاتا ہے، پس جب رمَضانُ المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو عرش کے نیچے سے ایک ہَوا چلتی ہے، جس کا نام "مَثِیرہ" ہے، (جس کے جھونکوں کی وجہ سے) جنت کے دَرختوں کے پَتے اور کِواڑوں کے حَلقے بجنے لگتے ہیں، جس سے ایسی دِلآویز سُرِیلی آواز نکلتی ہے کہ سُننے والوں نے اِس سے اچھی آواز کبھی نہیں سنی، پس خوش نُما آنکھوں والی حُوریں اپنے مکانوں سے نکل کر جنت کے بَالاخانوں کے درمیان کھڑے ہوکر آواز دیتی ہیں کہ کوئی ہے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہم سے منگنی کرنے والا تاکہ حق تَعَالیٰ شَانُہ اُس کو ہم سے جوڑ دیں؟ پھر وہی حوریں جنت کے دَاروغہ رِضوان سے پوچھتی ہیں کہ یہ کیسی رات ہے؟ وہ لَبَّیْكَ کہہ کرجواب دیتے ہیں کہ رمَضانُ المبارک کی پہلی رات ہے، آج جنت کے دروازے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمَّت کے لئے کھول دیئے گئے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حق تَعَالیٰ شَانہ رضوان سے فرمادیتے ہیں کہ جنت کے دروازے کھول دے، اور مالک (جہنَّم کے داروغہ) سے فرمادیتے ہیں کہ احمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمَّت کے روزے داروں پر جہنَّم کے دروازے بند کر دے، اور جبرئیل علیہ السلام کو حکم ہوتا ہے کہ زمین پر جاؤ اور سَرکَش شیاطین کو قید کرو، اور گلے میں طوق ڈال کر دریا میں پھینک دو کہ میرے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمَّت کے روزوں کو خراب نہ کریں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ حق تَعَالیٰ شَانُہ رمَضان کی ہر رات میں ایک مُنادِی کو حکم فرماتے ہیں کہ تین مرتبہ یہ آواز دے کہ ہے کوئی مانگنے والا جس کو میں عطا کروں؟ ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ میں اُس کی توبہ قبول کروں؟ کوئی ہے مغفرت چاہنے والا کہ میں اُس کی مغفرت کروں؟ کون ہے جو غنی کو قرض دے؟ ایسا غنی جو نادار نہیں، ایسا پورا پورا ادا کرنے والا جو ذرا بھی کمی نہیں کرتا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حق تَعَالیٰ شَانُہ رمَضان شریف میں روزانہ افطار کے وقت ایسے دَس لاکھ آدمیوں کو جہنَّم سے خَلاصِی مَرحَمَت فرماتے ہیں جو جہنم کے مُستحَق ہوچکے تھے، اور جب رمَضان کا آخری دن ہوتا ہے تو یکم رمَضان سے آج تک جس قدر لوگ جہنم سے آزاد کئے گئے تھے اُن کے برابر اُس ایک دن میں آزاد فرماتے ہیں، اور جس رات شبِ قدر ہوتی ہے تو حق تَعَالیٰ شَانُہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو حکم فرماتے ہیں، وہ فرشتوں کے ایک بڑے لَشکر کے ساتھ زمین پر اُترتے ہیں، اُن کے ساتھ ایک سَبز جھنڈا ہوتا ہے جس کو کعبہ کے اوپر کھڑا کرتے ہیں، اور حضرت جبرئیل علیہ السلام کے سو بازُو ہیں، جن میں سے دو بازُو کو صرف اِسی رات میں کھولتے ہیں، جن کو مشرق سے مغرب تک پھیلادیتے ہیں، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کو تقاضا فرماتے ہیں کہ جو مسلمان آج کی رات میں کھڑا ہویا بیٹھا ہو، نماز پڑھ رہا ہو یا ذکر کررہا ہو، اُس کو سلام کریں اور مصافحہ کریں، اور اُن کی دعاؤں پر آمین کہیں، صبح تک یہی حالت رہتی ہے، جب صبح ہوجاتی ہے تو جبرئیل علیہ السلام آواز دیتے ہیں کہ اے فرشتوں کی جماعت! اب کُوچ کرو اور چلو، فرشتے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے احمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اُمَّت کے مومنوں کی حاجتوں اور ضرورتوں میں کیا مُعاملہ فرمایا؟ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُن پر توجُّہ فرمائی، اور چار شخصوں کے عِلاوہ سب کو مُعاف فرمادیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ یارسولَ اللہ! وہ چار شخص کون ہیں؟ ارشاد ہوا کہ
1: ایک وہ شخص جو شراب کا عادِی ہو،
2: دوسراوہ شخص جو والدین کی نافرمانی کرنے والا ہو،
3: تیسرا وہ شخص جو قَطع رَحمی کرنے والا اور ناطہ توڑنے والا ہو،
4: چوتھا وہ شخص جو کِینہ رکھنے والا ہو اور آپس میں قَطع تعلق کرنے والا ہو،
پھر جب عیدالفِطر کی رات ہوتی ہے تو اُس کا نام (آسمانوں پر) "لَیْلَۃ الْجَائِزَۃِ" (انعام کی رات) سے لیا جاتا ہے، اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو حق تَعَالی شَانُہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں، وہ زمین پر اُترکر تمام گلیوں، راستوں کے سِروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں، اور ایسی آواز سے جس کو جِنّات اور انسان کے سِوا ہر مخلوق سنتی ہے، پکارتے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمَّت! اُس کریم رب کی درگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے، اور بڑے سے بڑے قُصور کو مُعاف فرمانے والا ہے، پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تَعَالیٰ شَانُہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں کہ کیا بدلہ ہے اُس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارے معبود اور ہمارے مالک! اُس کا بدلہ یہی ہے کہ اُس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے، تو حق تَعَالیٰ شَانُہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے فرشتو! مَیں تمہیں گواہ بناتا ہوں، میں نے اُن کو رمَضان کے روزوں اور تراویح کے بدلے میں اپنی رَضا اور مغفرت عطا کردی، اور بندوں سے خطاب فرماکر اِرشاد ہوتا ہے کہ اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزَّت کی قَسم! میرے جَلال کی قَسم! آج کے دن اِس اِجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کروگے عطا کروں گا، اور دنیا کے بارے میں جو سوال کروگے اُس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا، میری عزَّت کی قَسم! جب تک تم میرا خَیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں پر سَتَّاری کرتا رہوں گا (اور اُن کو چھپاتا رہوں گا)، میری عزت کی قَسم اور میرے جَلال کی قَسم! میں تمھیں مُجرِموں (اور کافروں) کے سامنے رُسوا اور فَضِیحت نہ کروں گا، بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا، پس فرشتے اُس اَجر و ثواب کو دیکھ کر جو اِس اُمَّت کو اِفطار کے دن ملتا ہے خوشیاں مَناتے ہیں اور کھِل جاتے ہیں۔
(کذا في الترغیب، وقال: رواہ أبو الشیخ بن حبان في کتاب الثواب، والبیهقي واللفظ لہ، ولیس في إسنادہ من أجمع علیٰ ضعفہ، قلت: قال السیوطي في التدریب: قد التزم البیهقي أن لایخرج في تصانیفہ حدیثا یعلمہ موضوعا إلخ، وذکر القاري في المرقاۃ بعض طرق الحدیث، ثم قال: فاختلاف طرق الحدیث یدل علیٰ أن لہ أصلا)
فائدہ: حدیثِ بالا میں عید کی رات کو "انعام کی رات" سے پکارا گیا ہے، اِس رات میں حق تَعَالیٰ شَانُہ کی طرف سے اپنے بندوں کو اِنعام دیاجاتا ہے، اِس لئے بندوں کو بھی اِس رات کی بے حد قدر کرنا چاہیے، بہت سے لوگ عوام کا تو پوچھنا ہی کیا، خواص بھی رمَضان کے تھکے ماندے اِس رات میں میٹھی نیند سوتے ہیں یا بازاروں کے چکر لگاتے ہیں اور بعض معتکف تو خاص اس رات خریداری کے لئے نکلتے ہیں حالانکہ یہ رات بھی خُصوصِیَّت سے عبادت میں مشغول رہنے کی ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص ثواب کی نیت کرکے دونوں عیدوں میں جاگے اور عبادت میں مشغول رہے، اُس کا دل اُس دن نہ مرے گا جس دِن سب کے دل مر جائیں گے، یعنی فِتنہ وفَساد کے وقت جب لوگوں کے قُلوب پر مُردنی چھاتی ہے اُس کا دل زندہ رہے گا اور ممکن ہے کہ صور پھونکے جانے کا دن مراد ہو کہ اُس کی رُوح بے ہوش نہ ہوگی۔
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جو شخص پانچ راتوں میں عبادت کے لئے جاگے اُس کے واسطے جنت واجب ہوجائے گی:
لَیلَةُ الترَّوِیة: ٨ ذِی الحجہ کی رات،
لَیلَة العَرْفَة: ۹؍ ذی الحجہ کی رات،
لَیلَةُ النَّحر: ۱۰؍ ذی الحجہ کی رات،
عیدالفطر کی رات، اور شبِ برأت یعنی ۱۵؍ شعبان کی رات۔
فقہاء کرام نے بھی عیدین کی رات میں جاگنا مُستَحب لکھا ہے، "مَاثَبَتَ بِالسُّنَّۃ" میں امام شافعی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ پانچ راتیں دعا کی قَبولِیت کی ہیں:
1: جمعہ کی رات،
2'3: عیدین کی راتیں،
4: غُرَّۂ رجب کی رات اور
5: نصف شعبان کی رات۔
تنبیہ:
بعض بزرگوں کا ارشاد ہے کہ رمَضانُ المبارک میں جمعہ کی رات کا بھی خُصوصِیَّت سے اہتمام کرنا چاہئے، کہ جمعہ اور اُس کی رات بہت مُتبرک اَوقات ہیں، احادیث میں اِن کی بہت فضیلت آئی ہے، مگر چونکہ بعض روایات میں جمعہ کی رات کو قِیام کے ساتھ مَخصوص کرنے کی مُمانَعت بھی وارد ہوئی ہے، اِس لیے بہتر ہے کہ ایک دو رات کو اُس کے ساتھ اور بھی شامل کرلے۔ (مستفاد از فضائل اعمال)
ناشر: دارالریان کراتشی ( #ایس_اے_ساگر )
http://saagartimes.blogspot.com/2023/04/60.html?m=1
No comments:
Post a Comment