مورتیوں کی تجارت کرنے والے شخص کو مکان کرایہ پر دینا؟
-------------------------------
اگر مالک کو خارجی قرائن سے معلوم ہو یا کرایہ دار خود صراحت کردے کہ وہ صرف اسی شرکیہ و کفریہ کاروبار کے مقصد سے کرائے پہ لے رہا ہے تو تعاون علی الاثم کی وجہ سے بر بنائے مذہب صاحبین وائمہ ثلاثہ کرایہ پر دینا جائز نہیں ہوگا؛ لیکن اگر ایسا کچھ اندازہ نہ ہو، مطلق کرائے پہ یا رہائش کے لئے مکان لیا گیا پہر ناجائز چیزوں کی وہ خرید فروخت شروع کردی گئی تو یہاں اجارہ کا معقود علیہ امر محرم نہیں ہے؛ اس لئے یہ اجارہ سب کے یہاں جائز ہے، یہ مستاجر کا اپنا ذاتی عمل ہے، مالک مکان کی طرف منسوب نہیں ہوگا اور کرایہ لینا بھی جائز ہوگا: حنفیہ کے شیخ الاسلام علامہ اسبیجابی سمرقندی دونوں مسئلوں کے درمیان فرق کو کیسے واشگاف لفظوں میں بیان فرمارہے ہیں، محیط برہانی میں ہے:
قال شيخ الإسلام (لقب اشتهر به عند الإطلاق عليّ بن محمد بن إسماعيل بن علي بن أحمد الإسبيجابي السمرقندي، كما في طبقات الحنفية) رحمه الله: إذا استأجرها الذمي ليسكنها، ثم أراد بعد ذلك أن يتخذ كنيسة، أو بيعة فيها، فأما إذا استأجرها في الابتداء ليتخذها بيعة، أو كنيسة لا يجوز. انتهى. (483/7)
ملک العلماء علامہ کاسانی فرماتے ہیں:
وَهَذَا إذَا لَمْ يُشْرَطْ ذَلِكَ فِي الْعَقْدِ، فَأَمَّا إذَا شُرِطَ بِأَنْ اسْتَأْجَرَ ذِمِّيٌّ دَارًا مِنْ مُسْلِمٍ فِي مِصْرٍ مِنْ أَمْصَارِ الْمُسْلِمِينَ لِيَتَّخِذَهَا مُصَلًّى لِلْعَامَّةِ، لَمْ تَجُزْ الإِجَارَةُ; لأَنَّهُ اسْتِئْجَارٌ عَلَى الْمَعْصِيَةِ. انتهى. (527/5)
صاحب مذہب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا اس بابت جو کچھ جواز کا قول منقول ہے وہ مطلق اور عام نہیں ہے. فقہ حنفی کے دیگر اہم مراجع کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت الامام کا جواز کا یہ موقف ایک خاص پس منظر میں ہے کہ جس شہر میں ذمی کی آبادی زیادہ ہو جیسے "سواد کوفہ" تو وہاں اسلامی ملک کے اہل کتاب شہری ( ذمی) کو دوکان ومکان بناء کنیسہ وغیرہ کے لئے کرائے پر دے سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنے گائوں اور آبادی میں شرکیہ ومنکر امور انجام دیں تو وہ جانیں ان کا کام جانے! لیکن مسلم آبادی اکثریت والے شہروں میں امور محرم کے لئے کرائے پر دینا امام صاحب کے یہاں بھی جائز نہیں ہے تو امام صاحب بھی مطلق جواز کے قائل نہیں ہیں. امام صاحب کے یہاں بھی مشروط ومخصوص گنجائش ہی ہے مطلق جواز نہیں. یوں بعض شکلوں میں مسئلہ اجماعی ہوگیا. درمختار میں ہے:
وأما الأمصار وقرى غير الكوفة فلايمكنون لظهور شعائر الإسلام فيها ....وخص أهل الكوفة لأن غالب أهلها أهل الذمة إلخ.. (درمختار مع الشامي)
دررالحكام میں ہے:
نقل عن أبي حنيفة أنه جوز ما ذكر في السواد، لكن قالوا مراده سواد الكوفة؛ لأن غالب أهلها أهل الذمة، وأما في سواد بلادنا، فأعلام الإسلام فيها ظاهرة، فلا يُمكَّنون فيها أيضا، وهو الصحيح. كذا في الكافي.اهـ. (146/11)
ہدایہ میں بھی اسی قید (سواد ذمی) کے ساتھ اجازت ہے، عام ومطلق نہیں:
(ومن آجر بيتا ليتخذ فيه بيت نار أو كنيسة أو بيعة أو يباع فيه الخمر بالسواد فلا بأس به) وهذا عند أبي حنيفة رحمه الله، وقالا: لا ينبغي أن [ص: 166] يكريه لشيء من ذلك; لأنه إعانة على المعصية، وله أن الإجارة ترد على منفعة البيت، ولهذا تجب الأجرة بمجرد التسليم ولا معصية فيه، وإنما المعصية بفعل المستأجر وهو مختار فيه فقطع نسبته عنه ; وإنما قيده بالسواد; لأنهم لا يمكنون من اتخاذ البيع والكنائس وإظهار بيع الخمور والخنازير في الأمصار لظهور شعائر الإسلام فيها بخلاف السواد، قالوا: هذا كان في سواد الكوفة ; لأن غالب أهلها أهل الذمة ، فأما في سوادنا فأعلام الإسلام فيها ظاهرة ، فلا يمكنون فيها أيضا وهو الأصح . (نصب الراية في تخريج أحاديث الهداية 66/6)
فتاوی سبکی شافعی میں ہے:
ولا يريد أبو حنيفة أن قرية فيها مسلمون، فيمكن أهل الذمة من بناء كنيسة فيها. فإن هذه في معنى الأمصار، فتكون محل إجماع. انتهى۔ (356/1)
الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:
[لما كان المقصود من عقد إجارة البيت هو بيع منفعته إلى أجلٍ معلوم،اشترط في المنفعة ما يشترط في المعقود عليه في عقد البيع،وهو أن لا يمنع من الانتفاع بها مانعٌ شرعيٌ،بأن تكون محرمةً كالخمر وآلات اللهو ولحم الخنزير.فلا يجوز عند جمهور الفقهاء إجارة البيت لغرض غير مشروع،كأن يتخذه المستأجر مكاناً لشرب الخمر أو لعب القمار،أو أن يتخذه كنيسةً أو معبداً وثنياً.ويحرم حينئذ أخذُ الأجرة كما يحرم إعطاؤُها،وذلك لما فيه من الإعانة على المعصية]الموسوعة الفقهية الكويتية 8/228.
[إذا استأجر ذميٌ داراً من مسلم على أنه سيتخذها كنيسةً أو حانوتاً لبيع الخمر،فالجمهور-المالكية والشافعية والحنابلة وأصحاب أبي حنيفة-على أن الإجارة فاسدة؛لأنها على معصية]الموسوعة الفقهية الكويتية 1/286)
ہاں جب مطلق رہائش وغیرہ کے لئے کرایہ پہ لے پہر بعد میں ناجائز کام شروع کردیئے جائیں تو اجارہ کا معقود علیہ امر محرم نہ ہونے کی وجہ سے یہ اجارہ جائز ہے:
ولا بأس بأن یواجر المسلم دارا من الذمي لیسکنها، فإن شرب فیها الخمر أو عبد فیها الصلیب، أو أدخل فیها الخنازیر لم یلحق المسلم إثم في شيء من ذلك؛ لأنه لم یواجرها لذلك، والمعصیة فی فعل المستأجر وفعله دون قصد رب الدار، فلا إثم علی رب الدار في ذلک۔ (المبسوط للسرخسي، دارالکتب العلمیۃ بیروت 16/ 39)
واللہ اعلم بالصواب
https://saagartimes.blogspot.com/2020/08/blog-post_20.html
No comments:
Post a Comment