نبیؐ ــــــ فکری اوراجتہادی بصیرت کے چند جلوے
اسلام کا دائمی معجزہ اورہمیشگی کی حجة اللہ البالغہ ”قرآن“ کے بعد اگر کوئی چیز ہے تو وہ صاحب قرآن کی ”سیرت“ ہے۔ دراصل ”قرآن“ اور ”حیات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم“ معاً ایک ہی ہیں، قرآن متن ہے تو سیرت اس کی شرح۔ قرآن علم ہے تو سیرت اس کا عمل، قرآن مابین الدفتین ہے تو یہ ایک مجسم و ممثل قرآن تھا جو مدینہ کی سرزمین پر چلتا پھرتا نظر آتا تھا، کان خلقہ القرآن․
سیرت نبوی کا اعجاز ہے کہ اس کے اندر ہزاروں روشن پہلو ہیں۔ دنیا کو جس پہلو یا گوشے سے روشنی اور گرمی مطلوب ہو، اس کو سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بے مثال خزانہ میں وہ اسوہ اور نمونہ مل جاتا ہے جس سے اپنے ہمہ نوعیتی مسائل و مشکلات کا کامیاب ترین حل نکال لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کوئی گوشہ تاریکی میں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے تمام ہی پہلو سورج سے زیادہ ظاہر وعیاں ہوکر دنیا کے سامنے موجود ہیں، آپ جس پیغام الٰہی کو لے کر دنیا میں تشریف لائے، وہ ساری انسانیت کیلئے ایک ہمہ گیر، مستحکم ومضبوط اور ”عائمی نظام حیات“ ہے اور اس نے اپنی اس امتیازی شان، ہمہ گیری اور دوامی حیثیت کی بقاء کی خاطر اپنے اندر ایسی لچک اور گنجائش رکھی ہے کہ ہر دور میں اور ہر جگہ انسانی ضروریات کا ساتھ دے سکے اور کسی منزل پر اپنے پیروں کی رہبری سے عاجز وقاصر نہ رہے۔
لوگوں کو جس قسم کے مسائل و حالات پیش آسکتے ہیں، ان کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں:
(۱) وہ مسائل جن میں حالات و زمانے کے اختلاف سے کوئی تغیر پیدا نہ ہو۔ ایسے مسائل کیلئے شروع ہی سے شریعت میں تفصیلی احکام و قواعد ثابت و موجود ہیں۔ جیسے نکاح، طلاق، محرمات اور میراث وغیرہ کے احکام۔
(۲) وہ مسائل جو حالات و زمانے کے بدلنے سے متغیر ہوسکتے ہوں ایسے مسائل کے بارے میں شریعت نے کوئی تفصیلی احکام نہیں چھوڑے ہیں؛ بلکہ اس سلسلے میں عام قواعد اور بنیادی اصول ومبادی وضع کردی ہے اور امت کے بالغ نظر اور بلند پایہ فقہاء کیلئے یہ گنجائش چھوڑ دی ہے کہ شریعت کے مقاصد، اس کے مزاج ومذاق، احکام شرع کے مدارج اور دین کی بنیادی اصول و قواعد کو سامنے رکھ کر ان مسائل کے احکام تلاش کریں؛ لیکن اس مقصد کیلئے یہ ضروری ہے کہ علمائے امت کے سامنے سیرت نبوی کا فکری اور اجتہادی پہلو ہو جس کی رہنمائی میں ہر زمانہ کے علماء وفقہاء غیرمنصوص اور نئے پیش آمدہ مسائل میں شرعی غور و فکر کے ذریعہ کوئی شرعی حکم نکال سکیں۔ سیرت نبوی کا اعجاز دیکھئے کہ اس میں وہ قیاس واجتہاد کے ایک دو نہیں متعدد علمی نمونے موجود ہیں جن کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے قول وسیرت سے یہ راہ کھلی رکھی ہے تاکہ کتاب وسنت کے اصولی ہدایات کی تطبیق پیش آنے والی جزئیات یہ قیامت تک جاری رہ سکے۔ ذیل کی سطروں میں ہم انتہائی اختصار کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی گوشہ کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں گے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا استنباط واجتہاد:
علماء اصول کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ غیرمنصوص مسائل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اجتہاد جائز تھا یا نہیں؟ جمہور علماء اصول کے یہاں جائز ہے۔ معتزلہ اور ابن حزم ظاہری کے یہاں جائز نہیں ہے۔(۱)
پھر جولوگ اجتہاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جائز قرار دیتے ہیں ان کے مابین دو باتوں میں اختلاف ہے:
(الف) کس قسم کے مسائل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد کیا ہے؟
(ب) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کب اجتہاد فرمایا کرتے تھے؟
علامہ قرافی رحمة اللہ علیہ، علامہ عبدالعزیز بخاری رحمة اللہ علیہ اور علامہ شوکانی رحمة اللہ علیہ نے اس پر جمہور علمائے امت کا اتفاق نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی امور اور دنیوی معاملات کے سلسلے میں اجتہاد فرمایا ہے۔
بخاری کے الفاظ یہ ہیں: کلہم قد اتفقوا علیٰ أن العمل یجوز لہ بالرأی فی الحروب وامور الدنیا۔(۲)
علامہ قرافی بھی یہی فرماتے ہیں: محمل الخلاف فی الفتاویٰ․ امّا الأقضیة فیجوز الأجتہاد بالاجماع“ (۳)
لیکن کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرعی امور میں بھی اجتہاد کیا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں اصولیین کا قول مختلف ہے۔ دلائل کی روشنی میں جو قول نکھر کر سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرعی امور میں بھی اخذ واستنباط سے کام لیا ہے۔(۴) جس کی سب سے بڑی اور واضح دلیل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیفیت اذان کے سلسلے میں اپنے صحابہ کے ساتھ اجماعی غور وتدبیر کے بعد اپنے اجتہاد و قیاس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر ایک فیصلہ فرمایا اور پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کا حکم فرمایا۔ غور کیا جاسکتا ہے کہ ”اذان“ کوئی دنیوی یا جنگی معاملہ نہیں؛ بلکہ خالص اللہ کا حق ہے اور شعائر دین ومذہب ہے؛ لیکن اس میں بھی آپ کا اجتہاد وقیاس ثابت ہے۔ اس سلسلے میں مزید دلائل کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔
اجتہاد نبوی کی کیفیت کے سلسلے میں جمہور محدثین اور ائمہ ثلاثہ کا رجحان یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بھی واقعہ کے پیش آتے ہی اجتہاد کرلیا کرتے تھے اس سلسلے میں آپ وحی کا انتظار نہیں فرماتے تھے؛ لیکن اس بارے میں احناف رحمہم اللہ کا راجح نقطئہ نظر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیش آمدہ مسائل میں پہلے ”وحی“ کا انتظار کرتے اگر ”مدت انتظار“ میں وحی نازل ہوجاتی تو فبہا ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجتہاد وقیاس کے ذریعہ ان کا حل بتادیتے۔
علامہ سرخسی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: وأصح الاأقاویل عندنا أنہ علیہ الصلوة فیما کان یبتلی بہ من الحوادث التی لیس فیہا وحی منزل، کان ینتظر الوحی الی أن تمضَی مدة الانتظار ثم کان یعمل بالرأی والاجتہاد(۵)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فکرواجتہاد کے مامور تھے:
(۱) بنونظیر جب مدینہ طیبہ سے شام جلاوطن کردئیے گئے تو اللہ تعالیٰ نے اہل بصیرت کو ان کی بدعہدی اور شرارت پے عبرت دلاتے ہوئے فرمایا: ”فاعتبروا یا أولی الابصار“ ”اعتبار، کہتے ہیں کسی چیز کی حقیقت ودلائل میں غور وفکر کرکے اسی جنس کی دوسری چیز کو جان لینا.“
آیت میں ارباب بصیرت، صاحب نظروفکر لوگوں کو غور وتدبر کا بالعموم حکم دیا گیا ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون بالغ نظر ہوسکتا ہے؟ لہٰذا آیت پاک میں جس غور وفکر کا حکم دیا جارہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کے عموم میں داخل ہیں اور اجتہاد وقیاس کے مکلف آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہوئے۔(۶)
(۲) واذا جاء ہم امر من الأمن اوالخوف أذاعوبہ ولوردوہ الی الرسول والی أولی الامر منہم لعلم الذین لیستنبطونہ منہم․ امام رازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آیت پاک میں استنباط و تحقیق کے اندر اللہ تعالیٰ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور اولی الامر اور حاکموں کو یکساں قرار دیا ہے، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخذ و استنباط کے مکلف تھے، فعلم من ذلک أن الرسول علیہ الصلاة والسلام مکلف بالاستنباط (۷)
آیت پاک میں ”أمر من الامن اوالخوف“ سے اس نظریہ کو بھی تقویت ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شرعی مسائل میں بھی اجتہاد کرتے تھے، اس لئے کہ لفظ ”اَمرٌ“ مطلق آیا ہے، اور جس طرح سے جنگ وجدال میں امن وخوف کی حالت ہوتی ہے اسی طرح امور دینیہ میں بھی امن وخوف کی حالت کا تحقق ممکن ہے، لہٰذا یہ ماننا پڑے گا کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگی امور میں اجتہاد فرمایا کرتے تھے اسی طرح شرعی امور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجتہاد وقیاس کے مامور ومجاز تھے۔(۸)
(۳) لولا کتاب من اللّٰہ سبق لمسکم فیما أخذتم عذاب عظیم․(۹)
بدر کی لڑائی میں ستر کافر مسلمانوں کے ہاتھوں میں قید ہوکر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قیدیوں کے سلسلہ میں مشورہ طلب کیا۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اجتماعی غور وتدبر کے بعد ان قیدیوں کے سلسلے میں مشورہ دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے رائی یہ تھی کہ فدیہ لے کر ان تمام قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ تمام قیدیوں کو قتل کردیا جائے، حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی بھی یہی رائے تھی۔ کافی بحث و تمحیص کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبعی رافت ورحمت کی بناء پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر عمل کیا۔ اور تمام قیدیوں کو فدیہ لے کررہا کردیا گیا۔ لیکن آپ کے اس فیصلہ کو خدا تعالیٰ کی جانب سے اجتہادی غلطی قرار دی گئی اور پھر آیت مذکورہ میں جو سخت عتاب آمیز لہجہ اختیار کیا گیا وہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ آیت پاک سے دو مسئلے ثابت ہوتے ہیں:
اوّل: یہ کہ کسی پیش آمدہ مسائل میں کتاب و سنت میں کوئی حکم نہیں ملتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اجتہاد کرنا جائز تھا۔ دوم: یہ ہے کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے جنگی امور میں اجتہاد کرنا جائز تھا۔ اسی طرح شرعی امور میں بھی آپ اجتہاد کے مکلف تھے۔ جنگ بدر کا معاملہ صرف ایک جنگی حد تک محدود نہ تھا بلکہ یہ جنگ ایمان وکفر، حق وباطل کی فیصلہ کن لڑائی ہونے کی وجہ سے مذہبی و شرعی معاملہ کی حیثیت اختیار کرگئی تھی۔
امام رازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: فالآیة صریحة فی بیان أن الرسول علیہ الصلاة والسلام کان یحکم بمقتضی الاجتہاد فی الوقائع التی لم ینزل بہا نص او وحی․(۱۰)
(۴) فتح مکہ کے دن مکہ المکرمہ کی حرمت وعظمت کو بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فہو حرام بحرمة اللّٰہ تعالیٰ الٰی یوم القیامة، لا یُعضد شوکة ولا ینفر صیدہ ولا تلتقط لقطة الاّ من عرّفہا ولا یختل خلاہا․
حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یارسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام گھانسوں کو ممنوع فرمارہے ہیں، حالانکہ ”اذخر“ کی ضرورت ہم لوگوں کو گھر کی چھتوں میں پڑتی رہتی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الا الاذخر“ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پھر ”اذخر“ کا استثناء کردینا اس بات کی دلیل ہے کہ گھاس وغیرہ کی حرمت کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد کیا تھا۔ وہذا مبنی علی ان الرسول کان لہ ان یجتہد فی الاحکام(۱۱)
(۵) قریش نے اپنے دور میں خانہ کعبہ جو تعمیر کی تھی۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کے خلاف تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا: ألا تردہا علی قواعد ابراہیم؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لولا حدثان قومک بالکفر لفعلت(۱۲)
آپ کا یہ ارشاد بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی تعمیر کردہ بنیاد کو جو باقی رکھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا۔ اس لئے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمارت منہدم کرنے کا مامور ہوتے تو خوف فتنہ اس سے قطعا مانع نہیں ہوتا۔
مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجتہاد و قیاس کے مامور ومکلف تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی ودنیوی تمام ہی امور میں اجتہاد کیا ہے۔ ذیل میں قدرے تفصیل بیان کی جاتی ہے کہ کن کن معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد سے کام لیا ہے۔
دنیوی امور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات:
(۱) ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد نوش فرمایا، حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کو اس کا علم ہوا تو دونوں نے اس بات پر اتفاق کرلیا کہ ہم میں سے جس کے پاس حضور تشریف لائیں، ہر کوئی یہ کہے کہ حضور آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آرہی ہے! ایسا ہی ہوا، آپ حضرت عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما میں سے جن کے پاس تشریف لے گئے آپ سے یہی سوال ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، میں نے زینب کے پاس شہد پیا ہے۔ اگر تم لوگوں کو اس شہد کی وجہ سے ناراضگی ہوئی تو دیا رکھو! آج سے میں شہد ہی نہیں پیونگا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: لم یحرم ما احل اللّٰہ لک․ (۱۳) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض ازواج کی دلجوئی کے واسطے اپنے اوپر شہد کو حرام کیا گیا، یہ محض آپ کا قیاس تھا۔
(۲) آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو دیکھا کہ انصار مدینہ ترکھجور کا پیوند مادہ کھجور کو لگاتے ہیں تو کھجور زیادہ ہوتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو اس طرز عمل سے منع کردیا۔ اتفاق سے اس سال مدینہ میں کھجور کی پیداوار بالکل گھٹ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اجازت دے دی(۱۴) پہلے تابیر نخلہ کی ممانعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا۔
(۳) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکابر قریش کو اسلام کی دعوت و تبلیغ میں مشغول تھے، اسی دوران حضرت عبداللہ بن ام مکتوم حاضر مجلس ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار ومشرکین کے قبول اسلام کی امید پر نابینا صحابی سے منھ پھیر لیا، جس پر آیت: عبس و تولّٰی الخ نازل ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اعراض محض اجتہاد تھا۔(۱۵)
جنگی امور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات:
(۱) بدر کی لڑائی کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رائے سے ایک جگہ متعین کی تھی، بعد میں حضرت حباب بن المنذر کی رائے سے وہ جگہ بدل دی- پہلی جگہ کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد کیا تھا۔(۱۶)
(۲) اساری بدر کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فیصلہ فرمایا تھا وہ آپ کا اجتہاد تھا۔
(۳) غزوہٴ احد کے سلسلے میں مدینہ سے باہر نکلنے یا نہ نکلنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد کیا تھا کہ مدینہ ہی میں رہ کر دشمنوں کا مقابلہ کیا جائے- بعد میں اس تعلق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آئی۔(۱۷)
(۴) ”خندق“ غزوہٴ احزاب میں حضرت سلمان فارسی کی رائے پر آپ نے عمل کیا۔ یہ آپ کا اجتہاد تھا۔ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔(۱۸)
(۵) غزوہٴ خندق میں قبیلہ غطفان کے دو سردار عیینہ بن الحصن اور ”الحارث بن عوف المروی“ سے مدینہ کی ثلث کجھور پر مصالحت کی پیشکش کی تھی۔ یہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا۔(۱۹)
(۶) غزوہٴ تبوک میں بعض منافقوں کے اعذار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنگ میں شریک نہ ہونے کی اجازت و رخصت دیدی تھی ۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا۔(۲۰)
معاملات و قضایا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات:
(۱) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس بیوی سے رجوع کا حکم دیا تھا جس کو انھوں نے حالت حیض میں طلاق دی تھی۔(۲۱) یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا۔
(۲) حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بیوی ”ہند بنت عتبہ“ نے جب حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بخالت کی شکایت کی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خذی من مالہ بالمعروف ما یکفیک ویکفی بینک․(۲۲) عورت کی ضرورت و کفایت کے بقدر شوہر پر نفقہ کا واجب کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا۔
عبادات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات:
(۱) کیفیت اذان کے سلسلے میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فیصلہ فرمایا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا۔ اس سلسلہ میں کوئی وحی وغیرہ نازل نہیں ہوئی تھی۔(۲۳)
(۲) ابتداء میں بیت المقدس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبلہ تھا اور ۱۶ یا ۱۷ مہینہ ادھرہی رخ کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ آپ کا قبلہ مسجد حرام ہوجائے، چنانچہ آیت نازل ہوئی: قد نریٰ تقلب وجہک فی السماء آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد حرام کے قبلہ ہونے میں اجتہاد و قیاس کیا تھا۔(۲۴)
(۳) منبر سازی کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کی درخواست قبول فرمائی۔ یہ آپ کا اجتہاد تھا۔(۲۵)
(۴) جماعت کی نماز چھوڑنے والے کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا کہ لکڑیاں جمع کرکے انہیں جلادیا جائے، لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارادہ سے رجوع کرلیا۔(۲۶) اگر تارک الجماعة کو جلانے کا حکم منجانب اللہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے رجوع نہ فرماتے۔
(۵) رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استغفار کیا تھا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا۔(۲۷)
(۶) حضرت ابوطالب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: لاستغفرن لک مالم اُمن(۲۸)
فأنزل اللّٰہ تعالیٰ: ما کان للنبی والذین آمنو ان یستغفروا للمشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے چچا کیلئے استغفار کا ارادہ محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا۔
مذکورہ دلائل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام ہی قسم کے معاملات میں اجتہاد و استنباط سے فیصلے کئے ہیں۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد اور امت کے مجتہدین کے اجتہادات میں آسمان وزمین کا فرق ہے۔ آپ کے اجتہاد میں ”ہدی ہی ہدی“ ہے۔
اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد مشیت الٰہی کے مطابق نہیں ہوتا تو ہر وقت وحی کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح واقعہ کی رہنمائی کردی جاتی تھی؛ لیکن اتنا مسلّم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالات وواقعات میں اپنے اجتہاد و استنباط سے کام لیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات کا حکم:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن مسائل میں اخذ واستنباط سے کام لیا ہے، تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام اجتہاد میں درستگی ہی پر تھے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاء و چوک بھی واقع ہوا ہے؟ جمہور محدثین کی یہی رائے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اجتہادات میں معصوم عن الخطاء تھے، جبکہ احناف کا اس سلسلے میں نقطئہ نظر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات میں خطاء بھی واقع ہوئی ہے۔ البتہ وحی کے ذریعہ اس کو منسوخ کرکے صحیح واقعہ کی رہنمائی فی الفور کردی جاتی تھی۔ دلائل کی روشنی میں احناف کا قول زیادہ راجح معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جس اجتہادی غلطی پر خدا کی جانب سے تنبیہ کی گئی ہے، اس میں ”عفا اللّٰہ عنک“ کا لفظ استعمال ہوا ہے، لفظ ”عفو“ اسی وقت استعمال ہوسکتا ہے جبکہ اس سے پہلے ”خطا“ کو موجود مانا جائے۔
(۲) ”لم اذنت لہم“ میں استفہام انکاری ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ منافقوں کو غزوئہ تبوک میں عدم شرکت کی اجازت دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چوک تھی۔
(۳) حضرت قتادہ اور عمروبن میمون فرماتے ہیں: ”اثنان فعلہما الرسول لم یوٴمر بشیء منہما اذنہ للمنافقین، واخذہ الفداء فی الأسٰریٰ، فعاتبہ اللّٰہ کما تسمعون“(۲۹)
بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات میں خطاء کا واقع ہوجانا ممکن ہے، لیکن وحی کے ذریعہ اس کو منسوخ کردیا جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاء اجتہادی کو برقرار نہیں رکھا جاتا تھا۔(۳۰)
دورنبوی میں حضرات صحابہ کا اجتہاد:
اجتہاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح یہ مسئلہ بھی انتہائی اہم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رہتے ہوئے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا کسی پیش آمدہ مسئلہ میں اجتہاد کرنا جائز تھا یا نہیں؟ اس بارے میں جمہور علماء اور احناف کی رائے یہ ہے کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نئے اور غیر منصوص مسائل میں اجتہاد کی اجازت تھی، اسی طرح حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کیلئے بھی یہ جائز تھا کہ وہ اپنے اجتہاد و قیاس کے ذریعہ نوازل وواقعات کا حل تلاش کریں۔ ذیل میں ہم اس کی بھی چند مثالیں پیش کرتے ہیں:
(۱) حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارہ سے یہود بنوقریظہ کے سلسلہ میں جو فیصلہ دیا تھاکہ ”انی أحکم فیہم ان یقتل الرجال وتقسم الاموال وتسبی الذرایا والنساء․
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کے اس اجتہادی فیصلہ کی پرزورالفاظ میں تحسین فرمائی: لقد حکمت فیہم بحکم اللّٰہ من فوق سبع ارفعة (سماوات)
(۲) غزوہٴ احزاب سے واپسی کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا تھا ”لایصلین احدکم العصر، الا فی بنی قریظة“ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس ارشاد کو حقیقی معنی پر معمول کرتے ہوئے بنی قریظہ میں عصر کی نماز ادا کرلی اور وقت کی تاخیر کی کوئی پروا نہیں کی۔ جبکہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اجتہاد کیا اوراس ارشاد نبوی کو محض غایت سرعت پر محمول کیا اور یہ خیال کیا کہ بنوقریظہ ہی میں عصر پڑھنا مقصود نہیں ہے؛ بلکہ مقصود جلدی پہنچنا ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے راستہ ہی میں وقت پر عصر کی نماز پڑھ لی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب واقعہ کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی فریق کو بھی برابھلا نہیں کہا۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اجتہاد کو بھی معتبر مانا اور عمل بالظاہر کو بھی صحیح قرار دیا۔
(۳) مقام بدر میں مسلمانوں کی چھاؤنی بنانے کے سلسلہ میں، غزوہٴ احزاب میں مدینہ کے اردگرد خندق کھودنے کے سلسلہ میں اور غزوہٴ احد میں مدینہ کے اندر یا باہر رہ کر مقابلہ کرنے کے سلسلہ میں حضرات صحابہ نے جو کچھ بھی مشورہ دیا تھا۔ یہ ان کا اجتہاد تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اجتہاد کو معتبر مانا۔
یہ تو حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے وہ اجتہادات تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں انجام پائے تھے۔ ان حضرات کے بعض ایسے اجتہادات بھی ہیں جو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیبوبت میں انجام دیں لیکن جب آپ کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو صحیح قرار دیا، مثلاً:
(۱) کسی سفر میں حضرت عمر اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو غسل جنابت کی حاجت ہوئی پانی دستیاب نہیں تھا جس سے غسل کرسکتے۔ تیمم کی نوبت آئی، دونوں حضرات نے تیمم غسل کی کیفیت کے سلسلہ میں اجتہاد سے کام لیا۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے مٹی کے استعمال کو پانی پر قیاس کرتے ہوئے پورے جسم پر مٹی مل لی اور نماز ادا کی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اجتہاد یہ تھا کہ مٹی جنابت دور کیسے کرسکتی ہے؟ انھوں نے نماز ہی نہیں پڑھی۔ ان دونوں کے واقعہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسی بات ارشاد نہیں فرمائی جس سے ان حضرات کے اجتہاد کی تردید وممانعت ثابت ہوتی ہو؛ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اس قدر فرمایا کہ تیمم غسل اور تیمم وضوء میں کوئی فرق نہیں ہے پورے جسم پر مٹی لیپنے کی ضرورت نہیں تھی۔
(۲) حضرت عمروبن العاص کو غزوہٴ ذات السلاسل میں غسل کی حاجت ہوئی، سردی اتنی سخت تھی کہ پانی سے غسل کرنا ممکن نہیں تھا آپ نے تیمم کیا اور اپنے تمام ساتھیوں کو نماز پڑھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم نے ناپاکی کی حالت میں ساتھیوں کو نماز پڑھا دی، حضرت عمر بن العاص نے فرمایا: میں نے اللہ کا یہ ارشاد سنا ہے ولا تقتلوا انفسکم ان اللّٰہ کان بکم رحیماً، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جواب سن کر ہنس پڑے۔(۳۱) اور ان کے اس اجتہاد و استنباط پر کوئی نکیر نہیں فرمائی۔
(۳) حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا قاضی بناکر بھیجنے کا وہ مشہور واقعہ بھی ہے جس میں انھوں نے آخر میں کہا تھا ”اجتہد برایٴ“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس اجتہاد و قیاس کو نہ صرف معتبر مانا بلکہ ان کو شاباشی دی کہ ”الحمد للّٰہ الذی وفق رسول رسول اللّٰہ بما رضی لہ رسول اللّٰہ(۳۲) اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رہتے ہوئے حضرات صحابہ کا اجتہاد از رائے شرع ناجائز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اس جملہ کی فوراً تردید فرماتے؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ تمام واقعات میں حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجتہادات کو معتبر مانا۔
یہ چند واقعات ہیں، جن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی قانون وشریعت جامد ومعطل نہیں ہے؛ بلکہ اس میں ایسی لچک موجود ہے کہ نوپیش آمدہ مسائل کو کتاب وسنت کے حدود میں رہتے ہوئے کتاب وسنت کے اصولی ہدایات پر منطبق کیا جاسکے۔ یعنی سیرت نبوی کا اجتہادی پہلو قیامت تک کیلئے یہ دروازہ کھلا رکھتا ہے کہ ہر زمانہ میں پیدا ہونے والے جدید مسائل پر اسلامی قوانین واصول کو چسپاں کیا جائے اور لوگوں کے مصالح اور ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ان مسائل کا ایسا حل تلاش کیا جائے جو شریعت کے مزاج اور زمانہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔
اخذ واستنباط کی یہ کوشش ممنوع نہیں بلکہ مطلوب ہے اور دراصل یہ ہے کہ اجتہاد نہیں بلکہ بدلتے ہوئے حالات میں ائمہ مجتہدین کے آراء کی تطبیق ہے جسے فقہ کی زبان میں ”تحقیق مناط“ کہا جاتا ہے۔ امام ابواسحاق شاطبی نے لکھا ہے کہ اجتہاد کی یہ وہ قسم ہے جو قیامت تک باقی رہے گی۔(۳۳)
خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کے بدلتے ہوئے نظام پراسلامی قانون کا انطباق ان مسائل ہی میں سے ہے جس کی ضرورت واہمیت سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتی ہے؛ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ شریعت اسلامی کو زندہ و حاضر اور عصری ثابت کرنے کی سب سے بہتر اور واحد صورت یہی ہے کہ ہم اسلامی قانون کو دنیا کے سامنے اس طرح پیش کریں کہ وہ جدید مسائل وواقعات کا توازن اورمناسب حل پیش کرتا ہو۔
از: مفتی شکیل منصور الحسنی القاسمی: اساتذ مجمع عین المعارف للدراسات الاسلامیہ، کیرالہ
-------------------------------------
مصادر ومراجع:
(۱) الاحکام للآمدی ۴/۱۶۵، مسلم الثبوت ۲/۳۶۱، تیسیرالتحریر ۴/۱۸۳۔
(۲) کشف الاسرار شرح اصول البزدوی ۳/۹۲۶، شرح الاسنوی علی المنہاج ۳/۱۹۴۔
(۳) شرح الاسنوی علی المنہاج ۳/۱۹۴۔ (۴) ارشاد الفحول ۲۵۵۔
(۵) اصول السرخسی ۲/۹۱۔ (۶) الاحکام للآمدی ۴/۱۶۵۔
(۷) التفسیر الکبیر للرازی ۱۰/۲۰۰-۲۰۱۔ (۸) اجتہاد الرسول ۵۳۔
(۹) الانفال ۶۸۔ (۱۰) التفسیر الکبیر ۱۶/۷۴۔
(۱۱) فتح الباری ۴/۴۹۔ (۱۲) فتح الباری ۳/۴۳۹۔
(۱۳) اجتہاد الرسول ۸۷۔ (۱۴) شرح النووی لصحیح مسلم ۱۰/۱۹۰۔
(۱۵) اجتہاد الرسول ۸۸ سورة عبس۔ (۱۶) سیرت ابن ہشام ۲/۲۷۲۔
(۱۷) سیرت ابن ہشام ۳/۶۴-۶۷۔ (۱۸) اجتہاد الرسول ۹۴۔
(۱۹) سیرت ابن ہشام ۴/۱۰۴۔ (۲۰) اجتہاد الرسول ۹۶۔
(۲۱) الاحکام لابن دقیق العید ۲/۲۰۱۔ (۲۲) صحیح مسلم کتاب الاقضیہ
(۲۳) فتح الباری ۲/۷۷-۸۲۔ (۲۴) سیرت ابن ہشام ۲/۲۵۷۔
(۲۵) فتح الباری ۱/۴۸۶۔ (۲۶) مسلم، کتاب المساجد۔
(۲۷) تفسیر الرازی ۱۶/۱۴۶۔ (۲۸) فتح الباری ۸/۳۳۷-۳۳۹۔
(۲۹) تفسیر رازی ۱۶/۷۳، الاحکام ۴/۲۱۶۔ (۳۰) التحریر ۵۲۷۔
(۳۱) ابوداؤد ۱/۱۴۱۔ (۳۲) ابوداؤد ۲/۵۰۵۔
(۳۳) الموافقات ۳/۹۷۔
https://saagartimes.blogspot.com/2020/08/blog-post_91.html
No comments:
Post a Comment