علم
کے چھ مراحل و منازل،
کیا علم محض اللہ کےنور کا نام ہے؟
علم کے سلسلے میں چند اعتراضات کا دفعیہ
پہلی بات تو یہ کہ علم نہ تو صرف اللہ کے نور کا نام ہے اور نہ ہی قوتِ فہم و ذہانت کا، نہ تو فقط قوت حافظہ کا اور نہ ہی محض قوت استحضار کا، نہ تو صرف معلومات کا نام ہے اور نہ تجربات کا، نہ تو علم کے حصول کے لئے کثرت مطالعہ کوئی شرط ہے اور نہ ہی اس کے لیے عمر کی کوئی قید لازمی ہے۔
دیکھئے یہ ساری چیزیں حصول علم کے لیے ممد و معاون کی حیثیت رکھتی ہیں مگر ان میں سے محض کسی ایک چیز پر علم کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔
نیز علم اور معلومات کے درمیان تفریق بھی مجھے سمجھ نہیں آتی
دراصل ہم نے چیزوں کو ایک دوسرے میں خلط ملط کررکھا ہے
میرے نزدیک ہر لفظ علم کے اندر شامل ہے یعنی جس نے ایک لفظ بھی سیکھا اس نے علم سیکھا میں ہر لفظ کو علم کے زمرے میں ہی رکھوں گا کیوں کہ میں سمجھتا ہوں جہاں بھی محنت سے آدمی کچھ بھی سیکھے اس کو علم کا حصہ قرار دیا جانا چاہیے۔
اس کی تائید حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے: "جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے“۔
میری ناقص عقل کے مطابق علم کے چھ مراحل ہیں
اگر ہم ان چھ مراحل کو سمجھ جائیں گے تو امید ہے سارے اشکالات رفع ہوجائیں گے
1- ابتدائی علم:
یعنی نئی نئی معلومات سیکھنا ایک فریشر اور مبتدی کی مانند، اس کا دورانیہ بھی ویسے تو من المہد الی اللحد ہوتا ہے البتہ آدمی علم کی جس شاخ سے وابستہ ہوتا ہے اس علم کے اعتبار سے اس کا دورانیہ عموماً بچپن سے لے کر درجۂ وسطی تک ہوتا ہے
2 - تحقیقی علم:
اب درجۂ وسطیٰ کے بعد نمبر آتا ہے تحقیقی علم کے حصول کا یعنی اسی ابتدائی علم کو تحقیق کے ذریعے مزید پختہ کیا جائے۔ںاس کا دورانیہ عموماً درجۂ وسطیٰ سے شروع ہوتا ہے اور تدریسی زمانے کو بھی محیط ہوتا ہے
3- تجرباتی علم:
اب باری آتی ہے تجرباتی علم کی یعنی انسان ان علوم کا پریکٹیکل طور پر اپنی زندگی اور دوسروں کی زندگی میں تجربہ کررہا ہوتا ہے
4 - تخلیقی علم:
یعنی وہی علم جو تحقیق اور تجربے کے مراحل سے گزر کر بھٹی میں تپ کر گرم ہوچکا ہوتا ہے تب انسان کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے کہ ان علوم کو جوڑ توڑ کر کچھ نئے علوم کی تخلیق کرے یا ان علوم سے کسی نئے فکر و خیال اور آئیڈیا کو ایجاد کرے-
5 - وجدانی علم:
دیکھئے ایک بات سمجھئے کہ قوم کے سب سے اعلیٰ دماغوں کے جتھے کا نام ہے فلسفی و مفکر اور فلسفی اپنے دماغ اور غور و فکر کے ذریعے اصل حقائق کے بالکل قریب تک تو پہنچ جاتا ہے مگر حقیقت کی اصل جڑ اور سرچشمہ تک اس کی رسائی نہیں ہوپاتی جب تک کہ اس کو وجدانی اور وہبی قوتوں کو وہ حاصل نہ کرلے تصوف یا ریاضت و مجاہدہ کے ذریعے پھر جب عقل اور وجدان ایک دوسرے کی تائید و معاونت کے ساتھ کام کرتے ہیں تب جاکر اصل حقیقت کی تہ تک رسائی ہوپاتی ہے.
6 -علمِ حکمت:
علم، عقل اور وجدان کے ساتھ جب ایک اجتماعی شعور، فکر اور امت کا درد پیدا ہوتا ہے تب جاکر ایک نورِ بصیرت حاصل ہوتا ہے اور اللہ اپنی حکمت اور قرآن کے اسرار و رموز کے در وا کردیتے ہیں اور اس کو شریعت اور کائنات کی ایسی تشریح سمجھاتے ہیں جس سے شریعت اور کائنات میں بظاہر نظر آنے والے سارے اعتراضات اور سارے تضادات ختم ہوجاتے ہیں اور امت کو بھنور میں سے نکالنے کا سب سے بہتر راستہ اللہ اس کو سکھا دیتے ہیں اور ایک دنیا اس کے افکار و مساعی کو قبول اور اپنانے کے لیے مسخر کردی جاتی ہے اور وہ مانندِ ستارہ عروج کی معراج سے جگمگا رہا ہوتا ہے۔ اور یوں وہ ذہینوں کے سب سے اعلی مقام فلسفی اور عالموں کے سب سے اعلی مقام فقیہ النفس اور متصوفین کے سب سے اعلیٰ مقام قطب الاقطاب اور امت کے سب اعلیٰ مقام صدیق کے منصب پر فائز ہوجاتا ہے۔
اس تشریح سے یہ اعتراض دفع ہوجاتا ہے کہ علم اللہ کا نور ہے تو گناہ گار کو وہ کبھی حاصل ہوہی نہیں سکتا اور استدلال میں وکیع رح کے قول کو پیش کیا جاتا ہے جو انہوں نے امام شافعی رح کے سوء حافظہ کی شکایت کے جواب میں کہا تھا
"فان العلم نور من الہی ۔۔ ونور اللہ لا یعطیٰ لعاصی"
کیوں کہ میرے خیال میں اس سے مراد علمِ حکمت ہے جو عاصیوں کو عطا نہیں کیا جاتا۔ اور اگر علم محض اللہ کا نور ہوتا تو پھر وہی نور ابو حنیفہ رح کے اساتذہ حماد رح اور ابراہیم نخعی رح کے پاس بھی تھا مگر وہ فقہ کو مدون نہ کرپائے جو امام اعظم نے کردکھایا پتہ چلا کہ علم محض اللہ کے نور کا نام نہیں عقل و خرد، ذہانت و استحضار اور تدبر و تعمق ساری چیزوں کا دخل ہوتا ہے علم میں
تو دراصل ہوتا یہ ہے کہ ہر مرحلہ والا اپنے سے نیچے مرحلے کو علم اور نیچے مرحلے والے کو عالم سمجھتا ہی نہیں ہے کیونکہ جوں جوں انسان کے علم میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ویسے ہی مزید اپنی جہالت کا احساس بھی بڑھتا جاتا ہے تو وہ جب خود اس مرتبہ پر پہنچنے کے بعد اپنے کو جاہل سمجھ رہا ہوتا ہے تو نیچے والوں کو عالم نہ سمجھنا ایک فطری امر ہے
اب آپ علم سے متعلق کئے جانے والے مندرجہ ذیل اعتراضات پر نظر کریں
(1) تحقیق تو کچھ ہے نہیں چلے علم بگھارنے۔
(2) بھائی ابھی دنیا دیکھا ہی کہاں ہے اصل علم تو تب حاصل ہوگا جب اس کو عملی زندگی میں لاؤگے اور دنیا میں گھوم پھر اس کا تجربہ کرو گے۔
(3) تمہارے پاس تو بس دوسروں کا چربہ ہے یہ تو چرائی ہوئی معلومات ہیں تمہارا اپنا کیا ہے تم نے اپنا کیا آئیڈیا پیش کیا ہے یہ بتاؤ اصل علم بس وہی ہے۔
(5) عقل اور یہ بلاوجہ کی منطقی موشگافیوں سے علم تھوڑی نا حاصل ہوتا ہے اصل علم تو بس رجوع الی اللہ اور انابت الی اللہ سے حاصل ہوتا ہے۔
(6) علم تو بس حکمتِ الٰہی کا نام ہے باقی سب معلومات ہیں۔
تو دیکھا آپ نے کہ ہر اوپر والا نیچے والے کو جاہل سمجھ رہا ہے
لیکن درحقیقت ہر سیکھنے والا عالم ہے اور فوق کل ذی علم علیم
بہرحال علم کے معاملے میں ہمیشہ اوپر والے پر نظر ہونی چاہیے اور اپنی جہالت کا احساس ہونا چاہیے مگر یہ جہالت کا پیغام اپنے دماغ کو اس حد تک نہیں دینا چاہئے کہ دماغ احساس کمتری کا شکار ہوکر موجودہ معلومات کو بھی آپ کے شعور سے محو کردے۔
اللہ ہمیں ذہنِ رسا اور فکرِ سلیم کے ساتھ ساتھ علمِ نافع، علمِ نبوی، علمِ لدنی اور علمِ حکمت عطا فرمائے. آمین
از: قیام الدین- نقلہ: #ایس_اے_ساگر
No comments:
Post a Comment