عذاب قبر کی حقیقت: قرآن و حدیث کی روشنی میں
عذاب قبر کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کہاں ہوتا ہے؟ اور کیسے ہوتا ہے؟ بچائو کی کیا شکل ہے؟
"عذاب قبر" شریعت اسلامیہ کی ایک خاص اصطلاح ہے۔ اسے لفظی معنی ومفہوم کے ساتھ نہیں سمجھا سکتا ہے۔ دنیاوی زندگی اور آخرت کے درمیانی وقفے کو برزخ یا "قبر" کہتے ہیں ۔۔۔۔ مردہ کو زمین کے جس دو گز کے ٹکڑے میں دفن کیا جاتا ہے "قبر" کی وہ حقیقی مراد نہیں ہے۔ قبر یعنی برزخ کے لئے کوئی بھی متعین ومخصوص جگہ نہیں ہے۔ روح کے جسم عنصری سے پرواز کرجانے کے بعد جسم جس شکل میں بھی ہو خواہ پانی میں ہو، درندہ کے پیٹ میں ہو۔ یا زمین میں مدفون ہو۔ سالم ہو یا معدوم ہوگیا ہو۔ اسے برزخ یا قبر کہتے ہیں۔ اسی برزخی مستقر میں نیک روح کو راحت اور بری روح کو تکلیف وعذاب کا سامنا کرنا ہوتا ہے جسے "عذاب قبر" کہتے ہیں۔ عذاب قبر آخرت کے حساب کتاب اور جزاء سزا کی تمہید ہے۔ آخرت کا حساب کتاب صرف اتمام حجت کے لئے ہوگا- خدا کے علم ازلی میں جنہیں آخرت میں پکڑا جانا ہے اسے ہی برزخ میں عذاب دیا جاتا ہے۔ لہذا برزخ کے عذاب سے قبل حساب کتاب کی ضرورت نہیں۔ عذاب قبر قرآن کریم کی متعدد آیات اور بے شمار متواتر صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ اہل سنت والجماعت کا اتفاقی اور اجماعی مسئلہ ہے۔ معتزلہ جیسے گمراہوں کے سوا کسی نے بھی عذاب قبر کا انکار نہیں کیا ہے۔ قرآن کی درج ذیل آیات میں عذاب قبر کا بیان آیا ہے:
فَوَقٰہُ اللّٰہُ سیِّئَاتِ مَامَکَرُوْا وَحَاقَ بِٰاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْئُ الْعَذَابِ٭ اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا۔ وَّ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ (سورہ غافر: 45,46)
ترجمہ: ''پھر خدا تعالیٰ نے اس (مومن) کو ان لوگوں کی تدبیروں سے محفوظ رکھا اور فرعون والوں پر(مع فرعون کے) موذی عذاب نازل ہوا (جس کا بیان یہ ہے) کہ وہ لوگ (برزخ میں) صبح وشام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں (یعنی جلائے جاتے ہیں) اور جس روز قیامت قائم ہوگی (تو حکم ہوگا کہ) فرعون والوں کو (مع فرعون کے) نہایت سخت عذاب میں داخل کرو۔'' اس آیت سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن سے پہلے بھی فرعون اور اس کے لوگوں پر عذاب ہورہا ہے۔ یہی قبر کا اور برزخ کا عذاب ہے۔
2: سورہ نوح میں ہے: مِمَّا خَطِیْئٰتِھِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا ترجمہ: ''اپنے گناہوں کے سبب وہ (یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے لوگ) غرق کئے گئے پھر آگ میں داخل کئے گئے۔'' ان لوگوں کا قیامت سے پہلے آگ میں داخلہ سے مراد برزخ اور قبر کی آگ میں داخلہ ہے جس کے یہ دلائل ہیں۔
(الف) فَاُدْخِلُوْ میں حرف فاء ہے جو اپنے ماقبل کے متصل بعد ہونے پر دلالت کرتا ہے لہٰذا مطلب یہ ہوا کہ آگ میں داخلہ غرق ہونے کے متصل بعد ہوا
(ب) ادخلوا فعل ماضی کا لفظ ہے جو اس پر دلیل ہے کہ آگ میں داخلہ ہوچکا ہے۔
عذاب قبر کا ثبوت احادیث مبارکہ سے:
قبر میں عذاب وراحت اور فرشتوں کے سوال کے بارے میں احادیث متواتر ہیں اور کثیر صحابہ سے منقول ہیں۔ مثلاً حضرات عمر بن الخطاب، عثمان بن عفان، زید بن ثابت، انس بن مالک، براء بن عازب، تمیم داری، ثوبان، جابر بن عبداللہ، حذیفہ، عبادۃ بن صامت، عبداللہ بن رواحہ، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن مسعود، عمرو بن العاص، معاذ بن جبل، ابوامامہ، ابوالدرداء ابوہریرہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا وعنہم۔ پھر ان سے بے شمار لوگوں نے روایت کیا۔ بطور نمونہ چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
"عن البراء بن عازب یثبت اللہ الذین آمنوابالقول الثابت فی الحیوة الدنیا وفی الآخرة قال نزلت فی عذاب القبر". (صحیح مسلم: ٢/٣٨٦) :: "قال اللہ تعالیٰ النار یعرضون علیہا غدوا وعشیاالآیة وتظاہرت بہ الاحادیث الصحیحة عن النبی ۖ من روایة جماعة من الصحابة فی مواطن کثیرة ". (شرح نووی علی المسلم: ٢/٣٨٦) :: "عن عائشة رضی اللہ عنہا ان یھودبة دخلت علیہا فذکرت عذاب القبر فسالت عائشة رسول اللہ ۖ عن عذاب القبر فقالت نعم عذاب القبر حق فقالت عائشة رضی اللہ عنہا فمارایت رسول اللہ ۖ بعد صلی صلوة الا تعوذ من عذاب القبر زادغندر عذاب القبر حق".(صحیح بخاری: ١/١٨٣) :: "عن ابن عباس قال مرالنبی ۖ علی قبرین فقال انہما لیعذبان ومایعذبان من کبیر ثم قال بلی اما احدہما فکان یسعی بالنمیمة وامااحدھما فکان لایستترمن بولہ قال ثم اخذعودارطبا ".(صحیح البخاری: ١/١٨٤) :: [ص: 383] بَاب مَا جَاءَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ: 1071 حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ أَوْ قَالَ أَحَدُكُمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ يُقَالُ لِأَحَدِهِمَا الْمُنْكَرُ وَالْآخَرُ النَّكِيرُ فَيَقُولَانِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ مَا كَانَ يَقُولُ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ فَيَقُولَانِ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ هَذَا ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِينَ ثُمَّ يُنَوَّرُ لَهُ فِيهِ ثُمَّ يُقَالُ لَهُ نَمْ فَيَقُولُ أَرْجِعُ إِلَى أَهْلِي فَأُخْبِرُهُمْ فَيَقُولَانِ نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ الَّذِي لَا يُوقِظُهُ إِلَّا أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ وَإِنْ كَانَ مُنَافِقًا قَالَ سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ فَقُلْتُ مِثْلَهُ لَا أَدْرِي فَيَقُولَانِ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ ذَلِكَ فَيُقَالُ لِلْأَرْضِ الْتَئِمِي عَلَيْهِ فَتَلْتَئِمُ عَلَيْهِ فَتَخْتَلِفُ فِيهَا أَضْلَاعُهُ فَلَا يَزَالُ فِيهَا مُعَذَّبًا حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ [ص: 384] وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ وَأَبِي أَيُّوبَ وَأَنَسٍ وَجَابِرٍ وَعَائِشَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ كُلُّهُمْ رَوَوْا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ: سنن الترمذي. كتاب الجنائز
(ابوسلمہ، یحیی بن خلف، بشر بن مفضل، عبدالرحمن بن اسحاق، سعید بن ابی سعید، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کسی میت یا فرمایا تم میں سے کسی ایک کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو اس کے پاس سیاہ رنگ کے نیلی آنکھوں والے دو فرشتے آتے ہیں ایک کو منکر دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے وہ دونوں اس میت سے پوچھتے ہیں تو اس شخص (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) کے بارے میں کیا کہتا ہے وہ شخص وہی جواب دیتا ہے جو دنیا میں کہتا تھا کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ پھر وہ فرشتے کہیں گے کہ ہم جانتے تھے تو یہی جواب دے گا پھر اس کی قبر ستر گز وسیع کردی جاتی ہے اور اسے منور کردیا جاتا ہے پھر اسے کہا جاتا ہے کہ سوجا۔ وہ کہتا ہے میں اپنے گھر والوں کے پاس جاکر ان کو بتادوں؟ وہ کہتے ہیں دلہن کی طرح سوجا جسے اس کے محبوب ترین شخص کے علاوہ کوئی نہیں جگاتا۔ اللہ اسے قیامت کے دن اس کی خواب گاہ سے اٹھائے گا اور اگر وہ منافق ہو تو یہ جواب دے گا: میں لوگوں سے کچھ سنا کرتا تھا اور اسی طرح کہا کرتا تھا مجھے نہیں معلوم۔ فرشتے کہیں گے ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی جواب دے گا پھر زمین کو حکم دیا جاتا ہے کہ اسے دبوچ لے۔ وہ اسے اس طرح دبوچتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں پھر اسے اسی طرح عذاب دیا جاتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے اسی جگہ سے اٹھایا جائے گا اس باب میں حضرت علی، زید بن ثابت، ابن عباس، براء بن عازب، ابوایوب، انس، جابر، عائشہ، ابوسعید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کے متعلق روایت کرتے ہیں امام ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابوہریرہ حسن غریب ہے۔)
عن أنس قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن العبد إذا وضع في قبرہ وتولی عنہ أصحابہ أنہ لیسمع قرع نعالہم أتاہ ملکان، فیقعدانہ، فیقولان: ما کنت تقول في ہذہ الرجل۔ الخ۔ (مشکوۃ شریف ۱/ ۲۴، بخاري شریف، کتاب الجنائز، باب ماجاء في عذاب القبر، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۱۸۳، رقم: ۱۳۵۸، ف: ۱۳۷۴): ویحتمل أن یراد بالإقعاد: الإیقاظ والتنبیہ، وإنما یسئلان عنہ بإعادۃ الروح۔ (مرقاۃ المفاتیح، باب إثبات عذاب القبر ۱/ ۱۹۸، مکتبہ أشرفي): ولا مانع في العقل من أن یعید اللہ تعالی الحیاۃ في جزء من الجسد، أو في الجمیع. : فیثیبہ ویعذبہ ولا یمنع من ذلک کون المیت قد تفرقت أجزاء ہ کما شاہد في العادۃ، أو أکلتہ السباع والطیور. بشمول علم اللہ تعالیٰ وقدرتہ۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الإیمان، باب إثبات عذاب القبر ۱/ ۱۹۷، مکتبہ أشرفي): ربنا أمتنا اثنتین وأحییتنا اثنتین، فإن اللہ تعالیٰ ذکر الموتۃ مرتین، وہما لا تتحقان إلا أن یکون في القبر حیاۃ وموت حتی تکون أحد الموتین ما یتحصل عقیب الحیاۃ في الدنیا، والأخری ما یتحصل عقیب الحیاۃ التي في القبر۔ (عمدۃ القاري، کتاب الجنائز، باب المیت یسمع خفق النعال، مذاہب أہل السنۃ في أن عذاب القبر ثابت، مکتہ دار احیاء التراث العربي بیروت ۸/ ۱۴۵-۱۴۶، زکریا ۶/ ۲۰۰) : أما أہل السنۃ والجماعۃ فلہم فیہ قولان: قیل: العذاب علی الروح فقط، وقیل: علی الروح والجسد معا، ومال إلی الأول الحافظ ابن القیم رحمہ اللہ، والأقرب عندي ہو الثاني۔ (فیض الباري، کتاب الجنائز، باب ماجاء في عذاب القبر، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ ۲/ ۴۹۲)
قبر کا عذاب جسم اور روح دونوں کو ہوتا ہے۔ لیکن اس جسم کو نہیں جو دنیا میں تھا کہ یہ تو چند دنوں بعد سڑگل کے خاک ہو جاتا ہے۔ بلکہ برزخی جسم کے ساتھ عذاب کا تعلق ہوگا۔ عذاب قبر چونکہ اہل سنت والجماعت اور ائمہ اربعہ کا متفقہ عقیدہ ہے۔ اس کے منکر کو کافر کہنے میں، اہل سنت والجماعت احتیاط برتتے ہیں۔ لیکن گمراہ ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں۔ یہ مسئلہ قرآن واحادیث متواترہ صحیحہ سے ثابت ہے اس لئےاس پہ ایمان لانا ضروری ہے لیکن اس کی کیفیت کا ہمیں علم نہیں۔ اور اس کی کھود کرید میں پڑنا درست نہیں ہے۔ علامہ سیوطی شرح الصدور میں یہی تحریر فرماتے ہیں:
واختلف فیہ أنہ بالروح أو بالبدن أو بہما وہو الأصح منہما إلا أنا نؤمن بصحتہ، ولا نشتغل بکیفیتہ۔ (شرح الفقہ الأکبر ۱۲۴، شرح الصدور للسیوطي ۲۴۷ دار التراث بیروت، ونووي علی المسلم ۲؍ ۳۸۶) :: فی مرقاۃ المفاتیح (۳۰۳/۱): فان اﷲ تعالی یعلق روحہ الذی فارقہ بجزئہ الاصلی الباقی من اول عمرہ الی آخرہ المستمر علی حالہ حالتی النمو والذبول الذی تتعلق بہ الروح اولا فیحیا ویحیا بحیاتہ سائر اجزاء البدن۔ :: وفی ''الروح ''لابن قیم (صـ۵۴): ان مذھب سلف الامۃ وائمتھا ان المیت یکون فی نعیم اوعذ اب وان ذلک یحصل لروحہ وبدنہ۔ :: وفی شرح الفقہ الاکبر (صـ۱۰۰): واعادۃ الروح الی العبد فی قبرہ حق۔ :: وفی شرحہ یقول الملا علی القاری: (الی العبد) ای الی جسدہ بجمیع اجزائہ او ببعضھا مجتمعۃ او متفرقۃ. وفی المسئلۃ خلا ف المعتزلۃ وبعض الرافضۃ۔ :: قال أہل السنة والجماعة عذاب القبر حق وسؤال منکر ونکیر وضغطة القبر حق اھ". (شامی: ٦١٠١) :: "وتجتمع فیہ الأرواح وتزار القبور ویأمن المیت فیہ من عذاب القبر ومن مات فیہ أو فی لیلتة أمن من فتنة القبر وعذابہ ولاتسجر فیہ جہنم۔ اھ" .(الدرعلی الرد:٦١٠١) :: "ومن ینکر الشفاعة أو الرؤیة أو عذاب القبر أو الکرام الکاتبین وأمامن یفضل علیافحسب فہو من المبتدعة". (حلبی کبیری:٤٤٣)
عذاب قبر کیوں ہوتا ہے؟
کبیرہ گناہوں کا ارتکاب اس کا سبب ہے۔ جو شخص کسی سنگین کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو اور توبہ کئے بغیر مرجائے وہ قبر کے ہولناک عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے۔خصوصاَ جو شخص کسی اعلانیہ گناہ کا بغیر کسی جھجک کے مرتکب ہو، احکام شرعیہ کی تحقیر کرے یا کمزوروں کے حقوق پامال کرے، اس کے بارے میں زیادہ اندیشہ ہے ۔۔ احادیث وروایات میں اس کے متعدد اسباب گنوائے گئے ہیں۔ سیوطی نے شرح الصدور میں اور حافظ ابن ابی الدنیا نے "القبور" میں۔ ابن القیم الجوزیہ نے "الروح" میں۔ بیہقی نے 'دلائل النبوہ' میں عذاب قبر کے اسباب پہ تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ سب کا خلاصہ یہ ہے کہ: چغل خوری، پیشاب سے پرہیز نہ کرنا، کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پہ جھوٹ بولنا، جھوٹی افواہیں پھیلانا، زنا کرنا، سود کھانا۔حلال چھوڑکر حرام کمانا اور کھانا۔ بدکار عورتیں۔ چغل خوری وعیب جوئی۔ فرض نماز چھوڑنا۔ زکات نہ دینا، غیرعورتوں سے آشنائی کرنا، لوگوں کے حقوق ادا نہ کرنا، فتنہ انگیز خطبہ دینا، بہتان لگانا وغیرہ وغیرہ منجملہ اسباب عذاب قبر ہیں۔
عذاب قبر سے پناہ مانگی جائے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو وَيَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ۔ (بخاری، بَاب التَّعَوُّذِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، حدیث نمبر: ۱۲۸۸)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعاء کرتے اور یوں کہتے: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ۔ (اے اللہ میں تجھ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں اور جہنم کے عذاب سے اور زندگی وموت کے فتنے سے اور دجال کے فتنے سے)
عذاب قبر سے بچاؤ:
سورۂ مُلک ایک دفعہ سوتے وقت پڑھتے رہنا عذابِ قبر اور سوالِ قبر سے نجات دِلاتا ہے یہ سورت مانع بن جاتی ہے عذاب سے۔ لہذا یہ سورت ایک دفعہ روزانہ سونے سے پہلے پڑھ لینا چاہئے.
عذاب قبر پوشیدہ کیوں رکھا گیا؟
احادیث میں حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا کہ قبر میں میت کو جو عذاب ہوتا ہے اس کی چیخ وپکار کی آواز انسان اور جنات کے علاوہ باقی تمام مخلوق سنتی ہے:
1308 حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي [ص: 463] قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهِ فَيَقُولَانِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنْ النَّارِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنْ الْجَنَّةِ فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا قَالَ قَتَادَةُ وَذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى حَدِيثِ أَنَسٍ قَالَ وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْكَافِرُ فَيُقَالُ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فَيُقَالُ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ وَيُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ (صحيح البخاري)
اور انسان اور جنات کو اس لئے آواز سنائی نہیں دیتی کہ اگر ان کو بھی آواز سنائی دینے لگے تو سارے کے سارے راہ راست پر آجائیں۔ جتنے کافر ہیں وہ سب ایمان لے آئیں اور جو مسلمان بے دین اور فسق وفجور میں مبتلا ہیں وہ سب اپنی اصلاح کرکے نیک اور پارسا بن جائیں، تو پھر سارا امتحان ختم ہوجائے اور مقصد فوت ہوجائے۔ کیوںکہ یہ دنیا دارالعمل ہے، دارالجزاء نہیں ہے۔ یہاں ایمان بالغیب معتبر ہے کہ نہ کچھ دیکھا ہے اور نہ عقل میں کچھ آتا ہے، مگر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمادیا اس پر ہمارا ایمان ہے۔ دیکھنے سے ہمیں اتنا یقین نہ آتا جس طرح بِن دیکھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر ہمیں یقین ہے۔ بس اسی ایمان کی قیمت ہے اور اسی پر اجر وثواب ہے۔ (ٹی وی اور عذاب قبر)
عذاب قبر مخفی رکھنے کی ایک وجہ خود زبان رسالت مآب سے بیان ہوئی:
2867 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ جَمِيعًا عَنْ ابْنِ عُلَيَّةَ قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ قَالَ وَأَخْبَرَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ أَبُوسَعِيدٍ وَلَمْ أَشْهَدْهُ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنْ حَدَّثَنِيهِ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ قَالَ بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ لِبَنِي النَّجَّارِ عَلَى بَغْلَةٍ لَهُ وَنَحْنُ مَعَهُ إِذْ حَادَتْ بِهِ فَكَادَتْ تُلْقِيهِ [ص: 2200] وَإِذَا أَقْبُرٌ سِتَّةٌ أَوْ خَمْسَةٌ أَوْ أَرْبَعَةٌ قَالَ كَذَا كَانَ يَقُولُ الْجُرَيْرِيُّ فَقَالَ مَنْ يَعْرِفُ أَصْحَابَ هَذِهِ الْأَقْبُرِ فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا قَالَ فَمَتَى مَاتَ هَؤُلَاءِ قَالَ مَاتُوا فِي الْإِشْرَاكِ فَقَالَ إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ تُبْتَلَى فِي قُبُورِهَا فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَقَالَ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ فَقَالَ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ قَالَ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ قَالَ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ (صحيح مسلم) :: 2868 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَابْنُ بَشَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ (صحیح مسلم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں بنو نجار کے کسی باغ میں تشریف لے گئے، وہاں کسی قبر سے آواز سنائی دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق دریافت فرمایا کہ اس قبر میں مردے کو کب دفن کیا گیا تھا لوگوں نے بتایا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ شخص زمانہ جاہلیت میں دفن ہوا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر تعجب ہوا اور فرمایا اگر تم لوگ اپنے مردوں کو دفن کرنا چھوڑ نہ دیتے تو میں اللہ سے یہ دعاء کرتا کہ وہ تمہیں بھی عذابِ قبر کی آواز سنا دے۔
نزع کی آسانی کا عمل:
آسانی سے روح قبض ہونے کے لئے روزانہ اس دعاء کا ورد کیا جائے: "اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى غَمَرَاتِ الْمَوْتِ أَوْ سَكَرَاتِ الْمَوْت"
بَاب مَا جَاءَ فِي التَّشْدِيدِ عِنْدَ الْمَوْتِ: 978 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ الْهَادِ عَنْ مُوسَى بْنِ سَرْجِسَ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْمَوْتِ وَعِنْدَهُ قَدَحٌ فِيهِ مَاءٌ وَهُوَ يُدْخِلُ يَدَهُ فِي الْقَدَحِ ثُمَّ يَمْسَحُ وَجْهَهُ بِالْمَاءِ ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى غَمَرَاتِ الْمَوْتِ أَوْ سَكَرَاتِ الْمَوْتِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ۔ سنن الترمذي.
واللہ أعلم بالصواب
٤/ ٤/ ١٤٣٩ ھ
https://saagartimes.blogspot.com/2020/08/blog-post_14.html
No comments:
Post a Comment