Thursday, 20 August 2020

بدرجہ مجبوری زکوۃ کی رقم مدرسین کی تنخواہوں میں صرف کرنے کا حکم اور اس کا طریقہ

بدرجہ مجبوری زکوۃ کی رقم مدرسین کی تنخواہوں میں صرف کرنے کا حکم اور اس کا طریقہ

-------------------------------

--------------------------------
قابل قدر علماء عظام: السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

 اس وقت سارے مدارس بند ہیں. مالی فراہمی کی کوئی صورت نہیں ہے. اب اگرکہیں سے زکوٰۃ کی رقم کا انتظام ہو تو‌اس کے ذریعے اساتذہ کی تنخواہیں کس طرح سے ادا کریں۔ اس کا جو مناسب طریقہ ہو بتا ئیں۔ مہربانی ہوگی۔

شرف الدین عظیم قاسمی 

الجواب وباللہ التوفیق: 

زکوۃ غریبوں کا حق ہے، زکوۃ کی رقم پر تملیک ذاتی یعنی بلا عوض مستحق زکوۃ شخص کو اس کا مالک بنانا ضروری ہے. براہ راست زکوۃ کی رقم اجرت ومعاوضات میں صرف کرنا جائز نہیں ہے. انتہائی شدید مجبوری میں کسی مستحق زکوۃ شخص کو مالک بناکر پھر اس سے بہ رضاء واپس لیکر مشاہرات ملازمین میں صرف کرنا جائز ہے. یا اگر مدرسے میں کچھ مستحق طلبہ ہوں تو تعلیم، رہائش، طعام، بجلی، کتب ودیگر مصارف کی مد میں انہیں زکوۃ کی رقم دی جائے. پہر ان سے  واپس لیکر یا وہ اگر مہتمم مدرسہ کو صرف زکوۃ کا وکیل بنادے تو بعد حیلہ تملیک مدرسین و ملازمین کو تنخواہ دی جاسکتی ہے۔ اگر نابالغ بچہ سمجھدار ہو. مالی لین دین اور قبضے کو جانتا ہو تو اسے زکوۃ دینا جائز ہے ،یعنی اس کا قبضہ معتبر ہے، جو بچہ لین دین سے بالکل ہی واقف نہیں، اس کا قبضہ جائز و معتبر نہیں، اس کا ولی اس کی طرف سے قبضہ کرے:

دفع الزکوٰۃ إلی صبیان أقاربه برسم عید…جاز (قوله إلی صبیان (أقاربه) أی العقلاء وإلا فلا یصح إلا بالدفع إلی ولی الصغیر (درمختار و الشامي ص 96 ج 2 باب المصرف قبیل باب صدقۃ الفطر)

ناسمجھ نابالغ بچے کا اپنی طرف سے کسی کو زکوۃ کی وصولی کا وکیل بنانا درست نہیں ، اس کا والد کسی کو وصولی وصرف ِزکوۃ کا وکیل بناسکتا ہے؛ لیکن، پھر والد کا مستحق زکوۃ ہونا ضروری ہے. 

واللہ اعلم

واللہ اعلم بالصواب

شکیل منصور القاسمی

https://saagartimes.blogspot.com/2020/08/blog-post_28.html



No comments:

Post a Comment