Friday 9 October 2020

آیات متشابہات پر ایمان کیسے لایا جائے

آیات متشابہات پر ایمان کیسے لایا جائے

قرآن کریم میں دو قسم کی آیات ہیں ایک آیات محکمات (یعنی جن کے معنی واضح ہیں)

اور دوسری آیات متشابہات (یعنی جن کے معنی معلوم یا معین نہیں)

اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں:

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَ ابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ ۚ؃ وَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللّٰہُ ۘؔ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿آل عمران ۷﴾

ترجمہ: ”وہی ہے جس نے اتاری تجھ پر کتاب اس میں بعض آیتیں ہیں وہ اصل ہیں کتاب کی اور دوسری ہیں متشابہ سو جن کے دلوں میں کجی ہے وہ پیروی کرتے ہیں متشابہات کی گمراہی پھیلانے کی غرض سے اور مطلب معلوم کرنے کی وجہ سے اور ان کا مطلب کوئی نہیں جانتا سوا اللہ کے اور مضبوط علم والے کہتےہیں ہم اس پر یقین لائے سب ہمارے رب کی طرف سے اتری ہیں اور سمجھانے سے وہی سمجھتے ہیں جن کو عقل ہے“۔

اس میں کسی کو شبہ نہیں کہ كهيعص، يٰس، حٰم، ن، يد، عين، استويٰ علي العرش

وغیرہ آیات کی اصل مراد اللہ کے سوائے کوئی نہیں جانتا اور یہ آیات ِمتشابہات میں سے ہیں جس طرح سے كهيعص وغیرہ (حروف مقطعات) کی مراد سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا اسی طرح استویٰ، يد، عين وغیرہ بلاشبہ متشابہات میں سے ہیں اور انکی مراد بھی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

لہذا ان پر ایمان لانے کیلئے پہلے ان کی مراد بھی معلوم ہو والی بات قطعاً غلط ہے۔ اللہ کی مراد کو اسی کے سپرد کرکے بھی ایمان لایا جاسکتا ہے اور ایسا لانا ہی اللہ کا حکم ہے جیسا دوسرے متشابہات پر لایا جاتا ہے۔ حروف مقطعات کے متعلق کوئی بیوقوف نہیں کہتا ہے کہ اگر تمہیں ان کی اصل مراد کا علم نہیں تو تم ان پر ایمان نہیں لاسکتے۔ اگر ایمان لانے کیلئے اللہ کی مراد کا معلوم ہونا ضروری ہوتا تو اللہ تعالٰی پھر اپنی کتاب قرآن مجید میں ان کو تقسیم ہی کیوں کرتا ؟

امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں:۔

وَجُمْهُورُ أَهْلِ السُّنَّةِ مِنْهُمُ السَّلَفُ وَأَهْلُ الْحَدِيثِ عَلَى الْإِيمَانِ بِهَا وَتَفْوِيضِ مَعْنَاهَا الْمُرَادِ مِنْهَا إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَلَا نُفَسِّرُهَا مَعَ تَنْزِيهِنَا لَهُ عَنْ حَقِيقَتِهَا.

ترجمہ: ”جمہور اہل سنت جن میں سلف اور اہلحدیث (محدثین) شامل ہیں ان کا مذہب (نصوص صفات پر) ایمان رکھنا ہے ساتھ اس کے کہ ان کے معنی مراد کو اللہ کی طرف سپرد کردیا جائے اور ہم ان کی تفسیر نہیں کرتے جبکہ ان کے ظاہری معنی سے اللہ کو پاک قرار دیتے ہیں“۔ (الإتقان في علوم القرآن ج 3 ص 14)

آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا:

 کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو قرآن شریف کی متشابہ آیات کی ٹٹول میں لگے رہتے ہیں تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں انہی کا ذکر فرمایا ہے لہٰذا ان کی صحبت سے پرہیز کرتے رہو۔ (بخاری ج 6 ص 33)

اللہ جانے اگر یہ لامذہبی وہی نہیں جن کے متعلق اللہ اور رسول نے خبر دی ہے تو پھر اور کون ہیں۔

----------------------------------

سوال: قرآن مجید میں وجہ ید اور استواء علی العرش جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس کے کیا معنی ہیں؟

سائل: محمد آصف

جواب: مذکورہ الفاظ صفات ِ متشابہات میں سے ہیں جن کے معنی معلوم تو ہیں مگر  اس کے ظاہری معنی کواللہ تعالی کے لیے ثابت کرنااور اللہ کے لیے اس کی کیفیت کو ثابت کرنا اہل حق کے نزدیک درست نہیں  کیونکہ اللہ  تعالیٰ مخلوقات  کے مشابہ نہیں (لیس کمثلہ شیئ)، نیز اللہ تعالیٰ اعضا ء سمیت ہر چیز کی احتیاج سے پاک ہیں۔

اس لیے ان صفات (وجہ، عین، استوا علی العرش) سے متعلق اہل سنت والجماعت کے متقدمین اور متاخرین جمہور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ ان صفات کو مانتے تو ہیں لیکن ہم ان کا ظاہری معنیٰ مراد  لینا جائز نہیں۔ پھر جمہور علماء تو ان الفاظ  کے معنیٰ کو اللہ تعالیٰ  کے سپرد کردیتے ہیں کہ ہم ان الفاظ پر تو ایمان لاتے ہیں لیکن ان کے حقیقی معنیٰ کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔جبکہ اہل سنت  کے ہی دیگر بعض علماء ان الفاظ  سے ان کا باطنی مطلب مراد لیتے ہیں۔ مثلاً اس حدیث ”مومن کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے“ کا مطلب ان علماء نے تاویل کرکے یہ  بیان کیا ہے کہ یہاں دو انگلیوں سے مراد اللہ کی قدرت اور غلبہ ہے۔

اسی طرح قرآن میں ”وجہ“ کو اللہ کی رضامندی سے تاویل کیا  ہے اور استوا علی العرش  سے حاکمیت مراد لی ہے۔ بہرحال اہل حق کے یہ دونوں مسلک درست ہیں۔تاہم  ان الفاظ سے ان کے حقیقی معنیٰ مراد لینا جائز نہیں۔ نیز ان امور میں زیادہ غور و خوض کرنا شرعاً مطلوب نہیں، بلکہ نقصان دہ ہونے کی وجہ سے ممنوع ہے۔ اس لیے اس میں زیادہ انہماک سے بچنا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقط والله المؤفق

صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر

الجواب صحیح: مفتی انس عفی اللہ عنہ صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر: الجواب الصحیح مفتی طلحہ ہاشم صاحب رفیق دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

--------------------------------------------------

"كلتايديه يمين" اور "يطوي السماء بشماله" کے درمیان تطبیق

مفتی صاحب پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک حدیث میں ھے کلتا یدیہ یمین 

اور مسلم باب صفت یوم القیمہ والجنت والنار میں ایک حدیث ھے 

جس میں یہ ھے کہ یطوی السماء بشمالہ تو ان دونوں حدیثوں میں تعارض ھے 

ممنون ومشکور فرمائے اور با حوالہ جواب چاھئے 

اجرکم علی اللہ

الجواب وباللہ التوفیق:

ترمذی کی روایت میں اللہ تعالیٰ کے سلسلے میں یہ آیا ہے کہ ان کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں۔ اولا تو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ متشابہات میں سے ہے۔ اور متشابہات میں کھود کرید درست نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علما نے یہ لکھا ہے کہ اللہ کی صفات متشابہات میں صفات کا تو یقین کرنا ہے لیکن کیفیات کی چھان پھٹک نہیں کرنی ہے۔ اس سے بہت سی خرابیوں کے دروازے وا ہوجاتے ہیں۔

بہرحال حدیث پاک میں دونوں ہاتھ داہنے ہیں سے مراد یہ ہے کہ جس طرح عام انسانوں کے ہاتھ کی تعیین شریعت نے مختلف اعمال کے اعتبار سے کی ہے؛ کھانا کھانے کے لیے داہنے کا استعمال کیا جائے، استنجا وغیرہ کے لیے بائیں ہاتھ کا وغیرہ، یہ تعیین انسان کے ہاتھ کے بابرکت ہونے اور نہ ہونے کے اعتبار سے ہے۔ یہی صورت حال ہر عمل میں ہے جس میں دائیں اور بائیں کی تعیین کی گئی ہے۔

حدیث شریف میں اسی تقسیم کی نفی کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ بابرکت ہیں۔ اس میں تقسیم نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ مخلوقات کے بائیں ہاتھ قوت و طاقت کے اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں۔ جب کہ اللہ کے دونوں ہاتھ پرزور اور قوت میں برابر ہیں۔ اس اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ یمین ہوئے۔

تیسری تاویل یہ کی جا سکتی ہے کہ مذکورہ عبارت سے اللہ تعالیٰ کے جود و سخا اور انعام و اکرام کی صفات کو زیادہ سے زیادہ ظاہر کرنا ہے۔ چناں چہ اہل عرب جب کسی کی دریا دلی کو بیان کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں ملتا یدیہ یمین۔

جہاں تک مسلم شریف کا حوالہ دیا ہے تو وہ ہمیں شمال کے لفظ کے ساتھ نہیں ملا۔ بخاری میں بھی یمین کا لفظ ہے، اور مسلم میں بھی یمین ہی کا لفظ ہے۔ لہذا کوئی اشکال باقی نہیں رہنا چاہیے۔

2787 (23) حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَقْبِضُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْأَرْضَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَيَطْوِي السَّمَاءَ بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ مُلُوكُ الْأَرْضِ؟".

اگر پھر بھی شمال کا لفظ کہیں پر ملتا ہے تو اس سے مراد صرف اتنا ہوسکتا ہے کہ وہاں پر حکایت حال مقصود ہوگی اور کچھ نہیں۔ 

فقط واللہ اعلم باالصواب

سعد مذکر 

——————————

بائیں ہاتھ والی ابن عمر کی روایت صحیح مسلم میں موجود ہے:

يَطْوِي اللَّهُ عزَّ وجلَّ السَّمَواتِ يَومَ القِيامَةِ، ثُمَّ يَأْخُذُهُنَّ بيَدِهِ اليُمْنَى، ثُمَّ يقولُ: أنا المَلِكُ، أيْنَ الجَبَّارُونَ؟ أيْنَ المُتَكَبِّرُونَ. ثُمَّ يَطْوِي الأرَضِينَ بشِمالِهِ، ثُمَّ يقولُ: أنا المَلِكُ أيْنَ الجَبَّارُونَ؟ أيْنَ المُتَكَبِّرُونَ؟ : عن عبدالله بن عمر. صحيح مسلم. 2788.

اس ذیل میں ایک پسندیدہ توجیہ یہ کی گئی ہے کہ اللہ تعالی کے دو ہاتھ ناموں کے اعتبار سے یقیناً یمین و شمال ہیں جیساکہ صحیح و مرفوع روایت سے دونوں ثابت ہے البتہ معنی، مفہوم اور شرف وفضل کے لحاظ سے دونوں "یمین" ہیں۔ "كلتا يديه يمين" والی روایت کے یہی معنی ہیں ۔

تو نام کے لحاظ سے یمین و شمال کی تقسیم ہے اور شرف وفضل اور یمن وبرکت کے لحاظ سے دونوں "یمین" ہیں 

فلا اشکال! 

شکیل منصور القاسمی  (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

https://saagartimes.blogspot.com/2020/10/blog-post_9.html



No comments:

Post a Comment