Monday, 10 August 2020

راتوں ‏کو ‏جاگ ‏کر ‏دن ‏میں ‏سونے ‏والی ‏قوم

راتوں کو جاگ کر دن میں سونے والی قوم
بہادر شاہ ظفر کے سارے شہزادوں کے سر قلم کرکے اس کے سامنے کیوں پیش کئے گئے؟ 
قبر کیلئے زمین کی جگہ کیوں نہ ملی؟ 
 آج بھی اس کی نسل کے بچے کھچے لوگ بھیک مانگتے پھرتے ہیں 
 کیوں؟ 
پڑھیں اور اپنی نسل کو بھی بتائیں 
تباہی 1 دن میں نہیں آجاتی
صبح تاخیر سے بیدار ہو نے والے افراد درج ذیل تحریر کو غور سے پڑھیں
زمانہ 1850ء کے لگ بھگ کا ہے مقام دلی ہے
وقت صبح کے ساڑھے تین بجے کا ہے سول لائن میں بگل بج اٹھا ہے
پچاس سالہ کپتان رابرٹ اور اٹھارہ سالہ لیفٹیننٹ ہینری دونوں ڈرل کیلئے جاگ گئے ہیں
دو گھنٹے بعد طلوع آفتاب کے وقت انگریز سویلین بھی بیدار ہوکر ورزش کررہے ہیں
انگریز عورتیں گھڑسواری کو نکل گئی ہیں ۔۔۔ سات بجے انگریز مجسٹریٹ دفتروں میں اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے ہیں
ایسٹ انڈیا کمپنی کا سفیر سر تھامس مٹکاف دوپہر تک کام کا اکثر حصہ ختم کرچکا ہے
کوتوالی اور شاہی دربار کے خطوں کا جواب دیا جاچکا ہے
 بہادر شاہ ظفر کے تازہ ترین حالات کا تجزیہ آگرہ اور کلکتہ بھیج دیا گیا ہے
دن کے ایک بجےسر مٹکاف بگھی پر سوار ہوکر وقفہ کرنے کیلئے گھر کی طرف چل پڑا ہے.
 یہ ہے وہ وقت جب لال قلعہ کے شاہی محل میں ''صبح''  کی چہل پہل شروع ہورہی ہے
 ظل الہی کے محل میں صبح صادق کے وقت مشاعرہ ختم ہوا تھا جس کے بعد ظلِ الٰہی اور عمائدین خواب گاہوں کو گئے تھے، اب کنیزیں نقرئی برتن میں ظلِ الٰہی کا منہ ہاتھ دھلا رہی ہیں اور تولیہ بردار ماہ جبینیں چہرہ، پاؤں اور شاہی ناک صاف کر رہی ہیں اور حکیم چمن لال شاہی پائے مبارک کے تلووں پر روغن زیتون مل رہا ہے!
اس حقیقت کا دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ لال قلعہ میں ناشتے کا وقت اور دہلی کے برطانوی حصے میں دوپہر کے لنچ کا وقت ایک ہی تھا.
دو ہزار سے زائد شہزادوں کا بٹیربازی، مرغ بازی، کبوتر بازی اور مینڈھوں کی لڑائی کا وقت بھی وہی تھا،
اب ایک سو سال یا ڈیڑھ سو سال پیچھے چلتے ہیں
برطانیہ سے نوجوان انگریز کلکتہ، ہگلی اور مدراس کی بندرگاہوں پر اترتے ہیں برسات کا موسم ہے مچھر ہیں اور پانی ہے ملیریا سے اوسط دو انگریز روزانہ مرتے ہیں لیکن ایک شخص بھی اس ''مرگ آباد'' سے واپس نہیں جاتا.
لارڈ کلائیو پہرول گھوڑے کی پیٹھ پر سوار رہتا ہے
اب 2018 ء میں آتے ہیں
 پچانوے فیصد سے زیادہ امریکی رات کا کھانا سات بجے تک کھالیتے ہیں
آٹھ بجے تک بستر میں ہوتے ہیں اور صبح پانچ بجے سے پہلے بیدار ہوجاتے ہیں
 بڑے سے بڑا ڈاکٹر چھ بجے صبح اسپتال میں موجود ہوتا ہے. پورے یوروپ امریکہ جاپان آسٹریلیا اور سنگا پور میں کوئی دفتر، کارخانہ، ادارہ، اسپتال ایسا نہیں جہاں اگر ڈیوٹی کا وقت نو بجے ہے تو لوگ ساڑھے نو بجے آئیں!
آج کل چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن چکی ہے پوری قوم صبح چھ سے سات بجے ناشتہ اور دوپہر ساڑھے گیارہ بجے لنچ اور شام سات بجے تک ڈنر کرچکی ہوتی ہے.
اللہ کی سنت کسی کیلئے نہیں بدلتی. اس کا کوئی رشتہ دار نہیں نہ اس نے نہ کسی کو جنا، نہ کسی نے اس کو جنا جو محنت کرے گا تو وہ کامیاب ہوگا ۔۔۔ عیسائی ورکر تھامسن میٹکاف سات بجے دفتر پہنچ جائے گا تو دوسری جانب دن کے ایک بجے تولیہ بردار کنیزوں سے چہرہ صاف کروانے والا، بہادر شاہ ظفر مسلمان بادشاہ ہی کیوں نہ ہو' ناکام رہے گا.
بدر میں فرشتے نصرت کیلئے اتارے گئے تھے لیکن اس سے پہلے مسلمان پانی کے چشموں پر قبضہ کرچکے تھے جو آسان کام نہیں تھا اور خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر پالیسی بناتے رہے اور رات کے باقی بچے ہوئے حصہ میں سجدے میں پڑے رب ذوالجلال سے امداد و استعانت طلب کرتے رہے!
کیا اس قوم کی بکھری باقیات کو برصغیر میں پھر سے تباہ وبرباد ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت بچاسکتی ہے ۔۔۔ جس میں کسی کو اس لئے مسند پر  بٹھایا جاسکتا ہے کہ وہ دوپہر سے پہلے اٹھتا ہی نہیں، اور کوئی اس پر فخر کرتا ہے کہ وہ دوپہر کو اٹھتا ہے لیکن سہ پہر تک ریموٹ کنٹرول کھلونوں سے دل بہلاتا ہے، جبکہ کچھ کو اس بات پر فخر ہے کہ وہ دوپہر کے تین بجے اٹھتے ہیں،
 کیا اس معاشرے کی اخلاقی پستی کی کوئی حد باقی ہے.
جو بھی کام آپ دوپہر کو زوال کے وقت شروع کریں گے وہ زوال ہی کی طرف جائے گا. کبھی بھی اس میں برکت اور ترقی نہیں ہوگی.
اور یہ نہ سوچا کریں کے میں صبح صبح اٹھ کر کام پر جاؤں گا تو اس وقت لوگ سو رہے ہوں گے میرے پاس گاہک کدھر سے آئے گا. گاہک اور رزق اللہ رب العزت بھیجتا ہے. 
امتحان کی رات بھر جاگنا تباہ کن کیوں؟
بہت سے طلبہ امتحان سے پہلے پوری پوری رات جاگ کر تیاری میں گزارتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کے علم میں اضافے کا باعث بنے گا۔ لیکن برطانیہ کے رائل ہالو وے یونیورسٹی میں سائیکالوجی کے پروفیسر جیکی کے مطابق یہ اس صورتحال میں کرنے والا بدترین کام ہے۔
ننید انسانی یادداشت پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے، خاص طور پر ہم زبان کو کیسے یاد رکھ پاتے ہیں۔ تمینن اسی شعبے کے ماہر ہیں۔
سونے کی عادت سیکھنا بچوں کے لیے پسندیدہ خیال ہوسکتا ہے اس امید کے ساتھ کہ وہ ساتھ زبان بھی سیکھیں۔ یہ روایت کہ سوتے ہوئے زبان سیکھنے کے متعلق ریکارڈنگ سننے سے آپ کے دماغ پر نقش چھوڑ جاتی ہے اور جب آپ اٹھتے ہیں تو وہ قدیم زبان بولنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔
لیکن علم کو دماغ کے اندر رکھنے کے لیے بھی نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں تمینن اور دیگر محققین کی جانب سے کی جانے والی تحقیق نے بتایا ہے کہ یہ سب کیوں ضروری ہے یعنی نیند۔
تمینن کی تحقیق ابھی جاری ہے جس میں شرکا کو نئے الفاظ سکھائے جاتے ہیں اور پھر ان کو پوری رات جاگنے کو کہا جاتا ہے۔
تمینن نے اس حوالے سے کچھ دن اور پھر کچھ ہفتے کے بعد یہ دیکھا کہ کیا انھیں وہ الفاظ اب بھی یاد ہیں۔
بہت سی راتوں کے بعد نیند پوری ہونے کے عمل سے گزرنے کے بعد انھوں نے دیکھا کہ انھوں نے کتنی جلدی ان الفاظ کو یاد کرلیا اس گروپ کے مقابلے میں جو نیند کی کمی کا شکار تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ نیند واقعی ہی سیکھنے کا مرکز ہے۔
'اگر آپ پڑھائی نہیں بھی کررہے تو بھی جب آپ سو رہے ہوتے ہیں تو آپ کا دماغ مسلسل پڑھ رہا ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے وہ آپ کی جگہ کام کر رہا ہے۔ آپ اگر سوئئں گے نہیں تو اپنی پڑھائی پر صرف کیے جانے والی وقت سے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔'
تمینن کی سونے کے لیے مختص تجربہ گاہ کے کمرہ نمبر ایک کی تزئین و آرائش بہت اچھی کی گئی تھی۔ وہاں تتلیوں کی تصاویر کی فریم اور رنگ برنگی غالیچے رکھے ہوئے تھے۔
وہاں موجود بستر کے اوپر ایک چھوٹی سی ای ای جی مشین لگی ہوئی تھی۔ جس کامقصد مریض کے دماغ میں ہونے والے عوامل کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہے۔ اس کے لیے وہاں ان کے سروں پر الیکٹروڈز موجود ہوتے ہیں۔ یہ دماغ کے سامنے والا، سائڈ والا اور اندرونی حصہ مانیٹر کرتا ہے بلکہ مسلز کی نقل و حرکت اور آنکھوں کے ہلنے تک کو ریکارڈ کرتا ہے۔
خواب اصل میں دن کے وقت جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے اس کا ری پلے ہی ہوتے ہیں۔ ریسرچ کے مطابق دماغ کا وہ حصہ جو منطق سے جڑا ہوتا ہے اور جذبات سے وہ نیند کے دوران مختلف طرح سے کام کرتا ہے۔ جو بچے دوسری زبان سیکھ رہے ہوتے ہیں سوتے میں ان کی آنکھوں کی پتلیاں زیادہ حرکت کرتی ہیں۔ یوں انھیں زیادہ ٹائم ملتا ہے۔ اس مواد کو ضم کرنے میں جو انھوں نے سیکھا۔
ہمارے اندر موروثی طور پر ایک گھڑیال ہوتا ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ کب سونا ہے اور کب جاگنا ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جس شخص کا طرز زندگی عام سے مختلف ہو، ماحول یا موروثی طور پر وہ بے خوابی کا شکار ہو تو سب سے پہلا کام جو وہ کر سکتا ہے گہرے رنگ کے پردوں کا استعمال کرے یا دن کے وقت زیادہ روشنی میں رہے۔
تمینن کی حالیہ تحقیق میں سلو ویو سلیپ پر بات کی گئی ہے جسے عرف عام میں گہری نیند کہتے ہیں۔ یہ یاداشت بنانے اور اسے محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے چاہے وہ گرامر سے متعلق ہو، الفاظ کے ذخیرے سے یا کوئی اور معلومات ہوں۔ یہاں دماغ کے مختلف حصوں کا آپس میں رابطہ بہت اہم ہے۔
گہری نیند کے دوران ہوتا یہ ہے کہ ہمارے دماغ کا جو حصہ ہیپیکمپوس کہلاتا ہے وہ شاید ابتدائی طور پر اس دن سیکھنے والے الفاظ کو ان کوڈ کرتے ہیں۔ ایسے میں دماغ کے مختلف حصوں کا آپس میں رابطہ بہت اہم ہوتا ہے۔
گہری نیند کے دوران ہیپی کیمپس جو کہ جلد سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ نیو کورٹیکس سے رابطہ کرتا ہے اور اسے لمبے عرصے کے لیے معلومات کو یاد رکھنے کے لیے مستحکم کرتا ہے۔
بالغوں کی تعلیم کے لیے روزانہ نظموں کی دوہرائی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن ہاں بچپن میں اس کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔ بچوں کی نیند بڑوں کی نسبت گہری ہوتی ہے اور اس وجہ سے شاید اس نکتے کی وضاحت ہوتی ہے کہ بچے زبان اور دیگر امور جلدی سیکھتے ہیں۔
جرمنی کی یونیورسٹی میں یہ تحقیق کی گئی کہ نیند بچے کی سیکھنے کی استعداد میں کیا کردار ادا کرتی ہے۔ محققین نے یہ مانیٹر کیا کہ نید کے دورانبچے کے دماغ میں کیا ہوتا ہے۔ اور یہ بھی کہ نیند سے پہلے سیکھی جانے والی چیزیں جاگنے کے بعد کتنی حد تک یاد رہ جاتی ہیں۔
جن افراد کو وروثی طور پر یا طرززندگی کی وجہ سے گہری نیند نہ آتی ہو انھیں کچھ احتیاطی تدابیر اپنا لینی چاہیے
یہ معلوم ہوا کہ نیند بچے کو مکمل علم میں مدد دیتی ہے یعنی یہ اس کی یاداشت کو باضابطہ طور پر بننے اور اسے تشریحی یاداشت بنانے میں مدد دیتی ہے۔
بالغ افراد بھی سیکھی گئی معلومات کو نیند کے بعد دوہراسکتے ہیں لیکن محقق کیتھرینہ زینکی کا کہنا ہے 'نیند بچوں میں زیادہ پراثر انداز میں اثر چھوڑتی ہے۔'
ڈومنکی پیٹٹ کینیڈین سلیپ اینڈ سرکیڈین نیٹ ورک میں کوارڈنیٹر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بچوں کو دن کے وقت سونے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کا دماغ سب کچھ سیکھ سکے۔
لڑکپن میں بچوں کے لیے دن کو سونا ان میں زبان سیکھنے کی صلاحیت کے حوالے سے بہت اہم ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ نیند دماغ کو متحرک کرتی ہے اور اس میں معلومات کو محفوظ کرتی ہے اس کے علاوہ یہ ضرورت کے وقت معلومات کو دماغ سے نکالنے یعنی استعمال میں لانے میں بھی مدد کرتی ہے۔
یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ بچوں میں اور بالغوں میں بھی لمبی نیند سستی کی علامت نہیں ہوتی۔
رات کو بہتر نیند کے لیے یہ چھ باتیں آزمائیے:
ایلیکس تھیریئن
ماہرین کے مطابق کئی ایسے کام ہیں جو ہم انجانے میں کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہمیں احساس نہیں ہوتا کہ وہ ہماری نیند کو کس حد تک متاثر کرتے ہیں۔
نیند پوری نہ ہونے یا ہمارے جسم کے اندر کی گھڑی یعنی باڈی کلاک متاثر ہونے سے ہم ڈیپریشن اور بائی پولر ڈس آرڈر جیسے امراض کی زد میں بھی آ سکتے ہیں۔ اس لیے اچھی نیند کی ضرورت کو سمجھنا بہت اہم ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیا کیا جائے کہ نیند میں خلل نہ پڑے۔
شام کو روشنی کی حد مقرر کیجیے:
موبائل فون اور لیپ ٹاپ کا استعمال ان دنوں نشے کی طرح عام ہو رہا ہے۔ متعدد افراد تو لیپ ٹاپ پر گھنٹوں ڈرامے اور فلمیں دیکھتے رہتے ہیں لیکن کم ہی جانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ہماری نیند بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
یہ الیکٹرانک آلات ایک خاص طرح کی طاقتور نیلی روشنی چھوڑتے ہیں۔ اس روشنی کی وجہ سے جسم میں میلاٹونن ہارمون ٹھیک سے نہیں چھوٹ پاتا ہے۔ یہ وہ ہارمون ہے جو نیند کے لیے ذمہ دار ہے۔
سرے یونیورسٹی کے پروفیسر میلکم فون شانتز کا مشورہ ہے کہ سونے سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ان آلات کا استعمال بند کر دینا چاہیے۔
نیلی روشنی کے علاوہ شام کو گھر میں، خاص طور پر سونے والے کمرے میں روشنی کے دیگر ذرائع بھی کم کر دینے چاہییں. ایسا لیمپ کی مدد سے کیا جاسکتا ہے۔ سونے کے کمرے میں اندھیرا کرنے کے لیے گہرے رنگ والے پردے بھی لگائے جاسکتے ہیں۔
وقت کے پابند رہیے:
اختتامِ ہفتہ سے پہلے والی رات دیر تک جاگنے کا دل تو بہت کرتا ہے لیکن اچھی نیند برقرار رکھنے کے لیے وقت کی پابندی ضروری ہے۔
ہر روز ایک ہی وقت پر سونا مددگار ثابت ہوتا ہے۔ روز سونے کے وقت میں جتنی زیادہ تبدیلی ہو گی صحت کو اتنا ہی زیادہ خطرہ ہوگا۔
خواب گاہ آرام دہ ہو:
بستر کے ارد گرد لیپ ٹاپ اور چارجر کے علاوہ دیگر سامان کا بکھرا رہنا کئی لوگوں کے لیے عام بات ہے لیکن اگر ہم اچھی نیند سونا چاہتے ہیں تو یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ آپ کا سونے کا کمرا جتنا آرام دہ ہوگا نیند اتنی ہی اچھی آئے گی۔
بہتر یہ ہوتا ہے کہ فون، لیپ ٹاپ اور دیگر الیکٹرانک عالات دوسرے کمرے میں رکھے جائیں۔ فون میں الارم لگانے کی بجائے ایک الارم والی گھڑی خرید لینی چاہیے۔
کمرے میں ٹھنڈک بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ گرم کے مقابلے ٹھنڈے ماحول میں سونا جسم کے لیے زیادہ آسان ہوتا ہے۔
دن کی روشنی:
ہماری باڈی کلاک سورج کے اگنے اور ڈھلنے کے اوقات کے مطابق کام کرتی ہے۔ لیکن ہم میں سے کئی لوگ صبح دیر تک سونے کی وجہ سے دن کی روشنی سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھا پاتے ہیں۔
صبح گھر کے پردے کھول دینے سے آپ دن کی زیادہ روشنی حاصل کرسکتے ہیں۔
اگر ہوسکے تہ صبح کا وقت ورزش میں لگانا چاہیے۔ ایسا کرنے سے رات کو نیند اچھی آتی ہے۔ .
سونے سے پہلے کرنے والے کام:
سونے سے پہلے کرنے والے کچھ کام اگر آپ ہر روز کیا کریں تو جسم کو پتا چل جاتا ہے کہ اب یہ سونے کا وقت ہے۔
کتابیں پڑھنا، گانے سننا، نہانا کچھ ایسے ہی کام ہیں۔
جیسے ہی آپ انھیں کرنا شروع کریں گے جسم خود ہی سونے کے لیے تیار ہونے لگے گا۔
بیشتر والدین بچوں کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں۔ کئی والدین بچوں کو سلانے سے پہلے انہیں دودھ پلاتے ہیں یا انھیں نہلاتے ہیں۔ انھیں اکثر سونے سے پہلے کہانیاں بھی سناتے ہیں۔
ایسا ہر روز کرنے سے بچے کے جسم کو اس کی عادت ہوجاتی ہے اور جسم سمجھ لیتا ہے کہ یہ سونے کا وقت ہے۔
کیفین سے دور رہیں:
آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ دیر رات کافی پینے سے نیند اڑجاتی ہے۔ اس کی وجہ کافی میں موجود کیفین ہوتی ہے۔
لیکن کیفین صرف کافی میں ہی نہیں ہوتی بلکہ چائے اور کئی ٹھنڈے مشروبات میں بھی ہوتی ہے۔
شام کو پی جانے والی چائے یا کافی بھی آپ کی نیند کو متاثر کرسکتی ہے کیوں کہ کیفین کا اثر ہمارے جسم پر پانچ سے نو گھنٹے تک رہتا ہے۔
Sa_Sagar#

No comments:

Post a Comment