تین پیسوں کے بدلے سات سو مقبول نمازیں
مذکورہ روایت کہ قیامت کے دن تین پیسوں کے بدلے سات سو مقبول نمازیں دینا پڑِیں گی {تین پیسے ایک دانق کا ترجمہ ہے} عربی متن یہ ہے:
أَنَّهُ يُؤْخَذُ لِدَانَقٍ ثَوَابُ سَبْعِمِائَةِ صَلَاةٍ بِالْجَمَاعَةِ»
بعض نے یہاں پر ثواب 'سبعمائة صلاة مكتوبة' کے الفاظ نقل کئے ہیں۔ یہ روایت بعض عربی و اردو فتاوی اور کچھ کتب تصوف میں موجود ہے. رد علی الدر میں ہے:
فَإِنْ لَمْ يَعْفُ خَصْمُهُ أُخِذَ مِنْ حَسَنَاتِهِ جَاءَ «أَنَّهُ يُؤْخَذُ لِدَانَقٍ ثَوَابُ سَبْعِمِائَةِ صَلَاةٍ بِالْجَمَاعَةِ»
ـــــــــــــــــــــــــــــ (قَوْلُهُ جَاءَ) أَيْ فِي بَعْضِ الْكُتُبِ أَشْبَاهٌ عَنْ الْبَزَّازِيَّةِ، وَلَعَلَّ الْمُرَادَ بِهَا الْكُتُبُ السَّمَاوِيَّةِ أَوْ يَكُونُ ذَلِكَ حَدِيثًا نَقَلَهُ الْعُلَمَاءُ فِي كُتُبِهِمْ: وَالدَّانَقُ بِفَتْحِ النُّونِ وَكَسْرِهَا: سُدُسُ الدِّرْهَمِ، وَهُوَ قِيرَاطَانِ، وَالْقِيرَاطُ خَمْسُ شَعِيرَاتٍ، وَيُجْمَعُ عَلَى دَوَانِقَ وَدَوَانِيقَ؛ كَذَا فِي الْأَخْسَتْرِيِّ حَمَوِيٌّ (قَوْلُهُ ثَوَابُ سَبْعِمِائَةِ صَلَاةٍ بِالْجَمَاعَةِ) أَيْ مِنْ الْفَرَائِضِ لِأَنَّ الْجَمَاعَةَ فِيهَا: وَاَلَّذِي فِي الْمَوَاهِبِ عَنْ الْقُشَيْرِيِّ سَبْعُمِائَةِ صَلَاةٍ مَقْبُولَةٍ وَلَمْ يُقَيِّدْ بِالْجَمَاعَةِ. قَالَ شَارِحُ الْمَوَاهِبِ: مَا حَاصِلُهُ هَذَا لَا يُنَافِي أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَعْفُو عَنْ الظَّالِمِ وَيُدْخِلُهُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِهِ ط مُلَخَّصًا {رد علی الدر فروع فی النیۃ}
مواہب اللدنیہ میں یہ الفاظ ہیں.
"وقيل: يؤخذ بدانق سبعمائة صلاة مقبولة فتعطى للخصم، ذكره القشيري" أبو القاسم "في التحبير".
ان کے علاوہ بھی کچھ کتب میں یہ ذکر کیا ہے جیسے:
غمز عیون البصائر فی شرح الاشباہ والنظائر بیان الاخلاص ج۱ ص ۱۴۱ :: التذکرۃ باحوال الموتی وامور الاخرۃ ج ۱ص۶۴۷ :: نزہۃ المجالس و منتخب النفائس ج۲ص ۴۷، :: بریقۃ محمودیہ فی شرح طریقۃ محمدیہ ج۴ص۲۳۳، :: الدارالآخرۃ ج۱۲ ص ۸
تقریبا سب نے بطور حوالہ؛ ابوالقاسم القشیری کی کتاب (التحبير} کو ذکر کیا ہے
بندہ کے علم کی حد تک اس کا ماخذ اصلی یہی ابوالقاسم کی کتاب التحبیر ہے. اب اس کتاب ً التحبير شرح اسماء الحسني کی اصل عبارت ملاحظہ ہو:
وقيل ان الدانق من الفضة يوخذ به يوم القيامة سبعمائة صلاة مقبولة فتعطي الي الخصم
اصل کتاب جہاں سے یہ روایت ہماری فقہی کتب یا فتاوی کی بعض کتب تک پہنچی وہ ایک مشہور صوفی بزرگ ابو القاسم القشیری رحمہ اللہ کی یہی کتاب معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے بطور حدیث بیان کرنا جائز نہیں. البتہ صحیح روایات میں یہ بات موجود ہے کہ دنیا میں کسی پر ظلم زیادتی کسی اعتبار سے کی ہوگی تو روز قیامت اپنی نیکیاں دینا ہونگی. جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے:
(2581) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ وَهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ، عَنِ الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ؟» قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ، فَقَالَ: «إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ، وَصِيَامٍ، وَزَكَاةٍ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا، فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہوکہ دیوالیہ اور مفلس کون ہے؟ لوگوں نے کہا: ’’مفلس ہمارے یہاں وہ شخص کہلاتا ہے جس کے پاس نہ درہم ہو اور نہ کوئی سامان.‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کا مفلس اور دیوالیہ وہ ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز،روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ اللہ کے پاس حاضر ہوگا اور اسی کے ساتھ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی،کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا، کسی کو ناحق مارا ہوگا تو ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی پھر اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں اور مظلوم کے حقوق باقی رہے تو ان کی غلطیاں اس کے حساب میں ڈال دی جائیں گی اور پھر اسے جہنم میں گھسیٹ کر پھینک دیا جائے گا (حضرت ابو ہریرہ ؓ ، مسلم) صحیح بخاری میں ہے:
البخاري في "صحيحه" (2449) من حديث أبي هريرة قال: قال رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "من كانت له مَظْلِمةٌ لأخيه من عِرضه أو شيءِ، فليتحلله منه اليوم قبل أن لا يكون دينارٌ ولا درهمٌ، وإن كان له عمل صالحٌ أُخِذَ منه بقدر مظلمته، وإن لم تكن له حسنات أخذ من سيئات صاحبه فحمل عليه"
صحیحین کی روایت مختلف اور بعینہ الفاظ کے ساتھ دیگر کتب میں بھی موجود ہے:
والترمذي (3 / 291 ـ 292) وأحمد (2 / 303، 334)،
خلاصہ: ان الفاظ کے ساتھ کوئی روایت کتب حدیث میں موجود نہیں۔ اس لئے اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا جائز نہیں. البتہ یہ بات صحیح روایات سے ثابت ہے کہ روز قیامت ظالم کی نیکیاں لے کر مظلوم کو دی جاءیں گی.
واللہ اعلم
کتبہ محمد سفیان فاروق
--------------------------------------------------
ناحق مال کھا کر حق داروں کے واپس دینے کی بجائے اللہ کے راستہ میں خرچ کرنا
سوال: اگر کوئی شخص حق تلفی کرے اور حق والے کو حق دے نا، لیکن اپنا مال اللہ تعالی کے راستے میں خرچ کرتا رہے . کیا اس کو پہلے حق والے کو حق دینا لازم ہے؟ اور کیا اس کو ثواب ملے گا جو اس نے فی سبیل اللہ خرچ کیا؟ اور حق تلف کیے ہوئے مال اس کے ایک روپے کے بدلے آخرت میں کتنی نیکیوں کا خسارا ہو گا؟
جواب: ناحق کسی کا مال کھانا ناجائز اور حرام ہے، ناحق مال کھانے والے پر قرآن وحدیث میں بہت سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں، ایسے لوگ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں، بلکہ بعض کتبِ فقہ میں منقول ہے کہ ناحق مال کھانے والے سے ایک دانق (جو درہم کا چھٹا حصہ ہوتا ہے) کے بدلے میں اس کی سات سو مقبول نمازیں،حق دار کو دے دی جائیں گی، ظلم کوئی معمولی چیز نہیں ہے، ساری عبادتیں اس وقت ناکافی ہیں جب تک ظلم سے برات نہ ہو، ایک حدیثِ مبارک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم سے دریافت کیا کہ: ”تم مفلس کس کو سمجھتے ہو؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا کہ مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور دینار نہ ہوں، اور مال واسبا ب نہ ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ملفس وہ ہے جو قیامت کے دن آئے اوراس نے نمازیں بھی پڑھی ہوں، اور روزے بھی رکھے ہوں، اور زکات بھی دیتا رہا ہو، مگر اس کے ساتھ اس نے کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا ناحق مال کھایا تھا، ناحق خون بہایا تھا، کسی کو مارا تھا، اب قیامت میں ایک اس کی یہ نیکی لے گیا اور دوسرا دوسری نیکی لے گیا، یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں، لیکن پھر بھی حق دار بچ گئے، تو پھر باقی حق داروں کے گناہ اس پر لاد دیے جائیں گے، یہاں تک کہ وہ گناہوں میں ڈوب کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا، یہ ہے حقیقی مفلس“۔ لہذا جس کا مال ناحق لیا ہے اس کو واپس کرنا ضروری ہے، اگر وہ انتقال کرجائے تو اس کے ورثاء کو دینا لازم ہے، اسی کی ادائیگی کی اولاً فکر کرنی چاہیے۔ البتہ اگر کسی نے صاحبِ حق کا حق ادا کیے بغیر فی سبیل اللہ زکات دی یا صدقہ کیا تو شرعاً یہ نافذ ہوگا، گو قیامت کے دن وہ ظلم کے بدلے صاحبِ حق کو ادا کرنا پڑے گا۔
صحيح مسلم (4/ 1997): "عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «أتدرون ما المفلس؟» قالوا: المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع، فقال: «إن المفلس من أمتي يأتي يوم القيامة بصلاة، وصيام، وزكاة، ويأتي قد شتم هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يقضى ما عليه أخذ من خطاياهم فطرحت عليه، ثم طرح في النار»".
الدرالمختار وحاشية ابن عابدين (ردالمحتار) (1/ 438):
"الصلاة لإرضاء الخصوم لاتفيد، بل يصلي لله، فإن لم يعف خصمه أخذ من حسناته جاء: «أنه يؤخذ لدانق ثواب سبعمائة صلاة بالجماعة». (قوله: جاء) أي في بعض الكتب، أشباه عن البزازية، ولعل المراد بها الكتب السماوية أو يكون ذلك حديثاً نقله العلماء في كتبهم: والدانق بفتح النون وكسرها: سدس الدرهم، وهو قيراطان، والقيراط خمس شعيرات، ويجمع على دوانق ودوانيق؛ كذا في الأخستري حموي (قوله: ثواب سبعمائة صلاة بالجماعة) أي من الفرائض لأن الجماعة فيها: والذي في المواهب عن القشيري سبعمائة صلاة مقبولة ولم يقيد بالجماعة. قال شارح المواهب: ما حاصله هذا لاينافي أن الله تعالى يعفو عن الظالم ويدخله الجنة برحمته ط ملخصاً".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر: 144004201174 - دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
----------------------------------------------------------------------------
ایک دانق حق کے بدلے سات سو مقبول نمازوں سے محرومی کا ثبوت؟
ایک مسئلہ کا حوالہ معلوم کرنا ہے کہ جس نے دنیا میں کسی کے تین پیسے روک لئے حرام طریقے سے قیامت کے دن اسکی سات سو نمازیں جو اسنے جماعت کے ساتھ ادا کی تھی وہ سلب کرلی جائے گی اس کا ثواب اس کو نہی دیا جائے گا کیا ایسی کوئی حدیث ہے. ناحق مال کھانے والے سے ایک دانق (جو درہم کا چھٹا حصہ ہوتا ہے) کے بدلے میں اس کی سات سو مقبول نمازیں حق دار کو دے دی جائیں گی."
الجواب وباللہ التوفیق:
حدیث ہونا تو میری تلاش کی حد تک ثابت نہیں ہے البتہ فقہی کتابوں میں ایسا لکھا ہوا ضرور ہے:
والخامس في بيان الإخلاص. صرح الزيلعي بأن المصلي يحتاج إلى نية الإخلاص فيها ولم أر من أوضحه. لكن صرح في الخلاصة بأنه 271 - لا رياء في الفرائض; وفي البزازية شرع في الصلاة بالإخلاص ثم خالطه الرياء فالعبرة للسابق ولا رياء في الفرائض في حق سقوط الواجب. ثم قال: 272 - الصلاة لإرضاء الخصوم لا تفيد بل يصلي لوجه الله تعالى فإن كان خصمه لم يعف يؤخذ من حسناته يوم القيامة. 273 - جاء في بعض الكتب أنه 274 - يؤخذ لدانق ثواب سبع مائة صلاة بالجماعة [ص: 141] فلا فائدة في النية وإن كان عفا 276 - فلا يؤاخذ به فما الفائدة حينئذ. وقد أفاد البزازي بقوله في حق سقوط الواجب أن الفرائض مع الرياء صحيحة مسقطة للواجب [الأشباه والنظائر لابن نجيم ص: 140] وفي حاشيته: قوله: جاء في بعض الكتب. أقول: لعل المراد بها الكتب السماوية لا كتب العلماء إلا أن يكون ذلك حديثا نقله العلماء في كتبهم. (274) قوله: يؤخذ لدانق ثواب إلخ. الدانق بفتح النون وكسرها سدس الدرهم وهو قيراطان والقيراط خمس شعيرات، ويجمع على دوانق ودوانيق. [ص: 141] وذكره الحصكفي في "الدرالمختار"، كتاب الصلاة، ٢/١٥٣.
https://www.blogger.com/blog/posts/4262068430517871194
No comments:
Post a Comment