Wednesday, 5 August 2020

برادران وطن کے تہواروں پر مبارکباد دینے کا حکم

برادران وطن کے تہواروں پر مبارکباد دینے کا حکم
حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم ..
السلام علیکم ورحمت اللہ
عرض ہے کہ بردران وطن کیساتھ ان کے تہوار رسمی جیسے ہولی، دیوالی، رکشا بندھن میں شرکت کرنا اسی انداز سے پوری رسم کی ادائیگی کرنا ایک مسلم کیلئے کیا جائز ہے؟ اگر کوئی ایمان والا کررہا ہے تو اس کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے. براہ مہربانی جواب سے مطلع فرمائیں، نوازش ہوگی 
العارض: عبداللہ 
دیوبند ۳۰/۸/۲۰۲۰
الجواب وباللہ التوفیق:
ہندوٴوں کے یہاں چوں کہ وحدت ادیان کا نظریہ پایا جاتا ہے؛ اس لیے وہ لوگ اسلامی تہواروں کے موقع پر مسلمانوں کو خوب دل کھول کر مبارک بادی دیتے ہیں، لیکن مذہب اسلام میں صرف اسلام ہی حق اور صحیح مذہب ہے، باقی سب مذاہب باطل ہیں؛ اس لیے مسلمان کے لیے کوئی ایسا کام جائز نہیں، جس سے غیروں کی کسی مذہبی چیز کی تعظیم وتکریم یا اس کی تعریف وغیرہ لازم آتی ہو؛ بلکہ اس طرح کی چیزوں میں کفر کا اندیشہ ہوتا ہے؛ اس لیے مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ہولی یا دیوالی کے موقع پر غیر مسلموں کو مبارک بادی دیں، اس میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے؛ البتہ اگر سخت مجبوری کی صورت ہو مثلاً کوئی ایسا کاروباری ساتھی یا ما تحت ملازم یا کمپنی کا مالک ہے کہ اگر اس موقع پر اس سے مسرت کا اظہار نہ کیا جائے تو اس کی جانب سے ضرر کا اندیشہ ہے یا ملک میں مذہب کی بنیاد پر منافرت پھیلانے والوں کو مزید منافرت پھیلانے کا موقع ملے گا تو ایسی مجبوری میں مجمل الفاظ کہنے کی گنجائش ہوگی، مثلاً یوں کہہ دے کہ میری نیک تمنائیں تمھارے ساتھ ہیں اور نیت یہ ہو کہ اللہ تعالی تم کو ایمان نصیب فرمائیں ، تہوار وغیرہ کی تعظیم یا تعریف وغیرہ ہرگز مقصود نہ ہو توشرعاً ان شاء اللہ اس کی گنجائش ہوگی۔ اجتمع المجوس یوم النیروز فقال مسلم: خوب سیرت نہاوند یکفر(الفتاوی البزازیة علی ھامش الھندیة، ۶: ۳۳۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وما یھدی المجوس یوم النیروز من أطعمتھم إلی الأشراف ومن کان لھم معرفة لا یحل أخذ ذلک علی وجہ الموافقة معھم وإن أخذہ لا علی ذلک الوجہ لا بأس بہ والاحتراز عنہ أسلم (المصدر السابق)۔
واللہ اعلم بالصواب
----------------------------------------------
سوال: کفارکو انکے تہواروں میں مبارکباد دینے کا کیا حکم ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
سب علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کرسمس یا کفار کے دیگر مذہبی تہواروں پر مبارکباد دینا حرام ہے، جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب " أحكام أهل الذمة " میں نقل کیا ہے، آپ کہتے ہیں:
"کفریہ شعائر پر تہنیت دینا حرام ہے، اور اس پر سب کا اتفاق ہے، مثال کے طور پر انکے تہواروں اور روزوں کے بارے میں مبارکباد دیتے ہوئے کہنا: "آپکو عید مبارک ہو." یا کہنا "اس عید پر آپ خوش رہیں." وغیرہ، اس طرح کی مبارکباد دینے سے کہنے والا کفر سے تو بچ جاتا ہے لیکن یہ کام حرام ضرور ہے، بالکل اسی طرح حرام ہے جیسے صلیب کو سجدہ کرنے پر اُسے مبارکباد دی جائے، بلکہ یہ اللہ کے ہاں شراب نوشی، قتل اور زنا وغیرہ سے بھی بڑا گناہ ہے، بہت سے ایسے لوگ جن کے ہاں دین کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے ان کے ہاں اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں، اور انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کتنا برا کام کر رہا ہے، چنانچہ جس شخص نے بھی کسی کو گناہ، بدعت، یا کفریہ کام پر مبارکباد دی وہ یقینا اللہ کی ناراضی مول لے رہا ہے." ابن قیم رحمہ اللہ کی گفتگو مکمل ہوئی۔
چنانچہ کفار کو انکے مذہبی تہواروں میں مبارکبا د دینا حرام ہے، اور حرمت کی شدت ابن قیم رحمہ اللہ نے ذکر کردی ہے، -حرام اس لئے ہے کہ- اس میں انکے کفریہ اعمال کا اقرار شامل ہے، اور کفار کیلئے اس عمل پر اظہار رضا مندی بھی ، اگرچہ مبارکباد دینے والا اس کفریہ کام کو اپنے لئے جائز نہیں سمجھتا ، لیکن پھر بھی ایک مسلمان کیلئے حرام ہے کہ وہ کفریہ شعائر پر اظہار رضا مندی کرے یا کسی کو ان کاموں پر مبارکباد دے، کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کیلئے اس عمل کو قطعی طور پر پسند نہیں کیا، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إن تكفروا فإن الله غني عنكم ولا يرضى لعباده الكفر وإن تشكروا يرضه لكم 
ترجمہ: اگر تم کفر کرو تو بیشک اللہ تعالی تمہارا محتاج نہیں، اور (حقیقت یہ ہے کہ) وہ اپنے بندوں کیلئے کفر پسند نہیں کرتا، اور اگر تم اس کا شکر ادا کرو تو یہ تمہارے لئے اس کے ہاں پسندیدہ عمل ہے۔ اسی طرح فرمایا:
اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام ديناً 
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کردیا، اور تم پر اپنی نعمتیں مکمل کردیں، اور تمہارئے لئے اسلام کو بطورِ دین پسند کرلیا۔ لہذا کفار کو مبارکباد دینا حرام ہے، چاہے کوئی آپکا ملازمت کا ساتھی ہو یا کوئی اور۔ اور اگر وہ ہمیں اپنے تہواروں پر مبارکباد دیں تو ہم اسکا جواب نہیں دینگے، کیونکہ یہ ہمارے تہوار نہیں ہیں، اور اس لئے بھی کہ ان تہواروں کو اللہ تعالی پسند نہیں کرتا، کیونکہ یا تو یہ تہوار ان کے مذہب میں خود ساختہ ہیں یا پھر انکے دین میں تو شامل ہیں لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ساری مخلوق کیلئے نازل ہونے والے اسلام نے انکی حیثیت کو منسوخ کردیا ہے، اور اسی بارے میں فرمایا:
 ومن يبتغ غيرالإسلام ديناً فلن يقبل منه وهو في الآخرة من الخاسرين 
ترجمہ: اور جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کوئی دین تلاش کریگا؛ اسے کسی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔ چنانچہ ایک مسلمان کیلئے اس قسم کی تقاریب پر انکی دعوت قبول کرنا حرام ہے، کیونکہ انکی تقریب میں شامل ہونا اُنہیں مبارکباد دینے سے بھی بڑا گناہ ہے۔
اسی طرح مسلمانوں کیلئے یہ بھی حرام ہے کہ وہ ان تہواروں پر کفار سے مشابہت کرتے ہوئے تقاریب کا اہتمام کریں، یا تحائف کا تبادلہ کریں، یا مٹھائیاں تقسیم کریں، یا کھانے کی ڈشیں بنائیں، یا عام تعطیل کا اہتمام کریں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کریگا وہ اُنہی میں سے ہے)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب (اقتضاء الصراط المستقيم، مخالفة أصحاب الجحيم) میں کہتے ہیں:
"کفار کے چند ایک تہواروں میں ہی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے اُنکے باطل پر ہوتے ہوئے بھی دلوں میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے،اور بسا اوقات ہوسکتا ہے کہ اسکی وجہ سے انکے دل میں فرصت سے فائدہ اٹھانے اور کمزور ایمان لوگوں کو پھسلانے کا موقع مل جائے." انتہی
مذکورہ بالا کاموں میں سے جس نے بھی کوئی کام کیاوہ گناہ گار ہے، چاہے اس نے مجاملت کرتے ہوئے، یا دلی محبت کی وجہ سے، یا حیاء کرتے ہوئے یا کسی بھی سبب سے کیا ہو، اسکے گناہ گار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے دین الہی کے بارے میں بلاوجہ نرمی سے کام لیا ہے، جو کہ کفار کیلئے نفسیاتی قوت اور دینی فخر کا باعث بنا ہے۔ اور اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مسلمانوں کی اپنے دین کی وجہ سے عزت افزائی فرمائے، اور انہیں اس پر ثابت قدم رہنے کی توفیق دے، اور انہیں اپنے دشمنوں پر غلبہ عطا فرمائے، بیشک وہ طاقتور اور غالب ہے۔
(مجموع فتاوى ورسائل شيخ ابن عثيمين 3/369).


No comments:

Post a Comment