Sunday, 30 August 2020

یومِ عاشورا میں مخصوص طرز پر چار رکعت نفل

 یومِ عاشورا میں مخصوص طرز پر چار رکعت نفل

مسئلہ (۸): طلبۂ جامعہ کی طرف سے چسپاں کئے گئے جداری پرچوں میں سے ایک پرچہ ’’البدر‘‘ میں فضیلتِ یومِ عاشورا کے متعلق یوں تحریر ہے: ’’حضور پُرنور، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ: ’’جو شخص اس دن کا روزہ رکھے گا، اس کے’’اگلے پچھلے‘‘ سارے گناہ اللہ کے فضل وکرم سے معاف کردیئے جائیں گے۔‘‘… حالاں کہ صحیح روایت یوں ہے: ’’حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: ’’ یومِ عاشورا کے روزے کے ثواب کے بارے میں خدائے پاک سے امید رکھتا ہو کہ اللہ اس کو گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ بنادے۔‘‘ (۱) (جداری پرچے میں لفظ ’’اگلے‘‘ زائد ہے، جو کاتب کی زیادتی ہے)

اسی طرح اس پرچے میں مخصوص طرز پر چار رکعت نفل کا تذکرہ ہے کہ:

’’جو شخص یومِ عاشورا کو چار رکعت نماز پڑھے، اور ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد گیارہ مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھے، تواللہ تعالیٰ اس کے پچاس برس کے گناہ معاف کردیتا ہے، اور اس کے لئے نور کا منبر بناتا ہے۔‘‘ــ(۲)- یہ بھی احادیثِ صحیحہ سے ثابت نہیں، بلکہ بدعت ہے، جسے ترک کرنا لازم ہے۔(۳)

طلبۂ کرام! یہ بات ذہن نشیں کرلیں کہ عاشورہ، یعنی۱۰؍ محرم کے دن خصوصیت کے ساتھ کوئی خاص ذکر یا تسبیح یا طریقۂ عبادت، مثلاً: مخصوص طرز پر چار رکعت نفل وغیرہ، قطعاً درست نہیں، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے معتبرومستند طریق پر منقول نہیں، لہٰذا کسی خاص طریقہ پر نفل نماز پڑھنا اور اسے باعثِ اجر وثواب سمجھنا بدعت ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’جب کوئی قوم کسی بدعت کو رَواج دیتی ہے، تو اسی کے مثل سنت اٹھالی جاتی ہے، اس لئے کسی سنت پر عمل کرنا اِحداث فی الدین یعنی بدعت سے بہتر ہے۔‘‘(۴)

تنبیہ: مذکورہ جداری پرچے میں مخصوص طرز پر چار رکعت نفل کا طریقہ، کتاب ’’شامِ کربلا‘‘ (مصنف: مولانا محمد شفیع اوکاڑوی قبلہ، ناشر مکتبہ جامِ نور دہلی، مطبع؛ زمزم آفسیٹ پریس دہلی) سے ماخوذ ہے، جس کے مضامین عقائد اہل سنت والجماعت سے متصادم ہیں، لہٰذا جداری پرچوں کے ایڈیٹر وذمہ دار اور مضمون نگار طلبہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معتبر ومستند کتابوں سے ہی مضمون نگاری کریں، اور جو بھی مضمون لکھیں، محقق ومدلل اور احادیثِ صحیحہ کی مُراجَعت کے بعد ہی لکھیں!!

الحجۃ علی ما قلنا:

=(۱) ما في ’’صحیح مسلم‘‘: عن أبي قتادۃ مرفوعا: ’’صیام یوم عاشوراء احتسب علی اللہ أن یکفّر السنۃ التي قبلہ‘‘ ۔ (۱/۳۶۷ ، باب استحباب صیام ثلاثۃ أیام من کل شہر وصوم یوم عرفۃ وعاشوراء الخ، رقم: ۲۸۰۳، جامع الترمذي: ۱/۱۵۸، باب ما جاء في الحث علی صوم یوم عاشوراء، رقم: ۷۵۲، سنن ابن ماجہ :ص/۱۲۴، أبواب ما جاء في الصیام، باب صیام یوم عاشوراء، رقم : ۱۷۳۸، سنن أبي داود: ص/۳۲۹، کتاب الصیام ، باب في صوم الدہر تطوعًا، قدیمي)

(۲) ما في ’’نزہۃ المجالس ومنتخب النفائس‘‘: وعنہ صلى الله عليه وسلم: ’’من صلی یوم عاشوراء أربع رکعات یقرأ في کل رکعۃ فاتحۃ الکتاب وقل ہو اللہ أحد إحدی عشرۃ مرۃ غفر اللہ لہ ذنوب خمسین عامًا وبنی لہ منبرًا من نور‘‘۔ (۱/۱۶۵، باب فضل صیام یوم عاشوراء وصیام أیام البیض، عبدالرحمن بن عبدالسلام الصفوري/ الصفوي)

ما في ’’شام کربلا‘‘: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو عاشورے کے دن چار رکعتیں پڑھے ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد گیارہ مرتبہ ’’قل ہو اللہ احد‘‘ پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کے پچاس برس کے گناہ معاف کردیتا ہے، اور اس کے لئے نور کا منبر بناتا ہے۔‘‘ (شامِ کربلا: ص/۲۸۸، فضیلتِ عاشوراء)

(۳) (فتاویٰ محمودیہ :۳/۲۵۵، ۲۵۶، طبع کراچی، و۳/۲۷۳، ۲۷۴)

(۴) ما في ’’مشکوۃ المصابیح‘‘: عن غضیف بن الحارث الثمالي قال: قال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم: ’’ما أحدث قوم بدعۃً إلا رُفع مثلُہا من السنۃ؛ فتمسُّکُ بسنۃٍ خیرٌ من إحداث بدعۃ‘‘۔ رواہ أحمد۔ (ص/۳۱، کتاب الإیمان، باب الإعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الثالث، قدیمي)

ما في ’’مرقاۃ المفاتیح‘‘: والأظہر أن مرادہ علیہ الصلاۃ والسلام المبالغۃ في متابعتہ وأن سنتہ من حیث أنہا سنۃ أفضل من بدعۃ ولو کانت مستحسنۃ مع قطع النظر عن کونہا متعدیۃ أو قاصرۃ أو دائمۃ أو منقطعۃ، ألا تری أن ترک سنۃ أي سنۃ تکاسلا یوجب اللوم والعتاب، وترکہا استخفافًا یثبت العصیان والعقاب، وإنکارہا یجعل صاحبہ مبتدعًا بلا ارتیاب ۔ والبدعۃ ولوکانت مستحسنۃ لا یترتب علی ترکہا شيء من ذلک، وأما جعل خیر بغیر معنی التفضیل فبعید بل تحصیل حاصل معلوم عند المخاطبین فلا یکون فیہ فائدۃ تامۃ ولا مبالغۃ کاملۃ واللہ اعلم۔ (رواہ أحمد) قال میرک: بسند جید۔ (۱/۳۹۳، رقم :۱۸۷، الفصل الثالث) (فتاویٰ بنوریہ، رقم الفتویٰ: ۳۶۲۸۵) نقلہ: #ایس_اے_ساگر

https://saagartimes.blogspot.com/2020/08/blog-post_30.html



No comments:

Post a Comment